شاہ است حسین

محمد وارث

لائبریرین
حرفِ آغاز


سید الشہدا، سبطِ نبی (ص) ، فرزندِ علی (ع)، امامِ عالی مقام، حضرت امام حسین علیہ السلام کی بارگاہ میں عقیدت بھرا سلام کہنا اردو شاعری میں موضوع کے لحاظ سے ایک اہم صنفِ سخن ہے۔ قدیم و جدید اردو شعراء نے بلا تفریقِ مذہب و ملت و عقیدہ، امام عالی مقام کے حضور میں نذرانۂ عقیدت پیش کیے ہیں۔

واقعۂ کربلا، امام حسین کی اولوالعزمی، شجاعت، استقامت، آپ کے رفقا کی وفاداری و جان نثاری، آپ کے اہلِ بیت کے مصائب، حُر کی حق شناسی، نہ صرف مرثیہ اور سلام کے اہم موضوع ہیں بلکہ اردو شاعری میں استعارہ اور علامت کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں اور قریب قریب سبھی مشہور شعراء نے اپنی اپنی فکر کے مطابق ان کو استعمال کیا ہے۔

میں یہاں پر ایک جسارت کر رہا ہوں کہ اردو شعراء کرام کے کلام میں جو سلام موجود ہیں ان کو پیش کر رہا ہوں۔ میرے مآخذ، شعراء کے دواوین و کلیات اور مختلف انتخاب ہیں۔ ویب پر بھی مختلف کلام ملتا ہے لیکن بہر حال ان میں املاء کی اغلاط ہیں۔

میں نیچے ایک فہرست بھی دے رہا ہوں جو کہ فی الحال نامکمل ہے کہ اس کام کی ترتیب فقط میری پسند ہی ہے اور جیسے جیسے یہ کام، انشاءاللہ، آگے بڑھتا جائے گا میں فہرست کو بھی "اپ ڈیٹ" کرتا جاؤں گا۔ بشرطِ زندگی، میرا ارداہ ہے کہ اس کام کو کتابی شکل میں وکی پیڈیا پر بھی منتقل کردوں۔

اگر احباب اس موضوع پر کچھ شیئر کرنا چاہیں تو اسے میں اپنی خوش بختی سمجھوں گا۔ امید ہے احباب و اربابِ اہلِ ذوق کو میری یہ پیشکش پسند آئے گی۔


