جگر صحن کعبہ نہ سہی کوے صنم خانہ سہی

صحن کعبہ نہ سہی کوے صنم خانہ سہی
خاک اڑانی ہے تو پھر کوئی بھی ویرانہ سہی

زندگی تلخ حقیقت کے سوا کچھ بھی نہیں
اس میں کچھ چاشنی مشرب رندانہ سہی

آپ سے جس کو ہو نسبت وہ جنوں کیا کم ہے
دونوں عالم نہ سہی ایک دل دیوانہ سہی

اپنی شوریدہ مزاجی کو کہاں لے جاؤں
تیرا ایما نہ سہی تیرا اشارہ نہ سہی

زندگی فرش قدم بن کے بچھی جاتی ہے
اے جنوں اور بھی اک لغزش مستانہ سہی

یہ ہواہیں یہ گھٹاہیں یہ فضاہیں یہ بہار
محتسب آج تو شغل مے و پیمانہ سہی

حسن خود پردہ کشاے رخ مقصود تو ہے
عشق کو حوصلہ و عرض و تمنا نہ سہی

کون ایسا ہے یہاں عشق جس کا ہے بے لاگ
آپ کی جان سے دور آپ کا دیوانہ سہی

زندگی آج بھی دلکش ہے انھیں کے دم سے
زندگی خواب سہی عشق اک فسانہ سہی

تشنہ لب ہاتھ پہ کیوں ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں
کچھ نہیں ہے تو شکست خم و خم خانہ سہی

میں نہ زاہد سے ہوں شرمندہ نہ صوفی سے جگر
مسلک عشق مرا مسلک رندانہ سہی​
 
آخری تدوین:

سید زبیر

محفلین
سرکار لا جواب تحفہ ، بہت خوب ، ہر شعر مستانہ
زندگی تلخ حقیقت کے سوا کچھ بھی نہیں
اس میں کچھ چاشنی مشرب رندانہ سہی
آپ سے جس کو ہو نسبت وہ جنوں کیا کم ہے
دونوں عالم نہ سہی ایک دل دیوانہ سہی
اپنی شوریدہ مزاجی کو کہاں لے جاؤں
تیرا ایما نہ سہی تیرا اشارہ نہ سہی
 
سرکار لا جواب تحفہ ، بہت خوب ، ہر شعر مستانہ
زندگی تلخ حقیقت کے سوا کچھ بھی نہیں
اس میں کچھ چاشنی مشرب رندانہ سہی
آپ سے جس کو ہو نسبت وہ جنوں کیا کم ہے
دونوں عالم نہ سہی ایک دل دیوانہ سہی
اپنی شوریدہ مزاجی کو کہاں لے جاؤں
تیرا ایما نہ سہی تیرا اشارہ نہ سہی
آداب عرض ہے :)
 
Top