مصطفیٰ زیدی شہرِ جنوں میں چل مری محرومیوں کی رات مصطفی زیدی

علی فاروقی

محفلین
شہرِ جنوں میں چل مری محرومیوں کی رات
اُس شہر میں جہاں تیرے خوں سے حنا بنے
یوں رائیگاں نہ جائے تری آہِ نیم شب
کچھ جنبشِ نسیم بنے،کچھ دعا بنے
اِس رات دن کی گردشِ بے سُود کے بجائے
کوئ عمودِ فکر کوئ زاویہ بنے
اِک سمت اِنتہاءَ اُفق سے نمود ہو
اِک گھر دیارِ دیدہ و دل سے جدا بنے
اِک داستانِ کربِ کم آموز کی جگہ
تیری ہزیمتوں سے کوئ واقعہ بنے
تو ڈھونڈنے کو جائے تڑپنے کی لذتیں
تجھ کو تلاش ہو کہ کوئ باوفا بنے
وہ سَر بہ خاک ہو تیری چوکھٹ کے سامنے
وہ مرحمت تلاش کرے تو خدا بنے
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت خوب علی فاروقی صاحب ۔ لیکن مجھے پہلا مصرع ایسے کیوں یاد ہے۔ شہرِ جنوں میں چل مری محرومیوں کی رات
 

الف عین

لائبریرین
’چل‘ سے شعر عروج پر پہنچ جاتا ہے، چل ہی ہونا چاہیے.
لیکن یہ غزل ہے یا نظم، عنوان بھی دیا گیا ہے نظم کی طرح؟
 

علی فاروقی

محفلین
جی یہ نظم ہے، میرے پاس یہ نظم دو کتابوں میں ہے، "گریباں" جس میں "شہرٰ جنوں میں جا " لکھا ہے اور "قبائے ساز "جس میں شہرٰ جنوں میں "چل" لکھا ہے۔میں نے اسے "گریباں" سے ٹائپ کیا ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
علی فاروقی صاحب! مصطفیٰ زیدی صاحب کا یہ خوبصورت کلام شریکِ محفل کرنے پر آپ کا بے حد شکریہ!

’چل‘ سے شعر عروج پر پہنچ جاتا ہے، چل ہی ہونا چاہیے.
لیکن یہ غزل ہے یا نظم، عنوان بھی دیا گیا ہے نظم کی طرح؟

اعجاز صاحب! میرے خیال میں تو نظم ہی ہے کہ اس میں غزل کے برعکس مطلع کے دونوں مصرعے ہم ردیف و ہم قافیہ بھی نہیں اور نہ ہی ہر شعر اپنی ذات میں جداگانہ طور پر مکمل معانی رکھتا ہے بلکہ تمام اشعار میں "محرومیوں کی رات" کو مخاطب کیا گیا ہے۔ ہاں اگر مطلع کے دونوں مصرعوں میں ردیف و قافیے کی پابندی برتی جاتی تو 'شاید' ہم اسے "غزلِ مسلسل" کہہ سکتے تھے۔ اور جیسا کہ آپ نے بھی فرمایا ہے کہ اس میں "عنوان" بھی دیا گیا ہے جو غماز ہے کہ شاعر نے بھی اسے بطور "نظم" ہی لکھا ہے۔
بہرحال یہ محض مجھ جاہل کی رائے ہے۔
 

غزل قاضی

محفلین
شہرِ جُنوں میں چل مری محرُومیوں کی رات
اُس شہر میں جہاں تیرے خُوں سے حنا بنے

یُوں رائیگاں نہ جائے تِری آہِ نیم شب
کچھ جُنبشِ نسیم بنے کچھ دُعا بنے

اِس رات دن کی گردشِ بے سُود کے عوض
کوئی عُمودِ فکر ، کوئی زاویہ بنے

اِک سَمت اِنتہائے اُفق سے نُمود ہو
اِک گھر دَیارِ دیدہ و دل سے جُدا بنے

اِک داستانِ کربِ کم آموز کی جگہ
تیری ہزیمتوں سے کوئی واقعہ بنے

تو ڈُھونڈنے کو جائے تڑپنے کی لذتیں
تجھ کو تلاش ہو کہ کوئی باوفا بنے

وُہ سَر بہ خاک ہو تِری چوکھٹ کے سامنے
وُہ مرحمت تلاش کرے تو خُدا بنے

مصطفیٰ زیدی

از قبائے ساز
 

فرخ منظور

لائبریرین
شہرِ جنوں میں چل
شہرِ جُنوں میں چل مری محرُومیوں کی رات
اُس شہر میں جہاں ترے خُوں سے حنا بنے


یُوں رائیگاں نہ جائے تِری آہِ نیم شب
کچھ جُنبشِ نسیم بنے کچھ دُعا بنے


اِس رات دن کی گردشِ بے سُود کے عوض
کوئی عُمودِ فکر ، کوئی زاویہ بنے


اِک سَمت اِنتہائے اُفق سے نُمود ہو
اِک گھر دَیارِ دیدہ و دل سے جُدا بنے


اِک داستانِ کربِ کم آموز کی جگہ
تیری ہزیمتوں سے کوئی واقعہ بنے


تو ڈُھونڈنے کو جائے تڑپنے کی لذتیں
تجھ کو تلاش ہو کہ کوئی بے وفا بنے


وُہ سَر بہ خاک ہو تِری چوکھٹ کے سامنے
وُہ مرحمت تلاش کرے تو خُدا بنے


مصطفیٰ زیدی

از قبائے ساز
 
Top