صرف مَولَوی یا مُلّا ہی ہدفِ تنقید کیوں ؟

فرید احمد

محفلین
برادرم ! میں پہلے کئی بار کہ چکا ہوں کہ وہ تمام جرائم جو مولوی یا ملا کے نام سے یہاں فاروق صاحب ذکر کرتے ہیں ، وہ معلم معاشرہ کے اجتماعی جرائم ہیں ،خصوصا حکمرانوں کے ۔ مگر کیا معلوم اسے فاروق صاحب مولویوں کے سر ما رہے ہیں ۔
فاروق صاحب قران فہمی کی تحریک کے محرک ہیں ، وہ بتائیں کہ انہوں نے اور ان کے ہمنواں کے قرآن فہمی کے ادارے زیادہ قائم کیے ہیں یا مولویوں نے ؟
مولوی اگر مدرسہ چلاتا ہے تو کہتے ہیں دین کے ذریعہ شدت پسندی اور اقتدار کی ہوس رکھتا ہے ، کچھ نہیں کرتا تو کہتے ہیں کہ نسل کو ضائع کرتا ہے ، سرکاری آلہ بنتا ہے ۔
اللہ ہی سب دیکھتا ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
مجھے نہیں معلوم کہ آپ جیسے معتبر اور صاحبِ علم کے سامنے میری بات کی کیا وقعت ہوگی ۔ لیکن میں پھر بھی یہاں اپنی ناقص رائے کا اظہار کرنا چاہوں گا ۔ میرے ذہن میں ایک خفلشار سا ہے کہ ہم مُلا اور مولوی کے لفظی ہیر پھیر میں کیوں الجھ رہے ہیں ۔ ہم ان محرکات اور شواہد کا کیوں جائزہ نہیں لیتے ۔ جس کی وجہ سے اس بحث کا آغاز ہوا ہے ۔ یہ بات سامنے کی ہے کہ دین کی اشاعت و تدریس میں ہمارے علماء کرام کا جتنا ہاتھ ہے ۔ اس کی حصہ داری کا کوئی اور متحمل نہیں ہوسکتا ۔ ان کی عزت و تکریم ہم پر واجب ہے ۔ مگر فکری ذہن رکھنے والوں کو اس بات کا بھی حق ہے کہ وہ سوچیں کہ مسلمانوں میں تقسیم در تقسیم کا عمل کیونکر پیدا ہوا ۔ قرآن کی تفہیم پر اتنے اختلافات کیوں ہیں ۔ ایک عام مسلمان صرف قرآن کے ناظرے تک کیوں محدود ہوا ۔ قرآن فہمی سے دوری کا سبب کیا ہے ۔ حدیثوں میں قوی اور ضعیف احادیث سے کیا مراد ہے ۔ روایتوں کا کیا مخرج ہے ۔ ان کی کیا حیثیت ہے اور ان پر یقین کرکے عمل کرنا صحیح ہے یا قرآن کے احکامات کے مطابق اپنی زندگی کو بسر کرنے پر ترجیح دینی ہے ۔ کہاں کہاں روایتوں میں قرآن سے انحراف ہورہا ہے ۔ ایسے بہت سے سوالات ہیں ۔ جن کی کھوج میں جب نکلا جاتا ہے تو ایک امید کیساتھ انہی دین کے بلند قامت ستونوں پر پڑتی ہے ۔ جنہیں ہم ( مولوی یا مُلا ) کہتے ہیں کہ وہاں شاید روشنی کی کوئی کرن موجود ہو ۔ مگر وہاں اختلافات اور آپس کی رنجشوں کا ایک جال سا پھیلا نظر آتا ہے ۔ جس میں ایک عام مسلمان الجھ کراپنا قبلہ ہی بھول جاتا ہے ۔ تو ایسی صورت میں ان ستونوں کی مضبوطی اور ساخت کا جانچنےکا خیال پیدا ہوتا ہے ۔
جب ایک تنقیدی جائزہ لیا جاتا ہے تو مولوی یا مُلا یا علماء کرام میں دو گروہوں کی تقسیم نظر آتی ہے ۔ ایک وہ جو مسلم امہ کے لیئے ایک دردمند دل کیساتھ اس میں خوفِ خدا بھی رکھتے ہیں ۔ اور سیاسی اور ریاستی اقتدار سے لاتعلق ہوکر اپنے اپنے مدارس میں امت مسلمہ کی نسلوں کو قرآن و حدیث کی تعلیم و تدریس دینے میں مصروف ہیں ۔ نہ ان کو کوئی لالچ ہے نہ کوئی دنیاوی غرض ۔ وہ بس اللہ کی خوشنودی اور اسلام کی سربلندی چاہتے ہیں ۔ اور دوسرا گروہ وہ ہے جن کا مقصد اقتدار اعلیٰ حاصل یا اس میں اپنا اثرو رسوخ پیدا کرکے اپنے ذاتی اور انفرادی مقاصد پورے کرنا ہے ۔ جس کے نتیجے اسلامی احکامات میں توڑ مڑور کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ قرآن کی تفہیم ان کے فوائد کے دائرے میں ہوجاتی ہے ۔ ایسی رواتیں جنم لے لیتیں ہیں ۔ جن کے مطابق اگر کوئی ان کی تائید و تلقید سے تائب ہوا تو دنیا و آخرت میں کہیں بھی پھر بچت نہیں ہے ۔ ایسے قوانین مرتب ہوجاتے ہیں کہ جن کے ڈر سے انسان خوف ودہشت سے اپنی زندگی کی بنیادی ذمہ داریوں سے بھی بے بہرہ ہوجاتا ہے ۔ زندگی اللہ کی دی ہوئی نعمت کے بجائے گلے میں پھنسا ہوا ایک پھانس بن جاتی ہے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے مولوی اور ملا کا لبادہ اڑا ہوا ہے ۔ جن کی نشان دہی ضروری ہے ۔ ان کا نیٹ ورک سمجھنا اور ان کا احاطہ کرنا ضروری ہے ۔ یہ بھی دیکھنا ہے کہ اس نظام کی جڑیں کب سے اور کہاں کہاں پیوست ہیں ۔ ہم ان کو اس بات پر نظرانداز نہیں کرسکتے کہ ان کو مولوی اور مُلا کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ اس لیئے یہ ہر قسم کے محاسبے سے بری الذمہ ہیں ۔ کل کوئی امیر المومنین بن گیا تو کیا ہم اس کی طرف سے یہ سوچ کر آنکھیں بند کر لیں گے کہ یہ ایک بہت اعلی صفاتی لقب ہے ۔ اسلیئے اس کا ہر عمل اور قدم شکوک سے بالاتر ہے ۔

