صحت کے معاملے میں شرم کے کیا معنی؟

ڈاکٹر نذیر مشتاق
ہمارے معاشرے میں اکثر عورتیں آج بھی لاچار ، بے بس ،محکوم اور مظلوم ہونے کے علاوہ اَن پڑھ جاہل اور تاریکی کی وادیوں میں بھٹکنے والی عجیب وغریب مخلوق ہیں۔ ہمارے سماج میں عورت کو جنم ہی سے حجاب اور شرم و حیائکی قید میں مقید رہنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ یہ الگ بات ہے اسے ’’شرم وحیاء‘‘ کا صحیح فلسفہ کبھی سمجھا یا نہیں جاتا۔۔۔ کوئی بھی انسان اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ شرم وحیاء4 ایک عورت کا گراں قد ر اور لازمی زیور ہے۔ اگر عورت شرم وحیاء4 کے صاف وشفاف اور پاکیزہ لباس میں ملبوس نہ ہو تو وہ بد صورت اور عریاں نظر آتی ہے اسلئے ہر عورت پر یہ فرض عائد ہوتاہے کہ وہ شرم وحیاء4 کے مخصوص دائرے میں رہ کر زندگی کے روز مرہ کے معمولات انجام دے۔

وہ زندگی کے کسی بھی شعبہ میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرسکتی ہے لیکن اسے ہروقت اپنا قیمتی زیور(شرم وحیاء) پہنے رکھنا چاہیے۔لیکن جہاں تک اسکی صحت وتندرستی کا تعلق ہے وہاں ’’شرم وحیاء‘‘ کے معنی بدل جاتے ہیں۔ اگر کوئی عورت کسی ’’پوشیدہ ‘‘یا جنسی مرض میں مبتلا ہوجائے تو اس وقت جھجک ، شرم و حیاء اور حجاب کیا معنی رکھتے ہیں۔ اگر کوئی عورت اپنے جسم کے اہم ترین عضو پستان میں کوئی نقص ،خرابی یا بیماری دیکھے تو گھروالوں ، محرموں یا ڈاکٹرو ں سے پوشیدہ کیوں رکھے ! ہمارے سماج میں شرم وحیاء4 کا بنیادی اوراصلی مفہوم نہ سمجھتے ہوئے عورتیں اپنے اعضائے مخصوص یا پستانوں کے امراض تب تک پوشیدہ رکھتی ہیں جب تک وہ موت کے بالکل قریب پہنچ چکی ہوتی ہیں۔یعنی وہ اپنے آپ پر ظلم کرتی ہیں اور یہ ایک بہت بڑا گناہ ہے۔
میڈیکل سٹوڈنٹس کو سرطانِ خون کے موضوع پر لیکچر دینے کے بعد جب میں لیکچر ہال سے باہر آیا تو ایک لڑکی میرے پیچھے دوڑتی ہوئی آئی اور کہا’’ سرمجھے آپ سے کچھ کہناہے‘‘۔ میں نے اثبات میں سر ہلاکر آمادگی ظاہر کی تو اس نے نظریں جھکائے ، شرماتے ہوئے کہا ’’سر میرے دائیں پستان (برسٹ )میں ایک سال سے ایک ٹیومر جیسا ہے نہ جانے یہ کیا ہے؟ میں نے آپ کو ٹی وی پر بریسٹ کینسر سے متعلق باتیں کرتے ہوئے سنا اور اسی وقت میں نے فیصلہ کیا کہ میں آپ سے مشورہ کروں ‘‘۔ میں حیرت واستعجاب کے گہر ے سمندر میں ڈولتے ہوئے اسے تکنے لگا ، وہ سرجھکائے میرے جواب کی منتظر تھی ’’ایک سال سے تمہارے بریسٹ میں ’’ٹیومرجیسا‘‘ہے اور تم نے آج تک کسی سے نہیں کہا‘‘۔ مجھے نہیں معلوم میرے لہجے میں غصہ تھا ، حیرت تھی یا کچھ اور۔۔۔!
