شاٹ گن یعنی بندوق کے کام کرنے کا طریقہ اور ڈیزائن

بندوق کی ایجاد کی تاریخ 1800 کی ابتداء سے ہوتی ہے جب لوگوں نے بندوق کی مدد سے پرندوں کا شکار کرنا شروع کیا۔ اس وقت چقماق سے آگ جلائی جاتی تھی جس کی وجہ سے ان ابتدائی بندوقوں میں بھی یہی طریقہ استعمال ہوا۔ تاہم اس کا یہ نقصان تھا کہ بندوق کی لبلبی دبانے اور بندوق کے چلنے کے درمیان کافی وقفہ آ جاتا تھا۔ ایک سکاٹش مذہبی رہنما نے یہ بات محسوس کی کہ آگ سلگتی دیکھ کر پرندے اپنا رخ بدل لیتے تھے اور جب بندوق چلتی تو پرندے بچ جاتے۔ اس وجہ سے اس نے نیا نظام ایجاد کیا جس میں پرکشن لاک ایجاد کرنے کی کوشش کی جو بندوق کے علاوہ دیگر آتشی ہتھیاروں میں بھی استعمال ہوا اور اسے ہتھیاروں کی دنیا میں انقلابی ایجاد مانا جاتا ہے۔
پرکشن لاک کی جگہ بعد میں نئے کارتوس استعمال ہونے لگے جو ابھی تک استعمال ہوتے آ رہے ہیں۔
بندوق ایک نالی اور دو نالی بھی ہوتی ہے۔ دو نالی بندوقوں میں عام طور پر ہر نال کی الگ سے لبلبی ہوتی ہے۔ دو نالی بندوقوں میں نالیاں دو طرح سے ملتی ہیں۔ پہلو بہ پہلو یعنی سائیڈ بائی سائیڈ اور اوپر نیچے یعنی اوور اینڈ انڈر۔ پہلی قسم میں دونوں نالیاں ایک دوسرے کے پہلو میں جبکہ دوسری قسم میں نالیاں ایک دوسرے کے اوپر نیچے لگی ہوتی ہیں۔
shotgun-action.JPG

پہلو بہ پہلو (Side by Side)
over-and-under.jpg

اوپر نیچے(Over and Under)​
دو نالی بندوقوں کی نالیاں ایک دوسرے کے بالکل متوازی نہیں ہوتیں بلکہ عموماً چالیس گز کے فاصلے پر ایک ہی جگہ مار کرتی ہیں۔ کچھ بندوقوں میں یہ نالیاں ایک دوسرے سے مختلف بھی ہوتی ہیں جیسا کہ ایک سادہ جبکہ دوسری میں پیچ دار چکر یعنی رائفلنگ بنی ہوتی ہے یا پھر ایک نالی سادہ جبکہ دوسری باہری سرے پر تھوڑا سا تنگ ہو جاتی ہے جسے چوک کہتے ہیں۔ کئی دفعہ دونوں نالیاں ایک جیسی بنائی جاتی ہیں۔
بندوق چاہے جس قسم کی بھی ہو، اس کو کھولنے اور بھرنے کا نظام سب سے زیادہ جو استعمال ہوتا ہے، وہ اوپر تصویر میں دکھایا گیا ہے۔ اسے بریچ لوڈنگ کہتے ہیں۔ یہ نظام 1875 میں پہلی بار ایجاد ہوا اور اس کی مدد سے نہ صرف بندوق میں کارتوس بھرا جاتا ہے بلکہ بندوق چلنے کے لئے بھی تیار ہو جاتی ہے۔ بندوق بھرنے اور چلانے کا پہلا نظام اینسن اور ڈیئرلی نے پیش کیا تھا۔ ان کی بندوق ہیمر لیس یعنی بغیر گھوڑے والی تھی۔ آج تک یہی نظام تقریباً اسی شکل میں استعمال ہو رہا ہے۔
side-motion.jpg

سائڈ موشن ایکشن​
بندوق بھرنے کا ایک اور نظام سائیڈ موشن کہلاتا ہے جو 1800 صدی کے نصف میں ایجاد ہوا اور اب بہت کم دکھائی دیتا ہے۔ اس نظام میں نالیوں کو ایک دھاتی تھالی پر لگایا جاتا ہے۔ جب لیور کو گھمایا جاتا ہے تو یہ تھالی گھومتی ہے اور نالیاں کھل جاتی ہیں۔
ایک اور نظام سلائیڈنگ ایکشن کہلاتا ہے جو 19ویں صدی میں ایجاد ہوا لیکن اب متروک ہو چکا ہے۔ یہ نظام بہت کم استعمال ہوا اور شروع سے ہی اسے لوگوں نے پسند نہیں کیا۔
sliding-breech1.JPG

