شیخ کی پہچان

شیخ کو کیسے پہچانا جائے

کچھ لوگ شیخ کے صدقِ دعویٰ کو جاننے کے لئے اپنی دانست میں ایک مخصوص طریقہ اختیار کر تے ہیں، جو اکثر اوقات اس طریقے سے مختلف نہیں ہوتا جس طریقے سے وہ سبزی فروش کی دکان سے اپنے لئے سبزی یا کریانے کی دوکان سے کوئی چیز منتخب کرتے ہیں۔ اور یہ بات ان لوگوں کے لئے کسی نہ کسی مصیبت یا آزمائش کا باعث بنتی ہے۔ چنانچہ ہم یہاں ان سطور میں ان شاء اللہ ایسے کچھ مواقع کو واضح کریں گے جہاں لبس اور اشتباہ پیدا ہوتا ہے۔ تاکہ وہ شخص جو اپنے لئے کسی فائدے کا متمنی ہے، وہ ان مواطن سے اجتناب کرے۔ چنانچہ جان لو کہ:

1- شیخِ ربّانی مریدوں سے مستغنی ہوتا ہے۔ اسے مریدوں کی کوئی احتیاج نہیں بلکہ یہ مرید ہیں جو چار و ناچار شیخ کی ضرورت رکھتے ہیں (اگر وہ سچے ہیں تو)۔ شیخ کو مرید کی احتیاج نہیں۔ بلکہ مرید کو(اگر وہ کچھ عقل رکھتا ہے) لازم ہے کہ وہ شیخ کے دامن کو مضبوطی سے تھام کے رکھے، خواہ کتنی ہی مشکلات کیوں نہ پیش آئیں۔

2- شیخِ ربّانی عزیز ہے اور اس کی یہ عزت اس کے رب العزیز کی عزت میں سے ہے۔ چنانچہ کوئی شخص یہ طمع نہ رکھے کہ محض اپنی ارادت کی وجہ سے وہ شیخ کی حقیقت کو جان لے گا۔ بلکہ بندے کے لئے مناسب ہے کہ اپنے رب کی طرف رجوع و اضطرار رکھے تاکہ وہ اسے شیخ کی پہچان کرادے۔ اور کتنے ہی لوگ ہیں کہ جو شیخ کے ساتھ اس کے گھر میں زندگی بسر کردیتے ہیں لیکن اس میں اہلیتِ شیخ کے معتقد نہیں ہو پاتے ، سبب یہی ہے کہ شیخ کی حقیقت سے حجاب میں ہوتے ہیں۔

3- شیخِ ربّانی بندہءِ غافل کی عقل کے دائرے سے خارج ہے۔ چنانچہ اسے یہ خیال ذہن سے نکال دینا چاہئیے کہ وہ انسانوں اور چیزوں کے جاننے کے معروف وسائل یعنی اپنے علم، ذہانت و فطانت اور قوّتِ مشاہدہ سے شیخ کو بھی جان سکے گا۔

4- شیخ سے یہ سوال کرنا کہ " کیا آپ شیخِ برحق اور اصلی شیخ ہیں؟" بندے پر بلا اور آزمائش کھینچ لاتا ہے ۔ کیونکہ اگر وہ جواب میں کہے کہ "ہاں"، تو اس کے محض ایسا کہہ دینے سے اس خبر کی تصدیق کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ لیکن سائل کو تصدیق کے لئے محض یہ خبر کافی نہیں ہوتی، کیونکہ اگر اس کو شیخ کے صدق کا یقین ہوتا تو وہ سوال ہی نہ کرتا۔ اور اگر شیخ اس کے اس سوال کے جواب میں کسی مصلحت (مکرِ الٰہی) کے تحت خاموش رہے تو ممکن ہے کہ یہ شخص اس کو جھوٹا سمجھنے لگے، چنانچہ اس صورت میں خیر سے محروم رہے گا (اگر وہ شیخ سے دوری اختیار کرنے اور زبان کو اس سے روکے رکھنے پر اکتفا کرے)۔ لیکن اگر وہ شخص اپنی زبان کو شیخ کے ذم میں استعمال کرنے لگے تو یقیناّ ہلاکت میں جا پڑے گا۔

