مصطفیٰ زیدی شہکار کی بات

غزل قاضی

محفلین
شہکار کی بات

آج آئی ہے لب ِ سَاز پہ جھنکار کی بات
اس میں پیکار کے قصّے ہیں نہ تلوار کی بات

صرف اک گمشدہ فردوس کا افسانہ ہے
صرف اک پاس سے گذرے ہوئے کردار کی بات


تیری نظروں میں روایات کی سَلمائیں ہیں
جیسے بچوں کی بتائی ہوئی بازار کی بات

جیسے پربت کی بلندی سے زمیں کے مینار
جیسے اک حلقہء الحاد میں اوتار کی بات

ایک خاموش عبادت کی نوا میں گم ہے
جو تجھے پا نہ سکا اس کے دلِ زار کی بات

جیسے دنیا کی نگاہوں میں سماجی رشتے
جیسے مفلس کے لئے عید کے تیوہار کی بات

تیرے لہجے کی کھنک تیری نِنداسی آنکھیں
جیسے اِک ناؤ پہ اُس دیس کی اس پار کی بات

چونکتی صبح کے چہرے پہ خمارِ یک شب
چاندنی رات میں خیّام کے اشعار کی بات

یوں لپکتی ہوئی چہرے پہ حیا کی تنویر !
جیسے اقرار زدہ ہونٹوں پہ انکار کی بات

جیسے نکھرے ہوئے اشعار کی تخلیق کے وقت
ذہنِ شاعر میں خیالات کی رفتار کی بات

جس کو چُھو بھی نہ سکے کوئی سمجھ بھی نہ سکے
اتنی نازک ہے ترے رُوپ ، ترے پیار کی بات

کر سکا کون سا شیلے تری اب تک تفسیر
لکھ سکا کون سا ہومر ترے شہکار کی بات

دل کی تسکینِ جنوں ، ذہن کی پاداش بھی تھی
تو مرے واسطے دھرتی بھی تھی آکاش بھی تھی

مصطفیٰ زیدی

( روشنی )
 
Top