شوبی نامہ

شوبی نامہ

(کچھ باتیں کچھ یادیں)

1۔اصلاح ِ معاشرہ کا درست طریقہ

جب کوئی فرد اصلاح ِ معاشرہ کی بات کرتا ہے تو اس کی عقل و شعور اُسے یہ احساس دلاتے ہیں کہ اصلاح کا عمل پہلے اپنی ذات سے شروع کیا جائے۔ افرادِ معاشرہ کی اصلاح کے لیے زبانی دعوے اور نصیحتیں کارگر نہیں ہوتیں بلکہ اس کے لیے انسان کو سراپا اخلاق اور مہرومروّت بن کر رہنا پڑتا ہے۔

حضرت امام جعفر صادق رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’لوگوں کے معلّم اور ہدایت کنندہ بنو! زبان سے نہیں ، بلکہ اپنے اعمال، رفتار اور کردار سے۔‘‘

اسلام دین و دنیا کی وحدت اور ہمہ گیر توازن کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات میں ایسی کوئی چیز موجود نہیں جو علم اور عقل کے معیار پر پوری نہ اُترتی ہو۔ اسلام کے نزدیک ہر نفس اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے اور بہترین شخص وہ ہے جو دوسروں کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو۔ اسلام نے باہمی تعلّقات اور معاشرے کی اصلاح و سدھار کے لیے حقوق و فرائض کے جو دائرے متعین کیے ہیں ان کی بنیاد احسان اور حسن ِ سلوک پر رکھی گئی ہے تاکہ معاشرے میں زبانی نصیحت و وعظ کے بجائے عملی طور پر لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر اپنے احوال کی اصلاح کریں۔

اسلام ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ پیار و محبت، ایثار و قربانی اور عزت و احترام کا دائرہ ہم محض مسلمانوں تک محدود نہ رکھیں بلکہ تمام انسانوں کے علاوہ حیوانات اور ہر ذی حیات کو اس سے راحت و آرام پہنچائیں۔ یہی اسلام کا مقصدِ عظیم ہے۔

٭۔ ۔ ۔ ٭
roohani_cover.jpg

روحانی ڈائجسٹ جنوری 2008ء کا سرورق
essay.jpg

مضمون کا عکس

نوٹ: میرا مندرجہ بالامضمون روحانی ڈائجسٹ کے جنوری 2008 عیسوی کے تازہ شمارے میں شائع ہوا ہے۔ اس مضمون کا عکس اور روحانی ڈائجسٹ کے سرورق کا عکس بھی پوسٹ کر رہا ہوں!
٭۔ ۔ ۔ ٭

 
بہت شکریا! ۔۔۔۔۔۔محفل میں ایک سے بڑھ کر ایک لکھاری موجود ہے۔ بہت سی تحریریں ہیں جو لکھ رکھی ہیں۔ مگر میں کبھی اپنی تحریر سے مطمئن نہیں ہو پاتا ہوں۔ اسی لیے یہاں کبھی پوسٹ ہی نہیں کی۔ اب انشاءاللہ چیدہ چیدہ تحریریں یہاں پوسٹ کرتا رہا کروں گا!​
 

جیہ

لائبریرین
نہیں واقعی آپ بہت اچھا لکھتے ہیں ، لکھتے رہیں اور یہاں ضرور شئیر کریں
 

شمشاد

لائبریرین
شعیب بھائی آپ تو کسرِ نفسی سےکام لے رہے ہیں۔ بھائی آپ نے بہت اچھا لکھا ہے۔ اپنی اور بھی تحریریں یہاں شیئر کریں۔
 
آپ سب کا بہت بہت شکریا کہ آپ نے میری حوصلہ افزائی کی۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو خوش رکھے۔ اب انشاءاللہ یہاں کچھ نہ کچھ لکھتا رہا کروں گا!
 
2۔ امتحانات

exams.gif


امتحانات کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بیک وقت کئی طالبعلموں کے درمیان اُس شخص کو تلاش کیا جائے جو معلومات اور علمیت کے لحاظ سے باقیوں پر فوقیت رکھتا ہو۔ بعض لوگوں کے نزدیک ایسا نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ امتحانات کے ذریعے طالبعلموں کو Depression کا مریض بنایا جاتا ہے تاکہ مُلک کے ماہرین ِ نفسیات کے گھروں کے چولہے جل سکیں۔

٭ امتحانات کے نزدیک مساجد کی رونق دوبارہ لوٹ آتی ہے۔ بعض نمازیوں کے مطابق اِس سے زیادہ رونق ماہِ رمضان میں ہوتی ہے۔