اور تصدیق کے لئے لازم ہے کہ اس کا انحصار تصدیق کرنے والے پر ہو نہ کہ اس پر جس کی تصدیق کی جائے۔ مطلب یہ کہ تصدیق کا دارومدار خارجی امر پر نہیں ہونا چاہئیے بلکہ تصدیق کرنے والا اس قرینے کے تحت تصدیق کرتا جو اس کے اپنے نفس میں اس کے نزدیک ثابت شدہ اور متحقق ہے، اگرچہ اس کا سبب بے شک کوئی خارجی امر بناہو، یعنی شیخ میں کچھ دیکھا یا اس سے کچھ سنا، وغیرہ۔ اور جو اس بات کو نہیں جانتا، وہ اس وہم میں ہے کہ تصدیق کا تعلق شیخ سے صادر ہونے والی کسی بات کے ساتھ ہوتا ہے (اس کے اقوال یا احوال !۔۔۔) ۔ اور اگر معاملہ ایسا ہی ہوتا تو صادق کی تصدیق عام ہوتی اور ہر وہ شخص جو شیخ سے واقف ہوتا، اسکی تصدیق کرنے لگتا۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔ ایسے تو انبیاء علیھم السلام کے حق میں بھی نہیں ہوا۔ چنانچہ لوگ دو گروہوں میں بٹ گئے، کچھ نے ان کی تصدیق کی اور کچھ نے ان کو جھٹلایا۔

چنانچہ اب سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ پھر کس طرح شیخ کو پہچانا جائے؟ کہ وہ سچا ہے یا جھوٹا؟

ہم یہاں اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ بے شک صالحیت اور ولایت پر دلالت کرنے والی بعض باتوں مثلاّ ظاہری طور پر شریعت کا التزام، ظہورِ کرامات، اور خاص علوم میں شیخ کا کلام کرنا، ایسے امور ہیں کہ جو بندے کو شیخ سے عقیدت رکھنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں اور وہ تزکیہِ نفس کی خاطر شیخ کی فرماں برداری پر کمربستہ ہوتا ہے، لیکن ان سب باتوں کے ہوتے ہئے بھی جس چیز کی سب سے پہلے ضرورت ہے وہ ہے اذنِ الٰہی۔ بندے کے لئے شیخ کی معرفت کا دارومدار اللہ کے اذن (اجازت) پر ہے۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔ چنانچہ شیخ کی بارگاہ میں حاضر ہونے کے آداب میں سے کچھ یہ ہیں:

1- شیوخ کی معرفت کے لئے ہر قسم کی قوت اور حول سے اپنے نفس کی برأت کرنا(لا حول ولا قوۃ الّا باللہ) اور صرف اور صرف اللہ کی توفیق کی طرف رجوع کرنا۔

2- شیوخ کی معرفت کے لئے اپنی نیت کو خالص کرنا اور انکی معرفت صرف اور صرف وجہ اللہ کی خاطر کرنا۔ کیونکہ شیخِ ربّانی کی معرفت، بغیر وجہ اللہ کی ارادت کے، اور کسی مقصد سے حاصل نہیں ہوتی۔ چنانچہ بہت سے لوگ دوسرے مقاصد کے لئے ہی شیوخ کے پاس حاضر ہوتے ہیں اور انکے قصوں میں دل چسپی لیتے ہیں۔

3- شیخ کا صدق واضح ہونے کی صورت میں اس کی اتباع کو اپنے اوپر لازم کرنے کی نیت رکھنا، تاکہ بندہ اللہ کے نزدیک استہزاء کرنے والوں میں نہ لکھا جائے۔ کیونکہ شیخ کی معرفت دین کی روح اور لُبِّ لباب ہے، کوئی کھیل تماشے والی بات نہیں ہے۔ اور اسی بات پر بندے کی اپنے شرورِ نفس سے نجات کا دارومدار ہے۔ اور نفس کے ان شرور کا اس بندے کے مآلِ کار پر بہت گہرا اثر پڑتاہے جو کسی سے مخفی نہیں ہے۔ پس جسے اپنے مآلِ کار کی پرواہ نہیں اور وہ اسے ایک معمولی امر سمجھتا ہے، تو جادہِ مستقیم سے اس کے انحراف کی اس سے بڑی اور کوئی دلیل نہیں

