"صحافی ہونا کوئی جرم نہیں ہے "

صحافی ہونا کوئی جرم نہیں ہے
مترجم :عبیداللہ عبید، مینگورہ سوات

الجزیرہ نیوز چینل کے صحافی عبداللہ الشیمی گزشتہ آٹھ ماہ سے ،اپنے ہی ملک مصر میں ، بغیر کسی الزام کے قید ہیں ۔وہ تورہ جیل میں ناگفتہ بہ صورتِ حال کی وجہ سے ،جنوری سے بھوک ہڑتال کر رہے ہیں جس نے اس کی صحت پر بہت برا اثر ڈالا ہے ۔

دریں اثنا تین دوسرے صحافیوں کا کیس بھی عدالت میں دوبارہ پیش کیا گیا ہے اور ان کا تعلق بھی الجزیرہ چینل سے ہے۔ان پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ من گھڑت خبریں اور اخوان المسلمین کی حمایت پر مبنی مواد رپورٹ کررہے ہیں ۔یاد رہے کہ مصر کی معروف دینی وسیاسی جماعت اخوان المسلمین پر موجودہ حکومت نے دہشت گردی کا الزام لگا کر پابندی عائد کردی ہے ۔

الجزیرہ نے اپنے صحافتی عملے کے خلاف الزا مات کو مکمل طور پر مسترد کردیا ہے اور انہیں فوری طور پر رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔

منگل کے دن ،عبداللہ الشیمی کی والدہ ثریا الشیمی نےالجزیرہ کےساتھ اپنےبیٹے کی حالت اور خاندان سے اس کی جدائی پر گفتگوکی جسے ریکارڈ کرنے کے بعد الجزیرہ چینل نے جمعرات 24 اپریل کو ویب سائٹ پر شائع کیا ۔ قارئین کے لیے اس کا اردو ترجمہ پیشِ خدمت ہے :

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الجزیرہ: عبد اللہ تین ماہ سے بھوک ہڑتال پر ہیں ، اس موقع پر آپ اس کی صحت کے متعلق کیا جانتی ہیں ؟

ثریا الشیمی: عبداللہ نے اپنی بھوک ہڑتال 21 جنوری سے شروع کی ۔ وہ اس سے پہلے ہڑتال کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہی ایک راستہ باقی رہ گیا ہے باقی راہیں مسدود کردی گئیں ہیں ۔اس پر کوئی الزام نہیں تھا ، مقدمہ نہیں چلایا گیا ، ہم بھی اس کے بھوک ہڑتال کے فیصلے کے حامی تھے کیونکہ اس کےعلاوہ کوئی حل نہیں تھا۔ہم جانتے تھے کہ بھوک ہڑتال کا فیصلہ اس کی صحت بہت برا اثرڈالے گااور اس کا اثر اس کی صحت کے حوالے سے مثبت نہیں ہوگا۔اب تووہ صرف پانی پر زندہ ہیں ،اس کے وزن میں تقریبا 35 کلو گرام کمی آئی ہے اور اس کے اکثراعضا بہت زیادہ متاثر ہوگئے ہیں ۔بھوک ہڑتال نے اس کی ہڈیوں پر بھی اثر کیا ہے کیونکہ اپنے آخری پیغام میں اس نے کہا ہے کہ جیل میں قیدیوں کو صرف تیس منٹ کا وقفہ دیا جاتا ہے اور اس وقفے میں عبداللہ باہر نکلنے کی سکت نہیں رکھتا اس لیے کہ اس کی ہڈیاں اس کو نہیں سہار سکتیں۔چلنا پھرنا اور حرکت بہت مشکل ہوگیا ہے ۔ عبداللہ گرفتاری کے وقت بھر پور صحتمند تھا۔تین مہینے سے کچھ زیادہ وقت گزرا ہے کہ میں نے اسے نہیں دیکھا ۔مجھے یقین ہے کہ اس کی صحت پر بہت برا اثر پڑا ہے کیونکہ تین مہینے تک ہڑتال کرنا کوئی آسان کام نہیں ۔

