شاعری کیا ہے؟

محمداحمد

لائبریرین
اردو محفل کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں اردو شاعری کے دیوانوں کے ذوق کی تسکین کے لئے اعلٰی ترین شاعری کا قابلِ ذکر انتخاب موجود ہے ۔ ساتھ ساتھ یہاں ایسے کُہنہ مشق سخن طراز اور غایت درجہ کے سخن فہم بھی موجود ہیں جو اپنے عمدہ کلام ، علم اور بصیرت سے محفل کو گرماتے رہتے ہیں۔ یقیناً اردو کی اس خوبصورت محفل کے قیام میں قدرت کےحسنِ انتظام اور ہماری خوش بختی کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کی شبانہ روز محنت کا بھی دخل ہے اور انتظامیہ کی سعی لائقِ صد ستائش ہے۔

اس خوبصورت محفل اور احباب کی موجودگی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُردو شاعری کے حوالے سے چند سوالات پر احباب کی رائے درکار ہے اُمید ہے سب احباب اپنی علم اور تجربے سے محفل کو فیضیاب کریں گے۔

1۔ شاعری کیا ہے؟
2۔ اعلیٰ ترین شاعری کی جامعہ تعریف، آپ کی نظر میں؟
3۔ وہ کون سے اوصاف ہیں جو کسی کلام کو درجہٗ کمال تک پہنچاتے ہیں۔

تمام اساتذہ اور دیگر احباب سے درخواست ہے کہ اپنی رائے کا اظہار کریں۔مزید متعلقہ سوالات احباب کی ثوابدید پر شامل کئے جا سکتے ہیں۔
 

مغزل

محفلین
شکریہ نظامی صاحب۔ اس لڑی کی بنیاد اسی سوال سے اٹھی تھی کہ شاعری / اعلی شاعری قافیہ پیمائی نہیں۔
باقی احباب بھی رائے دیں تو ۔۔۔۔۔۔۔ ہم ان سوالات سے بحث کے بعد کسی نتیجے پر پہنچیں گے ، انشا اللہ
احباب سے (بشمول میرے) التماس ہے کہ یہ ایک سنجیدہ بحث ہے ۔ نوک جھونک سے پرہیز کریں۔۔
صرف متعلقہ احباب ، شاعر، ناقد، نثر نگار ، قاری ہی اس بحث کا حصہ نہیں آپ بھی رائے دیجئے ۔۔۔
 

الف نظامی

لائبریرین

3۔ وہ کون سے اوصاف ہیں جو کسی کلام کو درجہٗ کمال تک پہنچاتے ہیں۔
محاسن سخن سے مزین اور معائب سخن سے محفوظ کلام ۔

ویسے مجھے صنعت ایجاز پسند ہے
الفاظ قلیل اور معانی کثیر

میرے نزدیک چھوٹی بحراور معنی آفرینی ، قادر الکلامی کی دلیل ہے۔
 

مغزل

محفلین
وارث بھائی ، الف عین ، سلمان جاذب ، باباجانی ، فاتح صاحب، سخنور صاحب
بھی رجوع کریں تاکہ ہمیں کچھ سیکھنے کو ملے۔
والسلام
 

راجہ

محفلین
شاعری ان منظم جذبات کا نام ہے جو فی البدیہ نازل ہوتے ہیں۔۔۔ ان جذبات کے اسبا ب مختلف ہو سکتے ہیں‌۔