قرآن کی تفہیم اور احادیث و روایتوں کی تاریخ و مطالعہ ایک دوسرا باب ہے ۔ یہاں ہم ایک ایسے نظام کی بحث کر رہے ہیں ۔ جس نے ان چیزوں کے بارے میں اسلامی معاشرے میں ابہام پیدا کیا ہے ۔ نظام کی صحیح شکل سامنے آنے کے بعد یہ بحثیں بہت آسان اور واضع ہوجائیں گی جس پر مسلسل بحث اور پوسٹیں ہورہیں ہیں ۔ ورنہ یہ موضوع بحث برائے بحث اور آپسی برتری کا منبع بن جائے گی ۔
 

فرید احمد

محفلین
جب ایک تنقیدی جائزہ لیا جاتا ہے تو مولوی یا مُلا یا علماء کرام میں دو گروہوں کی تقسیم نظر آتی ہے ۔ ایک وہ جو مسلم امہ کے لیئے ایک دردمند دل کیساتھ اس میں خوفِ خدا بھی رکھتے ہیں ۔ اور سیاسی اور ریاستی اقتدار سے لاتعلق ہوکر اپنے اپنے مدارس میں امت مسلمہ کی نسلوں کو قرآن و حدیث کی تعلیم و تدریس دینے میں مصروف ہیں ۔ نہ ان کو کوئی لالچ ہے نہ کوئی دنیاوی غرض ۔ وہ بس اللہ کی خوشنودی اور اسلام کی سربلندی چاہتے ہیں ۔ اور دوسرا گروہ وہ ہے جن کا مقصد اقتدار اعلیٰ حاصل یا اس میں اپنا اثرو رسوخ پیدا کرکے اپنے ذاتی اور انفرادی مقاصد پورے کرنا ہے ۔
پھر بات وہیں آجائے گی کہ مولوی نے اہل اقتدار کے آلہ بن کر لوگوں کو سیاست سے دور کر دیا ۔ قرآن کو گھر کی چیز بنا دی ۔ اگر مولوی اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو قران کا نظام قبول نہیں ، چوری کی سزا، زنا کی سزا ۔ نماز کی پابندی ، اور کئی امور ہیں ، جن کی پابندی لازم ہے ، بات یہ ہے کہ مولوی کی نظر پورے اسلام پر ہوتی ہے ، ( کچھ خرابیاں کچھ افراد کی یقینا ہے ) مگر اس کی نظر فقط قران پر نہیں ، کہ حکم صلوۃ تو قران سے اخذ کرے اور طریقہ نماز قران میں نہ ہونے سے نماز پڑھنا پڑھانا چھوڑ دے ، یعنی قران کے ساتھ حدیث بھی ہوگی ، اور اس کے احکامات بھی ہوں گے ، لوگ فقط قران کے نام پر اسلام کا نام لے کر آزاد روی چاہتے ہیں
 
بہت اچھا اور علمی انداز ہے اب تک۔
فرید صاحب، آپ حدیث و قرآن کی روایئتی بحث میں‌مصروف ہیں۔ اس کے لئے میں نے ایک تھریڈ الگ کھولا ہوا ہے۔ کیا میں مودبانہ اور مخلصانہ عرض‌ کرسکتا ہوں کہ اگر آپ یہ بحث وہیں پر محدود رکھیں تاکہ اس دھاگے کے مندرجات اور مقاصد دھندلا نہ جائیں؟ اس موضوع پر بہت بحث ہوتی رہتی ہے۔ آپ اس سلسلے میں میرا آرٹیکل 'قرآن کیا کہتا ہے' دیکھ لیجئے تاکہ آپ کو میرے خیالات کا بہتر اندازہ ہوسکے اور اگر آپ نے کوئی آرٹیکلز اپنے خیالات کے اظہار کے لئے لکھے ہیں تو فرمائیے۔ میں ان کو دیکھ لوں گا تاکہ بات وہاں سے آگے بڑھے۔

