سیکولرزم اور جمہوریت، اسلامی تصورات کے تناظر میں

Muhammad Qader Ali

محفلین
سیکولرزم اور جمہوریت، اسلامی تصورات کے تناظر میں

از، روزنامہ جسارت کراچی پاکستان

کالم | November 9, 2012
موجودہ دور کے دو مقبول ترین نعرے سیکولرزم اور جمہوریت ہیں۔ یوں تو ان کا تعلق زندگی کے بہت سے گوشوں سے ہے لیکن بالخصوص سیاسی واجتماعی زندگی پر ان تصورات نے گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ اسلامی افکار کی روشنی میں سیکولرزم اور جمہوریت کے تنقیدی مطالعے سے قبل یہ ضروری ہے کہ خود اسلام کے سیاسی نقطۂ نظر کو سمجھ لیا جائے۔ اسلام کے نقطۂ نظر کو حاکمیت، قانون سازی اور برسرِ حق حکومت کی اصطلاحات کے تحت بیان کیا جاسکتا ہے۔
حاکمیتِ الہٰ
اپنے سلسلہ مضامین ’’اسلامی ریاست‘‘ میں اسلام کی سیاسی تعلیمات پر روشنی ڈالتے ہوئے جناب سید ابوالا علیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں:
’’قرآن کی رو سے اللہ تعالیٰ مالک الملک ہے۔ خلق اسی کی ہے لہٰذا فطرتاً امر کا حق (Right to Rule) بھی صرف اسی کو پہنچتا ہے۔ اس کے ملک (Dominion) میں اس کی خلق پر، خود اس کے سوا کسی دوسرے کا امر جاری ہونا اور حکم چلنا بنیادی طور پر غلط ہے۔ صحیح راستہ صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ اس کے خلیفہ اور نائب کی حیثیت میں اس کے قانون شرعی کے مطابق حکمرانی ہو اور فیصلے کیے جائیں:
’’کہو اے اللہ، مالک الملک! تو جس کو چاہے ملک دے اور جس سے چاہے چھین لے۔‘‘ (آل عمران: ۲۶)
’’وہ ہے اللہ ’تمہارا رب ‘ ملک اسی کا ہے۔‘‘ (فاطر: ۱۳)
’’بادشاہی میں کوئی اس کا شریک (Partner) نہیں۔‘‘ (بنی اسرائیل: ۱۱۱)
’’لہٰذا حکم اللہ بزرگ وبرتر کے لیے خاص ہے۔‘‘ (المومن: ۱۲)
’’اور وہ اپنے حکم میں کسی کو حصہ دار نہیں بناتا۔‘‘ (الکھف: ۲۶)
’’خبردار! خلق اسی کی ہے اور امر بھی اسی کا ہے۔‘‘ (اعراف: ۵۴)
’’لوگ پوچھتے ہیں کیا امر میں ہمارا بھی کچھ حصہ ہے؟ کہہ دو کہ امر سارا اللہ کے لیے مخصوص ہے۔‘‘ (آل عمران :۱۵۴) (’’اسلامی ریاست‘‘ ازسید مودودیؒ)
قانون سازی
اسلام کے نظریہ سیاسی کا دوسرا جز قانون سازی کے سوال سے متعلق ہے۔ مذکورہ سلسلہ مضامین میں سید مودودیؒ لکھتے ہیں:
’’ (حاکمیت الہٰ کے ) اصل الاصول کی بنا پر قانون سازی کا حق انسان سے سلب کرلیا گیا ہے۔ کیونکہ انسان مخلوق اور رعیت ہے۔ بندہ اور محکوم ہے، اور اس کا کام صرف اس قانون کی پیروی کرنا جو مالک الملک نے بنایا ہو۔ البتہ قانونِ الہٰی کی حدود کے اندر استنباط واجتہاد سے تفصیلات فقہی مرتب کرنے کا معاملہ دوسرا ہے۔ جس کی اجازت ہے۔ نیز جن امور میں اللہ اور اس کے رسول نے کوئی صریح حکم نہ دیا ہو، ان میں روح شریعت اور مزاجِ اسلام کو ملحوظ رکھتے ہوئے قانون بنانے کا حق اہلِ ایمان کو حاصل ہے۔ کیونکہ ایسے امور میں کسی صریح حکم کا نہ ہونا بجائے خود یہ معنی رکھتا ہے کہ ان کے متعلق ضوابط واحکام مقرر کرنے کا حق اہلِ ایمان کو دے دیا گیا ہے۔ لیکن جو بنیادی بات سامنے رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کے قانون کو چھوڑ کر جو شخص یا ادارہ خود کوئی قانون بناتا ہے یا کسی دوسرے کے بنائے ہوئے قانون کو (برحق) تسلیم کرکے اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہے وہ طاغوت وباغی اور خارج ازاطاعتِ حق ہے اور اس سے فیصلہ چاہنے والا اور اس کے فیصلہ پر عمل کرنے والا بھی بغاوت کا مجرم ہے۔
’’اور تم اپنی زبانوں سے جن چیزوں کا ذکر کرتے ہو ان کے متعلق جھوٹ گھڑ کر یہ نہ کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے۔‘‘ (النحل: ۱۱۶)
’’جوکچھ تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف اتارا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اس کے سوا دوسرے اولیاء (اپنے ٹھیرائے ہوئے کار سازوں( کی پیروی نہ کرو۔‘‘ (اعراف: ۳)
’’اور جو اس قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے اتارا ہے تو ایسے تمام لوگ کافر ہیں۔‘‘ (المائدۃ: ۴۴)
اے نبی! کیا تم نے نہیں دیکھا ان لوگوں کو جو دعویٰ تو کرتے ہیں اس ہدایت پر ایمان لانے کا جو تم پر اور تم سے پہلے کے انبیاء پر اتاری گئی ہے اور پھر چاہتے ہیں کہ اپنے معاملہ کا فیصلہ طاغوت سے کرائیں حالانکہ انہیں یہ حکم دیا گیا تھا کہ طاغوت سے کفر کریں (یعنی اس کے حکم کو تسلیم نہ کریں) ۔‘‘ (النساء ۶۰)
برسر حق حکومت
تیسرا اہم سوال یہ ہے کہ کس حکومت کو برسر حق حکومت قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں سید مودودیؒ لکھتے ہیں:
’’ خداوندِ عالم کی زمین پر صحیح حکومت اور عدالت صرف وہ ہے، جو اس قانون کی بنیاد پر قائم ہو جو اس نے پیغمبروں کے ذریعے سے بھیجا ہے اسی کا نام خلافت ہے۔
’’اور ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے اسی لیے بھیجا ہے کہ حکمِ الہٰی کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے۔‘‘ (النساء ۶۴)
’’اے نبی! ہم نے تمہاری طرف کتاب برحق نازل کی ہے تاکہ تم لوگوں کے درمیان اس روشنی کے مطابق فیصلہ کرو جو اللہ نے تمہیں دکھائی ہے۔‘‘ (النسائ: ۱۰۵)
’’اور یہ کہ تم ان کے درمیان حکومت کرو اس ہدایت کے مطابق جو اللہ نے اتاری ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو اور ہوشیار رہو کہ وہ تمہیں فتنہ میں مبتلا کرکے اس ہدایت کے کسی جز سے نہ پھیردیں، جو اللہ نے تمہاری طرف نازل کی ہے۔‘‘ (المائدۃ: ۴۹)
