کاشفی

محفلین
غزل
(ریاض خیرآبادی)
شراب ناب سے ساقی جو ہم وضو کرتے
حرم کے لوگ طواف خم و سبو کرتے

وہ مل کے دستِ حنائی سے دل لہو کرتے
ہم آرزو تو حسیں خونِ آرزو کرتے

کلیم کو نہ غش آتا نہ طور ہی جلتا
دبی زبان سے اظہارِ آرزو کرتے

شراب پیتے ہی سجدے میں ان کو گرنا تھا
یہ شغل بیٹھ کے مے نوش قبلہ رو کرتے

ہر ایک قطرے سے بہتی ریاض جوئے شراب
جو پی کے ہم سرِ زمزم کبھی وضو کرتے
 
Top