مصحفی شبِ ہجر کل بے قراری میں گزری

غزل

شبِ ہجر کل بے قراری میں گزری
سحر تک ہمیں آہ و زاری میں گزری

کیا اس نے گاہے نہ ملنے کا وعدہ
مری یوں ہی امیدواری میں گزری

کوئی فعل نیکو نہ ہم سے ہو اہے
اسی خجلت و شرم ساری میں گزری

یہ عمرِ دراز اپنی جو ں زلفِ خوباں
پریشانی و سوگواری میں گزری

ہوئے آخرِ کار اپنے وے دشمن
جنھوں کی ہمیں دوست داری میں گزری

مجھے آخرِ کار آیا یہ رونا
کہ عمرِ عزیز اپنی خواری میں گزری

تو کتنا بُرا ہے کہ اوقات تیری
سدا مصحفی ہرزہ کاری میں گزری
 
آخری تدوین:
Top