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
فہرست


1 ۔ فارسی رباعی ۔ خواجہ معین الدین چشتی علیہ الرحمہ

2 ۔ سلام ۔ میرزا اسد اللہ خان غالب

3 ۔ امامِ برحقِ اہلِ رضا سلام علیک ۔ حسرت موہانی

4 ۔ امام حُسین ۔ واصف علی واصف

5 ۔ بیتاب کر رہی ہے تمنّائے کربلا ۔ محمد علی جوہر

6 ۔ لب پر شہدا کے تذکرے ہیں ۔ احمد ندیم قاسمی

7 ۔ مسدس ۔ انور مسعود

8 ۔ سیّد الشّہداء ۔ احمد فراز

9 ۔ سلام اُس پر ۔ احمد فراز

10 ۔ ہم جیسے ۔ احمد فراز

11 ۔ دل و دماغ میں مہر و وفا کے افسانے ۔ کوثر نیازی

12 ۔ مرثیۂ امام ۔ فیض احمد فیض

13 ۔ سلام ۔ منیر نیازی

14 ۔ رموزِ عشق و محبت تمام جانتا ہوں ۔ حفیظ تائب

15 ۔ مرثیہ ۔ میر تقی میر

16 ۔ شامِ غریباں ۔ پروین شاکر

17 ۔ میں نوحہ گر ہوں ۔ امجد اسلام امجد

18 ۔ آنسوؤں کے موسم میں ۔ اقبال ساجد

19 ۔ سلام اس پر کہ سب انسانیت جس سے شناسا ہے ۔ قتیل شفائی


20 ۔ تھا کربلا کو ازل سے جو انتظارِ حُسین ۔ عبدالحمید عدم


21 ۔ حُسین نوعِ بشر کی ہے آبرو تجھ سے ۔ فارغ بخاری


22 ۔ جب بھی شام کو سورج ڈوبنے لگتا ہے ۔ عطاءالحق قاسمی


23 ۔ اے لب گرفتگی، وہ سمجھتے ہیں پیاس ہے ۔ خالد احمد


24 ۔ جہانِ عشق و محبّت ہے آستانِ حُسین ۔ محمد اعظم چشتی


25 ۔ رباعیات ۔ کنور مہندر سنگھ بیدی


26 ۔ جمود ذہن پہ طاری تھا انقلاب نہ تھا ۔ سبط علی صبا


27 ۔ سلامی کربلا ہے اور میں ہوں ۔ گردھاری پرشاد باقی


28 ۔ چمکا خدا کا نور عرب کے دیار میں ۔ نظم طباطبائی

29 ۔ کس کی خوں رنگ قبا آتی ہے ۔ ثروت حسین

30 ۔ صدائے استغاثہ - افتخار عارف

31 ۔ قرنِ اوّل کی روایت کا نگہدار حسین ۔ شورش کاشمیری


32 ۔ وعدہ کر کے بھی نہیں ساتھ نبھانے والے ۔ شہزاد احمد


33 - امتناع کا مہینہ - اختر حسین جعفری

34 - حسین نزہتِ باغِ پیمبرِ عربی - صبا اکبر آبادی

35 - جو پیاس وسعت میں بے کراں ہے سلام اس پر - غلام محمد قاصر

36 - اشک میں گُھل گیا لہو، سرخ ہوا فضا کا رنگ - خورشید رضوی


37 - بندگانِ ریا کی نگاہوں میں شام و سحر اور تھے - جلیل عالی


38 - رباعیات - جوش ملیح آبادی

39 - شبِ درمیاں - عرفان صدیقی

40 - رکا ہوا ہے یہ صحرا میں قافلہ کیسا - عرفان صدیقی

41 - خشک ہوتا ہی نہیں دیدۂ تر پانی کا - عرفان صدیقی

42 - سرابِ دشت تجھے آزمانے والا کون - عرفان صدیقی

43 - سب داغ ہائے سینہ ہویدا ہمارے ہیں - عرفان صدیقی

44 - لباس ہے پھٹا ہوا ،غبار میں اٹا ہوا - حفیظ جالندھری

45 - دونوں جہاں میں کون بشر ہے حُسین سا - وحید الحسن ھاشمی

46 - آئینہ رکھ کے برسرِ صحرا حسین نے - عباس حیدر زیدی

47 - کربلا - انور شعور

48 - مدحِ شبّیر - تابش دہلوی

49 - کچھ فائدہ نہ سبطِ نبی سے اٹھا سکے - سراج الدین سراج

50 - کہاں وہ ذات، شکارِ ممات ہوتی ہے - فہیم ردولوی

51 - تم پر مرا سلام شہیدانِ کربلا - ظفر اکبر آبادی
 

محمد وارث

لائبریرین
سب سے پہلے خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمہ کی مشہور و معروف فارسی رباعی پیشِ خدمت ہے، اور اسی رباعی سے عنوان لینے کی سعادت حاصل کی ہے۔



شاہ است حُسین، بادشاہ است حُسین
دیں است حُسین، دیں پناہ است حُسین
سر داد نداد دست در دستِ یزید
حقّا کہ بنائے لا الہ است حسین



۔
 

محمد وارث

لائبریرین
سلام ۔ میرزا اسد اللہ خان غالب


سلام اسے کہ اگر بادشا کہیں اُس کو
تو پھر کہیں کہ کچھ اِس سے سوا کہیں اُس کو

نہ بادشاہ نہ سلطاں، یہ کیا ستائش ہے؟
کہو کہ خامسِ آلِ عبا کہیں اُس کو

خدا کی راہ میں شاہی و خسروی کیسی؟
کہو کہ رہبرِ راہِ خدا کہیں اُس کو

خدا کا بندہ، خداوندگار بندوں کا
اگر کہیں نہ خداوند، کیا کہیں اُس کو؟

فروغِ جوہرِ ایماں، حسین ابنِ علی
کہ شمعِ انجمنِ کبریا کہیں اُس کو

کفیلِ بخششِ اُمّت ہے، بن نہیں پڑتی
اگر نہ شافعِ روزِ جزا کہیں اُس کو

مسیح جس سے کرے اخذِ فیضِ جاں بخشی
ستم ہے کُشتۂ تیغِ جفا کہیں اُس کو

وہ جس کے ماتمیوں پر ہے سلسبیل سبیل
شہیدِ تشنہ لبِ کربلا کہیں اُس کو

عدو کے سمعِ رضا میں جگہ نہ پائے وہ بات
کہ جنّ و انس و ملَک سب بجا کہیں اُس کو

بہت ہے پایۂ گردِ رہِ حسین بلند
بہ قدرِ فہم ہے اگر کیمیا کہیں اُس کو

نظارہ سوز ہے یاں تک ہر ایک ذرّۂ خاک
کہ ایک جوہرِ تیغِ قضا کہیں اُس کو

ہمارے درد کی یا رب کہیں دوا نہ ملے
اگر نہ درد کی اپنے دوا کہیں اُس کو

ہمارا منہ ہے کہ دَیں اس کے حُسنِ صبر کی داد؟
مگر نبی و علی مرحبا کہیں اُس کو

زمامِ ناقہ کف اُس کے میں ہے کہ اہلِ یقیں
پس از حسینِ علی پیشوا کہیں اُس کو

وہ ریگِ تفتۂ وادی پہ گام فرسا ہے
کہ طالبانِ خدا رہنما کہیں اُس کو

امامِ وقت کی یہ قدر ہے کہ اہلِ عناد
پیادہ لے چلیں اور ناسزا کہیں اُس کو

یہ اجتہاد عجب ہے کہ ایک دشمنِ دیں
علی سے آکے لڑے اور خطا کہیں اُس کو

یزید کو تو نہ تھا اجتہاد کا پایہ
بُرا نہ مانیئے گر ہم بُرا کہیں اُس کو

علی کے بعد حسن، اور حسن کے بعد حسین
کرے جو ان سے بُرائی، بھلا کہیں اُس کو؟

نبی کا ہو نہ جسے اعتقاد، کافر ہے
رکھے امام سے جو بغض، کیا کہیں اُس کو؟

بھرا ہے غالبِ دل خستہ کے کلام میں درد
غلط نہیں ہے کہ خونیں نوا کہیں اُس کو


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
(حسرت موہانی)


