صومالیہ:شریعت عدالت کے حکم پر48سالہ شخص کو سنگسار کردیا گیا

صومالیہ:شریعت عدالت کے حکم پر48سالہ شخص کو سنگسار کردیا گیا


موغا دیشو (جنگ نیوز) صومالیہ میں انتہاپسند تنظیم حزب الاسلام کے مزاحمت کاروں نے 48 سالہ ایک شخص کو سنگسار کردیا۔ اے پی کے مطابق اف گوئے شہر میں قائم مقامی شریعت عدالت نے شادی شدہ ہونے کے باجود زنا کے الزام میں محمد ابوکر کو سنگسار کرنے کی سزا دی تھی۔ عدالتی حکم کے بعد حزب الاسلامی کے مسلح افراد نے محمد ابوکر ابراہیم کے بدن کا نچلا دھڑ زمین میں دبادیا جس کے بعد اسے ماسک پہنے ہوئے لوگوں سمیت دیگر افراد نے پتھر مار مار کر ہلاک کردیا۔

تصاویر یہاں‌ہیں

نوٹ: موت بذریعہ سنگساری قرآن حکیم سے قطعاً ثابت نہیں ۔۔ لیکن یہ اسرائیلیاتی سزا یہودی کتب میں قبل از اسلام ثابت ہے ۔
 

دوست

محفلین
جی اس سزا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ان کی نگرانی میں استعمال بھی کیا جاچکا ہے۔ چناچہ یہ اسرائیلیات ہی نہیں رہتیں۔ ہاں‌ اس عدالت کے اختیار پر اعتراض ہوسکتا ہے۔
 
دوست، سلام

آپ کے بیان کا کیا ثبوت ہے؟

کیا وہ اصل کتاب دستیاب ہے جس میں محدث نے یہ بات ترتیب دی؟ کوئی کیسے یہ ثابت کرسکتا ہے کہ یہ اسرائیلی روایت سچ مچ حدیث کی اصل کتابوں میں شامل تھی؟

اگر ایسا ثبوت فراہم نہیں کیا جاسکتا تو پھر کیا ان کتب پر ایمان رکھنا ہے؟

اگر ایمان رکھنا ہے تو اس کا حکم کس نے دیا ، اللہ تعالی نے یا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے؟

اور اگر ایمان بھی نہیں اور ثبوت بھی نہیں تو بھائی ، اللہ تعالی اور اس کے بزرگ ترین رسول صلعم پر ایسا جھوٹا بہتان باندھنا تو بہت ہی بڑا گناہ ہے۔

میں ذاتی طور پر آپ سے برادرانہ استدعا کروں گا کہ یا تو وہ بات کیجئے جس پر ایمان ہے یا پھر وہ بات کیجئے جس کا ثبوت ہے۔


والسلام
 
کتنا سادہ سوال ہے دوستو۔
سوال کا جواب ۔۔۔۔ گول۔
ہم جیسے عاصی طالب علموں کی مدد بھی نہیں کرتے کہ مندرجہ بالاء معمولی سے سوالات کے جوابات دے کر ہمارے لئے راہ ہدایت پہچاننے میں مدد کریں۔

والسلام
 

باذوق

محفلین
کتنا سادہ سوال ہے دوستو۔
سوال کا جواب ۔۔۔۔ گول۔
ہم جیسے عاصی طالب علموں کی مدد بھی نہیں کرتے کہ مندرجہ بالاء معمولی سے سوالات کے جوابات دے کر ہمارے لئے راہ ہدایت پہچاننے میں مدد کریں۔

والسلام
السلام علیکم۔ فاروق بھائی ، پہلے تو ویلکم بیک۔
دوسری بات یہ کہ ۔۔۔ خبروں والا یہ زمرہ ہماری آپ کی گفتگو کے لئے کچھ مناسب نہیں لگتا ہے لہذا میں یہاں جواب دینے سے ہچکچا رہا ہوں۔

ویسے کچھ عرصہ قبل ایسی ہی ایک خبر (باعزت اسلامی قتل، پتھر مار مار کر انسانوں کا شکار) آپ نے شئر کی تھی جس پر کافی مباحث ہوئے پھر وہ تھریڈ مقفل ہو گیا۔