الجزیرہ: خاندان نے اس کی حراست کو کس طرح محسوس کیا ؟

ثریا الشیمی: عبداللہ کی گرفتاری کے تین ہفتے بعد میری اس سے پہلی ملاقات ہوئی ۔ میں نے اسے لوہے کی سلاخوں کے پیچھے دیکھا ۔یہ وہ جگہ تھی جہاں مجرم رکھے جانے چاہیے تھے ۔میرے لیے یہ بہت مشکل مرحلہ تھا کہ اپنے لختِ جگر کو قیدیوں کے لباس میں دیکھوں لیکن جب سے عبداللہ نے صحافت کے میدان میں قدم رکھا تھااور خصوصاً الجزیرہ کے ساتھ کام کررہا تھا توہم اس بات کی توقع کررہے تھے کہ جس راستے پر وہ چل پڑا ہے وہ آسان رہگزر نہیں ۔چونکہ اس نے ایک مشکل راہ اختیار کی تھی اس لیے کئی دفعہ ہم نے اس پر زور دیا تھا کہ وہ ذمہ داری کا مظاہر ہ کرے ۔اگرچہ ہمیں اس کی توقع تھی کہ عبداللہ کو مشکلات اور خطرات پیش آئیں گے لیکن اپنے ملک مصر میں ہمیں اس کی توقع نہیں تھی۔

الجزیرہ: عبداللہ ایک صحافی ہے اور اس حوالے سے آپ اس کے کام کو کس طرح محسوس کر رہی ہیں ؟

ثریا الشیمی: ایک خاندان کی حیثیت سے ، ہم انسانیت اور انسانی حقوق سے تعلق رکھنے والی تمام چیزوں سے بہت زیادہ متاثر ہوجاتے ہیں ۔ اور ہم نے اپنے بچوں کی تربیت بھی اسی طرح کی ہے ۔ عبداللہ کی پہلی کوریج (الجزیرہ کے لیے ) لیبیائی انقلاب سے متعلق تھی ۔ قدرتی طور پر اس وقت ، ایک ماں کی حیثیت سے میں ڈر گئی تھی کیونکہ وہ خطرے میں تھالیکن مجھے سب سے بڑا خطرہ یہ تھا کہ شاید وہ مکمل سچ یا حقیقی سچ رپورٹ نہ کرسکے ۔ میں اس پر سختی سے ایما ن رکھتی ہوں کہ انسان کی زندگی خدا کے ہاتھ میں ہے لیکن مجھے اس بات کا خوف تھا کہ چونکہ وہ اپنے پیشے میں نیا ہے اس لیے شاید وہ تمام سچ اس طرح رپورٹ نہ کرسکے جس طرح ہونا چاہیے لیکن عبداللہ کی پیشہ وارانہ کار کردگی نے ہمیں حیران کردیا ۔ وہ اس وقت واحد صحافی تھا جس نے مصراتہ میں داخل ہونے کی جرات کی ۔وہاں جانا بہت خطرناک تھا۔

الجزیرہ: عبد اللہ نے قید کی کیا کیفیت بتائی؟

ثریا الشیمی: عبداللہ قید میں جن تکالیف سے دوچار ہے وہ اپنے خاندان کے سامنے وہ کھل کر نہیں بتارہا کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ اس کا خاندان بھی اس بھاری بوجھ تلے دب جائے جس کا وہ خود شکار ہے ۔بہر حال اس نے مجھے بتا یا تھا کہ جس جگہ وہ قید ہے وہ تین میٹر چوڑی اور ساڑھے تین میٹر لمبی ہے اور اسی محدود جگہ میں ایک کھلی بیت الخلا(ٹوائیلٹ) بھی ہے ۔ اسی تنگ جگہ میں اٹھارہ افراد رکھے گئے ہیں ۔ زمین پر جگہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنا سامان چھت کے ساتھ لٹکاتے ہیں کیونکہ زمین پر رکھنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ۔اٹھارہ افراد کا بیک وقت اسی تنگ جگہ میں سونا ممکن نہیں ہے اس لیے وہ مختلف اوقات میں سوتے ہیں ۔

بھوک ہڑتال شروع کرنے سے پہلے بھی وہ جیل میں فراہم کردہ خوراک نہیں کھا سکتا تھا ۔ وہ انتہائی گندہ اور کھانے کے لائق نہیں ہوتا تھا۔جیل میں ان کو معالجہ کی کوئ سہولت میسر نہیں ۔

جیل میں قیدی سے ملنے کے لیے آنے والے ملاقاتیوں کے قریب چار پولیس اہلکار ان پر نظر رکھنے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں ۔ ہمیں عبداللہ سے تنہائی میں ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی ۔آپ کو بہت محتاط رہنا پڑے گا کیونکہ کسی قسم کی شکایت کا خمیازہ عبداللہ کوبھگتنا پڑے گا ۔پانچ سے دس منٹ ملاقات کے بعد وہ پولیس اہلکار ملاقاتیوں پر چلانے لگے کہ ملاقات ختم کی جائے ۔

الجزیرہ: مقدمہ چلائےبغیر عبداللہ آٹھ ماہ سے حراست میں ہے۔اس حوصلہ شکن عدالتی طریقہ کار کوآپ کا خاندان کس طرح محسوس کر رہا ہے ؟

