شبِ برات کی فضیلت

بنت عائشہ

محفلین
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس اس وقت حضرت جبرائیلؑ آئے اور بتایا آج شعبان کی پندرھویں رات ہے ، اس رات کو حق تعالیٰ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر مخلوق کو جہنم سے آزاد کریں گے، البتہ مشرک اور کینہ پرور اور قطع رحمی کرنے اور ٹخنہ سے نیچی لنگی پہننے والے نیز والدین کی نافرمانی کرنے والے ہمیشہ شراب نوشی کرنے والے پر حق تعالیٰ نظر عنایت نہ فرمائے گا۔

اس کے بعد آپﷺ نے کپڑے اُتارے اور فرمایا عائشہؓ ! کیا تم آج رات عبادت کرنے کی اجازت دیتی ہو (اجازت حاصل کرنے کی ضرورت اس لیے ہوئی کہ رات بھر عبادت کرنے کا معمول نہ تھا بلکہ کچھ حصہ ازواج مطہرات کی دلجوئی اور دل جمعی کے لیے بھی مخصوص تھا یہ اس رات نہ ہوسکا)۔

میں نے عرض کیا ہاں ہاں میرے والدین آپﷺ پر قربان ، چنانچہ آپﷺ کھڑے ہوئے اور نماز شروع فرمادی ۔ پھر ایک لمبا سجدہ کیا ، حتیٰ کہ مجھے خیال ہوا کہ کہیں خدانخواستہ آپﷺ کی روح تو قبض نہیں ہوگئی، میں کھڑی ہوکر ٹٹولنے لگی ، اور اپنا ہاتھ آپﷺ کے تلووں پر رکھا ، آپ ﷺ میں کچھ حرکت ہوئی جس سے میں مسرور (مطمئن ہوگئی) ، میں نے سنا کہ آپﷺ سجدہ میں یہ دعا پڑھ رہے تھے

______________________________________________________
اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِعَفْوِكَ مِنْ عِقَابِكَ , وَأَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ , وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ , لا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ

میں پناہ چاہتا ہوں آپ کے عفودرگزر کے ذریعہ آپ کے عذاب سے اورپناہ
چاہتا ہوں آپ کی رضا کے ذریعہ آپ کی ناراضگی سے اور آپ کی پناہ چاہتا ہوں ٓآپ ہی سے، آپ باعظمت ہیں اور میں آپ کی شایانِ شان تعریف نہیں کرسکتا،آپ ویسے ہی ہیں جیسے آپ نے خود اپنی ثناء فرمائی۔
______________________________________________________

حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ صبح کو ان کلمات دعائیہ کا تذکرہ کیا تو آپﷺ نے فرمایا اے عائشہؓتم ان کو سیکھ لو اور اوروں کو سیکھائو مجھے جبرائیل ؑنے یہ کلمات سکھائے ہیں اور کہا ہے کہ میں انہیں سجدہ میں بار بار پڑھا کروں۔

(بیہقی، مشکوۃٰ۔ الترغیب والترغیب)
شب برات کی فضیلت کی حقیقت

شب ِ برات کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس کی کوئی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں ، حقیقت یہ ہے کہ دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے احادیث مروی ہیں جن میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات کی فضیلت بیان فرمائی، ان میں سے بعض احادیث سند کے اعتبار سے بیشک کچھ کمزور ہیں اور ان احادیث کے کمزور ہونے کی وجہ سے بعض علماءنے یہ کہہ دیا کہ اس رات کی فضیلت بے اصل ہے، لیکن حضرات محدثین اور فقہاءکا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کی تایید بہت سی احادیث سے ہوجائے تو اسکی کمزوری دور ہوجاتی ہے، اور جیساکہ میں نے عرض کیا کہ دس صحابہ کرام سے اسکی فضیلت میں روایات موجود ہیں لہٰذا جس رات کی فضیلت میں دس صحابہ کرام سے روایات مروی ہوں اس کو بے بنیاد اور بے اصل کہنا بہت غلط ہے۔