’’سر میں نے ماں سے کہا تھا مگر اس نے منع کیا کہ کسی سے نہ کہوں۔۔۔کیوں کہ آخر شرم وحیاء بھی توکوئی چیز ہے اور پھر۔۔۔سر۔۔۔آگے شادی کا مسئلہ بھی تو ہے ‘‘۔ اس نے سرجھکائے، ’’شرم وحیاء‘‘کے بوجھ تلے دبے مشکل سے یہ الفاظ کہے۔
’’تم ایک میڈیکل سٹوڈنٹ ہو۔۔۔کسی ڈاکٹر سے صلاح مشورہ کیا ہوتا؟ میں نے حیران ہو کر کہا۔ ’’سر۔۔۔ میں شرماتی ہوں‘‘ اور پھر ڈرتی ہوں کہ کہیں ’’کینسر‘‘ نہ ہو ۔۔۔اس کی آنکھوں کے کنارے بھیگ گئے اور مجھے یوں لگا اگر میں نے مزید کچھ کہا تو اسکی آنکھوں سے آنسو?ں کا سیلاب جاری ہوگا اسلئے کچھ کہے بغیر اسے ساتھ لے گیا اور اسی وقت اسکا ٹیسٹ ، ایف این اے سی(FNAC)کیا اور تین گھٹنے کے بعد رپورٹ اسکے ہاتھ میں تھما دی اور اسے مشورہ دیا کہ کسی جراح کے پاس جاکر جراحی کروائے(شکر خدا کا اسکا ٹیومر غیر سرطانی تھا اور جراحی کے ذریعہ اس کاعلاج کیا جاسکتا تھا)۔
وہ چلی گئی تو میں سوچنے لگا۔۔۔یہ حال ہے طبی تعلیم سے وابستہ ایک لڑکی کا جس نے ایک برس اپنے پستانوں کا ٹیومر چھپاکے رکھا ، ان پڑھ اور بے خبر لڑکیوں یا عورتوں کا حال کیا ہوگا جنہیں اپنے جسم اور اسکے اعضاء کے بارے میں کوئی جانکاری بھی نہیں ہوتی۔۔۔یہی وجہ ہے کہ یہ بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی کہ کشمیر میں سرطانِ پستان کی شرح کتنی ہے کیوں کہ کشمیر ی عورتیں’’شرم وحیاء‘‘ کے بوجھ تلے دب کر اس بیماری کو ’’راز‘‘ ہی رکھتی ہیں۔۔۔ڈاکٹرنثار احمد وانی، جراح امراضِ سرطان کا کہناہے کہ اسی فیصد عورتیں سرطان پستان کے علاج کے لئے اس وقت مراجع کرتی ہیں جب یہ بیماری مرحلہ سوئم میں داخل ہو چکی ہوتی ہے یعنی اس وقت جب علاج ناممکن ہو چکا ہوتاہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں لفظ’’کینسر‘‘ کے ساتھ ایک مخصوص وعجیب وغریب قسم کا ڈر وابستہ ہے اور یہ صرف عدم واقفیت اور اس بیماری کے متعلق باطل عقیدوں اور خرافات کی وجہ سے ہے۔ ہزاروں عورتیں اس بیماری کو صیغہ راز میں رکھنے کی وجہ سے عالمِ جوانی ہی میں زندگی جیسی عظیم نعمت سے محروم ہوجاتی ہیں۔۔۔ڈاکٹروں کی تحقیق کے مطابق کشمیرمیں سرطانِ پستان ، عورتوں میں تیسرے نمبر پرہے جبکہ معدہ کی نالی اور معدہ کا سرطان بالترتیب اول اور دوسرے درجہ پرہے۔۔۔ان کا کہناہے کہ اگر یہ سرطان ابتدائی مرحلہ میں تشخیص ہوجائے تو اس کا مکمل علاج دستیاب ہے اور مریض علاج ومعالجہ کی ان تکلیف دہ پیچیدگیوں سے نجات پا سکتاہے جو اس بیماری کے مرحلہ دوم اور سوئم کے علاج سے پیدا ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر محمد یوسف، جراحِ عمومی نے سرطان سے متعلق یہ واقعہ سنایا ’’میری ایک رشتہ دار عورت نے تین برس پستان سے نکلنے والے خون اور پیپ کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ کسی گھر والے یا ڈاکٹر پر ’’راز‘‘ ظاہر نہیں کیا۔ کیونکہ وہ اسے ’’سرِ خدا ‘‘ سمجھتی رہی۔۔۔اسے اسپتال میں اس وقت داخل کیا گیا جب وہ شدید یرقان میں مبتلا ہوگئی۔ اسپتال میں تمام آزمائشات انجام دینے کے بعد پتہ چلا کہ سرطان پستان اسکے جگر میں سرایت کرگیا ہے اور علاج معالجہ بے سود ہے ، اسے اسپتال سے ر خصت کیا گیا اور صرف دس دن بعد اس نے موت کو گلے لگالیا‘‘۔۔۔ڈاکٹر موصوف نے ایک سرد آہ بھرتے ہوئے کہا ’’کاش اس عورت نے ابتدائی مرحلے میں کسی ڈاکٹر سے صلاح مشورہ کیا ہوتاتو وہ آج زندگی کی شاہراہ پر رواں دواں ہوتی ۔۔۔مگر کیا کریں ہمارے معاشرہ میں مریضوں کے ذہنوں میں آج بھی دقیانوسی اور باطل عقیدے کچھ اس طرح رچے بسے ہیں کہ انہیں سمجھانے اور ان کے ذہنوں سے دور کرنے میں نہ جانے کتنا وقت لگے گا‘‘۔ ہمارے سماج میں مریضوں کی زندگی ایک اور المیہ سے وابستہ ہے‘‘ ماگام بیروہ کی ایک چالیس سالہ عورت نے ایک روز اپنے دائیں پستان میں ورم محسوس کیا ، اس نے یہ راز ایک ’’تجربہ کار ‘‘دیہاتی عورت پر ظاہر کیا جس نے فوری طور فتویٰ صادر کیا کہ ’’یہ ببہ وائے اور نظر آدم ‘‘ ہے ۔۔۔اور اسے ایک پیر صاحب کا پتہ بتا دیا جو اس مرض کا علاج کرنے میں ماہر گردانا جاتاہے۔ وہ عورت پیر صاحب سے رجوع کرتی رہی اور پیر صاحب اس کے لئے انواع واقسام کے تعویذ تجویز کرتا رہا ،دَم کرکے مختلف قسم کے مشروبات پلاتا رہا اور اپنے ہاتھوں سے پستانوں پر’’پاک مٹی‘‘ ملتا رہا اور مریضہ سے اچھی خاصی رقم وصول کرتا رہا۔۔۔ایک روز مریضہ کی سانس پھولنے لگی اور وہ بے ہوش ہوگئی ،اسے ہسپتال پہنچایا گیا جہاں آزمائشات انجام دینے کے بعد ثابت ہوا کہ سرطانِ پستان پھیپھڑوں اور ہڈیوں میں سرایت کرگیا ہے اور بیماری اس مرحلہ میں پہنچ چکی ہے جہاں ڈاکٹر لاجواب ہوتے ہیں۔ چند روز بعد وہ مریضہ اس دارفانی سے کوچ کرگئی۔ اس واقعہ سے نہ صرف عام عورتوں کی آنکھیں کھلنی چاہئیں بلکہ ان نقلی پیروں فقیروں کو بھی اپنے اندر جھانک کر ، اپنے بوسیدہ اور گندے ضمیر کو جھنجھوڑ نا چاہئے کہ وہ کس طرح حصول زر کے لئے معصوم ، ان پڑھ اور جاہل عورتوں کو موت کی وادی میں دھکیلتے ہیں۔ کتنے دکھ اور حیرت کی بات ہے کہ ’’شرم وحیاء4 کی ماری‘‘ عورت ایک انجانے ، نقلی پیر کو اپنا سینہ دکھاتی ہے مگر ڈاکٹری معائنہ کروانے سے شرماتی ہے۔ کیا یہ قوم اتنی عقب افتادہ اور جاہل ہے ؟ کیا یہ اس قوم کا استحصال نہیں ہے ؟ کیا ہم ابھی بھی دوسری اقوام سے صدہابرس پیچھے نہیں ہیں۔ کیا ہم ’’روشنی ‘‘ سے محروم نہیں ہیں۔ہم کب تک یوں ہی اندھیروں میں بھٹکتے رہیں گے۔ کتنی حیرانگی اور شرم کی بات ہے کہ ہم آج کے سائنسی دور میں بھی سرطان کو نظرِ آدم سے تعبیر کرتے ہیں۔ کیا یہ جہالت کی انتہا نہیں ہے؟
