شفیق خلش شفیق خلش ::::: دُکھ کہاں مجھ کو کہ غم تیرا سزا دیتا ہے ::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین




غزل

دُکھ کہاں مجھ کو کہ غم تیرا سزا دیتا ہے
ہاں مگر اِس کا، کہ سب حال بتا دیتا ہے

دِن گُزارے ہیں سَرِ چاکِ زمانہ، لیکن
یہ بھی ہر شام وہی شکل بنا دیتا ہے

رات ہوتے ہی کوئی یاد کا خوش کُن لمحہ !
نیند آنکھوں سے، سُکوں دِل سے مِٹا دیتا ہے

ذہن بے خوابئ آنکھوں کا سہارا پا کر
کیا نہ منظر کہ نِگاہوں میں سجا دیتا ہے

صُبْح پھر شمعۂ دِل سارے سہارے کھوکر
وصلِ موہُوم کی لَو حد سے گھٹا دیتا ہے

سانس رُک رُک کے چلے جب، تو ہو احساس کہ اب
دِل اجَل کو مِری، آنے کی نوا دیتا ہے

اب تو اُٹھنے کی غمِ ہجر سے سوچے پہ خلش
ضعفِ دِل اور بھی بستر سے لگا دیتا ہے

شفیق خلش


 
Top