سلائڈنگ ایکشن​
ایک اور نظام سلائیڈنگ ایکشن کہلاتا ہے جو 19ویں صدی میں ایجاد ہوا لیکن اب متروک ہو چکا ہے۔ یہ نظام بہت کم استعمال ہوا اور شروع سے ہی اسے لوگوں نے پسند نہیں کیا۔

Winchester_Model_1873.jpg

لیور ایکشن​
لیور ایکشن کی جگہ پمپ ایکشن نے لے لی۔ اس قسم کی اولین مقبول بندوقوں میں ونچسٹر کے ماڈل ایم 1893 اور ایم 1897 شامل ہیں جنہیں جان براؤننگ نے بنایا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ براؤننگ کو ونچسٹر نے ہدایت کی تھی کہ کئی فائر کرنے والی بندوق کا ڈیزائن بنائے۔ براؤننگ نے بتایا کہ اس قسم کے لئے پمپ ایکشن بہترین ہے۔ تاہم ونچسٹر کے پاس چونکہ لیور ایکشن بنانے کی فیکٹری تھی، اس لئے انہوں نے پمپ ایکشن کی جگہ لیور ایکشن بنانے کا حکم دیا۔ نتیجتاً ایم 1887 تیار ہوئی۔ تاہم بعد میں انہوں نے براؤننگ کی تجویز کے مطابق پمپ ایکشن بندوق بھی بنانا شروع کی جو ایم 1893 تھی۔ بعد میں اسی ماڈل کو بہتر بنا کر ایم 1897 بنائی گئی۔ یہ بات اہم ہے کہ اس بندوق کو اتنی مقبولیت ملی کہ پہلی جنگ عظیم میں امریکی فوجیوں نے اسے استعمال کیا اور خندقوں اور مورچوں میں استعمال کے لئے یہ بہترین ثابت ہوئی۔ تیزی سے فائر کرنے اور چھروں کے پھیل جانے کے سبب بغیر نشانہ لئے کئی دشمنوں کو بیک وقت مارا جا سکتا تھا۔ اس وجہ سے امریکی فوجیوں نے اسے بہت مفید پایا۔ اس کی افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ زہریلی گیس کے استعمال کی اجازت کرنے والی اعلٰی جرمن فوجی کمان نے جینوا کنونشن میں اس بندوق کو جنگ میں استعمال کو غیر قانونی قرار دلوانے کی کوشش کی۔ پمپ ایکشن آج بھی مقبول عام ڈیزائن ہے۔
winchester-pump-action.JPG

پمپ ایکشن​
نیم خود کار یعنی سیمی آٹو میٹک بندوقیں بھی میسر ہیں جن میں فائر کرتے ہی خالی کارتوس خود بخود نکل جاتا ہے اور دوسرا کارتوس اس کی جگہ لے لیتا ہے اور بندوق چلانے کے لئے تیار ہو جاتی ہے۔ نیم خود کار بندوقوں میں کئی تکنیکیں استعمال ہوتی ہیں جن میں لانگ ری کوائل ایکشن، انرشیا آپریٹڈ ایکشن یا پھر گیس آپریٹڈ ایکشن عام ہیں۔ پہلی نیم خود کار بندوق اے 5 کے نام سے مشہور ہوئی جس کا ڈیزائن 1898 میں جان براؤننگ نے تیار کیا تھا۔ یہ ماڈل 1998 تک تیار کی جاتی رہی۔
800px-RemingtonMd11.JPG

رمنگٹن ایم ڈی 11 سیمی آٹو میٹک​
بولٹ ایکشن بندوقیں بھی کبھی کبھار دکھائی دے جاتی ہیں لیکن عام نہیں پائی جاتیں۔ اس کا ایک مشہور ماڈل اعشاریہ 410 کیلیبر تھا جسے ایشا پور آرسینل آف انڈیا نے تیار کیا تھا۔ اس کی بنیاد لی این فیلڈ کا مارک 3 ماڈل تھا۔
ishapore-shotgun.jpg

ایشا پور شاٹ گن بولٹ ایکشن
ربط
http://firearmshistory.blogspot.com/2011/02/shotguns-actions-and-designs.html
اس مضمون کے ترجمہ کے لئے [SIZE=7]قیصرانی بھائی[/SIZE] کا ممنون ہوں اور اپنئ یہ کاوش ان کے نام سے موسوم کرتا ہوں
 

یوسف-2

محفلین
اللہ خیر کرے۔ کیا ہم پاکستانی عوام گنز کے استعمال میں پہلے کسی سے کم تھے جو اب انہیں مزید تربیت فراہم کی جارہی ہے :D
 

