شنگرف: محبت کی ایک نثری نظم (28 سال قبل لکھی درجہ دہم کی الواداعی تقریب میں سنانے کے لیے)

شنگرف

چاندنی رات میں دیکھا ہوا اک خواب ہو تم،
یا فقط خواب ہو تم،
شب کے سینے پہ چمکتا ہوا اختر جیسے،
ہجر کے دل میں ترازو کوئی میرؔ کا نشتر جیسے،
نیل کے ساحل پہ خوابیدہ کہیں ایک غزال،
شعلہ فارس میں سلگتا ہوا رومیؔ کا خیال،
درد کے ساز پہ چھیڑی ہوئی غالبؔ کی غزل،
شیشہِ جم سے تراشا ہوا اک تاج محل،
روپ کی مانگ میں جلتا ہوا شنگرف کا چراغ،
مے کے نور سے مخمور کوئی تبریزی ایاغ،
حیا کی زلف میں الجھا ہوا اک نیل کنول،
حسن محبوب میں کھویا ہوا خیام ؔکا دل،
آتش طور کے سینے میں دھڑکتا ہوا یزداں کا جمال،
ازل کی پیاس میں ترسے ہوئے ساگر کا سوال،
ساز ہستی ہی نہیں سوز جگر بھی تم ہو،
خامہِ شاعر کا لہو اور فکر بھی تم ہو،
حسرت دل کا تمہیں تریاق کہوں تو کیسے،
میری ہر سانس میں شوریدہ زہر بھی تم ہو،
غیرت محفل ہے بہت ہاتھ بڑھاؤں کیسے،
خمُ و ساغر پہ میرا نام نہیں،
خمُ و ساغر میں اٹھاؤں کیسے،
کتنا مجبور ہوں میں کتنی مجبور ہو تم،
ہاں بہت دور بہت دور ہو تم،
اس قدر دور کہ بس وعدہِ حور ہو تم،
غمِ دوراں میں پگھلتی ہوئی یادوں کی طرح،
مرے جذبات کا گم بستہ کوئی باب ہو تم،
چاندنی رات میں دیکھا ہوا اک خواب نہیں،
نقش بر آب ہو تم،
اب فقط خواب ہو تم،

عاصمؔ شمس
 
Top