امامِ برحقِ اہلِ رضا سلام علیک
شہیدِ معرکۂ کربلا سلام علیک

کلِ مرادِ ولایت حسین ابنِ علی
تتمۂ شرفِ مصطفٰی سلام علیک

ثبوت یہ ہے کہ نُورِ شہادتِ کُبرٰی
تری جبیں سے نمایاں ہوا، سلام علیک

عبث ہے اور کہیں راہِ صبر و حق کی تلاش
تری مثال ہے جب رہنما، سلام علیک

ترے طفیل مِیں، حسرت بھی ہو شہیدِ وفا
یہی دعا ہے، یہی مدّعا، سلام علیک


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
امام حسین ۔ واصف علی واصف


السّلام اے نُورِ اوّل کے نشاں
السّلام اے راز دارِ کُن فکاں

السّلام اے داستانِ بے کسی
السّلام اے چارہ سازِ بے کساں

السّلام اے دستِ حق، باطل شکن
السّلام اے تاجدارِ ہر زماں

السّلام اے رہبرِ علمِ لَدُن
السّلام اے افتخارِ عارفاں

السّلام اے راحتِ دوشِ نبی
السّلام اے راکبِ نوکِ سناں

السّلام اے بوترابی کی دلیل
السّلام اے شاہبازِ لا مکاں

السّلام اے ساجدِ بے آرزو
السّلام اے راز دارِ قُدسیاں

السّلام اے ذوالفقارِ حیدری
السّلام اے کشتۂ تسلیمِ جاں

السّلام اے مستیٔ جامِ نجف
السّلام اے جنبشِ کون و مکاں

السّلام اے رازِ قرآنِ مبیں
السّلام اے ناطقِ رازِ نہاں

السّلام اے ہم نشینِ ریگِ دشت
السّلام اے کج کلاہِ خسرواں

السّلام اے دُرِ دینِ مُصطفٰی
السّلام اے معدنِ علمِ رواں

السّلام اے گوہرِ عینِ علی
دینِ پیغمبر کے عنوانِ جلی


(مجموعہ "شب چراغ")


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
(محمد علی جوہر)


بیتاب کر رہی ہے تمنّائے کربلا
یاد آ رہا ہے بادیہ پیمائے کربلا

ہے مقتلِ حسین میں اب تک وہی بہار
ہیں کس قدر شگفتہ یہ گلہائے کربلا

روزِ ازل سے ہے یہی اک مقصدِ حیات
جائے گا سر کے ساتھ، ہے سودائے کربلا

جو رازِ کیمیا ہے نہاں خاک میں اُسے
سمجھا ہے خوب ناصیہ فرسائے کربلا

مطلب فرات سے ہے نہ آبِ حیات سے
ہوں تشنۂ شہادت و شیدائے کربلا

جوہر مسیح و خضر کو ملتی نہیں یہ چیز
اور یوں نصیب سے تجھے مل جائے کربلا


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
(احمد ندیم قاسمی)


لب پر شہدا کے تذکرے ہیں
لفظوں کے چراغ جل رہے ہیں

جن پہ گزری ہے ان سے پوچھو
ہم لوگ تو صرف سوچتے ہیں

میدان کا دل دہک رہا ہے
دریاؤں کے ہونٹ جل رہے ہیں

کرنیں ہیں کہ بڑھ رہے ہیں نیزے
جھونکے ہیں کہ شعلے چل رہے ہیں

پانی نہ ملا تو آنسوؤں سے
چُلو بچوں کے بھر دیئے ہیں

آثار جوان بھائیوں کے
بہنوں نے زمیں سے چن لیے ہیں

بیٹوں کے کٹے پھٹے ہوئے جسم
ماؤں نے ردا میں بھر لیے ہیں

یہ لوگ اصولِ حق کی خاطر
سر دیتے ہیں، جان بیچتے ہیں

میدان سے آ رہی ہے آواز
جیسے شبّیر بولتے ہیں

جیسے غنچے چٹک رہے ہیں
جیسے کہسار گونجتے ہیں

"ہم نے جنہیں سر بلندیاں دیں"
سر کاٹتے کیسے لگ رہے ہیں

ہیں یہ رگِ نبی کے قطرے
جو ریت میں جذب ہو رہے ہیں

دیکھو اے ساکنانِ عالم
یوں کشتِ حیات سینچتے ہیں


۔
 

فاتح

لائبریرین
(انور مسعود)