کبھی خوشی کبھی غم۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر تنہائی میں‌نزول ہوتا ہے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت اچھا سلسلہ شروع کیا ہے مبارک قبول کریں احمد صاحب۔
مختصر، شاعری میرے مطابق۔
شاعری حالات و واقعات کی ترجمان ہوتی ہے اور اس معاشرے اور ماحول کی عکاسی کرتی ہے جس میں شاعر رہتا ہے، صرف فنِ شاعری ہی شاعری کا موجد نہیں، بلکہ وہ جذبات جو شاعر کو شعر کہنے پر مجبور کریں شاعری ہیں، بہترین شاعری بہترین خیالات کی عکاسی کرتی ہے، جو شعر حالات اور واقعات کا عکاس ہو وہی با کمال شعر ہوتا ہے، شعر ایسے معنی کا حامل ہو کہ جو بھی پڑھے وہ یہی سمجھے کہ بات اسی کے خیالات کی عکاسی کر رہی ہے۔ سرف فنِ سخن ہی اچھی شاعری کا ضامن نہیں، بقول کسی شاعر۔
غزل میں صرف بندش و الفاظ ہی نہیں کافی۔ جگر کا کچھ خون بھی چاہئیے اثر کے لیئے۔
 

مغزل

محفلین
بہت شکریہ صاحبان ۔
بابا جانی ، وارث صاحب، فاتح الدین بشیر محمود صاحب اور دیگر صاحبانِ فن بھی کرم فرمائیں۔
والسلام
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
7 فروری 2009 کا یہ دھاگہ ابھی مکمل نہیں ہوا اور ایک سال ایک ماہ اور 15 دن بعد اس پر تبصرہ ہونے والا ہے بلکے ہو چکا ہے اساتذ اکرام سے درخواست ہے ادھر بھی نظرِ کرم فرمائے کہ یہ دھاگہ پیاسا ہے
 
سلام مسنون!
جناب محمد احمد صاحب، آپ نے بہت بڑا موضوع منتخب کیا ہے۔ پہلے آپ کے پیش کردہ تینوں سوالوں کے حیطہ پر بات کرنا چاہوں گا۔

1۔ شاعری کیا ہے؟
اگر یہ سوال عالمی ادب کے تناظر میں ہے تو ایک ایسی بحث چل سکتی ہے جس کا حاصل کچھ ہو نہ ہو، اختتام نہیں ہو گا۔ مناسب ہو گا کہ اس کو زبان کے ساتھ محتص کر لیا جائے اور دیگر زبانوں کے حوالے لانے میں بہر حال کوئی قباحت نہیں۔
2۔ اعلیٰ ترین شاعری کی جامعہ تعریف، آپ کی نظر میں؟
پہلے تو معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ یہاں لفظ ’’جامع‘‘ کا تقاضا ہے ’’جامعہ‘‘ کا نہیں۔ اس سوال کا جواب مختصر نہیں ہو سکتا۔ اس سوال میں کئی ذیلی سوالات از خود موجود ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم پہلے ان سوالوں‌ کا تعین کر لیں! اور پھر باری باری ان پر اہل علم کی آراء کو جمع کیا جائے۔ یہاں کسی دوست کو ماڈریٹر کے فرائض بھی ادا کرنے ہوں گے، کہ وہ بحث کو موضوع سے دور نہ جانے دیں۔ اور ظاہر ہے یہ کڑی ذمہ داری آپ پر ہی آئے گی، ویسے بھی اس کے محرک آپ ہیں۔
3۔ وہ کون سے اوصاف ہیں جو کسی کلام کو درجہٗ کمال تک پہنچاتے ہیں۔
بظاہر یہ بہت ہی نصابی قسم کا سوال ہے۔ سوال در سوال یہ بھی ہے کہ ’’درجہءِ کمال‘‘ کا تعین کیسے ہو؟

