فیض شاید کبھی افشا ہو،نگاہوں پہ تمہاری ۔ فیض

فرخ منظور

لائبریرین
سرآغاز

شاید کبھی افشا ہو،نگاہوں پہ تمہاری
ہر سادہ ورق، جس سخنِ کُشتہ سے خوں ہے

شاید کبھی اُس گیت کا پرچم ہو سرافراز
جو آمدِ صرصر کی تمنا میں نگوں ہے

شاید کبھی اُس دل کی کوئی رگ تمہیں چُبھ جائے
جو سنگِ سرِراہ کی مانند زبوں ہے
 
Top