جیہ

لائبریرین
زبردست ۔۔
ایک دفعہ ہم نے بھی کوشش کی تھی شاٹ گن چلانے کی۔ گولی کتنی دور گئی تھی، یہ معلوم نہیں مگر ہم 5 فٹ پیچھے گرے تھے :) البتہ طالبان سے پہلے کالام کے علاقے گبرال میں کلاشنکوف خوب چلائی تھی۔
 
اللہ خیر کرے۔ کیا ہم پاکستانی عوام گنز کے استعمال میں پہلے کسی سے کم تھے جو اب انہیں مزید تربیت فراہم کی جارہی ہے :D
شاٹ گن کے بارے میں میں نے سپورٹنگ آرمز کے نقطہ نظر سے یہ دھاگہ لگایا ہے
اور آپ ہمیشہ دور کی کوڑی لاتے ہیں
 
زبردست ۔۔
ایک دفعہ ہم نے بھی کوشش کی تھی شاٹ گن چلانے کی۔ گولی کتنی دور گئی تھی، یہ معلوم نہیں مگر ہم 5 فٹ پیچھے گرے تھے :) البتہ طالبان سے پہلے کالام کے علاقے گبرال میں کلاشنکوف خوب چلائی تھی۔
شاٹ گن کا اتنا دھکہ نہیں لگتا :)
کلاشنکوف سپورٹنگ آرمز کے زمرے میں نہیں آتی
پسند کرنے کا شکریہ
شاد و آباد رہیں
 

فلک شیر

محفلین
زبردست ۔۔
ایک دفعہ ہم نے بھی کوشش کی تھی شاٹ گن چلانے کی۔ گولی کتنی دور گئی تھی، یہ معلوم نہیں مگر ہم 5 فٹ پیچھے گرے تھے :) البتہ طالبان سے پہلے کالام کے علاقے گبرال میں کلاشنکوف خوب چلائی تھی۔
کلاشن سے نشانہ خوب بنتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ البتہ اگر کہیں "دشکہ" چلانے کا موقع ملے تو ضائع مت کیجیے گا
:)
 
کلاشن سے نشانہ خوب بنتا ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ البتہ اگر کہیں "دشکہ" چلانے کا موقع ملے تو ضائع مت کیجیے گا
:)
آپ کی بات درست ہے کلاشنکوف سے نشانہ لینا آسان ہے مگر شاٹ گن سے نشانہ لینے میں کچھ مشق کی ضرورت ہوتی ہے خاص طور پر اُڑتے ہوئے پرندے کا نشانہ لینا بہت مشق اور مہارت کا متقاضی ہے
 

فلک شیر

محفلین
محترم شاہ صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معلوماتی اور مفید شراکت کے لیے شکرگزار ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بے حد
ہم ہر سال کالج میں شوٹنگ کا مقابلہ کرواتے ہیں۔۔۔۔۔۔ :)
پٹھان اکثر پیچھے رہ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بلوچ اور پنجابی بچے آگے نکل جاتے ہیں پوائنٹس میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عجب اتفاق ہے
 
محترم شاہ صاحب۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ معلوماتی اور مفید شراکت کے لیے شکرگزار ہوں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔بے حد
ہم ہر سال کالج میں شوٹنگ کا مقابلہ کرواتے ہیں۔۔۔ ۔۔۔ :)
پٹھان اکثر پیچھے رہ جاتے ہیں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ بلوچ اور پنجابی بچے آگے نکل جاتے ہیں پوائنٹس میں۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ عجب اتفاق ہے
شوٹنگ کے مقابلےمیں اکثر شاٹ گن استعمال ہوتی ہے پٹھانوں کو زیادہ تر رائفل چلانے کی عادت ہوتی ہے اس لئے شاٹ گن میں وہ مار کھا جاتے ہیں اگر مقابلے میں شاٹ گن کے بجائے رائفل استعمال ہو تو شایدنتیجہ مختلف ہو
 

فلک شیر

محفلین
کیا خوب نام رکھا ہے :laughing:
مجھے ٹھیک سے تو علم نہیں، لیکن میں نے بہت سی عسکری اصطلاحات اور ہتھیاروں کے ناموں کے بارے میں سنا ہے کہ پشتونوں نے عربیوں سے یہ نام لیے ہیں افغان جہاد کے دوران۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہاون، اجتمعو، انتشار، مقذوف، نظیفہ.................اور بہت سے اور ایسے نام۔۔۔۔۔۔۔
شاید یہ دشکہ بھی انہی سے لیا گیا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہرحال صحیح معلومات تو کسی پشتون سے ہی مل سکتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
:)
 
Top