امجد اسلام امجد شکست ِ انا

عیشل

محفلین
آج کی رات بہت سرد بہت کالی ہے
تیرگی ایسے لپٹتی ہے ہوائے غم سے
اپنے بچھڑے ہوئے ساجن سے ملی ہے جیسے
مشعلِ خواب کچھ اس بجھی ہے جیسے
درد نے جاگتی آنکھوں کی چمک کھا لی ہے
شوق کا نام نہ خواہش کا نشاں ہے کوئی
برف کی سِل نے مرے دل کی جگہ پا لی ہے
اب دھندلکے بھی نہیں زینت ِ چشمِ بے خواب
آس کا روپ محل،دست تہی ہے جیسے!
بحر ِ امکان پہ کائی سی جمی ہے جیسے!
ایسے لگتا ہے کہ جیسے میرا معمورہ ء جاں
کسی سیلاب زدہ گھر کی زبوں حالی ہے۔
نہ کوئی دوست نہ تارہ کہ جسے بتلاؤں !
اس طرح ٹوٹ کے بکھرا ہے انَا کا شیشہ
نبض تاروں کی ڈوب رہی ہے جیسے
غم کی پہنائی سمندر سے بڑی ہے جیسے
آنکھ صحراؤں کے دامن کی طرح خالی ہے
دشتِ جاں کی طرف دیکھ کے یوں لگتا ہے
موت اس طرح کے جینے سے بھلی ہے جیسے
تیرگی چھٹنے لگی،وقت رگے گا کیوں کر
صبح ِ خورشید لیئے در پہ کھڑی ہے جیسے
داغِ رسوائی چھپانے سے نہیں چھپ سکتا
یہ تو یوں ہے کہ جبیں بول رہی ہے جیسے
(امجد اسلام امجد)​
 
Top