شیطانی آوازیں

ہمارے ایک جاننے والے انجینئرہیں، پلاٹوں کی خریدو فروخت کا کاروبار کرتے ہیں، عمارتوں کے ٹھیکےبھی لیتےہیں، ان کا حلقہ احباب بڑا وسیع ہے۔ ایک بار ان سے ہنگامی طورپر رابطہ کرنے کی ضرورت پیش آئی، اِدھر اُدھر سے ان کا موبائل نمبر معلوم کرنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ ان کے پاس تو موبائل ہے ہی نہیں۔ ہمیں خاصا تعجب ہوا کیونکہ آج کل تو ہرکس و ناکس کے پاس موبائل دکھائی دیتا ہے۔ حد یہ کہ گدھا گاڑی چلانے، پنکچرلگانے اور صفائی کرنے والوں کے پاس بھی موبائل نظر آجاتےہیں۔ ملاقات ہوئی تو ہم نے ان سے موبائل نہ رکھنے کی وجہ دریافت کی۔ انھوں نے بتایا کہ میں دل کامریض ہوں ، ڈاکٹر نے موبائل رکھنے سے منع کیا ہے۔ ان کا جواب سن کر میں سوچ میں پڑگیا۔انہوں نے پوچھا: یک دم خاموش کیوں ہو گئے، میں نے کو ئی غلط بات کہہ دی ہے ؟ میں نےکہا نہیں آپ کی بات درست ہے۔۔۔۔ مگر میں یہ سوچ رہا ہوں کہ آپ نے تو ا یک دنیاوی ڈاکٹر کے مشورہ پر اپنےآپ کو ہمیشہ کے لیے موبائل سے محروم رکھنا گوارا کر لیا جبکہ بے شمار نمازی ہے جو مخلص روحانی اطباء کے بار بار سمجھانے کے باوجود اپنے آب کو تھوڑی سی دیر کے لیے بھی موبائل فون سے محروم رکھنا پسند نہیں کرتے۔ بارہا ایسی مجالس وغظ میں شرکت کا اور ایسی مساجد میں نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا جہاں دائیں بائیں سے فون کی گھنٹیا بجتی رہیں، پردہ سماعت سے ٹکراتے ہی توجہ بٹ گئی، زہن منتشر ہوگیا، عبادت میں جو یکسوئی ہونی چاہیے وہ نہ رہی۔ یہ تو ہمارا حال تھا، جس کی جیب میں یہ میوزک بج رہا تھا اس کا کیا حال ہوگا؟ نہ معلوم اس کا ذہن گھر سے دوکان تک، دوستوں سے رشتہ داروں تک کتنے ہی افراد کی طرف گیا ہوگا کہ شاید مجھے فلاں اور فلاں نے یاد کیا ہوگا۔
نماز خیالات کا کامل ارتکاز چاہتی ہے توجہ صرف اس کی طرف ہونی چاہیے جس کے سامنے نمازی دست بستہ کھڑا ہوتاہے۔ جسم بھی اسی کا اور دل و دما غ بھی اسی کا، قیام و قعود بھی اسی کےلیے اور تسبیح و تحمید بھی اسی کے لیے، ظاہر بھی اسی کے سامنےجھکا ہو اور باطن بھی اسی کے آگے سجدہ ریزہو۔ زبان سے جو کچھ پڑھا جارہاہو، دماغ اس کے معنی میں غوطہ زن ہو۔۔۔۔لیکن جب شیطانی آوازیں خانہ خدا میں بلند ہوں گی تو خشوع و خضوع کہاں باقی رہےگا؟ جبکہ باری تعالی نے ان اہلِ ایمان کو فلاح کی نوید سنائی ہے جو اپنی نمازوں میں خشوع کرتے ہیں، اس ربانی تعلیم کا نتیجہ تھا کہ اصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نمازوں میں نہایت محویت، استعراق اور خشوع و خضوع پایا جاتاتھا۔ محبوب سےمحبوب چیز بھی اگر ان کی محویت اور خشوع خضوع میں خلل انداز ہوتی تو وہ ان کی نظر سے گر جاتی تھی اور نماز میں حضوری کی خاطر اس چیز کی قربانی دینا ان کے لیے آسان ہو جاتا تھا۔