’’کیا یہ لوگ جاہلیت کی حکومت چاہتے ہیں؟‘‘ (المائدۃ: ۵۰)
اے دائود! ہم نے تم کو خلیفہ مقرر کیا ہے۔ لہٰذا تم حق کے ساتھ لوگوں کے درمیان حکومت کرو اور اپنی خواہش نفس کی پیروی نہ کرو کہ اللہ کے راستے سے وہ تم کو بھٹکالے جائے گی۔‘‘ (ص: ۲۶)
(ایضاً)
مذکورہ بالا اِسلامی تصورات کی روشنی میں ہم رائج الوقت جمہوریت اور سیکولرزم کا جائزہ لے سکتے ہیں۔
(جمہوریت )
آج جمہوریت کی اصطلاح جس مفہوم میں استعمال ہوتی ہے اس میں درج ذیل اجزاء شامل ہیں:
(الف) عوام کی حاکمیت کا تصور
(ب) عوامی نمائندگی کا تصور
(ج) عوامی حقوق اور شہری آزادیوں (Civil Liberties) کا تصور
(د) پارٹی سسٹم، امیدواری اور الیکشن کا طریقہ
اسلامی تصورِحیات کی روشنی میں ہم ان چاروں اجزاء کا جائزہ لے کر دیکھ سکتے ہیں کہ وہ قابل قبول ہیں یا قابلِ رد۔
(الف) عوام کی حاکمیت
جہاں تک حاکمیت کا تعلق ہے، اسلام وضاحت کے ساتھ اعلان کرتا ہے کہ ملک کا جائز حاکم صرف خداوندِ عالم ہے۔ کسی اور کو حاکمیت کا حق نہیں پہنچتا۔ اللہ تعالیٰ نے جو قانون اپنے بندوں کو دیا ہے وہی واجب الاتباع ہے۔ بندوں کے لیے درست نہیں ہے کہ وہ الہٰی قانون سے متصادم کوئی قانون سازی کریں، چنانچہ ’’عوام کی حاکمیت‘‘ کا تصور اسلام کے نزدیک قابلِ قبول نہیں ہے۔ عوام حاکم نہیں ہیں بلکہ سب کے سب اللہ کے بندے ہیں۔ اُن کے لیے مناسب یہ ہے کہ حاکمِ حقیقی کے آگے سرِ اطاعت جھکادیں اور اس کے عطا کردہ قانون کی مخلصانہ پیروی کریں۔
(جاری ہے)
البتہ اللہ تعالیٰ نے جو قانون انسانوں کو دیا ہے بیش ترمعاملات میں اس کی حیثیت اصولی ہدایت کی ہے۔ زندگی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اس اصولی قانون کے تحت، تفصیلی قانون سازی کی ضرورت بہرحال پیش آتی ہے۔ اسلامی تصور کے مطابق اہلِ ایمان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ قانون کی ان تفصیلات کو مرتب کریں جن کے بارے میں الہٰی ہدایت خاموش ہے۔ اس کام کو اجتہاد کہا جاتا ہے۔ اجتہاد کرنا ہر شخص کا کام نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے چند شرائط ہیں:
(i) شریعت الہٰی پر ایمان اور اس کے اتباع کا مخلصانہ ارادہ
(ii) عربی زبان وادب سے اچھی واقفیت
(iii) قرآن وسنت کا علم اور مصالح شریعت کی معرفت
(iv) ماضی کے مسلمانوں کے اجتہاد سے واقفیت
(v) ان معاملات ومسائل سے واقفیت جن کے ضمن میں اجتہاد مطلوب ہے
(iv) اسلام کے مطابق سیرت وکردار
(ب) عوامی نمائندگی
