ضرورتوں میں بندھے ہم

نوید ناظم

محفلین
بچہ جب ماں کو پکارتا ہے تو اصل میں وہ غذا کو پکارتا ہے، بچہ ماں کے لیے روتا ہے مگر درِ پردہ تو بھوک ہے جو غذا کے لیے رو رہی ہے۔ بچہ چیختا ہے مگر بچہ خاموش ہے، یہ اس کی ضرورت ہے جو چیخ رہی ہے۔ اسی طرح ہم اللہ کو پکارتے ہیں مگر وہ پکار' ضرورت کی پکار ہوتی ہے۔ اللہ والے اللہ کو ضرورتوں سے آزاد ہو کر یاد رکھتے ہیں، اس لیے اللہ کا تعلق ان کے ساتھ بالذات ہوتا ہے۔ حدیثِ قدسی کا مفہوم ہے کہ اللہ اپنے بندے کا ہاتھ بن جاتا ہے جس سے وہ پکڑتا ہے، اُس کی آنکھ بن جاتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے' اور اسی طرح آگے... یہ وہ مرحلہ ہے کہ قرب ہی قرب ہے' وہ قرب جو ضرورت سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سجدے میں سر تو کٹ رہا ہے مگر عین وقت میں اللہ کا شکر ہو رہا ہے۔۔۔۔ یہ بات قرب باالذات کے بغیر بڑی مشکل ہے۔ عام آدمی تو کہے گا یا اللہ سخت مشکل آگئی بچا لے، اور قرب والا کہتا ہے "آج میں کامیاب ہو گیا"۔ اصل میں ضرورت کی یاد اور ہے جبکہ یاد کی ضرورت اور۔ آج ہم ضرورت پسندی سے بھی آگے بڑھ کر ضرورت پرستی تک پہنچ چکے ہیں۔ زندگی ختم ہو جاتی ہے اور ضرورت ختم نہیں ہوتی، بلکہ اک ضرورت دوسری ضرورت کو جنم دیتی رہتی ہے۔ کہتے ہیں گاڑی کی ضرورت ہے، پھر گاڑی آ جائے تو پٹرول بھی ضرورت بن جاتی ہے۔ اور یوں ضرورتوں کی وجہ سے زندگی کی گاڑی چلنا مشکل ہو جاتی ہے۔ انسان قناعت سے نکل جاتا ہے، سکون کم پڑ جاتا ہے اور بندہ ایک مشین کی طرح صرف ضرورتوں ہی کو پورا کرنے میں زندگی گزار دیتا ہے۔ ہمارا تعلق' ضرورت کا تعلق ہو کر رہ گیا ہے، انسانوں کے ساتھ ہو یا خدا کے ساتھ۔، ہم میں اتنی ہمت پیدا نہیں ہو رہی کہ ہم اپنی ضرورتوں سے ماورا ہو کر سوچنا اور عمل کرنا شروع کر سکیں۔ مثلا اللہ کو بیماری میں بھی اسی طرح یاد کیا جائے جیسے ہم صحت کے زمانے میں کرتے ہیں اور صحت کے دور میں بھی ایسے یاد کیا جائے جیسے بیماری میں اُس کی یاد آتی ہے۔ غریبی میں بھی اس کا شکر ویسے کیا جائے جیسے امیری میں کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ ہر حال پر راضی رہنے کی کوشش کی جائے۔ چاہے ضرورت پوری ہو یا نہ ہو۔ جب پکارا جائے تو صرف اللہ ہی کو پکارا جائے۔۔۔۔ اللہ کو پکارنے کا مطلب یہ کہ اس پکار کے پیچھے جو ضرورت ہے وہ ضرورت بھی صرف 'اللہ' ہو۔۔۔ اگر ایسا ہو جائے تو انسان کے اندر یقینی طور پر سکون پیدا ہو جائے گا کیونکہ دلوں کا سکون، اللہ ہی کے ذکر میں رکھا گیا ہے' کسی ضرورت کے پورا ہو جانے میں نہیں!
 

نور وجدان

لائبریرین
آپ غالبا واصف علی واصف صاحب کی باتوں سے کافی حد تک مستفید ہوچکے ہیں ، اسکے علاوہ کہاں کہاں سے دل کو سکون پہنچا؟
ضرورت کا رشتہ بھی برا نہیں ، بے غرض بھی برا نہیں ۔ کونسا زیادہ کس کے لیے اچھا ، اللہ چننے والا ہے
 