ہر زبان کے پیچھے ایک معاشرہ ہوتا ہے، اس کے رسوم و رواج، روایات، مڈہب، طرزِ زندگی، مناظر، مظاہر، مواقع اور جملہ تہذیبی عناصر ہوتے ہیں، معاشرے کے افراد کی زبان ہوتی ہے، جو طبقہ بہ طبقہ تنوع کی حامل ہوتی ہے، زبان کے اپنے مظاہر ایک بہت بڑا موضوع ہے۔ زبان کے طبقات کا تعین کیسے ہو گا اور ادب اور عوامی زبان کا کیا تعلق بنتا ہے، اصنافِ سخن کی بات کیسے چلے گی۔ ابلاغ کیا ہے، لوک شاعری اور لوک داستان کو کس طرح دیکھا جائے گا، ادب اور ادیب کا مقام کیسے طے ہو گا۔ وغیرہ!
ہمیں ان تمام پہلوؤں کے محددات کا تعین بھی کرنا ہے اور ان پر بات بھی کرنی ہے۔ لہٰذا ہمیں اس موضوع کو فی الحال عالمی سطح کی بجائے کسی ایک زبان ، کسی ایک معاشرے  تک محدود کرنا ہوگا۔ اگلا قدم عالمی ادب کی طرف اٹھایا جائے تو وہاں بھی ہمیں عالمی ادب میں اپنی زبان کی حیثیت پر بات کر ہو گی۔ حوالہ کے لئے ظاہر ہے کوئی بارڈر لائن نہیں لگائی جا سکتی۔
مزید معروضات بعد میں پیش کروں گا۔ ان شاء اللہ
فقط محمد یعقوب آسی
 

محمداحمد

لائبریرین
یہ میری خوش بختی ہے کہ ایک عرصے کے بعد یہ دھاگہ پھر سے رواں ہوگیا ہے۔

اُن تمام دوستوں کا شکریہ جنہوں نے اس سلسلے میں اپنی رائے کا اظہار کیا۔

جناب محمد یعقوب آسی صاحب!

آپ کا بھی بے حد شکریہ کہ آپ نے ناصرف اس دھاگے کو لائقِ توجہ سمجھا بلکہ شاعری سے متعلق کئے گئے سوالات کو بتدریج حل کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس سلسلے میں آپ کی اگلی پوسٹ کا انتظار رہے گا ۔ ساتھ ساتھ دیگر اساتذہ و احباب سے بھی درخواست ہے کہ اس سلسلے میں رہنمائی فرماتے رہیں۔

اُمید ہے کافی کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
یہاں کسی دوست کو ماڈریٹر کے فرائض بھی ادا کرنے ہوں گے، کہ وہ بحث کو موضوع سے دور نہ جانے دیں۔ اور ظاہر ہے یہ کڑی ذمہ داری آپ پر ہی آئے گی، ویسے بھی اس کے محرک آپ ہیں۔

بھائی مغل میرے لئے اس لڑی کے محرک تھے اور وہ ماڈریٹرز میں شامل بھی ہیں سو میں درخواست کروں گا کہ وہ (یا اس فورم کے ماڈریٹر) اس طرف توجہ فرمائیں۔
 

مغزل

محفلین
شکریہ آسی صاحب ، شاید نہیں بلکہ یقینا یہ دھاگہ طاقِ نسیاں بھی رہتے ہوئے اسی لیے سانسیں لے رہا تھا کہ اسے جِلا بخشنے کے لیے آپ کی محفل ، بعد ازاں اس لڑی میں آمد کا انتظار کیا جائے ۔ فرخ بھائی اور مجھ خاکسار و خاکم بد دہن کی ذمہ داری ہے کہ انشا اللہ اس لڑی ( بشمول شعبہ) کو بھٹکنے نہ دیا جائے ۔ کسی مجبوری یا میرے غیاب میں فرخ بھائی اور ان کے غیاب میں بندہ حاضر رہے گا، انشا اللہ۔ سو بسم اللہ
 
