شرک و توحید میں فرق کرنے کے تین بنیادی اصول ۔۔۔

الشفاء

لائبریرین
إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۔۔۔

اللہ سبحانہ وتعالٰی اس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے۔ اور اس کے علاوہ جو
چاہتا ہے ، جس کے لئے چاہتا ہے ، معاف فرما دیتا ہے۔
سورہ النساء ۔۔۔ آیت ٤٨۔​


شرک اور توحید کا موضوع اپنی نوعیت کے اعتبار سے بہت بڑا موضوع ہے اور ایک مسلمان کی زندگی کا اہم ترین موضوع بھی۔۔۔علماء نے شرک و توحید کی بہت سی اقسام بیان کی ہیں۔ لیکن ہماری روز مرہ زندگی اور سوشل میڈیا میں جن باتوں پر عموماً کفروشرک کے فتوے لگتے ہیں وہ زیادہ تر ذات و صفات سے متعلق ہوتی ہیں۔۔۔ اس لئے کوشش کرتے ہیں کہ اس پر مختصراً بات ہو جائے ۔ شائد کہ کسی کے لئے نافع ہو۔ان شاء اللہ عزوجل۔۔۔

کوئی بھی ہستی دو چیزوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔

١۔ ذات
٢۔ اس کی صفات۔

جس طرح اللہ عزوجل کی ایک ذات اور اس کی شان کے لائق اس کی صفات ہیں۔ اسی طرح ہر انسان اور سب مخلوقات کو بھی ایک ذات اور کچھ صفات عطا کی گئی ہیں۔۔۔ اب یہ ممکن نہیں کہ اللہ عزوجل کی ذات نے جو خوبیاں یا صفات ذات انسانی یا مخلوق میں سے کسی کو بھی عطا کی ہیں وہ خود اللہ عزوجل کے پاس نہ ہوں۔۔۔ تو خالق و مخلوق، دونوں کے پاس ذات اور صفات کا موجود ہونا ثابت ہوا، جیسے کہ اللہ عزوجل ، حیّ ، یعنی زندہ ہے۔ اور میں اور آپ بھی زندہ ہیں ۔۔۔ اسی طرح اللہ عزوجل ، سمیع و بصیر ، یعنی سننے اور دیکھنے والا ہے اور ہم بھی دیکھتے اور سنتے ہیں۔ وہ خود بھی رؤف و رحیم ہے اور اپنے محبوب رسول کو بھی قرآن مجید میں رؤف و رحیم کے القابات سے نوازتا ہے۔ تو خالق اور مخلوق، دونوں کے پاس ذات اور صفات موجود ہیں، لیکن۔۔۔

ان دونوں کی ذات اور صفات کی نوعیت اور کیفیت میں فرق ہے۔ اور یہی فرق شرک اور توحید کا بنیادی فرق ہے۔۔۔

اس فرق کو ہم کیسے جان اور پہچان سکتے ہیں؟ اس کے لئے علماء نے تین بنیادی اصول متعین فرمائے ہیں۔۔۔

١۔ قدامت : یعنی قدیم ہونا۔
٢۔ ذاتی : یعنی اپنا ہونا۔
٣۔ لامحدود : یعنی کوئی حد نہ ہونا۔

اللہ عزوجل کی ذات اور صفات کی یہ تین خوبیاں صرف اسی کے لئے خاص ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک بھی مخلوق میں سے کسی کے لئے ثابت نہیں کی جا سکتی اور اگر کوئی کرتا ہے تو وہ شرک کے تاریک گڑھے میں جا گرتا ہے۔۔۔

کہا جاتا ہے کہ ، اشیاء اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں ، تو ہم مندرجہ بالا خوبیوں کو ان کی ضد سے واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔

١۔ قدامت : قدامت کا مطلب ہے ، قدیم ، یعنی ہمیشہ سے ۔۔۔ اور اس کی ضد ہے ، حدث ، یعنی واقع ہونا ، ۔۔۔

اللہ عزوجل کی ذات اپنی صفات کے ساتھ قدیم ہے یعنی ہمیشہ سے ہے۔ اور اس کے علاوہ ہر شے اپنی صفات کے ساتھ ، حادث ، ہے۔ یعنی پہلے نہ تھی اور بعد میں وجود میں آئی۔ چاہے یہ حدث کسی بھی وقت اور کسی بھی زمانے میں ہوا ہو۔