اگر بہتر سمجھیں تو متعلقہ اسلامی زمرے میں "رجم کی سزا" کے عنوان سے نیا تھریڈ کھول لیں کہ اس مخصوص موضوع پر محفل پر علیحدہ سے مواد کہیں موجود نہیں ہے۔ پھر ان شااللہ ہم وہیں کچھ تحقیق کر لیں گے۔
امید ہے کہ میرا مشورہ آپ کو قابلِ عمل لگے گا۔
 

ظفری

لائبریرین
اس سلسلے میں میرے پاس ایک مفصل مضمون موجود ہے ۔ جو کہ ہمارے ایک دوست نے بڑی عرق ریزی کے بعد مرتب کیا ہے ۔ آئمہ کرام اور دورِ حاضر کے تمام علماء کا نکتہ نظر اور ان کے استدلال کو سامنے رکھ قرآن کی زنا اور رجم سے متعلق آیاتوں پر مفصل بحث کی ہے ۔ ان کے اس مضمون سے کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔ مگر آئمہ کرام کے مختلف فتوؤں اور نکتہ نظر کا جس باریکی سے انہوں نے قرآن کی آیاتوں سے موازانہ کیا ہے ۔ وہ قابل تعریف ہے ۔ باقی سب کا اپنا اپنا نکتہ نظر ہے ۔ والسلام
 
ظفری سلام

میں نے برادر باذوق کے حکم پر ایک نیا دھاگہ شروع کردیا ہے ۔ آپ یہ نکات وہاں ضرور پیش کیجئے۔ دھاگہ شاید منتظمین کا انتظار کررہا ہے۔

والسلام
 

باذوق

محفلین
اس سلسلے میں میرے پاس ایک مفصل مضمون موجود ہے ۔ جو کہ ہمارے ایک دوست نے بڑی عرق ریزی کے بعد مرتب کیا ہے ۔ آئمہ کرام اور دورِ حاضر کے تمام علماء کا نکتہ نظر اور ان کے استدلال کو سامنے رکھ قرآن کی زنا اور رجم سے متعلق آیاتوں پر مفصل بحث کی ہے ۔ ان کے اس مضمون سے کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔ مگر آئمہ کرام کے مختلف فتوؤں اور نکتہ نظر کا جس باریکی سے انہوں نے قرآن کی آیاتوں سے موازانہ کیا ہے ۔ وہ قابل تعریف ہے ۔ باقی سب کا اپنا اپنا نکتہ نظر ہے ۔ والسلام
بھائی۔ میرا ناقص مشورہ ہے کہ آپ اس مفصل مضمون (جو کہ یقیناً ایک تحقیقی مقالے کے طور پر ہوگا) کو الگ تھریڈ کے طور پر لگائیں۔ اس کی اہمیت ایک علیحدہ مقالے کی حیثیت سے برقرار رہے گی اور بعد میں کبھی حوالہ دینے کے طور پر بھی مضمون کام آ سکے گا۔
 
فاروق سرور خان;608683]دوست، سلام

آپ کے بیان کا کیا ثبوت ہے؟

کیا وہ اصل کتاب دستیاب ہے جس میں محدث نے یہ بات ترتیب دی؟ کوئی کیسے یہ ثابت کرسکتا ہے کہ یہ اسرائیلی روایت سچ مچ حدیث کی اصل کتابوں میں شامل تھی؟

کیا اس سوال کا مطلب یہ ہوا کہ موجودہ دور میں حدیث کی تمام کتابیں ناقابل اعتبار ہیں ۔۔۔؟
اگر ایسا ثبوت فراہم نہیں کیا جاسکتا تو پھر کیا ان کتب پر ایمان رکھنا ہے؟

یعنی آپ کے سوال کے مطابق سنت رسول اور احادیث کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ کیونکہ آپ کے طے کردہ معیار کے مطابق ان کی اصل کتب موجود نہیں ہیں۔ کہیں میں غلط تو نہیں سمجھ رہا ۔۔؟

اگر ایمان رکھنا ہے تو اس کا حکم کس نے دیا ، اللہ تعالی نے یا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے؟