ہمارا اس وقت کا موضوع: شاعری کیا ہے؟

اس وقت ہمارا یہ موضوع اردو زبان کے حوالے سے ہے لہٰذا ہم اس لفظ یا اصطلاح شاعری کو اردو زبان کے حوالے سے لیں گے۔ یونانی، انگریزی، فرانسیسی اور دیگر زبانوں کے علماء و فلاسفہ نے جو بھی جواب دئے ہیں ان کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہو سکتی ہے مگر ضروری نہیں کہ وہ اردو پر بھی بعینہ منطبق ہوتی ہو۔
کسی بھی معاشرے میں زبان ابلاغ کا مؤثر ترین اور اعلٰی ذریعہ ہے۔ ایک ہی معاشرے کے مختلف طبقات میں بولے جانے والے لہجے اور الفاظ ایک ہی زبان کا حصہ ہوتے ہوئے بھی باہم دیگر کسی قدر مختلف ہوتے ہیں۔ اور بسا اوقات زبان کا ایک لہجہ بولنے والوں کے لئے دوسرے لہجے کے الفاظ کی ادائیگی مشکل بھی ہو سکتی ہے۔
دوسرا اہم سوال کسی زبان کی پیدائش، تشکیل، اور افزائش کے عوامل اور عناصر سے بحث کرتا ہے۔ کرہ ارض پر انسانی زندگی کی ابتدا میں ظاہر ہے تمام انسانوں کی (ایک جوڑے سے سے لے کر متعدد بستیوں کے آباد ہونے تک) ایک ہی تھی، کہا جاتا ہے کہ وہ عربی زبان تھی۔
جیسے جیسے انسانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور لوگ اپنی زندگی کی ضروریات کی تسکین کے لئے کرہ ارض پر پھیلتے چلے گئے، مختلف نئی اشیاء نئے جانور، نئے مظاہر فطرت ان کے مشاہدے میں آتے گئے۔ زمین کے مختلف خطوں کی طرف مہاجرت کرنے والوں کے مشاہدات بھی مختلف رہے ہوں گے۔ اور ان کو حصول رزق اور دیگر فطری تقاضوں کی تکمیل کے لئے ایسے کام بھی کرنے پڑے ہوں گے جن سے وہ پہلے آشنا نہیں تھے۔ یوں ہر انسانی گروہ جسے آپ قبیلہ، ٹولی یا جو نام بھی دے دیں۔ نئے اسماء اور افعال سے روشناس ہوا۔ اور وہ زبان جو روایات کے مطابق نافِ زمین پر بولی جاتی تھی، اس نے مختلف علاقوں میں مختلف اسماء و افعال اور اور پھر مختلف لہجے اور نظام اصوات اختیار کر لئے۔ یہ عمل زبانوں کی پیدائش کا عمل کہلا سکتا ہے۔
زبانوں کی پیدائش کے بڑے عوامل میں مسافرت، جنگیں، سیاسی اور معاشی غلبات، تہذیبی عروج و زوال وغیرہ بھی رہے ہیں، جن کی تفصیل میں جانے کا یہاں موقع نہیں۔ اردو بھی ایسے عوامل کا ثمرہ کہلا سکتی ہے۔ اردو کہاں پیدا ہوئی اور اس کی ابتدائی نشو و نما کہاں ہوئی، اس سوال کے بہت سے جوابات دئے گئے ہیں۔ تاہم اس سے قطع نظر کہ اردو بولنے والا پہلا شخص کشمیری تھا، یا دہلوی، یا پنجابی، یا دیبلی یا کوئی اور، یہ زبان غیر منقسم بر صغیر میں پیدا ہوئی اور پھر غیر معمولی تیزی کے ساتھ پروان چڑھی۔ اس کی ایک وجہ غالبا” یہ رہی ہے کہ تب کے ہندوستان میں بہت سی قومیتیں آباد تھیں جن کی اپنی اپنی زبانیں تھیں جن میں سے بہت سی آج بھی رائج ہیں۔ان قومیتوں کے مابین باہمی رابطے کے لئے یہ نوزائیدہ زبان موزوں ترین رہی ہو گی۔ یوں اس کو لوگ بھی مل گئے، اور مٹی بھی مل گئی۔ گویا نہالِ اردو کو سرزمینِ ہند کی مٹی راس آ گئی۔