نوید ناظم

محفلین
آپ غالبا واصف علی واصف صاحب کی باتوں سے کافی حد تک مستفید ہوچکے ہیں ، اسکے علاوہ کہاں کہاں سے دل کو سکون پہنچا؟
ضرورت کا رشتہ بھی برا نہیں ، بے غرض بھی برا نہیں ۔ کونسا زیادہ کس کے لیے اچھا ، اللہ چننے والا ہے
1۔ ضرورت کا رشتہ بُرا نہیں، بجا ہے۔ مگر اندیشہ یہ ہے کہ اگر ضرورت پوری ہو گئی، یا ضرورت پوری نہ ہو سکی، تو دونوں صورتوں میں یہ رشتہ انسان کی طرف سے کمزور پڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ کشتی ڈوب رہی ہو تو خدا خود بخود یاد آ جاتا ہے، کنارے پر پہنچنے کے بعد وہی تعلق بحال رکھنا اور بات ہے۔۔۔۔ اور یہ بڑی مشکل ہے۔
2۔ آپ واصف صاحب کو کس حد تک جانتی ہیں، مطلب ان کی کون کون سی کتابیں پڑھ رکھیں ہیں آپ نے۔۔۔۔
3- اس کے علاوہ کہاں کہاں سے دل کو سکون پہنچا۔۔۔ یہ بتا بھی دیا جائے تو صرف انفارمیشن ہی ہو گی، مدعا تو آپ کے اپنے دل کے لیے سکون کا حصول ہے۔ پانی تو بس وہی، جس سے اپنی پیاس بجھے!!:)
 

نور وجدان

لائبریرین
1۔ ضرورت کا رشتہ بُرا نہیں، بجا ہے۔ مگر اندیشہ یہ ہے کہ اگر ضرورت پوری ہو گئی، یا ضرورت پوری نہ ہو سکی، تو دونوں صورتوں میں یہ رشتہ انسان کی طرف سے کمزور پڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ کشتی ڈوب رہی ہو تو خدا خود بخود یاد آ جاتا ہے، کنارے پر پہنچنے کے بعد وہی تعلق بحال رکھنا اور بات ہے۔۔۔۔ اور یہ بڑی مشکل ہے۔
2۔ آپ واصف صاحب کو کس حد تک جانتی ہیں، مطلب ان کی کون کون سی کتابیں پڑھ رکھیں ہیں آپ نے۔۔۔۔
3- اس کے علاوہ کہاں کہاں سے دل کو سکون پہنچا۔۔۔ یہ بتا بھی دیا جائے تو صرف انفارمیشن ہی ہو گی، مدعا تو آپ کے اپنے دل کے لیے سکون کا حصول ہے۔ پانی تو بس وہی، جس سے اپنی پیاس بجھے!!:)

ضرورت کا رشتہ بظاہر کمزور حقیقتا نفی اسکے اثبات کی دلیل بنتا ہے اسکی مرضی جیسے تراشے ، عبد کمزور ، محتاج ، وہ بے نیاز ۔۔۔۔ کشتی وہ ڈبوتا نہیں ہے ، وہ کشتی کا مالک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے آپ کی تحاریر میں انکے نام کی مناسبت سے پوچھا تھا ، یہاں تو سوال کے جواب سوال میں ! دل کے سکون کی بات بھی آپ سے چلی ہے ۔۔۔۔ آپ کس پانی سے تعلق رکھتے ہیں
 

نوید ناظم

محفلین
ضرورت کا رشتہ بظاہر کمزور حقیقتا نفی اسکے اثبات کی دلیل بنتا ہے اسکی مرضی جیسے تراشے ، عبد کمزور ، محتاج ، وہ بے نیاز ۔۔۔۔ کشتی وہ ڈبوتا نہیں ہے ، وہ کشتی کا مالک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے آپ کی تحاریر میں انکے نام کی مناسبت سے پوچھا تھا ، یہاں تو سوال کے جواب سوال میں ! دل کے سکون کی بات بھی آپ سے چلی ہے ۔۔۔۔ آپ کس پانی سے تعلق رکھتے ہیں
1۔ درست، آج کے دور میں غنیمت ہے کہ اگر خدا سے کوئی ضرورت کے تحت ہی رشتہ استوار کر لے، ہمارے گرو کہتے ہیں کہ آج کل ایسا انسان جو ریا کاری کی نیکی کر رہا اُسے بھی رعایت دیا کرو، کم از کم نیک تو مشہور ہونا چاہا رہا ہے۔
2۔"تحاریر" مطلب آپ اور تحریریں بھی دیکھ چکیں، آپ کا تبصرہ کبھی آیا نہیں سوائے اس دوسری بار کے۔
3-"آپ کس پانی سے تعلق رکھتے ہیں"۔۔۔۔۔۔ آنکھ کے پانی سے!
 

