شادؔ کیا ہوگا وہ مل جائے اگر رستے میں ۔۔۔

جب بھی ہوتے ہوئے دیکھی ہے سحر رستے میں
مل گئی ہے ترے آنے کی خبر رستے میں

ہے تمنا گھنی چھاؤں کی تو آکر پہلے
دیکھ سوکھا ہوا بے سایہ شجر رستے میں

سب ہی بیٹھے رہے ساحل کی تمنا کرکے
کس کو معلوم تھا آئیں گے بھنور رستے میں

اب بھی ہرگام پہ یہ سوچ کے رُک جاتا ہوں
میں نے جانے اسے دیکھا ہے کدھر رستے میں

یہ بھی ہوتا ہے کہ دل خوف سے تھم جاتا ہے
شادؔ کیا ہوگا وہ مل جائے اگر رستے میں


اشرف شادؔ

 
Top