شعر
شعر میں کیسے بیاں ہو داستانِ کربلا
لاکھ مضموں باندھ لیجیے تشنگی رہ جائے گی

مسدس
سوارِ دوشِ محمد (ص) کا رتبۂ عالی
حدیثِ عجز ہے میرا بیانِ اجمالی
کھلی ہے آج تخیل کی بے پر و بالی
دکھائی دیتی ہیں لفظوں کی جھولیاں خالی
یہاں ضعیف ہر اظہار کا وسیلہ ہے
بس ایک دیدۂ خوں بار کا وسیلہ ہے

مثیلِ شاہِ شہیدِ شہیر نا ممکن
کوئی غریب ہو ایسا امیر نا ممکن
حسین سا کوئی روشن ضمیر نا ممکن
جہانِ عشق میں اس کی نظیر نا ممکن
وہ جاں نثار عجب اک مثال چھوڑ گیا
کہ اس کا صبر ستم کا غرور توڑ گیا

چھپی ہے اس کے تدبّر میں معرفت کیسی
کہ مصلحت کی جنوں سے مناسبت کیسی
ہوس کے ساتھ وفا کی مفاہمت کیسی
ستم گروں کے ستم سے مصالحت کیسی
اسی کی دین ہے یہ سوچ کا قرینہ بھی
کہ ایک جرم ہے ظالم کے ساتھ جینا بھی

مثالِ مہرِ جہاں تاب ضوفشاں ہے حسین
ہمہ خلوص ہے ایثارِ بے کراں ہے حسین
حیات راز ہے اور اس کا رازداں ہے حسین
ریاضِ دہر میں خوشبوئے جاوداں ہے حسین
وہ ظالموں کو ہمیشہ کا انتباہ بھی ہے
وہ اپنی ذات میں تفسیرِ لا الہ بھی ہے​
 

محمد وارث

لائبریرین
سیّد الشّہداء ۔ احمد فراز


دشتِ غربت میں صداقت کے تحفظ کے لیے
تُو نے جاں دے کے زمانے کو ضیا بخشی تھی
ظلم کی وادیِ خونیں میں قدم رکھا تھا
حق پرستوں کو شہادت کی ادا بخشی تھی
آتشِ دہر کو گلزار بنایا تو نے
تو نے انساں کی عظمت کو بقا بخشی تھی

اور وہ آگ وہ ظلمت وہ ستم کے پرچم
بڑے ایثار ترے عزم سے شرمندہ ہوئے
جرأت و شوق و صداقت کی تواریخ کے باب
تری عظمت، ترے کردار سے تابندہ ہوئے
ہوگیا نذرِ فنا دبدبۂ شمر و یزید
کشتگانِ رہِ حق مر کے مگر زندہ ہوئے

لیکن اے سیّدِ کونین حسین ابنِ علی
آج بھر دہر میں باطل کی صف آرائی ہے
آج پھر حق کے پرستاروں کا انعام ہے دار
زندگی پھر اس وادی میں اتر آئی ہے
آج پھر مدِ مقابل ہیں کئی شمر و یزید
صدق نے جن کو مٹانے کی قسم کھائی ہے

دل کہ ہر سال ترے غم میں لہو روتے ہیں
یہ اسی عہدِ جنوں کیش کی تجدید تو ہے
جاں بکف حلقۂ اعدا میں جو دیوانے ہیں
ان کا مذہب ترے کردار کی تقلید تو ہے
جب سے اب تک اسی زنجیرِ وفا کا رشتہ
بیعتِ دستِ جفا کار کی تردید تو ہے


(مجموعہ۔ "شب خون")


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
سلام اُس پر ۔ احمد فراز


حُسین
اے میرے سربریدہ
بدن دریدہ
سدا ترا نام برگزیدہ
میں کربلا کے لہو لہو دشت میں تجھے
دشمنوں کے نرغے میں
تیغ در دست دیکھتا ہوں
میں دیکھتا ہوں
کہ تیرے سارے رفیق
سب ہمنوا
سبھی جانفروش
اپنے سروں کی فصلیں کٹا چکے ہیں
گلاب سے جسم اپنے خوں میں نہا چکے ہیں
ہوائے جانکاہ کے بگولے
چراغ سے تابناک چہرے بجھا چکے ہیں
مسافرانِ رہِ وفا، لٹ لٹا چکے ہیں
اور اب فقط تُو
زمین کے اس شفق کدے میں
ستارۂ صبح کی طرح
روشنی کا پرچم لیے کھڑا ہے

یہ ایک منظر نہیں ہے
اک داستاں کا حصہ نہیں ہے
اک واقعہ نہیں ہے
یہیں سے تاریخ
اپنے تازہ سفر کا آغاز کر رہی ہے
یہیں سے انسانیت
نئی رفعتوں کو پرواز کر رہی ہے

میں آج اسی کربلا میں
بے آبرو ۔۔۔۔ نگوں سر
شکست خوردہ خجل کھڑا ہوں
جہاں سے میرا عظیم ہادی
حسین کل سرخرو گیا ہے

میں جاں بچا کر
فنا کے دلدل میں جاں بلب ہوں
زمین اور آسمان کے عزّ و فخر
سارے حرام مجھ پر
وہ جاں لٹا کر
منارۂ عرش چھو گیا ہے

