آتش شوقِ وصلت میں ہے شغلِ اشک افشانی مجھے - خواجہ حیدر علی آتش

حسان خان

لائبریرین
شوقِ وصلت میں ہے شغلِ اشک افشانی مجھے
ہجر میں کرنا پڑا آخر لہو پانی مجھے
یاد میں آئینۂ رخ کے ہے حیرانی مجھے
زلف کے سودے میں رہتی ہے پریشانی مجھے
تنگ کرتا ہے گریباں کٹنے لگتا ہے گلا
موسمِ گل کی جو یاد آتی ہے عریانی مجھے
ہوں وہ دیوانہ کہ اپنا نام رٹنے کے لیے
اک پری نے دی ہے تسبیحِ سلیمانی مجھے
ایک حرف اُس کی عبارت کا پڑھا جاتا نہیں
لکھ دیا کس خط میں ہے یہ خطِ پیشانی مجھے
چشمہ ہائے چشم میں گریے سے ہے دریا کا جوش
غوطے کھلواتا ہے سیلِ اشک کا پانی مجھے
خواب سے بیدار وہ خورشید رو آ کر کرے
ایسی اے آنکھو دکھاؤ صبحِ نورانی مجھے
ذبح ہی کرتے گلے لگنے جو دیتی تھی نہ شرم
عیدِ قرباں تھی سمجھتے آپ قربانی مجھے
عشق میرا مہرباں ہے حُسن بندہ یار کا
آئینہ سا رخ ملا ہے اُن کو حیرانی مجھے
بوسہ لیتا ہوں دہانِ ناپدیدِ یار کے
آشکارا ہو گیا ہے کنجِ پنہانی مجھے
کون سے گلشن میں بلبل چہچہے کرتا نہیں
یار کے کوچے میں زیبا ہے غزل خوانی مجھے
ساقیانِ ماہ پیکر پر کیا کرتا ہوں حکم
میکدے میں عالمِ مستی ہے سلطانی مجھے
خشک رہتا ہے بہت شوقِ شہادت سے گلا
ہو سکے تو ہمدمو خنجر کا دو پانی مجھے
خاک میں ملوا رہا سودائے زلفِ یار ہے
مثلِ گردِ راہ رہتی ہے پریشانی مجھے
اے خیالِ یار کرتا ہوں ریاضت سے صفا
خانۂ دل میں ہے کرنی تیری مہمانی مجھے
حسن کے جلوے سے اُس رخ کا اشارہ ہے یہی
کافری زلفوں کو زیبا ہے مسلمانی مجھے
شہرِ خوباں میں نہیں آتش مروت کا رواج
تشنہ لب مر جاؤں تو ممکن نہ ہو پانی مجھے
(خواجہ حیدر علی آتش)
 

طارق شاہ

محفلین
ایک حرف اُس کی عبارت کا پڑھا جاتا نہیں
لکھ دیا کِس خط میں ہے یہ خطِ ّ پیشانی مجھے
شہرِ خُوباں میں نہیں آتش مُروّت کا رِواج
تشنہ لب مرجاؤں تو ممکن نہ ہو پانی مجھے

کیا کہنے
بہت خوب انتخاب
تشکّر شیئر کرنے پر
بہت خوش رہیں
 
شہرِ خوباں میں نہیں آتش مروت کا رواج​
تشنہ لب مر جاؤں تو ممکن نہ ہو پانی مجھے
واہ واہ مکمل غزل ہی خوبصورت ہے مگر مقطع کا تو جواب نہیں ۔
جیتے رہیں بیٹا آباد رہیں :)
 
Top