٭ امتحانات کا ایک عمومی فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جو کتابیں سال بھر فالتو پڑی مٹّی کھاتی ہیں، اُن کی صفائی ہو جاتی ہے۔ طالب علم اُنھیں نا صرف صاف کرتے ہیں بلکہ اُن سے مستفید بھی ہوتے ہیں۔


٭ امتحانات کے دنوں میں بُک شاپس میں بڑی رونق دیکھنے میں آتی ہے۔ گیس پیپرز کی مانگ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ پانچ سالہ پرچہ جات اور دیگر امدادی کُتب کی طلب بھی بڑھ جاتی ہے۔


٭ امتحانات کے نزدیک لوگوں کے گھروں کے بجلی کے بِلز زیادہ آنا شروع ہو جاتے ہیں۔اس کی وجہ بچوں کا رات دیر تک ’’پڑھنا‘‘ بتائی جاتی ہے۔


٭ ماہرین کے مطابق امتحانات کے نزدیک ہر طالب علم کو ایک عدد طوطا پال لینا چاہئے۔ پھر جس طرح وہ رَٹے ، طالب علم بھی رَٹنا شروع کر دے۔ اللہ نے چاہا تو وہ ضرور کامیاب ہو گا!
٭۔ ۔ ۔ ٭
 

شمشاد

لائبریرین
شعیب بھائی آپ ذرا اپنی پتہ وغیرہ بتا دیں بمعہ فون نمبر کے، تاکہ جب آپ نہ آئیں تو آپ کو فوراً پکڑ کر محفل میں لایا جا سکے۔:)
 

جیہ

لائبریرین
یہ ہوئی نا بات۔۔۔۔ بہت اچھی اور شگفتہ تحریر ہے اور ثبوت ہے شگفتہ کا داد دینا;)
 
شش۔ ۔ ۔ ش۔ ۔ ۔ کوئی ہے!!!

3. شش۔ ۔ ۔ ش۔ ۔ ۔ کوئی ہے!!!

بَلا کی سرداور گھُپ اندھیری رات تھی۔بارش کی بوندیں رہ رہ کر گِر رہی تھیں۔ شہر کے ایک مکان میں احتشام صاحب کتاب پڑھنے میں مصروف تھے۔ ان کی بیگم کڑھائی بھی کرتی جاتی تھیں اور ان سے باتیں بھی کر رہی تھیں۔ وہ صرف ’’ہاں‘‘ ، ’’ہوں‘‘ سے بیگم کے سوالوں کا جواب دے رہے تھے۔

عین اُسی لمحے دروازے پر دستک ہوئی۔ ۔ ۔ رات کا وقت اور دروازے پر دستک؟۔ ۔ ۔ بیگم احتشام کو ایک دَم یاد آیا۔ ۔ ۔ ’’ہاں! بالکل ایسی ہی کالی اور بھیانک رات تھی اور دروازے پر ایسی ہی دستک ہوئی تھی۔ ان کا اکلوتا بیٹا فخر دروازہ کھولنے گیا تھا۔ دروازہ کھولتے ہی اس نے نجانے کیا دیکھا تھا کہ چیخ مار کر وہیں گِر پڑا تھا۔ میاں بیوی دونوں دوڑے دوڑے دروازے کی جانب لپکے تھے۔ لیکن انھوں نے جو منظر دیکھا‘‘۔ ۔ ۔ یہ سوچتے ہی بیگم احتشام کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ ’’ہائے!کس قدر خوفناک منظر تھا!۔ ۔ ۔ فخر ،ان کا اکلوتا اور عزیز بیٹا۔ ۔ ۔ غائب تھا۔ ۔ ۔ خون کے جابجا نشانات فرش کو سرخ کر رہے تھے۔‘‘

’’نہیں!!!۔ ۔ ۔ ‘‘بیگم احتشام چلائیں۔

احتشام صاحب چونک کر اُٹھے اور بیگم کو دِلاسا دینے لگے۔عین اُسی لمحے دروازے پر ایک اور دستک ہوئی۔دونوں میاں بیوی سہم کر رہ گئے۔

’’دیکھیں کوئی دروازے پر ہے!‘‘بیگم احتشام بولیں۔

’’ارے نہیں!کوئی چوہا ہے!‘‘احتشام صاحب ڈرتے ہوئے بولے۔

’’فخر ۔ ۔ ۔ مم۔ ۔ ۔ میرا بیٹا!‘‘بیگم احتشام بڑبڑائیں۔پھر اپنے شوہر سے مخاطب ہوکر بولیں:’’یہ فخر ہے!میرا دل کہتا ہے یہ فخر ہے!‘‘