ہمارے اس عجیب وغریب معاشرے کا ایک اور المیہ یہ بھی ہے کہ شادی سے پہلے لڑکی کے خاندان کے علاوہ اس کی زندگی کے تمام پہلو?ں کا بغور جائزہ لیا جاتاہے اور اگر لڑکی شادی سے پہلے کسی آپریشن(خاص کر پستانوں) سے گزرچکی ہے تو لڑکے والے’’ لڑکی مریض ہے‘‘ کہہ کر شادی سے صاف انکار کرتے ہیں۔ اسی لئے بن بیاہی لڑکیاں پستانوں کے امراض کو ’’سبھوں ‘‘سے پوشیدہ ر کھنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں اور شادی شدہ عورتیں طلاق کے ڈر سے اس مرض کواپنے ہی سینے میں دفن کرکے مٹی کے نیچے دفن ہو جاتی ہیں۔ مگر لڑکے والوں لڑکیوں اور شادی شدہ عورتوں اور مردوں کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ کوئی بھی عورت اس مرض سے نجات پاکر ایک کامیاب اور صحت مند زندگی گذار سکتی ہے بشرطیکہ بیماری کی تشخیص ابتدائی مرحلہ میں کی جائے۔ دور حاضر میں اس بیماری کے لئے ایسے طریقوں سے جراحی انجام دی جاتی ہے کہ پستان پر کسی بھی قسم کا نشان باقی نہیں رہتاہے۔
اسلئے اگرآپ عورت ہیں اور آپ اپنے پستانوں میں کسی قسم کی رسولی محسوس کریں یا نوکِ پستان (Nipple) سے خون ،پیپ یا کسی قسم کاغیر طبعی مادہ خارج ہونے لگے یا نوک پستان اندر کی طرف سکڑ جائے یا پستان کی جلد کا رنگ تغیر کر جائے یا بغل میں کسی قسم کا ورم یا رسولی ظاہر ہو تو فوری طورکسی ماہر اور سندیافتہ ڈاکٹر سے مشورہ کریں (بہتر ہے کسی اسپتال میں جاکر معائنہ کروائیں) تاکہ ایک آسان ، بے ضرر ،ارزاں اور فوری ٹیسٹ سے آپ کو بیماری کا پتہ چل سکے اور آ پ کا بر وقت مناسب اور موزوں علاج ہوسکے۔
یاد رکھیں کہ ہر عورت(بالخصوص پینتیس سال سے زائد عمر)سرطان پستان میں مبتلا ہوسکتی ہے اور اس سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہر ’’ماہواری کے بعد چوتھے روز اپنے پستانوں کا معائنہ کیا جائے اور کسی بھی قسم کا نقص یا خرابی نظر آئے تو اسی وقت کسی سند یافتہ ماہر معالج سے مشورہ کریں۔
صحت کے معاملے میں ’’روایتی شرم وحیاء‘‘ آڑے نہیں آنی چاہئے کیونکہ ایسی شرم وحیاءآپ کی جان لے سکتی ہے ۔(یو این این)

FikroKhabar - Online Urdu News Portal - صحت کے معاملے میں شرم کے کیا معنی؟
 
Top