بہزاد لکھنوی شہِ دین خُسرو امیرِ طریقت - بہزاد لکھنوی

کاشفی

محفلین
شہِ دین خُسرو امیرِ طریقت
(بہزاد لکھنوی)
عجب ذاتِ اقدس تھی دُنیا میں اُن کی
نہیں جس کی تمثیل ممکن کہیں بھی
تھی مشہور محبُوب الہی پرستی

تھی محبُوبِ الہٰی سے ان کو محبت
شہِ دین خُسرو امیرِ طریقت


فقط ذاتِ مرشد سے تھا کام ان کو
تھا یکساں غرض ننگ اور نام ان کو
بلا پیر کے دن بھی تھا شام ان کو

غرض تھی محبت ہی ان کی حقیقت
شہِ دین خُسرو امیرِ طریقت


کیا جبکہ محبوب الہٰی نے پردہ
یہ مرشد کا عاشق بہت دور پر تھا
مگر سچ ہے دل کو تو تھا دل سے رستا

چلا سمت دہلی پہ شاہِ شریعت
شہِ دین خُسرو امیرِ طریقت


یہاں یہ وصیت تھی محبوبِ حق کی
کہ خسرو نہ آئے مری قبر پر بھی
محبت کی قوت نہ سمجھے گا کوئی

محبت سراپا ہے خسرو کی طینت
شہِ دین خُسرو امیرِ طریقت


غرض عشقِ مرشد سے سرشار خسرو
تپ عش مرشد کے بیمار خسرو
سلاسل میں غم کی گرفتار خسرو

در مرشدِ پاک پہنچے بہ عجلت
شہِ دین خُسرو امیرِ طریقت


کہا اُن سے لوگوں نے آگے نہ بڑھئے
ذرا حکم مرشد کا تو ہم سے سنئے
محبت کی موجوں میں زائد نہ بہئے

یہ سنتے ہی ٹھہرے وہ شاہِ شریعت
شہِ دین خُسرو امیرِ طریقت


ہوا ایک دریا سا آنکھوں سے جاری
گھٹا غم کی تھی ان پہ بےطرح طاری
طبیعت تھی بےپیر جینے سے عاری

جلائے تھا رگ رگ کو سوزِ محبت
شہِ دین خُسرو امیرِ طریقت


پڑھا ایک ہندی میں خسرو نے دوہا
کہ جس میں نہاں حال کل قلب کا تھا
محبت کا نغمہ تھا الفت کا قصّا

وہیں گر پڑا عاشقِ پر محبت
شہِ دین خُسرو امیرِ طریقت


جو لوگوں نے دیکھا تو خسرو کہاں تھے
جہاں پر تھے مرشد وہ پہنچے وہاں تھے
بظاہر نہاں تھے بہ باطن عیاں تھے

یہ تھا عشقِ مرشد یہی تھی محبت
شہِ دین خُسرو امیرِ طریقت


الہٰی دے دنیا کو ایسی محبت
بِلا پیر کے چین ہو اور نہ راحت
نہ حاصل خوشی ہو نہ حاصل مسرت

ہے بہزادِ مضطر یہی میری حسرت
شہِ دین خُسرو امیرِ طریقت
 
Top