سلام اُس پر
سلام اُس پر


(مجموعہ ۔ "جاناں جاناں")


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ہم جیسے ۔ احمد فراز


حُسین تجھ پہ کہیں کیا سلام ہم جیسے
کہ تُو عظیم ہے بے ننگ و نام ہم جیسے

برنگِ ماہ ہے بالائے بام تجھ جیسا
تو فرشِ راہ کئی زیرِ بام ہم جیسے

وہ اپنی ذات کی پہچان کو ترستے ہیں
جو خاص تیری طرح ہیں نہ عام ہم جیسے

یہ بے گلیم جو ہر کربلا کی زینت ہیں
یہ سب ندیم یہ سب تشنہ کام ہم جیسے

بہت سے دوست سرِ دار تھے جو ہم پہنچے
سبھی رفیق نہ تھے سست گام ہم جیسے

خطیبِ شہر کا مذہب ہے بیعتِ سلطاں
ترے لہو کو کریں گے سلام ہم جیسے

تُو سر بریدہ ہوا شہرِ ناسپاساں میں
زباں بریدہ ہوئے ہیں تمام ہم جیسے

پہن کے خرقۂ خوں بھی کشیدہ سر ہیں فراز
بغاوتوں کے علم تھے مدام ہم جیسے


(مجموعہ ۔ "نابینا شہر میں آئینہ")


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
(کوثر نیازی)


دل و دماغ میں مہر و وفا کے افسانے
تصورات میں روشن فضائے بدر و حُنین
خوشا یہ اوجِ مقدر، زہے یہ عز و شرف
مری زباں پہ جاری ہے آج ذکرِ حُسین

نہ فکر سود و زیاں کی، نہ ذکرِ تیغ و تبر
حُسین، راہِ خدا میں تری یہ بے تابی
بہار گلشنِ اسلام میں پلٹ آئی
کہ تیرے خون سے قائم ہے اس کی شادابی

کہیں بھی اہلِ محبت کی تشنگی نہ بجھی
فرات و نیل کے ساحل سے تا بہ گنگ و جمن
برائے لالہ و گل اجنبی ہے فصلِ بہار
خزاں کے دستِ تصرف میں آگیا ہے چمن

ہر ایک سمت میں عفریت ظلم کے رقصاں
خدا کے دین کا حلقوم ہے تہِ شمشیر
نئے یزید، نئی کربلا ہوئی پیدا
زمانہ ڈھونڈ رہا ہے کوئی نیا شبّیر


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مرثیۂ امام ۔ فیض احمد فیض


رات آئی ہے شبّیر پہ یلغارِ بلا ہے
ساتھی نہ کوئی یار نہ غمخوار رہا ہے
مونِس ہے تو اِک درد کی گھنگھور گھٹا ہے
مُشفِق ہے تو اک دل کے دھڑکنے کی صدا ہے
تنہائی کی، غربت کی، پریشانی کی شب ہے
یہ خانۂ شبّیر کی ویرانی کی شب ہے

دشمن کی سپہ خواب میں‌ مدہوش پڑی تھی
پل بھر کو کسی کی نہ اِدھر آنکھ لگی تھی
ہر ایک گھڑی آج قیامت کی گھڑی تھی
یہ رات بہت آلِ محمّد پہ کڑی تھی
رہ رہ کے بُکا اہلِ‌حرم کرتے تھے ایسے
تھم تھم کے دِیا آخرِ شب جلتا ہے جیسے

اِک گوشے میں‌ ان سوختہ سامانوں‌ کے سالار
اِن خاک بسر، خانماں ویرانوں‌ کے سردار
تشنہ لب و درماندہ و مجبور و دل افگار
اِس شان سے بیٹھے تھے شہِ لشکرِ احرار
مسند تھی، نہ خلعت تھی، نہ خدّام کھڑے تھے
ہاں‌ تن پہ جدھر دیکھیے سو زخم سجے تھے

کچھ خوف تھا چہرے پہ نہ تشویش ذرا تھی
ہر ایک ادا مظہرِ تسلیم و رضا تھی
ہر ایک نگہ شاہدِ اقرارِ وفا تھی
ہر جنبشِ لب منکرِ دستورِ جفا تھی
پہلے تو بہت پیار سے ہر فرد کو دیکھا
پھر نام خدا کا لیا اور یوں ہوئے گویا

الحمد قریب آیا غمِ عشق کا ساحل
الحمد کہ اب صبحِ شہادت ہوئی نازل
بازی ہے بہت سخت میانِ حق و باطل
وہ ظلم میں‌کامل ہیں تو ہم صبر میں ‌کامل
بازی ہوئی انجام، مبارک ہو عزیزو
باطل ہُوا ناکام، مبارک ہو عزیزو

پھر صبح کی لَو آئی رخِ پاک پہ چمکی
اور ایک کرن مقتلِ خونناک پہ چمکی
نیزے کی انی تھی خس و خاشاک پہ چمکی
شمشیر برہنہ تھی کہ افلاک پہ چمکی
دم بھر کے لیے آئینہ رُو ہو گیا صحرا
خورشید جو ابھرا تو لہو ہو گیا صحرا