اسلام اس بات سے اتفاق کرتا ہے کہ حکمراں وہ لوگ ہونے چاہئیں جن کو عوام نے اپنی آزاد مرضی سے اپنا حکمراں تسلیم کیا ہو۔ اسلامی اصطلاح میں ’’آزادانہ بیعت‘‘ اِسی امر کا نام ہے۔ اس کے برخلاف جبری بیعت کو اسلام درست نہیں سمجھتا۔ ’’آزادانہ بیعت‘‘ کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جائے اس کو اسلام نے تمدنی ارتقاء پر چھوڑ دیا ہے اور کسی تفصیلی طریقِ کار کا مسلمانوں کو پابند نہیں کیا ہے۔ اسلامی اسپرٹ کا تقاضا یہ بھی ہے کہ عوام کو حکمرانوں کے احتساب کا حق اور مواقع حاصل ہوں تاکہ اس امر کا اطمینان کیا جاسکے کہ حکمراں فی الواقع اُن حدود کے اندر اپنے اختیارات کو استعمال کررہے ہیں جو اسلام نے طے کردی ہیں۔
یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ آج کل عوامی نمائندوں کے دو کام سمجھے جاتے ہیں ایک یہ کہ وہ قانون سازی کریں، دوسرے یہ کہ وہ ملک کا انتظام کریں۔ چنانچہ مثلاً ہمارے ملک کے جمہوری نظام میں برسرِ اقتدار پارٹی کی تشکیل کردہ کابینہ ملک کا انتظام بھی کرتی ہے اور قانون سازی کے ضمن میں مجوزہ قوانین کے خاکے بھی تیار کرتی ہے (گرچہ آخری منظوری کا اختیار پارلیمنٹ کو ہوتا ہے)۔ اس کے برعکس اسلامی مزاج یہ تقاضا کرتا ہے کہ انتظامِ ملکی اور قانون سازی کو الگ الگ رکھا جائے۔
اسلامی تصور کے مطابق ذیلی قانون سازی کی جاسکتی ہے۔ (جو شریعتِ الہٰی کے عطا کردہ اصولی قانون کے تحت ہو) لیکن یہ کام محض اس بنا پر کسی شخص کے حوالے نہیں کیا جاسکتا کہ اُسے عوامی اعتماد حاصل ہے بلکہ ذیلی قانون سازی ان لوگوں کا کام ہے جو اجتہاد کے لیے درکار صفات اپنے اندر رکھتے ہوں۔ رہا انتظامِ ملکی تو وہ اُن حکمرانوں کے سپرد ہوگا جنہیں عوام کا اعتماد حاصل ہو۔
موجودہ جمہوریت کی زبان میں ’’عوامی نمائندے‘‘ اُن کو سمجھا جاتا ہے جو عوام کی امنگوں یا خواہشات کے ترجمان ہوں۔ اسلام اس طرزِ فکر سے اتفاق نہیں کرتا۔ اس کے نزدیک حکمرانوں کا کام عوامی خواہشات کی پیروی نہیں ہے بلکہ حق کی پیروی ہے۔ چنانچہ ’’عوامی نمائندوں‘‘ کی اصطلاح اسلامی مزاج کی صحیح نمائندگی نہیں کرتی۔ دورِ جدید کی اسلامی ریاستیں اس اصطلاح کے بجائے عوام کے ’معتمد علیہ افراد‘ کی اصطلاح استعمال کرسکتی ہیں۔ حکمراں لازماً انہی معتمد علیہ افراد میں سے ہوں گے۔
(ج) بنیادی حقوق
اسلام یہ بات تسلیم کرتا ہے کہ افراد اور گروہوں کو بعض بنیادی حقوق اور شہری آزادیاں حاصل ہونی چاہئیں۔ اس بنیادی بات کی حد تک اسلامی تصور اور موجودہ جمہوریت باہم متفق ہیں۔ اس امر میں بھی اتفاق ہے کہ یہ حقوق اور آزادیاں مطلق نہیں ہیں بلکہ بالاتر اقدار اور مقاصد کے تحت مشروط ہیں۔