دین میں سوال اگر ہدایت کے لیئے ہو تو اللہ تعالیٰ ہدایت کے دروازے کھول دیتا ہے اور اگر گمراہی کے لیئے ہو تو سوائے گمراہی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔ اور جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے اللہ گمراہ کرے اسکے لیئے کوئی ہادی نہیں ہے ۔
اور اگر ایمان بھی نہیں اور ثبوت بھی نہیں تو بھائی ، اللہ تعالی اور اس کے بزرگ ترین رسول صلعم پر ایسا جھوٹا بہتان باندھنا تو بہت ہی بڑا گناہ ہے۔

ہم نے اللہ کو بغیر ثبوت اور دلیل کے مانا اور اسکی اور اسکے رسول کی اطاعت کا حکم قرآن میں پایا اور جو معیار موجود مصدوق اپنے زمانے میں پایا اس معیار کے مطابق اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کی سعی کی اور قرآن ۔ سنت اور احادیث صحیحہ پر یقین نہ رکھنے والوں سے بری ہوئے ۔ اللہ ہمیں سب کو ہدایت عطا فرمائے اور شک کے فتنہ سے اپنی پناہ میں رکھے ۔

میں ذاتی طور پر آپ سے برادرانہ استدعا کروں گا کہ یا تو وہ بات کیجئے جس پر ایمان ہے یا پھر وہ بات کیجئے جس کا ثبوت ہے۔


والسلام
 
اس کا حکم کس نے دیا ، اللہ تعالی نے یا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے؟

إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا ﴿١٥٠﴾
ذرا غور کرلیجئے کہ اللہ اور اسکے رسول میں تفریق کرنا کس کا شیوہ ہے اس آیت کے مطابق۔
یقیناّ آپ بھی اس بات پر ایمان رکھتے ہونگے کہ رسول کا حکم بھی اللہ کا حکم ہی ہوتا ہے۔ 'وما ینطق عن الھوی ان ھو وحیّ یوحا'۔
اگر اختلاف اس بات پر ہے کہ پتہ نہیں یہ باتیں جو رسولِ کریم کے ساتھ‌ منسوب کی جارہی ہیں یہ انتساب درست بھی ہے یا نہیں اور اگر اسکا معیار آپ یہ ٹھرالیں کہ چونکہ کوئی اصل مخطوطہ کتبِ حدیث کا دستیاب نہیں لہذا یہ سب مشکوک ہے اور مشکوک ہوا تو اسکا ماننا ضروری نہیں۔ تو اس سلسلے میں گذارش یہ ہے کہ اس لاجک کی رُو سے تمام احادیث کا انکار کردیجئے ۔ من مانی احادیث پر یہ اصول کس رُو سے لاگو ہوتا ہے؟ اور اگر آپ کہیں کہ جی من مانی نہیں بلکہ یہ وہ ہیں جو ْقرآن کے صریحاّ مخالف اور متصادم ہیں تو یہ فی الواقع قابلِ غور بات ہے۔ لیکن اس صورت میں آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ فی الواقع وہ احادیث قرآن کے مخالف ہیں یعنی یہ صرف آپ کی پرسپشن نہیں۔ کیونکہ اگر آپ کی پرسپشن کے مطابق وہ قرآن سے متعارض ہیں تو آپ سے کئی گنا زیادہ تعداد میں صاحبِ علم لوگوں کی پرسپشن کے مطابق وہ متعارض و مخالف نہیں ہیں۔ لہذا آپ کا قول آپ کیلئے تو شائد حجّت ہو لیکن دوسروں کیلئے نہیں ہوگا۔:)
 
بہت اچھی منطق ہے ،جو آپ نے بیان کی۔

تمام روایات کی بات نہ کیجئے۔ کیوں کہ موافق القرآن ، سنت اور احادیث پر کوئی بحث نہیں۔ وہ روایات جو موافق و مطابق القرآن ہونے کی وجہ سے قابل قبول ہیں ان پر آپ کے خیال میں بحث کی کوئی ضرورت ہے؟

یہ طے کرلیں تو پھر آگے بڑھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ خلاف القرآن روایات اور خاص طور پر دیکھتے ہیں کہ آیا کہ یہ روایت خلاف القرآن ہے یا نہیں۔ تھوڑا سی خلوص‌کی نگاہ شرط ہے۔

والسلام۔
 
Top