مصطفیٰ زیدی شطرنج

غزل قاضی

محفلین
عزیز دوست مرے ذہن کے اندھیرے میں
ترے خیال کے دیپک بھٹک رہے ہیں ابھی

کہاں سے ہو کے کہاں تک حیات آ پہنچی
اداس پلکوں پہ تارے چھلک رہے ہیں ابھی


ترے جمال کو احساسِ درد ہو کہ نہ ہو
بجھے پڑے ہیں ترانے ستار زخمی ہیں

حیات سوگ میں ہے بےزبان دل کیطرح
کہ نوجوان امنگوں کے ھَار زخمی ہیں

مرے رفیق ! مرے رازداں ! مرے ساتھی
میں تیرے ذہن پہ تجھ کو دعائیں دیتا ہوں

تجھے یہ رقصِ مسلسل کا دور راس آئے
تری نگاہ میں گاتا رہے یونہی اَفسوں

مرے شعور کی اس خامکار دنیا نے
خرد کی چال کو دل کی پکار سمجھا تھا

یہ مری اپنی خطا تھی کہ بزمِ ہستی میں
مرا خلوص سیاست کو پیار سمجھا تھا

ترا دماغ سلامت رہے کہ اس کے عوض
تِرے حضور میں کُل کائنات ہے ساتھی

ابھی جو کَل مرے دکھ درد کا مداوا تھی!
وہ آج تیری شریک ِ حیات ہے ساتھی

( مصطفیٰ زیدی از روشنی )
 
Top