اردو کی تشکیل میں تین بڑی زبانیں اہم ہیں۔ عربی، فارسی اور ہندوستان کی مقامی زبانیں جن کو عرفِ عام میں ہندی کہہ دیا جاتا ہے۔ اس ”ہندی“ میں بہت سی زبانیں اور لہجے از خود شامل ہیں، مثال کے طور پر سنسکرت، مراٹھی، پنجابی، ہندکو، سندھی، بلوچی، بنگالی، پشتو، کشمیری، گجراتی، وغیرہ۔ ہم اپنی آسانی کے لئے ان تینوں اجزاء کو عربی فارسی اور ہندی کہیں گے۔ دیگر غیر ملکی زبانوں میں روسی، ترکی، فرانسیسی، جرمن، انگریزی اور دیگر زبانوں کے الفاظ بھی اردو میں شامل ہوتے گئے تاہم اس کا ثقافتی ناطہ ہندوستان سے ہی رہا۔ اور اسی خطے کی مٹی اور پانی نے اس زبان کو سینچا۔
پہلا عنصر: عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ اردو کی ابتداء دیبل پر محمد بن قاسم کے حملے کے اثرات کے طور پر ہوئی۔ محمد بن قاسم اور اس کے سپاہی اپنے ساتھ اسلامی نظریات اور لسان القرآن لائے تھے۔ بہت سے سپاہی اسی سرزمین پر بس گئے اور مقامی آبادی سے مصاحرت کے بعد اولا” دیبل کے گرو و نواح اور پھر بورے ہندوستان کی آبادی کا حصہ بن گئے۔ اسلامی تصورات کا نفوذ اور مقامی لوگوں کے قبول اسلام کا ایک طویل سلسلہ چلا۔
دوسرا عنصر: فارسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خود کو عرب اور باقی ساری دنیا کو عجم کہنے والوں نے صرف فارسی زبان کو در خورِ اعتناء سمجھا اور نہ صرف اس کے متعدد اسماء کو قبول کیا بلکہ دونوں زبانوں میں لفظیات کے اشتراک و اشتباہ کی مثالیں اب بھی سامنے آ رہیں ہیں۔ مثال کے طور پر مرغن، نزاکت اور ایسے الفاظ حال ہی میں فیس بک پر بھی زیرِ بحث رہے ہیں۔ بلوچی اور پشتو میں فارسی زبان اور اس کے دری اور کردی لہجوں کے بہت سے الفاظ اپنی اصل یا تبدیل شدہ صوتیت کے ساتھ پہلے سے موجود تھے، اور ان کی مزید ترویج میں تجارتی قافلوں کا کردار بھی اہم رہا ہے۔ بیرونی حملہ آوروں کا اجمالی ذکر پہلے ہو چکا۔ انہیں حملہ آوروں میں مغل خاندان بھی تھا جس کی زبان فارسی تھی۔ اور وہ مذھبا” مسلمان تھے۔ مغلوں کے طویل دورِ حکومت میں عربی مذہبی زبان کے طور پر اور فارسی سرکاری اور دیوانی زبان کے طور پر رائج رہی۔ لہٰذا ہندوستانی معاشروں پر اس کا اثر ایک منطقی عمل تھا۔
تیسرا عنصر: مقامی زبانیں اور ان کے لہجے جن کے لئے ہم اپنی سہولت کی خاطر ”ہندی“ کا نام تجویز کر چکے ہیں۔ یہ مقامی آبادیوں کی زبانیں تھیں اور اپنے اپنے علاقے میں عام آدمی سے لے کر حکمرانوں تک سب کی زبان کی حیثیت رکھتی تھیں۔ ان زبانوں کا اجمالی ذکر بھی آ چکا۔
ان جملہ عناصر کے ملنے سے اردو کی تشکیل اور تزئین ہوتی چلی گئی، اور آج ہم اردو کو پورے کرہ ارض پر ایک معروف زبان کی حیثیت سے دیکھ رہے ہیں۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
 