’’خدا کے واسطے اسے اندر نہ آنے دینا۔‘‘احتشام صاحب خوف سے چلائے۔

’’اب آپ اپنے بچّے سے ڈرتے ہیں؟‘‘بیگم بولیں۔

پھر وہ اُٹھیں اور دروازے کی جانب بڑھیں۔دروازے پر ایک اور زوردار دستک ہوئی۔بیگم احتشام پہلے پہل تو گھبرائیں مگر پھرہمّت کرتے ہوئے بولیں۔

’’میں آرہی ہوں فخر بیٹا۔ ۔ ۔ میں آرہی ہوں!‘‘

احتشام صاحب نے روکنے کی کوشش کی اور بولے:’’دیکھو!پچھلی بارجب ایسی دستک ہوئی تھی تو ہمارا فخر ہم سے جُدا ہو گیا تھا۔اس بار بھی کوئی خطرناک بات ہوگی۔‘‘

مگر وہ نہ مانیں اور تیزی سے دروازے کی جانب لپکیں۔دروازے کے پاس چونکہ بلب خراب تھا، اس لیے وہاں اندھیرا چھایا ہوا تھا۔دروازے کی کنڈی لگی ہوئی تھی۔انھوں نے ٹٹول ٹٹول کر تلاش کی۔کنڈی کچھ سخت تھی،ان سے کھل نہ سکی۔

اتنے میں احتشام صاحب دوڑ کر دروازے کی طرف بھاگے اور بیگم کا ہاتھ کنڈی سے کھینچ کر ہٹا دیا۔بیگم نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی،مگر کامیاب نہ ہوسکیں۔

احتشام صاحب بولے:’’آخر تم دوسری بار کیوں اپنا نقصان کروانا چاہتی ہو؟‘‘

بیگم نے احتشام صاحب کو دھکا دے کر ہاتھ چھڑا لیا اور کنڈی کو بجلی کی سی تیزی سے زور دے کر کھول دیا۔احتشام صاحب دھکا کھا کر دیوار سے ٹکرائے۔ان کا سر چکرانے لگا۔مگر وہ ہمّت کر کے اُٹھے اور دروازے کی جانب چھوٹے چھوٹے قدموں کے ساتھ بڑھنے لگے۔مگر ان کی بیگم دروازہ کھول چکی تھیں۔

باہر دو آدمی کھڑے تھے۔اندھیرے کی وجہ سے ان کی شکلیں واضح نظر نہ آتی تھیں۔ایک کے ہاتھ میں شاید بریف کیس تھا۔بیگم احتشام بولیں:’’کون؟!!!‘‘

بریف کیس والے نے جواب دیا۔’’جی ہم نیب کی طرف سے آئے ہیں،احتشام صاحب کو بلادیجئے!‘‘

بیگم احتشام کے لیے بس اتنا سننا ہی کافی تھا۔انھوں نے پلٹ کر شوہر کی طرف دیکھا۔احتشام صاحب اپنے سر کی چوٹ تو برداشت کر گئے تھے،مگر اس بات کا صدمہ برداشت نہ کر سکے تھے اور زمین پر بے ہوش گرے ہوئے تھے۔
٭۔ ۔ ۔ ٭​
 
4. مسکرانا زندگی ہے!

مسکراہٹ زندگی کا اور زندہ رہنے کے احساس کا دوسرا نام ہے۔ ۔ ۔ لہٰذا ہنسیں اور خوب مسکرائیے!۔ ۔ ۔ زندگی کے مسائل سے نظریں چرانے کی بجائے انھیں ہنستے ہوئے خوشدلی کے ساتھ حل کریں!

مسکرانا زندگی ہے اور مسکراتے چہرے زندگی کی علامت ہیں۔ ۔ ۔ اس لیے زندگی کو خوشدلی اور زندہ دلی کے ساتھ گزاریں ۔ ۔ ۔ ہر حال میں خوش رہیں۔ ۔ ۔ آپ خود محسوس کریںگے کہ زندگی کی رنگینیوں میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ ۔ ۔ مسائل کو اپنے اوپر طاری کرنے کی بجائے مسکراتے ہوئے سامنا کریں۔ ۔ ۔ زندگی خود بخود سہل محسوس ہونے لگے گی۔