پر باندھے ہوئے حملے کو آئی صفِ‌ اعدا
تھا سامنے اِک بندۂ حق یکّہ و تنہا
ہر چند کہ ہر اک تھا اُدھر خون کا پیاسا
یہ رُعب کا عالم کہ کوئی پہل نہ کرتا
کی آنے میں ‌تاخیر جو لیلائے قضا نے
خطبہ کیا ارشاد امامِ شہداء نے

فرمایا کہ کیوں درپۓ ‌آزار ہو لوگو
حق والوں ‌سے کیوں ‌برسرِ پیکار ہو لوگو
واللہ کہ مجرم ہو، گنہگار ہو لوگو
معلوم ہے کچھ کس کے طرفدار ہو لوگو
کیوں ‌آپ کے آقاؤں‌ میں ‌اور ہم میں ‌ٹھنی ہے
معلوم ہے کس واسطے اس جاں پہ بنی ہے

سَطوت نہ حکومت نہ حشم چاہیئے ہم کو
اورنگ نہ افسر، نہ عَلم چاہیئے ہم کو
زر چاہیئے، نے مال و دِرم چاہیئے ہم کو
جو چیز بھی فانی ہے وہ کم چاہیئے ہم کو
سرداری کی خواہش ہے نہ شاہی کی ہوس ہے
اِک حرفِ یقیں، دولتِ ایماں‌ ہمیں‌ بس ہے

طالب ہیں ‌اگر ہم تو فقط حق کے طلبگار
باطل کے مقابل میں‌ صداقت کے پرستار
انصاف کے، نیکی کے، مروّت کے طرفدار
ظالم کے مخالف ہیں‌ تو بیکس کے مددگار
جو ظلم پہ لعنت نہ کرے، آپ لعیں ہے
جو جبر کا منکر نہیں ‌وہ منکرِ‌ دیں ‌ہے

تا حشر زمانہ تمہیں مکّار کہے گا
تم عہد شکن ہو، تمہیں غدّار کہے گا
جو صاحبِ دل ہے، ہمیں ‌ابرار کہے گا
جو بندۂ‌ حُر ہے، ہمیں‌ احرار کہے گا
نام اونچا زمانے میں ‌ہر انداز رہے گا
نیزے پہ بھی سر اپنا سرافراز رہے گا

کر ختم سخن محوِ‌ دعا ہو گئے شبّیر
پھر نعرہ زناں محوِ وغا ہو گئے شبیر
قربانِ رہِ صدق و صفا ہو گئے شبیر
خیموں میں‌ تھا کہرام، جُدا ہو گئے شبیر
مرکب پہ تنِ پاک تھا اور خاک پہ سر تھا
اِس خاک تلے جنّتِ ‌فردوس کا در تھا


(مجموعہ ۔ "شامِ شہرِ یاراں")

۔
 

محمد وارث

لائبریرین
سلام ۔ منیر نیازی


خوابِ جمالِ عشق کی تعبیر ہے حُسین
شامِ ملالِ عشق کی تصویر ہے حسین

حیراں وہ بے یقینیِ اہلِ جہاں سے ہے
دنیا کی بیوفائی سے دلگیر ہے حسین

یہ زیست ایک دشت ہے لا حد و بے کنار
اس دشتِ غم پہ ابر کی تاثیر ہے حسین

روشن ہے اس کے دم سے الم خانۂ جہاں
نورِ خدائے عصر کی تنویر ہے حسین

ہے اس کا ذکر شہر کی مجلس میں رہنما
اجڑے نگر میں حسرتِ تعمیر ہے حسین


(مجموعہ ۔ "ساعتِ سیّار")


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
(حفیظ تائب)


رموزِ عشق و محبت تمام جانتا ہوں
حسین ابنِ علی کو امام جانتا ہوں

انہی کے در کو سمجھتا ہوں محورِ مقصود
انہی کے گھر کو میں دارالسلام جانتا ہوں

میں ان کی راہ کا ہوں ایک ذرۂ ناچیز
کہوں یہ کیسے کہ ان کا مقام جانتا ہوں

مجھے امام نے سمجھائے ہیں نکاتِ حیات
سوادِ کفر میں جینا حرام جانتا ہوں

نگاہ کیوں ہے مری ظاہری وسائل پر
جو خود کو آلِ نبی کا غلام جانتا ہوں

میں جان و مال کو پھر کیوں عزیز رکھتا ہوں
جو خود کو پیروِ خیر الانام جانتا ہوں

شکارِ مصلحت و یاس کیوں ہو پھر تائب
جو اس کٹے ہوئے سر کا پیام جانتا ہوں

۔
 

فاتح

لائبریرین
مرثیہ از میر تقی میر

مرثیہ از میر تقی میر
بھائی بھتیجے خویش و پسر یاور اور یار
جاویں گے مارے آنکھوں کے آگے سب ایک بار
ناچار اپنے مرنے کا ہو گا امیدوار
ہے آج رات اور یہ مہمان روزگار