البتہ حقوق اور آزادیوں کی فہرست، ان کے مفہوم اور ان کے اطلاق کو محدود کرنے والی شرائط کے سلسلے میں اسلام اور موجودہ جمہوریت کے درمیان اتفاق نہیں ہے۔ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے اس نے جو حقوق تسلیم کیے ہیں وہ درج ذیل ہیں۔ جمہوری نظاموں میں ہر ملک کی کیفیت مختلف ہے۔
’’حرمتِ جان یا جینے کا حق، عزت وآبرو کے تحفظ خصوصاً ناموسِ خواتین کے تحفظ کا حق، بنیادی ضروریات زندگی کی ضمانت، عدل وانصاف کے حصول کا حق، نیکی میں تعاون اور بدی میں عدم تعاون کا حق، مساوات کا حق، ظالم کی اطاعت سے انکار کا حق، معصیت سے اجتناب کا حق، سیاسی کار فرمائی میں شرکت کا حق، شخصی آزادی کا تحفظ، ملکیت کا تحفظ، نجی زندگی کا تحفظ، ظلم کے خلاف احتجاج کا حق، اخلاقی حدود کی پابند اظہار رائے کی آزادی، آزادی ضمیر، مذہبی دل آزاری سے تحفظ کا حق، آزادی اجتماع کا حق، عمل غیر کی ذمہ داری سے بریت، شبہات پر کارروائی نہ کیے جانے کا حق، عدالتی کارروائی کے بغیر سزا نہ دیے جانے کا حق، رائے اور مسلک کی آزادی کا حق۔ ‘‘ (ایضاً)
غیر مسلم شہریوں کو بھی اسلامی ریاست میں یہ سب حقوق حاصل ہوں گے البتہ سیاسی کار فرمائی میں ان کی شرکت کی ایسی صورتیں درست نہ ہوں گی جہاں وہ اسلامی ریاست کی بنیادی پالیسی کو تبدیل یا متاثر کرسکیں۔ رہے اُن کے اپنے تہذیبی امور تو ان کو چلانے کے سارے اختیارات انہیں حاصل ہوں گے۔ مسلمان ان میں مداخلت سے باز رہیں گے۔
(د) پارٹی سسٹم اور امیدواری
اسلامی مزاج سے یہ بات مطابقت نہیں رکھتی کہ کوئی شخص حکمرانی کے منصب کے لیے خود اپنے آپ کو پیش کرے اور امیدوار کی حیثیت سے سامنے آئے۔ اس کے بجائے اسلامی اسپرٹ سے قریب طریقہ یہ ہوگا کہ علم، صلاحیت اور کردار کے لحاظ سے موزوں افراد کے نام کچھ معتبر ادارے پیش کریں اور پھر عوام کی مرضی معلوم کی جائے کہ وہ مجوزہ ناموں میں سے کن کو ترجیح دیتے ہیں۔ موجودہ جمہوریت اس پہلو سے بہت ناقص ہے اور اس کا امیدواری سسٹم بہت سی خرابیوں کی جڑ ہے۔ اسلام کے مطابق اس کی اصلاح ناگزیر ہے۔
 

دوست

محفلین
چُک کے رکھو۔
ایران میں کچھ معتبر ادارے یہی کام پچھلے تیس برس سے کر رہے ہیں اور آج کی خبر کے مطابق دس افراد حکومت مخالف مظاہروں میں مارے جا چکے ہیں۔
پر ایران تو "مسلمان" نہیں۔ کہ ہے؟ :mrgreen:
 

Muhammad Qader Ali

محفلین
بھائیوں پرانی یادیں ہیں
پرانے زمانے میں لوگ کہا کرتے تھے امریکہ یورپ پاکستان کے دوست نہیں
بس استعمال کرنا اور پھینک دینا ہے ابھی امریکہ مسلسل پاکستان پر الزام تراشی
کررہا ہے پاکستان کے سوبلین ڈالر اور لاکھوں لوگ اس امریکہ کے
وار ان ٹیرر کے نظر ہوگئے۔
ابھی دیکھیں اور کیا کیا ہوتا ہے
 
Top