4- اس بات کا عزم کرنا کہ جو بات اس پر واضح ہوئی اس کو اپنے اوپر لازم کرلے اور اس پر عمل کرے، اگرچہ دونوں جہان اس کی مخالفت پر اتر آئیں۔ کیونکہ جاہلین کی ایک کثیر تعداد اپنے اوپر حقیقت کے واضح ہوجانے کے بعد بھی لوگوں کے اقوال اور انکی آراء کی جانب لوٹ جاتی ہے۔ اور لوگوں کی اس صنف سے زیادہ بری صنف اور کوئی نہیں جو اپنے رب کے خلاف اپنے بندوں سے دلیل پکڑتے ہیں۔ {آللَّهُ خَيْرٌ أَمَّا يُشْرِكُونَ؟!} [النمل: 59] ۔

اور وہ لوگ جو شیخ سے اس کے شیوخ کی بابت سوال کرتے ہیں، تاکہ ان شیوخ کے ناموں کو سن کر انہیں اس کے شیخ ہونے کا یقین آئے، تو ایسے لوگ ادب سے خالی ہیں۔ کیونکہ شیخِ ربّانی کی گواہی تو اس کا رب ہوتاہے جس کی اسے معرفت حاصل ہوئی۔ اور وہ چاہتا ہے کہ سائل اس کے بارے میں اپنے قلب کے ذریعے اپنے رب سے سوال کرے، تاکہ وہ اسے شیخ کی پہچان کرادے اگر وہ اس کی اہلیت رکھتا ہے۔ اور جہاں تک کسی شیخ کی اپنے مریدوں میں سے کسی مرید کے لئے شہادت دینا، تو اسے اسی وقت معتبر سمجھا جائے گا جب وہ اس شیخ سے بالمشافہ ملا ہو۔ اور ایسا زیادہ تر اس وقت ہوتا ہے جب شیخ اپنے مریدوں میں سے کسی مرید کے مرتبہِ شیوخت پر پہنچنے کے بارے میں خود بتائے تاکہ وہ اسے اپنی طرح شیخ کا محض شاگرد ہی نہ سمجھیں۔ یا اس صورت میں جب اسے اپنے شیخ سے اس مرید کی خلافت کا علم ملتا ہے ، چنانچہ اس صورت میں وہ مرید اس طریقے (سلسلے) میں وہی حیثیت اختیار کرلے گا جیسی فقہاء کے نزدیک کسی مذہب کے مجتھد کی ہوتی ہے۔ لیکن جہاں تک طریق کے ائمہ کی بات ہے، تو ہمارے نزدیک یہ درست نہیں ہے کہ ان کو انکے شیوخ کے ذریعے پہچانا جائے۔ بلکہ ان کے مرتبے کی دلیل تو صرف اللہ سبحانہ تعالیٰ خود ہی ہوتا ہے، ورنہ پھر ربانیّت کے اعلیٰ مقامات کے کیا معنی ہوئے؟

اور جہاں تک اس کلام کی بات ہے جو شیخ اپنے شیوخ کے بارے میں کرتا ہے، اور اپنے مریدوں سے ان کا ذکر کرتا ہے ، تو یہ مریدوں کو مانوس کرنے کے باب سے ہے اور انکی ہمتوں کو متحرک (Motivate ) کرنے کے لئے ہے تاکہ وہ بھی ان مقامات تک پہنچنے کا قصد کرین جن تک وہ اپنے شیوخ کی برکت سے پہنچا۔