شب برات میں عبادت

امت مسلمہ کے جو خیرالقرون ہیں یعنی صحابہ کرام کا دور ، تابعین کا دور، تبع تابعین کادور، اس میں بھی اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے،لوگ اس رات میں عبادت کا خصوصی اہتمام کرتے رہے ہیں، لہٰذا اس کو بدعت کہنا، یا بے بنیاد اور بے اصل کہنا درست نہیں ، صحیح بات یہی ہے کہ یہ فضیلت والی رات ہے، اس رات میں عبادت کرنا باعث ِ اجر و ثواب ہے اور اسکی خصوصی اہمیت ہے۔

عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں

البتہ یہ بات درست ہے کہ اس رات میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کہ فلاں طریقے سے عبادت کی جائے ، جیسے بعض لوگوں نے اپنی طرف سے ایک طریقہ گھڑ کر یہ کہہ دیا کہ شب ِ برات میں اس خاص طریقے سے نماز پڑھی جاتی ہے ، مثلآ پہلی رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے، دوسری رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے وغیرہ وغیرہ، اسکا کوئی ثبوت نہیں، یہ بالکل بے بنیاد بات ہے، بلکہ نفلی عبادت جس قدر ہوسکے وہ اس رات میں انجام دی جائے، نفل نماز پڑھیں ، قرآن کریم کی تلاوت کریں ، ذکرکریں ، تسبیح پڑھیں ، دعائیں کریں ، یہ ساری عبادتیں اس رات میں کی جاسکتی ہیں لیکن کوئی خاص طریقہ ثابت نہیں۔

شبِ برات میں قبرستان جانا

اس رات میں ایک اور عمل ہے جو ایک روایت سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنت البقیع میں تشریف لے گئے، اب چونکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس رات میں جنت البقیع میں تشریف لے گئے اس لئے مسلمان اس بات کا اہتمام کرنے لگے کہ شبِ برات میں قبرستان جائیں ، لیکن میرے والد ماجد حضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہ ایک بڑی کام کی بات بیان فرمایا کرتے تھے، جو ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے، فرماتے تھے کہ جو چیز رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ سے جس درجہ میں ثابت ہو اسی درجے میں اسے رکھنا چاہئے، اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہئے، لہٰذا ساری حیاتِ طیبہ میں رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ جانا مروی ہے، کہ آپ شبِ برات میں جنت البقیع تشریف لے گئے ، چونکہ ایک مرتبہ جانا مروی ہے اس لئے تم بھی اگر زندگی میں ایک مرتبہ چلے جاو تو ٹھیک ہے ، لیکن ہر شب برات میں جانے کا اہتمام کرنا،التزام کرنا، اور اسکو ضروری سمجھنا اور اسکو شب برات کے ارکان میں داخل کرنا اور اسکو شب برات کا لازمی حصہ سمجھنا اور اسکے بغیر یہ سمجھنا کہ شب برات نہیں ہوئی ، یہ اسکو اسکے درجے سے آگے بڑھانے والی بات ہے۔

15 شعبان کا روزہ

ایک مسئلہ شب برات کے بعد والے دن یعنی پندرہ شعبان کے روزے کاہے، اسکو بھی سمجھ لینا چاہئے، وہ یہ کہ سارے ذخیرہ حدیث میں اس روزہ کے بارے میں صرف ایک روایت میں ہے کہ شب برات کے بعد والے دن روزہ رکھولیکن یہ روایت ضعیف ہے لہٰذا اس روایت کی وجہ سے خاص پندرہ شعبان کے روزے کو سنت یا مستحب قرار دینا بعض علماءکے نزدیک درست نہیں البتہ پورے شعبان کے مہینے میں روزہ رکھنے کی فضیلت ثابت ہے لیکن 28اور29 شعبان کو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے، کہ رمضان سے ایک دو روز پہلے روزہ مت رکھو، تاکہ رمضان کے روزوں کےلئے انسان نشاط کے ساتھ تیا ر رہے
 
Top