شیطان شہزادہ

تفسیر

محفلین
onde Fyrste den
شیطان شہزادہ

by
Hans Christian Andersen

(1840)
مترجم : تفسیر احمد
[line]

بہت عرصہ ہوا کہ ایک مغرور اور بدکار شہزادہ تھا جوسوچتا تھا کہ وہ کس طرح دنیا کی تمام مملکتوں کو فتع کرے اور انسانیت اس کےنام سے کانپنے لگے۔ اس کےسپاہیوں نےقتل و غارت مچائی، کھیتوں اور غلوں کو روند دیا اور غریبوں کےگھروں کو آگ لگادی جن کےشعلوں سے درختوں کے پتہ جل گئے اور کالی جلی ہوئی شاخوں پر لگے پھل بُھن گئے۔ کئی مائیں اپنےننگےبچوں کو لے کے بھاگیں اور دھوؤں کےغبار کے پیچھے پناہ لینے کی کوشش کی۔ مگر سپاہوں نے ان کا پیچھا کیا ان کو پکڑلیا۔ پھر ان کے ساتھ اپنی شیطانی خواہشات پوری کیں۔ ایسا توخود شطان بھی نہیں کرتا۔ لیکن شہزادہ نے اپنے سپاہیوں کی ان شیطانی حرکات سے مزا لیا۔

وقت کےساتھ ساتھ اسکا دائرہ اختیار وسیع ہوتا گیا یہاں تک کےلوگوں کو صرف اس کے نام سےخوف آنےلگا۔

ان فتوحات سے حاصل کےہوئے سونے اور ان لوٹے ہوئےقیمتی خزانوں سےحاصل کی ہوئی دولت سےاس نےاپنی سلطنت کو ایسی چیزوں سے بھر دیا جن کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں تھا۔ اس کےبعد اس نے محلات ،گرجا اور دوسری عمارتیں بنوائیں جن کی چمک دمک دیکھ کر لوگ کہتے تھے “ واہ یہ توعظیم شہزادہ ہے!“ ایک لمحہ کے لیے بھی انہوں نے یہ نہیں سوچا اس ظالم نےدنیا میں کتنی قتل و غارت اور بربادی پھیلائی ہے۔ انہوں نے کبھی ان مظلموں کی آہیں اور سسکیاں کو نہیں سننا تھا جو تباہ کردہ شہروں کےملبوں سے اٹھتی تھیں۔اور جب شہرادہ اپنے سونے جواہر کو اوران عالیشان عمارتوں کودیکھتا جواس کے نام ہیں بنی تھیں وہ بھی ان لوگوں کی طرح سوچتا تھا۔ “ واہ میں تو عظیم شہزادہ ہوں!“ لیکن میرے پاس اور بھی زیادہ ہوناچاہیے تاکہ کوئی میری برابری نہیں کرسکے۔چنانچہ اس نےاور جنگیں لڑئیں اور دوسری سلطنتیں فتع کیں۔ ان شکست خوردہ بادشاہوں کو سنہری زنجیوں سےاس کے رتھ کےساتھ باندھا جاتا تھا اور ان کو شہرکی سڑکوں پرگھسیٹاجاتا تھا۔ اورجب یہ شیطان شہزادہ اور اس کےدرباری کھانے کی میز پر بیٹھتےتھےتو شکست خوردہ بادشاہوں کوان کےپیروں کےنزدیک بیٹھایاجاتا تھا اور ان کو درباریوں کے پھینکے توڑوں کو کھانا پڑتا تھا۔

مغرور اور بدکار شہزادے نےاپنےمجسمے تمام عوامی جگہوں اور تمام محلوں میں نصب کروائے تھے۔ وہ تو شایدگرجا گھروں کی مذہبی میز پر بھی ایسا کرتا مگر پادریوں نے کہا “ شہزادے آپ عظیم ہیں مگر خدا آپ سے بھی بڑا ہے اسلئےہم آپ کا حکم نہیں مان سکتے“۔

اچھا اگر ایسا ہے “۔ بدکار شہزادے نے کہا “ تب میں خدا کو بھی فتح کرلوں گا“۔

اور پھر اپنےتبکر و غرور اور گمان سے یہ حکم دیا کہ ایک ایسا جہازتیار کیا جائےجو فضا میں اُڑسکے۔ اس جہاز کا رنگ مور کے پروں کی طرح رنگ برنگا تھا اور اس میں ہزار آنکھیں تھیں لیکن وہ آنکھیں دراصل بندوقوں کی نالیاں تھیں۔