چنانچہ یہ لوگ جو شیخ کو پہچاننے کے لئے اس کی سند (شجرہِ طریقت) پر اصرار کرتے ہیں تاکہ وہ شیخ کا اقرار کرسکیں، تو انہیں چاہئیے کہ سب سے پہلے وہ سندِ تربیت اور سندِ معرفت میں فرق کریں۔ کیونکہ معرفت میں کوئی سند نہیں سوائے اللہ کے ۔ جبکہ سندِ تربیت سے معروف طریقوں سے استدلال کرکے یہ کہا جانا ممکن ہے کہ اس شیخ نے فلاں شیخ کی صحبت اٹھائی۔ بلکہ اس قسم کے استدلال کے لئے بھی ہدایت کے طالب کے لئے سوائے ایک ظن کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا، یا یہ کہ وہ شخص تواتر سے چلی آرہی باتوں کی مواقفقت اور انکی تقلید کے دائرے میں مقید ہو تو ایسے شخص کو کسی قدر حسنِ ظن ہوجاتا ہے ان باتوں سے۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ یہ جان سکے کہ فلاں شیخ کا شیخ (اور پھر اسی طرح سند میں موجود دوسرے شیوخ) واقعی حقیقی شیوخ تھے؟ کیا وہ سند میں موجود ہر شیخ کی معرفت کو پہنچ سکتا ہے؟ ایسا کسی شخص کے لئے سوائے کشف کے طور پر جان لینے کے، ممکن نہیں ہے۔

چنانچہ اس بناء پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شیوخ کے صدق کو جاننے کے لئے ہمارے زمانےمیں رائج یہ طریقہ، درحقیقت انکی عدمِ معرفت کے اسباب میں سے ایک سبب بن چکا ہے۔ اور طریق کے اعلیٰ مقامات لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوجانے اور طریق کو بچوں کا کھیل بنادینے اور استہزاء کرنے والوں کے مقاصد کے حصول کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب بن چکا ہے۔ جیسا کہ جاننے والوں پر مخفی نہیں ہے۔

اور شیخِ ربّانی کو نہیں پہچانا جاسکتا سوائے اللہ کے ذریعے۔ تو اس بات کی وجہ یہ ہے کہ وہ (شیخِ ربّانی) اپنے موروث کے اثر پر ہوتا ہے اور موروث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ چنانچہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ربانیت کی سند سوائے اللہ کے اور کوئی نہیں، تو اسی طرح ان کے وارث شیخِ ربّانی کی سند بھی اللہ ہی ہے۔ اور اگر یہاں یہ کہا جائے کہ نبوت تو ولایت کے برخلاف، وہبی ہوتی ہے جبکہ ولایت کسبی ہوتی ہے؟ تو اس کے جواب میں ہم یہی کہیں گے کہ ہمارے نزدیک ولایت بھی اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہبی ہے۔ چنانچہ حکم کے اعتبار سے فرق نہیں ہے۔ اور واحد فرق جو ہمارے نزدیک ہے ، وہ وارث اور موروث کے حکم کا فرق ہے، کہ جس کی وجہ سے وارث پر موروث کی شرع کی اتباع لازم قرار پاتی ہے، اور وہ اس کی حدود سے تجاوز نہیں کرسکتا۔ فقط اتنی بات ہے۔

چنانچہ اس سب کے بعد، جو شخص یہ چاہے کہ وہ شیخ کے دعوے کا صدق جان سکے، تو لازم ہے کہ وہ اپنے نفس کے صدق کو پہلے اچھی طرح چھان پھٹک کر دیکھ لے ، پھر اس کے بعد اپنی پوری ہمت کے ساتھ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوجائے۔ اور اللہ جو کریم ہے، مجیب ہے، اس کو کبھی بھی اس برھان کی رہنمائی سے محروم نہیں رکھے گا کہ جس کو و وہ اللہ سبحانہ کی طرف اپنا وسیلہ بنا سکے۔ {أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ؟! وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ؟! أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ؟! قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ!} [النمل: 62] ( بلکہ وہ کون ہے جو بے قرار شخص کی دعا قبول فرماتا ہے جب وہ اسے پکارے اور تکلیف دور فرماتا ہے اور تمہیں زمین میں وارث و جانشین بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے؟ تم لوگ بہت ہی کم نصیحت قبول کرتے ہو)

{وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ} [الأحزاب: 4].

(تحریر: الشیخ سید عبدالغنی العمری الحسنی)

(اردو ترجمہ: محمود احمد غزنوی)
 
Top