شمعِ رسالت - عزیز لکھنوی (نعتیہ قصیدہ)

حسان خان

لائبریرین
آراستگیِ عروسِ مضامین بہ مدحتِ رحمۃ اللعالمین المخاطب بہ طہ و یسین

اگر دیدار کا ہو شوق کہہ دو جا کے موسیٰ سے
لڑائیں کچھ دنوں آنکھیں کسی محوِ تماشا سے

خرامِ ناز نے کس کے یہ کی مشقِ مسیحائی
صدا آتی ہے کانوں میں لبِ نقشِ کفِ پا سے

ہماری خاک کے ذرے بہت بیتاب رہتے ہیں
قیامت ہے لگانا دل کسی خورشید سیما سے

کوئی یوسف لقا جب سے کہ آنکھوں میں سمایا ہے
اچٹ جاتی ہے نیند افسانۂ خوابِ زلیخا سے

ہوئی ہے کس قدر گستاخ اے گردِ نظر تو بھی
لپٹتی ہے جو دامانِ نقابِ روئے زیبا سے

ارادہ ہے کہ چل کر جلوہ گاہِ نازِ جاناں میں
ملے تو صبر لوں قرض اب کسی محوِ تماشا سے

کھٹکتے کب نہیں اے دوست دشمن کی نگاہوں میں
وہ تن جو ہو گئے ہیں سوکھ کر فرقت میں کانٹا سے

مطلع

لڑائے ذرہ ذرہ کیوں نہ آنکھ آہوئے صحرا سے
کہ ابلی پڑتی ہے شوخی کسی نقشِ کفِ پا سے

خیالِ جنبشِ مژگانِ لیلیٰ ہے جو صحرا میں
چلا جاتا نہیں کانٹوں پہ قیسِ برہنہ پا سے

اُسی کو ڈھونڈتا ہے جلوہ گاہِ ناز ہے جس کا
میں عاجز آ گیا ہوں اب تو دل کے جوشِ سودا سے

وہ آئیں یا نہ آئیں شوق نے کی خانہ آرائی
ہوئی گلکاریِ دل خونِ ارمان و تمنا سے

غبار اس کا ابھی تک ڈھونڈتا پھرتا ہے لیلیٰ کو
الٰہی کیا تعلق تھا دلِ مجنوں کو لیلیٰ سے

وہ محوِ بے خودی تھے دیکھتے کچھ ہوش ہی کب تھا
عبث ہے پرسشِ اندازِ حسنِ یار موسیٰ سے

بہار آنے پہ جب کوئی کلی کھلتی ہے لالے کی
شکستِ قلبِ مجنوں کی صدا آتی ہے صحرا سے

جمالِ شاہدِ وحدت نے باندھی ہے ہوا ایسی
اُڑا جاتا ہے دل بن بن کے ہر اک ذرہ صحرا سے

