عدیم ہاشمی شامِل تھا یہ سِتم بھی کسی کے نصاب میں

شیزان

لائبریرین
شامِل تھا یہ سِتم بھی کسی کے نصاب میں
تِتلی ملی حنُوط پُرانی کتاب میں

دیکھوں گا کِس طرح سے کسی کو عذاب میں
سب کے گناہ ڈال دے میرے حساب میں

پھر بے وفا کو بحرِ محبت سمجھ لیا
پھر دل کی ناؤ ڈُوب گئی ہے سرَاب میں

پہلے گلاب اُس میں دِکھائی دیا مجھے
اب وہ مجھے دِکھائی دیا ہے گلاب میں

وہ رنگِ آتشیں، وہ دہکتا ہوا شباب
چہرے نے جیسے آگ لگا دی نقاب میں

بارش نے اپنا عکس کہیں دیکھنا نہ ہو
کیوں آئینے اُبھرنے لگے ہیں حباب میں

گردش کی تیزیوں نے اُسے نُور کر دیا
مٹی چمک رہی ہے یہی آفتاب میں

اُس سنگدل کو میں نے پکارا تو تھا عدیم
اپنی صدا ہی لوٹ کر آئی جواب میں​

عدیم ہاشمی
 

باباجی

محفلین
واہ واہ واہ
بہت ہی خوب غزل ہے
ایک ایک شعر خوبصورت ہے
خاص طور سے اس شعر نے تو مزہ ہی دے دیا
جب سے پڑھا ہے جھوم رہا ہوں

پہلے گلاب اُس میں دِکھائی دیا مجھے
اب وہ مجھے دِکھائی دیا ہے گلاب میں
 

شیزان

لائبریرین
واہ واہ واہ
بہت ہی خوب غزل ہے
ایک ایک شعر خوبصورت ہے
خاص طور سے اس شعر نے تو مزہ ہی دے دیا
جب سے پڑھا ہے جھوم رہا ہوں

پہلے گلاب اُس میں دِکھائی دیا مجھے
اب وہ مجھے دِکھائی دیا ہے گلاب میں
انتخاب کی پسندیدگی پر دلی شکریہ بابا جی:)
عدیم ہاشمی کا آخری مجموعہ" بہت نزدیک آتے جا رہے ہو" پڑھ رہا تھا۔ اسی میں سے یہ تین غزلیں کمپوز کی ہیں۔
مکمل پوسٹ کروں گا ان شاء اللہ
 
Top