فردا حسین می شود از دہر نا امید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

یک دم کہ تیری ہستی میں ہو جائے گا غضب
سادات مارے جائیں گے دریا پہ تشنہ لب
برسوں فلک کے رونے کا پھر ہے یہی سبب
مت آ عدم سے عالمِ ہستی میں زینہار

فردا حسین می شود از دہر نا امید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

ماریں گے تیر شام کے نامرد سارے لوگ
دیویں گے ساتھ اس کا جنہوں نے لیا ہے جوگ
تا حشر خلق پہنے رہیں گے لباسِ سوگ
ہو گا جہاں جوان سیہ پوش سوگوار

فردا حسین می شود از دہر نا امید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

اکبر مرے گا جان سے قاسم بھی جائے گا
عباس دل جہان سےاپنا اٹھائے گا
اصغر بغل میں باپ کی اک تیر کھائے گا
شایستہ ایسے تیر کا وہ طفل شیر خوار

فردا حسین می شود از دہر نا امید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

اے کاش کوئی روز شبِ تیغ اب رہے
تا اور بھی جہاں میں وہ عالی نسب رہے
لیکن عزیز جس کے مریں سب وہ کب رہے
بے چارہ سینہ خستہ و بے یار و بے وتار

فردا حسین می شود از دہر نا امید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

ذات مقدس ابن علی کی ہے مغتنم
اک دم میں اس کے ہوویں الٰہی بزار دم
کیا شب رہے تو ہووے ہے ایام ہی میں کم
آتا ہے کون عالمِ خاکی میں بار بار

فردا حسین می شود از دہر نا امید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

کاکل میں تیرے فتنے ہیں ہر اک شکن کے ساتھ
ہنگامہ لگ رہا ہے ترے دم زدن کے ساتھ
رہ کوئی دن عدم میں ہی رنج و محن کے ساتھ
یہ بات دونوں صمع میں رکھتی ہے اشتہار

فردا حسین می شود از دہر نا امید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

جلوے میں تیرے سینکڑوں جلووں کی مے فنا
یعنی سحر پہ آنا قیامت کا ہے رہا
دن ہو گیا کہ سبط نبی مرنے کو چلا
ساتھ اپنے دے چکا ہے تلف ہونے کا قرار

فردا حسین می شود از دہر نا امید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

آبِ فرات پر تو بہ شب دن نہ پھر کبھی
خوں ریز ورنہ ہونے لگے گا بہم ابھی
سیِّد تڑپ کے پیاس سے مر جائیں گے سبھی
پیغمبرِ خدا ہی کا پروردۂ کنار

فردا حسین می شود از دہر نا امید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

دن شب کو کس امید کے اوپر کرے بھلا
جو جانتا ہو یہ کہ ستم ہو گا برملا
نکلے گی تیغِ جور کٹے گا مرا گلا
اے وائے دل میں اپنے لیے حسرتیں ہزار

فردا حسین می شود از دہر نا امید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

ایسا نہ ہو کہیں کہ نکل آوے آفتاب
وہ جو غیور مرنے میں اپنے کرے شتاب
دے بیٹھے سر کو مصر کے میں کھا کے پیچ و تاب
تر خوں میں دونوں کسو ہوں سر پر پڑے غبار

فردا حسین می شود از دہر نا امید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

جس دم خطِ شعاعی ہوئے رونقِ زمیں
افگار ہو کے نیزہ خطی سیوہ حسیں
ہوویں گے جمع پیادے سوار آن کر وہیں
ہو گا جدا وہ گھوڑے سے مجروح بے شمار

فردا حسین می شود از دہر نا امید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

لوہو جبیں کے زخم سے جاوے گا کر کے جوش
فرق مبارک اس کے میں مطلق نہ ہو گا ہوش
سجدے میں ہو رہے گا جھکا سر کے تئیں خموش
آنے کا اپنے آپ میں کھینچے گا انتظار

فردا حسین می شود از دہر نا امید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

خورشید کی بلند نہ ہو تیغ خوں فشاں
ہے درمیاں نبی کے نواسے کا پائے جاں
ایسا اگر ہوا تو قیامت ہوئی عیاں
وہ حلق تشنہ ہو گا تہِ تیغ آب دار

فردا حسین می شود از دہر نا امید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

روشن ہوا جو روز تو اندھیر ہے نداں
میداں میں صاف ہو کے کھڑا دے چکے گا جاں
ناموس کی پھر اس کے نہ عزت ہے کچھ نہ شاں
اک شش جہت سے ہو گی بلا آن کر دو چار

فردا حسین می شود از دہر نا امید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

پھر بعد قتل اس کے غضب ایک ہے یہ اور
بختی چرخ راہ چلے گا انہوں کے طور
شیوہ جفا شعار ستم طرز جن کی جور
عابد کے دست بستہ میں دی جائے گی مہار

فردا حسین می شود از دہر نا امید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