ہمارا اس وقت کا موضوع: شاعری کیا ہے؟

کسی بھی ثقافت کا اعلیٰ ترین مظہر زبان ہوتی ہے۔ انسان اپنی کیفیات، ضروریات، امیدوں، خدشات، واہموں، مسرتوں، حسرتوں، رنج و راحت اور کا اظہار اشارات سے بھی کرتا ہے اور الفاظ سے بھی۔ چہرے کے تاثرات، جسمانی رد عمل، وغیرہ وقتی اور مواقعی مظاہر ہوتے ہیں جب کہ زبان ایسے واقعات کو ایک فرد سے دوسرے فرد اور ایک جگہ سے دوسری جگہ تک پہنچاتے ہیں۔ الفاظ کی ترسیل اور اس کے ذرائع اور مظاہر ہمارا موضوع نہیں، تاہم یہ وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ وقت، ضرورت اور ذرائع کی دستیابی کے مطابق الفاظ کی ترسیل کے طریقے بدل سکتے ہیں، ان کی روابطی حیثیت میں فرق نہیں آتا۔
ہر معاشرے میں افرادی اور گروہی تقسیم ایک فطری عمل ہے۔ کسی بھی معاشرے کے تمام افراد ذہنی اور علمی سطح پر یکساں نہیں ہو سکتے۔ دوسرا عنصر جو معاشرے کے افراد میں رنگا رنگی کا باعث ہوتا ہے وہ پیشہ ہے، یعنی حصول رزق کے کسی ایک طریقے کی تخصیص۔ تیسرا عنصر ذہنی اپج، رویہ اور اندازِ فکر ہے، چوتھا عنصر رومانویت اور جمالیات ہے۔ پانچواں عنصر کسی فرد یا گروہ کا اپنے معاشرے میں مقام و مرتبہ ہے، جیسے سردار، استاد، قاضی، مذہبی راہنما، خادم، غلام، گداگر، پیغام رسان، سفیر، تاجر، و علیٰ ھٰذا القیاس۔ اور بھی کئی عناصر ہیں جن سب کو احاطہ کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ کسی بھی معاشرے کے تمام افراد کسی نہ کسی طور پر ان عناصر سے متاثر ہوتے ہیں یا متاثر کرتے ہیں۔ لسانی رویے بھی ان عناصر کا اثر قبول کرتے ہیں۔ جمالیات اور رومانویت ہر کسی میں فطری طور پر پائی جاتی ہے، اس کی سطح کا فرق ہو سکتا ہے، حالات کے مطابق یا نفیسیاتی طور پر رویوں کا فرق ہوتا ہے، بات کرنے کا انداز اور سلیقہ طے پا جاتا ہے۔ ایک عالم و فاضل اور ایک کم علم شخص کی لفظیات میں بھی فرق واقع ہو جاتا ہے۔ واضح رہے کہ علم کے درجات کو رسمی ڈگریوں سے منسلک نہ کیا جائے۔ یوں معاشرتی، علمی، جمالیاتی، نفسیاتی، تعاملی مقام و مرتبہ کسی بھی فرد یا گروہ کی زبان کی لفظیات، لہجہ، طرز اظہار، اور دیگر مظاہر کا تعین کرتا ہے۔ اور زبان کے یا اظہار کے مختلف انداز پیدا ہوتے ہیں۔
ادب اور ادبی زبان کا عام زبان سے امتیازی خط تو کھینچا جا سکتا، تاہم جس لہجے کو معاشرہ بہتر، شستہ اور مزین گردانے وہ ادب ہے۔ اور ظاہر ہے اس کی بنیاد جمالیات پر ہوتی ہے۔ زبان میں جوں جوں جمالیات داخل ہوتی جائے گی، وہ ادب بنتی چلی جائے گی۔ ہماری زبان یعنی اردو میں ادب کی دو بڑی اصناف ہیں ایک کو عرف عام میں نثر اور دوسری کو شاعری کہا جاتا ہے۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top