ثریا الشیمی: ہمارےخاندان کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ ہم بچے کو ایک پیارے نام سے بھی پکار تے ہیں جو اس کے شخصیت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتاہے ۔جب عبداللہ دو سال کاتھاہم نے اسے ''دل''کے نام سے پکارناشروع کیا۔ وہ ہمارےخاندان کا"دل" ہے ،بہت ہی مخلص اور سمجھدار ۔آپ سمجھ چکے ہوں گے کہ ہمارا خاندان ''دل''کے بغیرزندگی گزاررہاہے ۔یہ واقعی ہمارے لیے بہت مشکل ہے ۔لیکن شروع ہی سے ہمیں عبداللہ اورزندگی میں اس کے پیغام پر پختہ یقین تھا ۔وہ پیغام جو عبد اللہ دنیا اور انسانیت کو دے رہاتھا۔ ہمیں پختہ یقین ہے کہ ہم عبداللہ کے ساتھ جو قیمت چکارہے ہیں وہ نفع بخش ہو گی۔

الجزیرہ: آپ کتنی پر اُمید میں کہ بالآ خروہ منصفانہ عمل کے بعد آزاد ہو جائے گا؟

ثریا الشیمی: میں بہت پر اُمید ہوں۔ مجھے اللہ پر کامل ایمان ہے کیونکہ خدا منصف ہے اور بے انصافی نہیں ہونے دے گا ۔ ہمارے بیٹے نے کوئی جرم نہیں کہاہے۔ کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ کجھ غلط بھی نہیں کیا۔ ہمیں یقین ہے کہ واقعی ایک دن وہ آزاد ہوگا۔بہرحال اپنے بیٹے کے کیس میں ہم نے جو بہ عنوانی اور غلط طریقہ کاردیکھا مجھے لوگوں پر مزید اعتماد نہیں رہا۔مجھے عدالتی طریقہ کارپر بھی اعتماد نہیں رہا۔ مجھے صرف اللہ پر اعتماد ہے ۔ اور اسی وجہ سے مجھے یقین ہے کہ ایک دن میرابیٹاآزادہوگا۔

الجزیرہ: کیا آپ مصری حکمرانوں کو کوئی پیغام پہنچانا چاہتی ہیں ؟

ثریا الشیمی: میں مصری حکمرانوں کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ میرے بیٹے کی صحت اور زندگی پر پڑنے والے اثرات کی ذمہ دار خود یہی مصری حکمران ہیں ۔میرے بیٹے کی تمام کوریج آنلائن ہیں ۔ ان حکمرانوں کو بھی یقین ہوگا کہ عبداللہ نے کچھ نہیں کیا کیونکہ وہ اس کی کوریج کی گئی رپورٹیں دیکھ اور سن سکتے ہیں ۔

میں صحافیوں کو بھی ایک پیغام دینا چاہتی ہوں کہ عبد اللہ تم ہی سے تعلق رکھتا ہے ، تمہارا ساتھی ہے ۔ اب اس کی جنگ جاری ہے اور اس کی بھوک ہڑتال صرف اپنے لیے نہیں ہے بلکہ تمہارے لیے اور آزادئ صحافت کے لیے بھی ہے ۔ اس کی بھوک ہڑتال بھی اس کی ایک آواز ہے جو سلاخوں کے پیچھے سے آرہی ہے ۔یہ بھوک ہڑتال دنیا سے ایک مطالبہ ہے کہ صحافیوں کو قتل ہونے سے بچایا جائے اور انہیں خوفزدہ اور ہراساں نہ کیا جائے ۔

عبد اللہ کسی بھی ایسے شخص سے زیادہ اپنے ملک (مصر) سے محبت رکھتا ہے جوبظاہر محبت کرنے کا دعویدار ہے ۔ اس نے مصر کے متعلق کچھ غلط نہیں کیا اور نہ ہی مصر کو کچھ نقصان پہنچایا ۔ جو کچھ عبد اللہ کے بارے میں کہا جارہا ہے وہ صرف پروپیگنڈا ہے ۔

ماخذ:
مالاکنڈ نیوز ڈاٹ کام
 

arifkarim

معطل
صحافی ہونا یقیناً جرم ہے۔ اگر آپ کسی خاص مذہبی مکتبہ فکر کیخلاف لکھیں یا اپنی ہی حکومت کے بعض خفیہ اداروں کے کارناموں کیخلاف کچھ لکھیں تو سرکاری طور پر مجرم، غدار ، واجب القتل وغیرہ کہلائیں گے۔
 
Top