ن م راشد شاعر ِ درماندہ - از ن م راشد

فرخ منظور

لائبریرین
شاعر ِ درماندہ

زندگی تیرے لیے بستر ِ سنجاب و سمور
اور میرے لیے افرنگ کی دریوزہ گری
عافیت کوشئ آبا کے طفیل،
میں ہوں درماندہ و بے چارہ ادیب
خستہء فکر ِ معاش!
پارہء نان ِ جویں کے لیے محتاج ہیں ہم
میں، مرے دوست، مرے سینکڑوں ارباب وطن
یعنی افرنگ کے گلزاروں کے پھول!
تجھے اک شاعر درماندہ کی امّید نہ تھی
مجھ سے جس روز ستارہ ترا وابستہ ہوا
تو سمجھتی تھی کہ اک روز مرا ذہن رسا
اور مرے علم و ہنر
بحر و بر سے تری زینت کو گہر لائیں گے!
مرے رستے میں جو حائل ہوں مرے تیرہ نصیب
کیوں دعائیں تری بے کار نہ جائیں
تیرے راتوں کے سجود اور نیاز
(اس کا باعث مرا الحاد بھی ہے !)

اے مری شمع شبستان ِ وفا،
بھول جا میرے لیے
زندگی خواب کی آسودہ فراموشی ہے!
تجھے معلوم ہے مشرق کا خدا کوئی نہیں
اور اگر ہے، تو سرا پردہء نسیان میں ہے
تو "مسرّت" ہے مری، تو مری "بیداری" ہے
مجھے آغوش میں لے
دو "انا" مل کے جہاں سوز بنیں
اور جس عہد کی ہے تجھ کو دعاؤں میں تلاش
آپ ہی آپ ہویدا ہو جائے!
 
Top