ہے حسن و عشق میں اک اتحادِ معنوی باہم
برآمد دونوں یہ گوہر ہوئے ہیں ایک دریا سے

بظاہر عشق ہے سرگشتۂ صحرائے بیتابی
بباطن یہ نہیں لیکن جدا حسنِ خود آرا سے

ادھر ہے شوخیوں سے حسن کو شوقِ حنابندی
اُدھر رنگینیاں ہیں عشق کی خونِ تمنا سے

قیامت کی کشش رہتی ہے حسن و عشق میں باہم
اک آفت کا تعلق عشق کو ہے حسنِ زیبا سے

شبِ معراج کس خلوت میں محبوبِ خدا پہونچے
یہ جذبِ عشق تھا جس نے ملایا حسنِ یکتا سے

حبیبِ کبریا جب پردۂ اسرار تک پہونچے
جدائی دو کماں یا کم کی تھی کچھ حق تعالیٰ سے

نثار اس جذبۂ بے اختیارِ شوق پر ہر دل
پلٹ کر ایک دم میں آ گئے ہیں عرشِ اعلا سے

محمد رحمۃ اللعالمیں سرحلقۂ فطرت
محلّیٰ جو ہوئے ہیں خلعتِ یٰسین و طہٰ سے

اگر دریا دلی سے دیں یہ قوت ناتوانوں کو
عمودِ آسماں بن جائیں موجیں اٹھ کے دریا سے

تمازت سے اگر خشکی میں ہو تکلیف زائر کو
چھپا دے مہر کو اک ایک ذرہ اٹھ کے صحرا سے

مثالِ ہوش رنگِ چہرۂ تصویر اڑ جائے
بیاں ہو ایک شمہ گر نہیبِ روئے زیبا سے

اگر لے سبحۂ تزویر کوئی عہد میں اِن کے
جکڑ لے ہتکڑی بن کر وہ فوراً حکمِ مولا سے

کریں حکمِ سکوں جس دم رواں سیالِ فطری پر
نہ جنبش ہو قیامت تک کبھی پانی کو دریا سے

زر افشانی کبھی حضرت نے کی ہو گی مگر اب تک
نکل سکتی ہے چاندی ذرہ ہائے ریگِ صحرا سے

لکھے کوئی ستم تو سیم کی صورت کرے پیدا
لکھیں عسرت تو عشرت ہو نمایاں فیضِ مولا سے

چمک تاروں میں خورشید و قمر میں روشنی آئی
یہ پہونچا فیضِ طلعت آپ کے رخسارِ زیبا سے

سخاوت پر جو دستِ فیض گستر ان کا مائل ہو
طلا معدن سے نکلے گنجِ گوہر قعرِ دریا سے

نہ ہوتی آفرینش آپ کی مقصود اگر مولا
قیامت تک نہ پیدا کوئی ہوتا بطنِ حوا سے

نہ رہتا بدر کو کاہیدگی کا خوف ہی بالکل
جو کرتا اکتسابِ نور حضرت کے کفِ پا سے

خلیق ایسے کہ سب اصحاب کو اپنا سمجھتے تھے
ٹپکتی ہے محبت فقرۂ سلمان منّا سے

جب اِن کے جسم کا سایہ امیر المومنیں خود تھے
زمیں پر کس طرح پھر سایہ پڑتا جسمِ والا سے

غبارِ راہِ حضرت ناز سے اٹھ اٹھ کے کہتا ہے
مجھے نسبت نہیں گلگونۂ رخسارِ حوا سے

گدائے آستانِ شاہ کو قدرت یہ حاصل ہے
بنائے کاسۂ دریوزگی اکلیلِ دارا سے

نبوت پر دلیلِ روشن و برہانِ قاطع ہے
قمر جو ہو گیا شق جنبشِ انگشتِ مولا سے

جو انکا فیضِ ہمت زور بخشے خاکساروں کو
ستونِ چرخ بن جائیں بگولے اٹھ کے صحرا سے

ابھی ہو رُوکشِ آئینۂ خورشید ہر ذرہ
اگر حضرت بڑھا دیں مرتبہ ادنیٰ کا اعلیٰ سے

زمیں کو آپ کی تعظیم کی اس درجہ عادت تھی
بگولے سرو قد اٹھتے ہیں اب تک خاکِ صحرا سے

عزیزِ نکتہ سنج آخر کہاں تک بذلہ گفتاری
سن آوازِ قبول آتی ہے عرشِ حق تعالیٰ سے

بہ حسنِ فکر معشوقِ دعا کو دے وہ آرایش
اثر جاتے ہی لپٹا لے گلے شوق و تمنا سے

جہاں میں ہے جہاں تک ربط حسن و عشق کو باہم
تعلق روحِ وامق کو رہے جب تک کہ عذرا سے

رہے طاقت ربا جب تک اشارہ چشمِ دلبر کا
رہے بے چین روحِ قیس جب تک نامِ لیلیٰ سے

رہے اسلام روشن دہر میں خورشید کی صورت
الٰہی تیرگی ہو کفر کی نابود دنیا سے

(عزیز لکھنوی)
 
آخری تدوین:
Top