نہ تھا کچھ تو ، خدا تھا ۔۔۔ کچھ نہ ہوتا تو ، خدا ہوتا۔۔۔​

٢۔ ذاتی : ذاتی کا مطلب ہے اپنا ہونا ، یا خود سے ہونا۔۔۔ اس کی ضد ہے ، عطائی ، یعنی کسی کا عطا کردہ ہونا۔۔۔

اللہ عزوجل کی ذات بھی خود سے قائم ہے اور اس کی صفات بھی ذاتی یعنی اپنی ہیں کسی کی عطا کردہ نہیں۔ اس کے علاوہ ہر شے کو ذات اس کی صفات کے ساتھ اللہ عزوجل نے عطا کی ہے اور کسی کا کچھ بھی ، ذاتی ، نہیں۔

سب تیرا ہے ، کچھ بھی نہیں میرا ،،، میرے گھر میں۔۔۔​

٣۔ لامحدود : لا محدود کا مطلب ہے ، جس کی کوئی حد نہ ہو۔۔۔ اس کی ضد ہے ، انتہا ، یعنی کسی چیز کا ایک حد تک پہنچ کر ختم ہو جانا۔۔۔

اللہ عزوجل اپنی صفات کے ساتھ لا محدود ہے یعنی اس کی ذات و صفات کو ماپا نہیں جا سکتا۔ بلکہ ہم اس کی حدود کا گمان، خیال ، قیاس بھی نہیں کر سکتے کیونکہ جب حدود ہی نہیں ہیں تو کیا سوچیں۔۔۔ یہاں ہمارے دماغ کا ہارڈ ویئر اور عقل کا سوفٹ ویئر دونوں کریش ہو کر بیکار ہو جاتے ہیں۔۔۔ کیونکہ اس راہ معرفت کی منزلوں اور رفعتوں میں کچھ ایسے مقامات اور منزلیں بھی آتی ہیں جہاں فکر و خیال کی بلندیاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ اور سوچ کا پنچھی تھک ہار کر اپنے ہی پروں کا بوجھ اٹھائے نیچے آ گرتا ہے۔۔۔ لیکن کچھ خوش نصیب ایسے بھی ہوتے ہیں کہ عشق و محبت کے پر لگا کر معرفت کی جس منزل پر بھی اپنے رب کے فضل سے پہنچ جائیں، اسی مقام پر پڑاؤ ڈال لیتے ہیں۔۔۔اور پھر وہاں سے آگے کی منزلوں کے بارے میں سوچتے ہیں۔ واپس نہیں لوٹتے۔۔۔ لیکن ایسے بہت کم ہوتے ہیں۔۔۔

گزرے ہیں راہ عشق سے دیوانہ وار ہم
اب اس مقام پر ہیں کہ لوٹیں وہاں سے کیا۔​


مخلوقات کی ذات و صفات میں محدودیت اور لا محدودیت کا تصور۔

اللہ عزوجل کے علاوہ ہر شے محدود ہے۔ لیکن یہ عین ممکن ہے کہ مخلوقات میں سے بھی بعض چیزوں کی ذات و صفات کو ہم حدود میں مقید نہ کر سکیں اور ان کی حدود ہماری سمجھ میں نہ آسکیں۔۔۔اور محاورتاً ہم ان کو لامحدود ہی کہتے ہوں۔۔۔ اس کو ہم ذات اور صفات کے حوالے سے الگ الگ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔

مخلوق میں سے کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کی ذات یا حجم و کمیت کو ہم ماپ نہیں سکتے اور نہ ہی اپنے فکر و خیال میں ان کی حدود مقرر کر سکتے ہیں۔ جیسے سات آسمان۔۔۔ ہم کسی ایک آسمان کو نہ ہی ماپ سکتے ہیں اور نہ ہی اس کی کوئی بھی ممکنہ حد مقرر کر سکتے ہیں لیکن یہ یقین ہے کہ یہ محدود ہیں تبھی تو سات ہیں۔۔۔ کہیں تو ایک ختم ہوتا ہے تو دوسرا ، تیسرا شروع ہوتا ہے۔ اور پھر ان کے اوپر سدرہ المنتھٰی اور پھر عرش و کرسی۔۔۔
وسع کرسیہ السماوات والارض۔۔۔ اور اس کی کرسی نے زمین و آسمانوں کو ڈھانپ رکھا ہے۔

اور صفات کی مثالوں میں ،،، جیسے ذکر رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ ذکر مذکور کی ایک صفت ہے۔

