صحرائی دانائی از حسن نثار

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم،
آج روزنامہ جنگ کے کالم نگار حسن نثار کی ایک دلچسپ تحریر پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں انہوں نے عربی کے مختصر لیکن جامع اقوال نقل کیے ہیں۔ مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے، ان میں سے کچھ احادیث نبوی بھی ہیں۔(ربط)

خوبصورت زبان خوبصورت بیان کس قدر عظیم نعمت اور کیسا حسین تحفہ ہے ۔ قدیم عربوں اور ان کی صحرائی دانائی کو جانے کس کی نظر لگ گئی کہ آج ان کی اکلوتی پہچان ”پیٹروڈالر“ کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔ آج سیاست نہیں صرف اور صرف صحرائی دانائی کے چند نمونے جنہوں نے مجھ پر نشہ سا طاری کر دیا ہے ۔
کہتے ہیں …
”التکبر مع المتکبر صدقة“
متکبر کے ساتھ تکبر سے پیش آنا صدقہ ہے
”القناعتہ مفتاح الراحتہ“
قناعت راحت کی کنجی ہے
”الناس علی دین ملوکھم“
عوام اپنے بادشاہ کے دین پر ہوتے ہیں
”القلم شجرة ثمرھا المعانی “
قلم اک درخت ہے ، معانی اس کا ثمر ہے
”العفو عن ا لظالم جور علی المظلوم“
ظالم کو معافی مظلوم کے ساتھ ظلم ہے
”الانسان حریص علی مامنع“
جس سے منع کیا جائے انسان اس پر زیادہ حریص ہوتا ہے
”الانسان عبدالاحسان“
انسان احسان کا غلام ہے
”الاقارب کا لعقارب“
قریبی بچھوؤں کی مانند ہیں
”الکاسب حبیب اللہ “
پیشہ ور اللہ کا دوست ہوتا ہے
”الولدسرلابیہ“
بیٹا اپنے باپ کا راز ہے
”التجربہ علم العقل“
تجربہ عقل کا علم ہے
”العلم حجاب الاکبر“
علم بہت بڑا پردہ ہے
”الان کماکان“
جو پہلے تھا سو اب بھی ہے
”العادة طبیعة ثانیة “
عادت طبیعت ثانیہ بن جاتی ہے
”الجوع خیرمن الخضوع“
بھوک عاجزی کے ساتھ مانگنے سے بہتر ہے
”الناس اتباع لمن غلب“
عوام غالب آنے والے کے پیچھے چلتے ہیں
”الوحدة خیرمن الجلیس السو“
برے ہم نشین سے تنہائی بہتر ہے
”الفتنة اشد من القتل“
فتنہ قتل سے بھی سخت ہے
”البادی اظلم“
پہل کرنے والا ظالم تر ہے
”الکذب اعظم الخطایا“
جھوٹ تمام گناہوں سے بڑا ہے
”العلما ورثة الانبیا“
عالم لوگ انبیا کے وارث ہیں

قارئین !
اب ایک ایک جملے کو اپنے ماحول اور معاشرے کے پس منظر میں دیکھئے اور غور کیجئے کہ کسی ایک ڈھنگ کی بات پر بھی ہم پورا اترتے ہیں ؟
کیا غضب کا فلسفہ ہے کہ ” لوگ اپنے بادشاہ کے دین پر ہوتے ہیں“ مطلب یہ کہ جیسی لیڈر شپ ہو گی ، لوگ بھی ویسے ہی ہو جائیں گے ۔ آج اگر یہ ملک کرپشن میں لت پت ہے تو اس کا ”کریڈٹ “ ان لوگوں کو جاتا ہے جو لوٹ مار میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کے مقابلہ میں مصروف رہے اور آج فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ان میں زیادہ کرپٹ کون ہے اور پھر یوں ہوا کہ عوام بھی ان کے نقش قدم پر چل دیئے ۔
اور یہ صحرائی دانائی کہ قلم تو اک درخت کی مانند ہے اور معانی اس کا پھل … اصل بات ہی ”پھل“ کی ہے یعنی اگر معنی ہی کچھ نہیں تو خوبصورت تحریر بھی لفظوں کی ڈھیری سے زیادہ کچھ نہیں ۔ بہت سی ایسی تحریریں بھی نظر سے گزرتی ہیں کہ پڑھنے کے بعد بندہ سوچ میں گم ہو جاتا ہے کہ لکھنے والے نے کہنا کیا چاہا ۔
ذرا اس پر غور کیجئے کہ پیشہ ور اللہ کا حبیب ہوتا ہے ۔ ہم کتنے ظالم لوگ ہیں کہ دست کارواں، محنت کشوں کو کمی کمین سمجھتے اور کہتے ہیں ۔ موچی، دھوبی، تیلی، نائی، چمار جیسے الفاظ کو ہم نے گالی بنا دیا حالانکہ یہ انتہائی محترم لوگ ہیں لیکن … اور پھر یہ کہ عالم لوگ انبیا کے وارث ہوتے ہیں اور جو گمراہ کریں ؟ لوگوں میں فساد و انتشار پھیلائیں کیا وہ بھی وارث کہلا سکتے ہیں ؟
 
Top