اجمل صاحب نے جو جو مرتکز نکات استثناء واضح طور پر بیان کی اور نشاندہی کی ہے وہ میرے آرٹیکلز میں تشنہ تھے، بہت اچھا ہے کہ ان حصوں کی بھی عکاسی ہوجائے، جن کو ملوث کیا جانا مقصود نہیں اور اس طرح مناسب تائید و تنقید سے ان اچھائیوں کو الگ کیا جا سکے جنکا اصل مضمون سے تعلق نہیں۔ اس طرح جس خرابی کی طرف اشارہ ہے وہ واضح ‌ہوکر سامنے آتی جائے گی۔ شاید کسی نے غور کیا یا نہیں، میر امضمون 1857 سے پہلے کی اسٹیج پر تھا۔
اجمل صاحب بزرگ ہیں اور ذاتی تجربات سے بعد کے دور کی جو ماضی قریب میں گذرا ہے، فرسٹ ہینڈ انفارمیشن دے رہے ہیں جو مناسب تناظر اور بیک گراؤنڈ کے لئے ضروری ہے۔ کچھ نکات بہت اہم ہیں، جن کی تائید میں مزید معلومات جمع کرکے آیندہ آرٹیکلز میں لکھوں گا۔

ظفری نے اس اصل مسئلے کی طرف توجہ پھر مرکوز کرائی ہے، جس پر میں نے روشنی ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ اور ساتھ میں ہی اس عالموں کے گروپ پر بھی توجہ دی ہے جس کی طرف اجمل صاحب اشارہ کرہے ہیں۔ ظفری بہت شکریہ آپ کا۔ ان نکات کی طرف واپس آئیں گے ہم۔ پہلے اجمل صاحب کے خیالات سے مستفیذ ہولیں۔

نوٹ کیجئے تو ظفری اور اجمل صاحبان دونوں تعمیری مقصد رکھتے ہیں کہ کسی طور وہ خرابیاں جن کا ہم انفرادی یا اجتماعی سطح پر مشاہدہ کرتے آئے ہیں۔ معاشرے سے دور ہوں اور قرآن و سنت کی بنیادی تعلیم کم از کم عام ہو۔ فقہہ یا قانون سازی کی اعلی تعلیم اس بنیاد کے بغیر ناممکن ہے۔ عمومی سطح تعلیم کے اونچا ہونے سے مجموعی نتائج بہتر حاصل ہونگے۔

جس طرح ہر اسکول جانے والا بچہ، انٹیگریٹڈ سرکٹس اور ہوئی جہاز نہیں ڈیزائین کرسکتا۔ لیکن انہی میں‌سے وہ جینئس (نابغہ) دریافت ہوتا ہے جو یہ کام کرتا ہے۔ تو دینئ علوم کے سکالرز اور ریسرچرز اور عالموں کی اعلی صف کی پیدایش کے لئے قرآن و سنت کی عمومی تعلیم کی ہمارے اسکولوں میں پنیری لگانی ضروری ہے۔ کہ اس کے بغیر مناسب قانون ساز، معاشرہ ساز افراد کی توقع ناممکن ہے۔
جس کمزوری کی نشاندہی اجمل صاحب نے اور جس جس کمزوری کی نشاندہی، ظفری صاحب نے کی، ان کے ازالہ کے لئے، میں موجودہ دینی علوم کی مناسب ڈسٹری بیوشن کا ہمارے تعلیمی اداروں میں، داعی ہوں کہ بنیادی تعلیم بنیادی جماعتویں میں اور اعلی علوم اعلی جماعتوں میں مناسب طور پر شامل کئے جائیں۔

ان بہترین خیالات کو جاری رکھئے۔

والسلام۔
 

فرید احمد

محفلین
عرض کی تھی کہ بہت سے لوگ کتب روایات سے ہی نماز کے طریقہ کو ثابت کرنے کا کہتے ہیں۔

نہیں جناب ، ہم تو قران سے ثابت کرنے کا کہتے ہیں ، ثابت کر دیجیے ، بہت خوب ۔

فرید صاحب، آپ روایئتی حدیچ و قرآن کی بحث میں‌مصروف ہیں۔
کوئی اور بھی قران و حدیث ہیں ؟ آپ کے نزدیک جس سے آپ بحث کرتے ہیں ؟ قران میں ہے کہ
قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی
اطیعو اللہ و اطیعو الرسول و اولی الامر منکم

تین کی اطاعت، اللہ کی ، رسول کی ، اور اولی الامر کی ۔
اگر قران ہی سب کچھ ہے تو پھر بقیہ دونوں کو مستقل ذکر کرنا بے سود ہو ؟
 
Top