ایک دن حضرت ابو طلّحہ انصاری رضی اللہ عنہ اپنے باغ میں تماز پڑھ رہے تھے۔ ایک چڑیا اُڑتی ہوئی آئی، چونکہ باغ بہت گھنا تھا، کھجوروں کی شاخیں باہم ملی ہوئی تھیں، پھنس گئ اور نکلنے کی راہیں ڈھونڈنے لگی، ان کو باغ کی شادابی اور چڑیا کی اچھل کود کا یہ منظر بہت پسند آیا اور اس کو تھوڑی دیر تک دیکھتے رہے، پھر نماز کی طرف توجہ کی تو یہ یاد نہ آیا کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ دل میں کہا کہ اس باغ نے یہ فتنہ پیدا کیا، فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور واقعہ بیان کرنے کے بعد کہا: '" یا رسول اللہ! میں اس باغ کو صدقہ کرتا ہوں۔"'ایک اور صحابی اپنے باغ میں نماز پڑھ رہے تھے فصل کا زمانہ تھا،دیکھاتوکھجوریں پھل سے لدی ہوئی ہیں، اس قدر فریفتہ ہوئےکہ نما ز کی رکغتیں یا دنہ ر ہیں۔ نماز سےفار غ ہو کر حصرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خد مت میں آئےاور کہا کہ اس باغ کی وجہ سے فتنہ میں مبتلا ہو گیا،اس کو اموال صدقہ میں داخل کر لیحبیے چنانچہ انہوں نے اسے 50ہزار پرفروخت کر دیا۔ اسی مناسبت سے اس کا نام ،،خمسیں،،پڑگیا۔باغ صرف مالک کی تو جہ نماز سے ہٹانے کا سبب بنا تھا جبکہ موبا ئل کی گھنٹیوں سےبیسیوں بلکہ بغض اوقات سینکٹروں نماز یو ں کی تو جہ بٹ جاتی ہے۔ہم نےان گھنٹیوں کو شیطانی آوازیں اس لیے ٹھہرایاکہ یہ عام طور پر موسیقی کی دھنوں اور میوزک پر مشتمل ہو تی ہیں۔ اس صورت میں ان کی قباحت میں مزید اضافہ ہوجاتاہےجبکہ سر وردو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آلات موسیقی کے توڑ نے کو اپنے مقاصد بغثت میں سے ایک مقصد قر ار دیا ہے۔ حضرت علی کر م اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''مجھے آلا ت موسیقی توڑ نے کے لیے بھیجا گیا ہے۔''حضر ت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:''مجھےحکم دیاگیا ہےکہ ڈھول اور با نسریاں یکسرختم کردوں۔''
موسیقی کی آواز کو سر وردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نےملغون آوازقراردیا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ اور حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''دوقِسم کی آوازیں ایسی ہیں جن پر دنیاوآخرت میں لعنت کی گئ ہے، ایک خو شی کے مو قع پر با جے تا شے کی آواز ، دوسر ے مصیبت کے موقع پر آہ وبکا اور نوحہ کر نے کی آواز۔''