شہزادہ اس جہاز کے بیچ میں بیٹھ کر صرف ایک بٹن دباکرایک ساتھ ایک ہزار گولیاں چلاسکتا تھا اور یہ بندوقیں فوراً ہی نئی گولیوں سے بھرجاتیں تھیں۔ سینکڑوں عقاب اس جہاز پراس طرح باندھے گئے تھے کے وہ اس جہاز کو اُڑاسکیں۔اور اب جہاز ایک تیر کی طرح سورج کی طرف آڑا۔ جلد ہی زمین بہت نیچے رہ گئی۔ اوپر بلندی سے پہاڑ اورجنگل، کھیتوں کی طرح دیکھائی دے رہے تھےاور اونچائی سےاب زمین پر کہیں کہیں سبزہ سا نظر آتا تھا۔ جیسےجیسےعقاب اپنےعظیم پروں سےاوپراُڑتےگئے ہرچیزدھنداور کہر میں چھپ گئی۔ تب خدا نےاپنے ہزارہا فرشتوں میں سےایک فرشتہ کو بھیجا۔ بدکار نےفوراً ہزارگولیاں چلائیں۔ مگر وہ سب فرشتے کےچمکیلے پروں سے ٹکرا کر برف کےاولوں کی طرح زمین پرگریں۔ اسکے بعد شہزادہ کےجہاز پرفرشتے کےسفید پروں سےخون کی ایک بوند پرگری۔ یہ بوند شہزادے کےجہاز کےلیےاتنی بھاری تھی کے بوجھ سےجہاز تیزی سےزمین کی طرف گر نےلگا۔ عقابوں کےعظیم پرٹوٹ گئے اورشہزادے کےاردگرد تیزہوائیں چلنے لگیں اور پھر اُسے بادلوں نےگھیرلیا۔اور یہ بادل شاید ان شہروں کی آگ کا دھوں تھا جن کوشہزادے نےجلایا تھا ان بادلوں نےایک عجیب ہیت اختیار کرلی تھی۔ ان میں سےکچھ میلوں لمبی ٹانگوں والے کیکٹروں کی طرح تھے اور کچھ پہاڑوں کے بڑے ٹکڑے تھے یا آگ اگلتےہوئے اژدھے۔ شہزادہ جہاز کےاندر نیم مردہ پڑا تھا۔ آخر کار جہاز گر کرجنگل کی گھنی شاخوں میں الجھ گیا۔

“ میں خدا کو فتح کروں گا“۔ اس نے کہا۔ “ میں نے یہ عہد کیا ہے۔“ میرا عہد پورا ہوگا“۔

تب اس نے آنے والےسات سالوں میں اپنے لیے ایک نیا مضبوط اور عظیم الشان جہاز بنوایا جس میں وہ ہوا میں اُڑسکے۔ اس میں اس نےسخت ترین لوہے کی برچھیاں لگوائیں تاکہ ان سے جنت کی حفاظتی دیواروں کوگراسکے۔ اپنی مفتوحہ ملکوں سےاس نےاتنے جنگجوؤں کو جمع کیا کےاگر وہ شانہ بہ شانہ کھڑے ہوں تو میلوں لمبی دیوار بن جائے۔ اور انکے لیے بھی اڑنے والے جہاز بنوائے۔

وہ تمام اس اپنے اپنے جہازؤں میں سوار ہوگئے۔ مگرجب شہزادہ جہاز کی طرف بڑھا توخدا نے کامچھروں کا ایک جھنڈ بھیجا۔ یہ مچھرشہزادے کے اردگرد چکر لگانےاور بھنھناتے ہوئےاس کےچہرے اور ہاتھوں ہر ڈنک مارنےلگے۔ شہزادے نےغصہ سے ہوا میں تلوار چلائی مگر وہ ایک مچھر کو بھی نہ چھوسکا۔ تب اس نےخادموں کو ایک موٹا شاہی لبادے لانے کو کہا۔ اور پھرشہزادے کواس لبادے میں لیپٹ دیا گیا تاکہ مچھراس کےجسم تک نہ پہنچ سکیں۔ تمام کوششوں کےباوجود ایک چھوٹےسےمچھر نے ان کپڑوں میں جگہ بنالی تھی۔ اس نے شہزادہ کےکان میں رینگ کرڈنک مارا۔ جس جگہ ڈنگ لگا۔اس کی جلن آگ کی طرح تھی۔ اور اسکا زہرخون میں پھیل کرتیزی سےاس کے دماغ کی طرف جانے لگا۔ شہزادے نےاپنے کپڑے پھاڑنے اور ان کو اپنے بدن سےجدا کرنا شروع کردیا۔ اب وہ برہنہ تھا اور کان میں جلن کی وجہ سے اچھل کود رہا تھا۔

اس کے سب جنگجواس پر ہنس رہتے تھے اور اس کا مذاق اُڑارہے تھے۔شیطان شہزادہ جو خداکو فتح کرنےچلا تھا اس پاگل کو ایک مچھر نے شکست دے دی۔
[line]
دانشکدہِ تفسیر کی پیشکش​
 
Top