زیک

مسافر
درست، آج کے دور میں غنیمت ہے کہ اگر خدا سے کوئی ضرورت کے تحت ہی رشتہ استوار کر لے، ہمارے گرو کہتے ہیں کہ آج کل ایسا انسان جو ریا کاری کی نیکی کر رہا اُسے بھی رعایت دیا کرو، کم از کم نیک تو مشہور ہونا چاہا رہا ہے۔
آج کل سے کیا مراد ہے؟ کیا پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا؟
 
بچہ جب ماں کو پکارتا ہے تو اصل میں وہ غذا کو پکارتا ہے، بچہ ماں کے لیے روتا ہے مگر درِ پردہ تو بھوک ہے جو غذا کے لیے رو رہی ہے۔ بچہ چیختا ہے مگر بچہ خاموش ہے، یہ اس کی ضرورت ہے جو چیخ رہی ہے
بچہ صرف بھوک میں ہی نہیں انسان تکلیف میں بھی ماں کو ہی پکارتا ہے ماں کو پکارنے کے لیے اس کا نام نہیں لیا جاتا حالانکہ اس کا نام ہوتا ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
1۔ درست، آج کے دور میں غنیمت ہے کہ اگر خدا سے کوئی ضرورت کے تحت ہی رشتہ استوار کر لے، ہمارے گرو کہتے ہیں کہ آج کل ایسا انسان جو ریا کاری کی نیکی کر رہا اُسے بھی رعایت دیا کرو، کم از کم نیک تو مشہور ہونا چاہا رہا ہے۔
2۔"تحاریر" مطلب آپ اور تحریریں بھی دیکھ چکیں، آپ کا تبصرہ کبھی آیا نہیں سوائے اس دوسری بار کے۔
3-"آپ کس پانی سے تعلق رکھتے ہیں"۔۔۔۔۔۔ آنکھ کے پانی سے!

آپ کے گرو کون ہے یا کیا سلسلہ ہے. مجھے تو یہی پوچھنا تھا بات ایسے طول پکڑ رہی ہے.
میں نے تبصرہ اس لیے نہیں کیا تحاریر پر کیونکہ مجھے نہیں پتا دریافت کی.ابتدا ہے یا احساس کی انتہا
.. اپ کی تحاریر میں احساس چھلکتا ہے مگر "نیا " کچھ نہیں
 

نوید ناظم

محفلین
آپ کے گرو کون ہے یا کیا سلسلہ ہے. مجھے تو یہی پوچھنا تھا بات ایسے طول پکڑ رہی ہے.
میں نے تبصرہ اس لیے نہیں کیا تحاریر پر کیونکہ مجھے نہیں پتا دریافت کی.ابتدا ہے یا احساس کی انتہا
.. اپ کی تحاریر میں احساس چھلکتا ہے مگر "نیا " کچھ نہیں
بیان کرنے والے اتنا کچھ بیان کر گئے ہیں کہ "نیا" تو مشکل ہے، غالب سے بڑا شعر کہنے کا دعویٰ کون کرے گا، اب۔۔۔ جو کہے میں شیکسپئر سے بڑا ڈرامہ لکھ سکتا ہوں تو میرا خیال ہے اس کے لیے مشکل ہو جائے گی، انسان بڑا فلاسفر بھی بن جائے تو سقراط پھر بھی نہیں بنے گا۔ پھر موضوعات بھی وہی ہیں، انسان، غم، خوشی، فراق، وصال، وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ یہ بات ایک سالک یا مسافر کے لیے ہے اس کا اردو ادب سے موازنہ نہ کیجے گا ورنہ یہاں نقاد موجود ہوں گے، بات بحث کی نظر ہو سکتی ہے۔ باقی رات کے اندھیرے میں دور کسی دیے کی لو سے بھی مسافر اپنا سفر آسان کر سکتا ہے۔۔۔ آپ بھی کیجئے اگر کہیں کوئی روشنی میسر آئے۔۔۔۔خدا سب کا سفر آسان کرے!
 

نور وجدان

لائبریرین
بیان کرنے والے اتنا کچھ بیان کر گئے ہیں کہ "نیا" تو مشکل ہے، غالب سے بڑا شعر کہنے کا دعویٰ کون کرے گا، اب۔۔۔ جو کہے میں شیکسپئر سے بڑا ڈرامہ لکھ سکتا ہوں تو میرا خیال ہے اس کے لیے مشکل ہو جائے گی، انسان بڑا فلاسفر بھی بن جائے تو سقراط پھر بھی نہیں بنے گا۔ پھر موضوعات بھی وہی ہیں، انسان، غم، خوشی، فراق، وصال، وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ یہ بات ایک سالک یا مسافر کے لیے ہے اس کا اردو ادب سے موازنہ نہ کیجے گا ورنہ یہاں نقاد موجود ہوں گے، بات بحث کی نظر ہو سکتی ہے۔ باقی رات کے اندھیرے میں دور کسی دیے کی لو سے بھی مسافر اپنا سفر آسان کر سکتا ہے۔۔۔ آپ بھی کیجئے اگر کہیں کوئی روشنی میسر آئے۔۔۔۔خدا سب کا سفر آسان کرے!
آپ کی بات سے مکمل اتفاق ہے ... اپنی ذات کو دریافت کرنا نیا اور انوکھا کام ہے.
 

اکمل زیدی

محفلین
Top