شائد 2003ء کی بات ہے، مجھے گیارہ ہزار روپے کی فوری ضرورت پیش آگئی

شائد 2003ء کی بات ہے، مجھے گیارہ ہزار روپے کی فوری ضرورت پیش آگئی جو میرے پاس نہ تھے،عشاء کے وقت اپنے سکول میں کچھ اہم کام نمٹا کر گھر کے لئے ٹیکسی میں روانہ ہوا تو کچھ ہی دور جانے کے بعد ٹیکسی والے نے کہا، مجھے ایک ضروری کام یاد آگیا ہے، اگر آپ برا نہ منائیں تو میں آپکو دوسری ٹیکسی میں بٹھادوں ؟ میں نے کہا ٹھیک ہے، وہ ایک ٹیکسی والے کے پاس رکا اور کچھ ہی دیر میں دوسری ٹیکسی میں گھر کی جانب رواں دواں تھا، میں نے محسوس کیا کہ ضعیف العمر ٹیکسی ڈرائیور کچھ پریشان ہے اور وقفے وقفے سے سر یوں جھٹکتا ہے جیسے اسکے اندر کوئی ہنگامہ برپا ہو، میں نے پوچھا، بزرگو ! کوئی مسئلہ ہے ؟ کہنے لگے "نہیں" کچھ دیر بعد میں نے پھر پوچھا انہوں نے پھر وہی جواب دیا، مجھے چین نہ آیا ایک بار پھر پوچھا تو انہوں نے ڈانٹ دیا کہ آپ کیوں بار بار ایک ہی بات پوچھے جارہے ہیں، میں نے انکے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا، آپ پریشان ہیں، میں آپکی پریشانی دور نہیں کر سکتا لیکن بتا دینے سے بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے آپ بتادیں۔ وہ یکدم رو پڑے اور کہنے لگے میرا بیٹا نویں جماعت سے دسویں میں گیا ہے، کچھ کتابیں تو ہم نے اسکے لئے پرانی خرید لی ہیں لیکن دو کتابیں پرانی مل نہیں رہیں اور دسویں کلاس میں جانے کے سکول والے بھی ایک سو اسی روپے مانگ رہے ہیں، میں کرائے کی ٹیکسی چلاتا ہوں، جسکا یومیہ کرایہ تین سو ہے، پہلے وہ پورے کرتا ہوں اسکے بعد اپنے لئے کچھ کمانے کی کوشش کرتا ہوں، وہی پورے نہیں ہوتے تو بچے کی دو کتابوں کی قمت اور سکول کے ایک سو اسی روپے کہاں سے پورے کروں !۔ وہ ایک کھٹارہ ایفیکس ٹیکسی تھی، اشد ضرورت کی صورت میں ہی کوئی اسکے ساتھ بیٹھنے پر آماد ہوتا ہوگا، یہ صورتحال دیکھ کر میں کانپ اٹھا کہ میں گیارہ ہزار کے لئے پریشان ہوں اور یہ بابا شائد تین ساڑھے تین سو کے لئے۔ گھر پہنچے تو بابا جی کے ساتھ کرایہ تو ساٹھ روپے طے ہوا تھا لیکن میری جیب میں کل تین سو روپے تھے، وہ سارے اس بابے کو دیدیئے جو اس نے بمشکل لئے، ٹیکسی سے اترا تو آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، میرے رب یہ میرا آپکی طرف قرض ہے۔ صبح گیارہ بجے میں سکول گیا، کچھ ضروری پیپرز پر دستخط کئے اور اس خیال سے سکول سے نکلنے لگا کہ کسی دوست سے گیارہ ہزار روپے قرض لیتا ہوں، پرنسپل نے آواز دی کہ ایک منٹ صبر سر !، میں رکا تو انہوں نے ایک خاکی لفافہ لا کر مجھے تھما دیا، میں نے پوچھا کیا ہے ؟ کہنے لگیں، تین ایڈمشن ہوئے ہیں صبح، اسکے پیسے ہیں، میں نے پوچھا، کتنے ہیں ؟ کہنے لگیں "گیارہ ہزار" ۔ اس واقعے سے سمجھانا یہ چاہ رہا ہوں کہ قرآن مجید میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنے بندوں کو ترغیب دیتے ہیں کہ مجھے قرضہ حسنہ دو، اللہ کو قرضہ حسنہ دینے کا مطلب اسکے غریب بندوں پر خرچ کرنا ہے، آپ اسے یہ قرض دینے کی عادت ڈال لیجئے، وہ کسی کا قرض اپنے ذمے نہیں چھوڑتا اور مزے کی بات یہ ہے کہ سود سمیت واپس کرتا ہے اور اسکا 'انٹریسٹ ریٹ" آپکے حق میں بہت ہی ہائی ہوتا ہے، اگر مجھ جیسے روسیاہ کا قرض وہ بارہ گھنٹے کے اندر اندر لوٹاتا ہے۔

فیس بک سے اقتباس حوالہ جات کے لئے یہاں جائیں۔
 
Top