اللہ عزوجل قرآن مجید میں فرماتا ہے۔۔۔ ورفعنا لک ذکرک۔۔۔ ہم نے آپ کے لئے آپ کا ذکر بلند فرما دیا۔۔۔ کتنا بلند فرما دیا ؟؟؟ اس کی کوئی حد بیان نہیں فرمائی۔ بس یہ فرما دیا کہ ہم نے بلند کر دیا۔ اب جس کے ذکر کی بلندی خود خالق ارض و سماوات اپنی طرف نسبت لگا کے کر رہا ہے کہ ہم نے بلند کر دیا تو میں اور آپ اس کو کیسے محدود کر سکتے ہیں کہ اتنی ہے اور اتنی نہیں۔۔۔
پھر فرمایا ، وللآخرہ خیر لک من الاولٰی۔۔۔ اور آپ کی ہر آنے والی گھڑی پہلے والی گھڑی سے بہتر ہے۔

اب یہ بہتری یا خیر کتنی تھی ، کتنی ہو چکی ہے اور کتنی ہو گی ۔ کوئی اس کی حدود متعین نہیں کر سکتا۔۔۔

تو جب ہم مخلوق کی ذات و صفات کی حد بندی نہیں کر سکتے تو خود خالق کی ذات و صفات کو کیسے محدّد یا معین کر سکتے ہیں۔۔۔ بس وہ ویسا ہی ہے جیسے اس کی شان کے لائق ہے۔
اللہ کے محبوب رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم، جن سے زیادہ اللہ عزوجل کو جاننے اور اس کی معرفت رکھنے والا کوئی نہیں، وہ جب اللہ کی بارگاہ میں اس کی حمدوثنا بیان کرتے ہیں تو عرض کرتے ہیں،،،

اللٰھم لا احصی ثناء علیک۔۔۔ اے اللہ میں تیری ثنا کا حق ادا نہیں کر سکتا۔
انت کما اثنیت علٰی نفسک۔۔۔ توویسا ہی ہے جیسی تو نے خود اپنی ثنا فرمائی ہے۔۔۔

تو کوئی بھی مسلمان ، چاہے وہ کوئی ان پڑھ ، جاہل ، گنوار دیہاتی ہی کیوں نہ ہو ، ان مندرجہ بالا خصوصیات میں کسی غیر خدا کو شریک نہیں کرتا ہو گا۔۔۔ پھر کسی مسلمان بھائی کو مشرک و کافر کہنے سے پہلے ہمیں سوچنا پڑے گا کہ کہیں شرک کا یہ فتوٰی خود ہماری طرف نہ لوٹ آئے۔
کیونکہ میرے آقا و مولا علیہ الصلاۃ والسلام کے ترمذی شریف میں بیان کردہ فرمان کے مطابق اگر کوئی شخص کسی مسلمان کو گالی دے یا اس پر کفر و شرک کا فتویٰ لگائے اور وہ بات اس مسلمان میں نہ پائی جائے جس کی بناء پر اس پر کفر و شرک کا فتویٰ لگایا گیا تو یہ فتویٰ خود کہنے والے کی طرف لوٹ آتا ہے۔۔۔ اللہ عزوجل ہمیں اس معاملے میں لاپروائی سے بچائے۔۔۔ آمین۔۔۔
۔۔۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
معذرت کے ساتھ انتظامیہ سے گزارش ہے کہ اس تحریر کو مناسب زمرے میں منتقل کر دے۔۔۔ جزاکم اللہ خیرا۔۔۔
 
%25D8%25A7%25D9%2584%25D9%2584%25D9%258E%25D9%2591%25D9%2587%25D9%258F%25D9%2585%25D9%258E%25D9%2591+%25D8%25B5%25D9%258E%25D9%2584%25D9%2590%25D9%2591+%25D8%25B9%25D9%258E%25D9%2584%25D9%258E%25D9%2589+%25D9%2585%25D9%258F%25D8%25AD%25D9%258E%25D9%2585%25D9%258E%25D9%2591%25D8%25AF%25D9%258D+%25D9%2588%25D9%258E%25D8%25B9%25D9%258E%25D9%2584%25D9%258E%25D9%2589+%25D8%25A2%25D9%2584%25D9%2590+%25D9%2585%25D9%258F%25D8%25AD%25D9%258E%25D9%2585%25D9%258E%25D9%2591%25D8%25AF%25D9%258D.png
 

