ضبطِ غم توڑ گئی بھیگی ہوا بارش میں

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ضبطِ غم توڑ گئی بھیگی ہوا بارش میں
دل کہ مٹی کا گھروندا تھا گرا بارش میں

شادیء مرگ کو کافی تھا بس اک قطرۂ آب
شہر ِتشنہ تو اجڑ سا ہی گیا بارش میں

روشنی دل میں مرے ٹوٹ کے رونے سے ہوئی
اک دیا مجھ میں عجب تھا کہ جلا بارش میں

لاج رکھ لی مرے پندار کی اک بادل نے
میرے آنسو نہ کوئی دیکھ سکا بارش میں

کھیت پیاسے تھے اِدھر ، اور اُدھر کچے مکان
میں نے دیکھا تو نظر آیا خدا بارش میں

ظہیراحمدظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۹۹۸

ٹیگ: فاتح سید عاطف علی کاشف اختر محمد تابش صدیقی
 

باباجی

محفلین
بہت خؤب
۔
۔

کھیت پیاسے تھے اِدھر ، اور اُدھر کچے مکان
میں نے دیکھا تو نظر آیا خدا بارش میں
 
Top