صداقت کا پرچم اٹھا کے چلو

متلاشی

محفلین
ایک غزلیہ نظم پیشِ خدمت ہے۔

صداقت کا پرچم اُٹھا کے چلو
بیانِ محبت سنا کے چلو
دفاع ِ وطن کے لئے دوستو
دل و جاں کی بازی لگا کے چلو
وہ طرزِ عمل جو جناح نے دیا
وہی فکر اب تم جگا کے چلو
لگائی صدا تھی جو اقبال نے
صدا پھر وہی تم لگا کے چلو
جو میراث پائی تھی اسلاف سے
زمانے کو وہ تم بتا کے چلو
جو دیوار آئے تری راہ میں
وہ ٹھوکر سے اپنی گرا کے چلو
جو خاموش تھے ظلم سے لب ترے
سرِ راہ وہ لب ہلا کے چلو
وفا کا کیا تم نے جو عہد تھا
وہی قول اب تم نبھا کے چلو
سدا یاد ذی شاں کرے گا وطن
سوئے دار تم مسکرا کے چلو

محمد ذیشان نصر
 

متلاشی

محفلین
استاذ گرامی جناب الف عین صاحب۔۔۔ چونکہ یہ نظم بھی اسی بحر میں تھی جس پر پہلے آپ سے اصلاح لی تھی سو اس میں کے چلو کی بجائے کر چلوکی ترمیم کے ساتھ پیش خدمت ہے۔۔۔
صداقت کا پرچم اُٹھا کر چلو
بیانِ محبت سنا کر چلو
دفاع ِ وطن کے لئے دوستو
دل و جاں کی بازی لگا کر چلو
وہ طرزِ عمل جو جناح نے دیا
وہی فکر اب تم جگا کر چلو
لگائی صدا تھی جو اقبال نے
صدا پھر وہی تم لگا کرچلو
جو میراث پائی تھی اسلاف سے
زمانے کو وہ تم بتا کر چلو
جو دیوار آئےاگر راہ میں
وہ ٹھوکر سے اپنی گرا کر چلو
جو خاموش تھے ظلم سے لب ترے
سرِ راہ وہ لب ہلا کر چلو
وفا کا کیا تم نے جو عہد تھا
وہی قول اب تم نبھا کر چلو
سدا یاد ذی شاں کرے گا وطن
سوئے دار تم مسکرا کر چلو
15-10-11
 

مغزل

محفلین
اچھی کاوش ہے باقی تو بابا جانی کاپی کر ہی چکے ہیں سو۔۔ میں بھی منتظر ہوں۔۔
 

الف عین

لائبریرین
اس وقت ای سائبر کیفے سے دیکھ رہاہوں یہ، اپنے لیپ ٹاپ پر نہیں۔ میرے لیپ ٹساپ میں انتر نیٹ کا مسئلہ ہو گیا ہے۔ اس لئے 13 تاریخ کے بعد۔
 

الف عین

لائبریرین
ایک تصحیح تو تم کر ہی چکے ہو، ردیف میں۔ بہر ھال اصلاح پرانی غزل پر ہی کی ہے۔
میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اس غزل مسلسل یا غزلیہ نظم میں ’تے چلو‘ بہتر ردیف و قوافی ہوں گے۔ یعنی اٹھاتے چلو، سناتے چلو وغیرہ۔ فی الحال ایسی اصلاح نہیں کر رہا ہوں۔
صداقت کا پرچم اُٹھا کے چلو
بیانِ محبت سنا کے چلو
//لخت لخت ہے، دونوں مصرعوں میں تعلق نہیں ہے۔

دفاع ِ وطن کے لئے دوستو
دل و جاں کی بازی لگا کے چلو
// درست

وہ طرزِ عمل جو جناح نے دیا
وہی فکر اب تم جگا کے چلو
//جناح تو یہاں بحر میں نہیں آتا، الف گرانے سے درست تقطیع ہوتی ہے، لیکن الف درمیانی پوزیشن میں نہیں گرایا جاتا۔ صرف ’ہ‘ کی صورت میں جائز تھا، جیسے گناہ کو گنہ کر دیا جاتا ہے، اور لکھا بھی جاتا ہے۔
دوسرے مصرع میں فکر کی بات ہے اور پہلے مصرع میں طرز عمل۔ اس لحاظ سے ’وہی‘ کیوں؟
جو قائد نے ہم کو سجھائی کبھی
قسم کا کوئی مصرع ممکن ہے۔

لگائی صدا تھی جو اقبال نے
صدا پھر وہی تم لگا کے چلو
//دونوں جگہ ’صدا‘ اچھا نہیں لگ رہا۔اس کے علاوہ پہلے مصرع میں الفاظ کی نشست بھی درست نہیں۔
یوں کہا جا سکتا ہے
صدا دی تھی اقبال نے جو کبھی
وہی آج پھر تم۔۔۔۔

جو میراث پائی تھی اسلاف سے
زمانے کو وہ تم بتا کے چلو
//میراث بتانا؟ سمجھ میں نہیں آیا، دوسرا مصرع کچھ اور کہو۔

جو دیوار آئے تری راہ میں
وہ ٹھوکر سے اپنی گرا کے چلو
//صیغے کا مسئلہ ہے، پہلے مصرع میں ’تری راہ‘ (توٗ) اور دوسرے میں ’چلو‘ (تم)۔ دوسرے مصرع میں بھی الفاظ کی ترتیب اچھی نہیں۔
یوں کر دو
جو دیوار بھی روک لے راستہ
اسے ٹھوکروں سے گرا۔۔۔

جو خاموش تھے ظلم سے لب ترے
سرِ راہ وہ لب ہلا کے چلو
//سرِ راہ؟ لب ہلانے کے لئے جگہ کی قید کیوں؟ کیا سر راہ ظلم ختم ہو جاتا ہے کہ لب کھولے جا سکتے ہیں؟

وفا کا کیا تم نے جو عہد تھا
وہی قول اب تم نبھا کے چلو
//پہلے مصرع میں الفاظ کی نشست درست نہیں۔ یوں کہا جا سکتا ہے
وہ تم نے کیا تھا جو عہد وفا

سدا یاد ذی شاں کرے گا وطن
سوئے دار تم مسکرا کے چلو
//بہتر ہو گا اس طرح
سدا یاد رکھے گا تم کو وطن
۔۔۔ یہاں مقطع کی کیا ضرورت ہے؟
 

متلاشی

محفلین
استاذ گرامی جناب الف عین صاحب ذرا اب دیکھئے اس نظم کو ۔۔۔۔!
صداقت کا پرچم اُٹھا کر چلو
چراغِ محبت جلا کر چلو
دفاع ِ وطن کے لئے دوستو
دل و جاں کی بازی لگا کر چلو
جو قائد نے ہم کو سجھائی کبھی
وہی فکر اب تم جگا کر چلو
صدا دی تھی اقبال نے جو کبھی
وہی آ ج پھر تم لگا کرچلو
جو غفلت میں سوئے پڑے ہیں ابھی
انہیں غفلتوں سے جگا کر چلو
جو میراث پائی تھی اسلاف سے
زمانے کو وہ تم دکھا کر چلو
جو دیوار آئےاگر راہ میں
اسے ٹھوکروں سے گرا کر چلو
وہ تم نے کیا تھا جو عہدِ وفا
وہی قول اب تم نبھا کر چلو
سدا یاد رکھے گا تم کو وطن
سوئے دار تم مسکرا کر چلو
15-10-11
 
Top