آبی ٹوکول

محفلین
بہت خوب " الشفا " بلکہ نہایت ہی عمدہ پیرائے میں آپ نے ایک نہایت ہی اہم موضوع کا حق ادا کردیا وہ کیا کہتے ہیں مختصر اور جامع ۔۔۔۔باقی عرض یہ ہے کہ ۔۔
مشرکین مکہ کا فہم توحید (اصل میں شرک) تو یہ تھا کہ انھوں نے بطور عقیدہ بھی اور عملا بھی بعض معاملات میں مخلوق کی صفات کو خالق کی صفات سے جاملایا تھا یعنی ایسی صفات جوکہ خاصا الوہیت اورمدار الوہیت کا تقاضا رکھتی تھیں انھے مخلوق میں تسلیم کرلیا تھا یوں انھوں نے مخلوق کو بڑھا کر خالق کے برابر جا ٹھرایا ۔۔۔۔ لیکن آج کل کی ایک مخصوص فکر کا " فہم توحید " (یعنی دوسروں کو مشرک قرار دینے پر جری ہونے جبکہ حقیقت میں خود لزوم شرک کا مرتکب ہونے کا ) فہم یہ ہے کہ انھوں نے جو مخلوق کا خاصا ہے یعنی عطائی صفات جیسے دیکھنا،سننا ،مدد کرنا یا حاجت روائی کرنا وغیرہ باذن اللہ کو بھی معاذاللہ خالق کا خاصا قرار دے کر اپنے مخالفین کو اولا تو مشرک ٹھرایا جبکہ ثانیا عقیدہ تنزیہ باری تعالٰی کی بھی دھجیاں اڑا دیں ۔
یعنی مشرکین مکہ تو مخلوق کو بڑھا کر خالق تک لے گئے تھے اور یہ لوگ اپنے "نام نہاد فہم توحید" کی بدولت خالق کو گھٹا کر مخلوق کی سطح تک لے آئے ہیں نعوذ باللہ من ذالک الخرافات ۔۔۔
یعنی ایسی صفات جو کہ خاصا الوہیت نہیں ہیں یا جنکا مدار الوہیت پر نہیں ہے یا جو مدار الوہیت نہیں رکھتیں، انکو مخلوق میں تسلیم کرنا انکے نزدیک شرک ہے یعنی دوسرے لفظوں میں اللہ کے اوپر بھی معاذاللہ ثمہ معاذاللہ کوئی اور خالق ہے جو کہ عطائی صفات پہلے اللہ کو دیتا ہے لہذا یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی عطائی صفت اگر کسی مخلوق میں مانی جائے تو انکے نزدیک شرک کا وقوع ہوجاتا ہے۔۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
 
آخری تدوین:

T.K.H

محفلین
اب یہ ممکن نہیں کہ اللہ عزوجل کی ذات نے جو خوبیاں یا صفات ذات انسانی یا مخلوق میں سے کسی کو بھی عطا کی ہیں وہ خود اللہ عزوجل کے پاس نہ ہوں۔
محترمی ! کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اللہ تعالٰی اور انسان کی صفات دونوں ایک جیسی ہیں لیکن فرق عطائی ، محدوداور قدیم کا ہے ؟ وضاحت فرما دیں !
 
محترمی ! کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اللہ تعالٰی اور انسان کی صفات دونوں ایک جیسی ہیں لیکن فرق عطائی ، محدوداور قدیم کا ہے ؟ وضاحت فرما دیں !
یار مہربانی کر کے اس بات (یا کسی بھی بات )کو اچھی طرح (ہو سکے تو کئی بار )پڑھ اور سمجھ لیا کریں
 

الشفاء

لائبریرین
محترمی ! کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اللہ تعالٰی اور انسان کی صفات دونوں ایک جیسی ہیں لیکن فرق عطائی ، محدوداور قدیم کا ہے ؟ وضاحت فرما دیں !

محترم ۔ جب فرق موجود ہے تو پھر ایک جیسی کیسے ہوئیں؟
دھاگے کے مندرجات کو عنوان کے ساتھ مربوط کر کے پڑھیں ۔ ان شاء اللہ واضح ہو جائے گا۔۔۔:)
 
اس مضمون سے یہ پتہ چلتا ہے کہ پهر مشرکین مکہ بهی حق بجانب تهے۔۔۔۔
کیونکہ وہ اپنے عبادت گزاروں کی عبادت نہیں کرتے تهے بلکہ ان کو وسیلہ پکڑتے تهے
لیکن اللہ تعالٰی نے پورے قرآن میں ان کے اس وسیلہ کو شرک عظیم کہا ہے۔۔۔
 
Top