آتش شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا - خواجہ حیدر علی آتش

حسان خان

لائبریرین
کیجیے چورنگ عاشق کو نگاہِ ناز کا
دیکھ لینا شرط ہے شمشیرِ خانہ ساز کا
صوفیوں کو وجد میں لاتا ہے نغمہ ساز کا
شبہہ ہو جاتا ہے پردے سے تری آواز کا
یہ اشارہ ہم سے ہے اُن کی نگاہِ ناز کا
دیکھ لو تیرِ قضا ہوتا ہے اس انداز کا
گفتگو بڑھ جائے گی تقریر عیسیٰ نے جو کی
وہ لبِ جاں بخش بھی دم بھرتے ہیں اعجاز کا
پڑ گئے سوراخ دل میں گفتگوئے یار سے
بے کنایہ کے نہیں اک قول اُس طناز کا
زندہ اُن آنکھوں کے کشتے کو نہ وہ لب کر سکے
اس فسوں پر زور چل سکتا نہیں اعجاز کا
روح قالب سے جدا کرتا ہے قالب روح سے
ایک ادنیٰ سا کرشمہ ہے یہ تیرے ناز کا
سرمہ ہو جاتا ہے جل کر آتشِ سودا سے یار
دیکھنے والا تری چشمِ فسوں پرداز کا
بہرِ پامالیِ عاشق ہوتی ہے مشقِ خرام
شور ہے خلخالِ پائے یار کی آواز کا
منہ سے بے دل کے اشارے سے نکلتا کچھ نہیں
مثلِ نے محتاج ہے اپنا دہن دمساز کا
حیرت آنکھوں کو ہے نظارے میں اُس محبوب کے
یہ نہیں کھلتا کہ دل کشتہ ہے کس انداز کا
یہ اشارہ کر رہی ہے ابروئے خمدارِ یار
کام منہ چڑھنا ہے اس تلوار کے جانباز کا
اے زباں کیجو نہ شرحِ حالتِ دل کا خیال
منکشف ہونا نہیں بہتر ہے مخفی راز کا
غیبتِ عاشق کے سننے کا دماغ اُس کو نہیں
بند ہو جاتا ہے پیشِ یار دم غماز کا
کاٹ کر پر مطمئن صیادِ بے پروا نہ ہو
روح بلبل کی ارادہ رکھتی ہے پرواز کا
کھینچ دیتا ہے شبیہِ شعر کا خاکا خیال
فکرِ رنگیں کام اس پر کرتی ہے پرداز کا
بندشِ الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا
(خواجہ حیدر علی آتش)
 

طارق شاہ

محفلین
اِس غزل پر آتش کے خود اپنے مقطع سے بڑھ کر کیا بات کی جاسکتی ہے
بندشِ الفاظ جُڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتش مرصّع ساز کا
بلاشک و شبہ!
بہت خُوب انتخاب کے لئے ڈھیر سری داد قبول کیجیے
بہت خوش رہیں :)
 
Top