آپ صلی اللہ علیہ وسلم آلات موسیقی سے اس قدر احتیاط فرماتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مو قع پر ان گھنٹیوں کو نکال ڈالنے کا حکم دیا جو جانوروں کے گلے میں بندھی تھیں اور فرمایا کہ فرشتے ایسی جماعت کے ساتھ نہیں رہتے جس میں گھنٹی ہو۔ متعدد روایات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب نوشی، قتل و غارت گری، رقص و سرود اور گانے بجانے کی کثرت کو قیامت کی علامت بتایاہے۔ اب اس سے بڑھ کر موسیقی کی کثرت کیا ہوگی کہ ہماری مساجد اور مجالسِ وغط بھی اس سے گونجنے لگیں۔ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم تو آلاتِ موسیقی کی تھوڑ پھوڑ کو اپنا مقصدِ بعثت قرار دیں اور اُمت کا یہ حال ہو کہ اس کے دل سے اس کی نفرت ہی نکل جائے اور ذکرو تلاوت اور گانے بجانے کی آوازیں اس کی محفلوں میں گڈمڈ ہو جائیں تو اسے بیماری دل کا آخری درجہ سمجھنا چاہیے کیونکہ کسی بھی بیماری کا خطرناک اور آخری درجہ یہ ہوتا ہے کہ بیمار انسان، بیماری کو کوئ بیماری ہی نہ سمجھے۔ اسی طرح گناہ کا آخری اور مہلک درجہ یہ ہے کہ انسان گناہ تو کرے لیکن گناہ کو گناہ ہی نہ سمجھے۔ ایسے شخص کو اکثر توبہ کی تو فیق نصیب نہیں ہوتی۔ ظاھر ہے توبہ تو اسی وقت کرےگا جب اپنے آپ کوگناہ گار سمجھتاہو اور جب اپنے آپ کو گنہگار ہی نہیں سمجھتا تو توبہ کیسے کرے گا؟
ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ قیامِ پاکستان سے پہلے مسلمانوں کی غیرت اور حساسیت کا یہ عالم تھا کہ اگر مسجد کے سامنے سے کو ئ جلوس باجے تاشے کے ساتھ گزر جاتا تو اشتعال پھیل جاتا اور بات مرنے مارنے تک پہنچ جاتی تھی۔۔ لیکن اب حال یہ ہے کہ باھر نہیں بلکہ مساجد کے اندر میوزک بھی بجتا رہتاہے اور موسیقی کی دھنیں بھی نشر ہوتی رہتی ہیں مگر کسی کو اعتراض کی جرات نہیں ہوتی کیونکہ جانتے ہیں کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔حجاجِ کرام بتاتے ہیں کہ اب یہ وبا حرمین شریفین میں بھی عام ہو چکی ہے ۔ وہ مقدّس اور محترم مقامات جہاں جنیدو بایزید سانس بھی ادب سے لیا کرتےتھے اور جہاں زائرین کے جانے کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ چنددنوں کے لیے سب سےکٹ کر صرف اللہ سے جو جائیں اور ندامت کےآنسوبہاکر گنا ہوں کی غلا ظت دھوڈالیں اور واقعتًاوہاں ایسے خو ش نصیبو ں کی زیارت بھی ہو جاتی ہےجو دنیا وما فیہا سے بے خبر استغفار ومنا جات میں منہمک ہوتے ہیں۔ ان پر محبت کی مستی ،عبا دت کی محویت اور ہارگاہ جلال و جما ل کی کیفیا ت اسں طرح چہا ئی ہوتی ہیں کہ وہ اس نورانی ہا لہ سے با ہر نکلناہی نہیں چاہتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر یہ شیطا نی آواز یں وہاں بھی پیچھانہیں چھو ڑتیں نجانے ہمیں کیا ہو گیا ہے؟ہماری دنیا پرتو دین کا رنگ نہ چڑھ سکا۔۔۔۔۔۔۔لیکن ہمارے دین پردنیا کا رنگ چڑھ گیا ہے ۔ ہماری سیاست وتجا رت کےایو نوں میں تو ایمان کی کو نج سنا ئی نہیں دیتی لیکن ہمارےایوانِ عبادت میں شیطانی آواز یں سنا ئی دیتی ہیں ۔

واجد حسیں
مولانا صاحب کی مزید کالم : مگر جےپی جی.jpg فارم میں
www.darsequran.com


[align=right:f9c9771972][/align:f9c9771972]
 
Top