خورشید سا سر اس کا سناں پر چڑھائیں گے
عالم میں دن وہی ہے سیہ کر دکھائیں گے
بیٹے کے تئیں سوار پیادہ چلائیں گے
ہو گا عنان دل پہ نہ کچھ اس کا اختیار

فردا حسین می شود از دہر نا امید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

پیکر میں ایک کشتہ کے ہو گی نہ نیم جان
خیل و حشم کا اس کے نہ پاویں گے کچھ نشاں
شوکت کہاں سر اس کا کہاں جاہ وہ کہاں
یہ جائے اعتبار ہے کیا یاں کا اعتبار

فردا حسین می شود از دہر نا امید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

صاحب موئے اسیر ہوئے شام جائیں گے
سو کر جھکائے شرم سے ہر گام جائیں گے
ناچار رنج کھینچتے ناکام جائیں گے
لطف خدائے عز و جل کے امیدوار

فردا حسین می شود از دہر نا امید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

لازم ہے خوں چکان روش گفتگو سے شرم
کر اس نمود کرنے کی ٹک آرزو سے شرم
تجھ کو مگر نہیں ہے محمد کے رو سے شرم
بے خانماں بے دل و بے خویش بے تبار

فردا حسین می شود از دہر نا امید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

راہِ رضا میں عاقبتِ کار سر گیا
ایسی گھڑی چلا کہ مدینے نہ پھر گیا
ہوں آفتاب جانبِ شام آ کے گھر گیا
خاطر شکستہ غم زدہ آزردہ دل فگار

فردا حسین می شود از دہر نا امید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید

آثار دکھ کے ہیں در و دیوار سے عیاں
چھایا ہے غم زمین سے لے تا بہ آسماں
کچھ میر ہی کے چہرے پہ آنسو نہیں رواں
آیا ہے ابر شام سے روتا ہے زار زار

فردا حسین می شود از دہر نا امید
اے صبح دل سیہ بہ چہ رومی شوی سفید​
 

محمد وارث

لائبریرین
شامِ غریباں ۔ پروین شاکر


غنیم کی سرحدوں کے اندر
زمینِ نامہرباں پہ جنگل کے پاس ہی
شام پڑ چکی ہے
ہوا میں کچے گلاب جلنے کی کیفیت ہے
اور ان شگوفوں کی سبز خوشبو
جو اپنی نوخیزیوں کی پہلی رتوں میں
رعنائیِ صلیبِ خزاں ہوئے
اور بہار کی جاگتی علامت ہوئے ابد تک
جلے ہوئے راکھ خیموں سے کچھ کھلے ہوئے سر
ردائے عفت اوڑھانے والے
بریدہ بازو کو ڈھونڈتے ہیں
بریدہ بازو کہ جن کا مشکیزہ
ننھے حلقوم تک اگرچہ پہنچ نہ پایا
مگر وفا کی سبیل بن کر
فضا سے اب تک چھلک رہا ہے
برہنہ سر بیبیاں ہواؤں میں سوکھے پتوں
کی سرسراہٹ پہ چونک اٹھتی ہیں
بادِ صرصر کے ہاتھ سے بچنے
والے پھولوں کو چومتی ہیں
چھپانے لگتی ہیں اپنے دل میں
بدلتے، سفاک موسموں کی ادا شناسی نے چشمِ
حیرت کو سہمناکی کا مستقل رنگ دے دیا ہے
چمکتے نیزوں پہ سارے پیاروں کے سر سجے ہیں
کٹے ہوئے سر
شکستہ خوابوں سے کیسا پیمان لے رہے ہیں
کہ خالی آنکھوں میں روشنی آتی جارہی ہے۔


۔
 

محمد وارث

لائبریرین
(امجد اسلام امجد)


میں نوحہ گر ہوں
میں اپنے چاروں طرف بکھرتے ہوئے زمانوں کا نوحہ گر ہوں
میں آنے والی رتوں کے دامن میں عورتوں کی اداس بانہوں کو دیکھتا ہوں
اور انکے بچوں کی تیز چیخوں کو سن رہا ہوں
اور انکے مَردوں کی سرد لاشوں کو گن رہا ہوں
میں اپنے ہاتھوں کے فاصلے پر فصیلِ دہشت کو چھو رہا ہوں
زمیں کے گولے پر زرد کالے تمام نقطے لہو کی سرخی میں جل رہے ہیں
نئی زمینوں کے خواب لے کر
مسافر اِن تباہ یادوں کے ریگ زاروں میں چل رہے ہیں
میں نوحہ گر ہوں مسافروں کا جو اپنے رستے سے بے خبر ہیں
میں ہوش والوں کی بد حواسی کا نوحہ گر ہوں
حُسین، میں اپنے ساتھیوں کی سیہ لباسی کا نوحہ گر ہوں
ہمارے آگے بھی کربلا ہے، ہمارے پیچھے بھی کربلا ہے
حُسین، میں اپنے کارواں کی جہت شناسی کا نوحہ گر ہوں
نئے یزیدوں کو فاش کرنا ہے کام میرا
ترے سفر کی جراحتوں سے
ملا ہے مجھ کو مقام میرا
حُسین، تجھ کو سلام میرا


۔
 
Top