صفحہ 130
میں نہ آتا تھا کہ آخر خواہ مخواہ اس طرح بیرسٹر صاحب کو دوڑانے سے کیا فائدہ۔ کوئی خاص دلچسپی نہ آتی تھی۔ مگر چاندنی کا ان معاملات میں ہم سب لوگوں سے زیادہ دماغ کام کرتا تھا۔ حامد کے ملنے والے ایک دوست سب انسپکٹر پولیس تھے جو سول لائن کے تھانے میں افسر تھے۔ ان سے ہم سے محض سرسری ملاقات تھی۔ ہماری بیوی نے حامد صاحب سے کہکر ان سے ملاقات کی تمنا ظاہر کی اور ان کو ایک روز چائے پر مدعو کیا۔ ان کو اس راز سے آگاہ کر کے جو تجویز ہمارے شریر بیوی نے پیش کی وہ سب کو پسند آئی۔ بیرسٹر صاحب کے کل خطوط چاندنی نے ان کو دیئے۔
-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-
اتوار کا دن تھا اور بیرسٹر صاحب اپنے بنگلہ میں ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہو کر بیٹھے تھے ایک یکہ آ کر رکا اور اس میں سے ایک سب انسپکٹر پولیس معہ دو کانسٹیبلوں کے اترا۔ بیرسٹر صاحب کو اطلاع کی گئی اور وہ باہر آئے۔ سب انسپکڑ صاحب نے کہا کہ میں کچھ تنہائی میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ بیرسٹر صاحب اپنے ملنے کے کمرے میں سب انسپکڑ صاحب کو لے گئے اور کہا فرمائیے کیا ارساد ہے۔ سب انسپکٹر صاحب نے اپنی جیب سے پولیس کا وارنٹ تلاشی نکال کر پیش کیا اور کہا کہ میں آپ کی خانہ تلاشی لینے آیا ہوں۔ جس کی اجازت دی جائے۔ بیرسٹر صاحب معمولی آدمی نہ تھے۔ تند ہو کر بولے یہ کیا۔ سب انسپکٹر صاحب نے ہمارا نام لے کر کہا کہ انہوں نے آپ کے اور اپنی بیوی کے متعلق پولیس میں