اور جب آپ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اپنی مسکراہٹ سے جینے کا حوصلہ بخشے گے تو پھر اس سے بڑھ کر عبادت اور کیا ہوگی؟۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کے بندوں کو راحت اور سکون پہنچاتے ہیں۔

زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں؟
[FONT=Nafees Web Naskh, Tahoma]٭۔ ۔ ۔ ٭[/FONT]
 
5. ایک مسافر شاعر

کراچی شہر میں بس کا سفر یقینا ایک الگ ہی تجربہ ہوتا ہے۔جس میں انسان کے کئی رُوپ سامنے آتے ہیں ۔بس کے سفر میں بعض اوقات ایسے انوکھے اور دلچسپ واقعات پیش آتے ہیں جو مسافروں کے لئے خوشگوار یاد اور ناقابل فراموش بن جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ ڈان اخبار میں شائع ہوا جیسے ’’اے۔ قاضی شکور‘‘ نے انگریزی میں تحریر کیاہے۔ اس واقعے کا خلاصہ ترجمہ کی صورت میں یہاں پیش کرہا ہوں۔

minibus.JPG


بس میں سفر کے دوران کسی اسٹاپ سے ایک شخص سوار ہوا۔ بس چونکہ بھری ہوئی تھی۔ لہٰذا وہ بڑی مشکل سے آگے بڑھتا ہوا بالآخر جالی یا (گِرل) تک پہنچ گیا، جو لیڈیز پورشن کے پارٹیشن کے لئے لگی ہوتی ہے۔ وہ شخص کچھ دیر اپنی چڑھی ہوئی سانسوں پر قابو پانے کی کوشش کرتا رہا۔پہلی نظر میں وہ کوئی بھکاری ہی محسوس ہوا۔ مگر جب اس نے نہایت خوش الحانی سے اپنی ’’مدّعا ‘‘ سنائی تو مسافروں پر اس کا کیا ’’اثر ‘‘ ہوا؟۔ ۔ ۔ یہ آپ کو بعد میں پتا چلے گا!۔ ۔ ۔ پہلے آپ اس اجنبی شخص کی ’’منظوم مدّعا ‘‘ ملاحظہ فرمائیں!۔ ۔ ۔

اچھا تو بھائی جان، قدردان، مہربان!
اب دل پر ہاتھ رکھ کے سنیں میری داستان!
کرتے ہیں آپ بس میں سفر روز، صبح و شام
بس یونہی چل رہا ہے اس شہر کا نظام
ملتے ہیں بس میں آپ کو ہاکر نئے نئے
سنتے ہیں آپ روز ہی لیکچر نئے نئے
کپڑوں پر کوئی آپ کے خوشبو لگائے گا
بسکٹ دکھائے گا، کوئی ٹافی کھلائے گا
یا کچھ ملیں گے آپ کو محتاج اور فقیر
جو خود بھی تھے کبھی بڑے خوش حال اور امیر
ایک حادثہ ہوا تو وہ معذور ہوگئے
خیرات مانگنے پہ وہ مجبور ہوگئے
لیکن نہیں ہوں میں کوئی محتاج یا فقیر
ہوں خود کفیل خیر سے، ایک مردِ باضمیر
جیبوں سے پیسے کھینچنے آیا نہیں ہوں میں
کچھ مانگنے یا بیچنے آیا نہیں ہوں میں
دراَصل بات یہ ہے کہ شاعر ہے خاکسار
لیکن ہوں بدنصیب، نہیں کوئی میرا یار
ٹی وی سے، ریڈیو سے، محافل سے دُور دُور
راہی کی طرح جوکہ ہو منزل سے دُور دُور
دیوار ودَر کو گھر میں سناتا ہوں میں کلام
بس آپ سے ہے عرض میری کیجئے یہ کام
سو کے قریب آدمی موجود ہیں یہاں
بس میں مشاعرے کا بندھے اگر سماں
سن لیجئے غزل میری، احسان کیجئے!
اور بھیک میں غریب کو کچھ داد دیجئے!

’’ مسافر شاعر‘‘ کی مدّعا سن کرسوائے ان مسافروں کے جو بیچارے بس کی چھت میں سوار تھے ، بس کے تمام مسافراس کے ’’فن‘‘ کے قائل ہوگئے اورانھوں نے ’’مسافر شاعر‘‘ کو بھرپور داد دیتے ہوئے اس کی ’’تازہ غزل ‘‘ سننے پر آمادگی ظاہر کردی۔ ۔ ۔ !
[FONT=Nafees Web Naskh, Tahoma]٭۔ ۔ ۔ ٭[/FONT]​
 
Top