سیوانی پلی کا سیاہ تیندوا از کینیتھ اینڈرسن

قیصرانی

لائبریرین
سیوانی پلی کا سیاہ تیندوا از کینتھ اینڈرسن
ترجمہ: قیصرانی

تعارف

اس کتاب کے پہلے پانچ ابواب تیندوں کے بارے ہیں۔ آپ شاید اس بات پر حیران ہوں کہ میں تیندوؤں پر اتنا وقت کیوں صرف کر رہا ہوں جبکہ جنگل کے دیگر بہت سارے جانور بھی توجہ کے لائق ہیں۔ اول تو یہ کہ تیندوے انڈیا میں ابھی بھی بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ انہیں تلاش کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی۔ آج بھی کئی بڑے شہروں سے چند میل کے فاصلے پر دن کی روشنی میں آپ کو تیندوا دکھائی دے سکتا ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ تیندوے کا شکار نسبتاً سستا ہے اور ہر بندہ اسے آسانی سے برداشت کر سکتا ہے۔ تیندوے کے لیے گارے کے طور پر کتا، بکری یا گدھا بھی چلتا ہے جبکہ شیر کے لیے بھینسے یا بیل کی ضرورت پڑتی ہے جو زیادہ مہنگے ہوتے ہیں۔
مچان پر بیٹھنے کی بجائے زمین پر کھڑے رہ کر تیندوے کا شکار کرنا میرے نزدیک شیر کے شکار جتنا دلچسپ اور سنسنی خیز ہے۔
میں نے ایک باب میں شیروں اور دیگر جانوروں کے بارے بھی لکھا ہے اور سانپوں کے بارے بھی مزید معلومات لکھی ہیں۔ سانپوں کو شامل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ شیروں، ہاتھیوں، ببر شیروں اور دنیا کے مختلف حصوں میں پائے جانے والے بڑے جانوروں کے بارے بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن سانپوں کے بارے اتنا مواد موجود نہیں۔ لوگ محض اتنا جانتے ہیں کہ سانپوں سے بچنا ضروری ہے۔ مجھے امید ہے کہ میں اس بارے مناسب روشنی ڈالوں گا۔ قاری کو ایک لمحے کے لیے بھی ایسا نہیں سوچنا چاہیے کہ جنگل میں شیر، تیندوے، ریچھ اور ہاتھی ہی خطرناک ہوتے ہیں۔ ان سے کہیں زیادہ سریع، کہیں کم دکھائی دینے والے اور کہیں زیادہ خطرناک زہریلے سانپ ہوتے ہیں جو گھاس میں یا جھاڑیوں میں چھپ سکتے ہیں۔
میں نے ایک انتہائی بہادر جنگلی بھینسے اور شیروں کے دو واقعات بھی لکھے ہیں۔ ان دو واقعات سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ شیروں کا شکار کرتے ہوئے کتنی دقتیں اور پریشانیاں ہوتی ہیں اور یہ بھی کہ آدم خور شیر کے شکار میں کتنی بار محض مایوسی ہی ہاتھ آتی ہے۔ ایک واقعے میں میں پوری طرح ناکام رہا تھا جبکہ دوسرے میں میں محض قسمت کی مدد سے کامیاب ہوا تھا۔ اس کے علاوہ میں نے آخر میں ایک انتہائی عجیب شیر کے بارے بھی کچھ لکھا ہے جو تادم تحریر زندہ ہے اور ایک معمے کی حیثیت رکھتا ہے۔
جب میں ان واقعات کا اندراج کر رہا تھا تو حال کے مناظر اور آوازیں مدھم پڑ گئی تھیں اور ماضی کی یادیں ان کی جگہ سامنے آ رہی تھیں۔ جنگل میں کالی سیاہ رات اور آسمان پر ستاروں کا جھلملانا اور جگنوؤں کا دکھائی دینا جیسے کہ تاریک پتوں میں چھوٹے چھوٹے بونے لالٹینیں لے کر اڑ رہے ہوں۔ ان سے زیادہ دلچسپ شیر، تیندوے یا جنگلی بھینسے کی دہکتی ہوئی آنکھیں ہوں یا پھر گھاس میں بھاگتا ہوا ہرن ہو جس کی آنکھیں میری ٹارچ کی روشنی میں منعکس ہو رہی ہوں اور میں سرگوشیاں کرتے درختوں کے نیچے چل رہا تھا۔
آئیے، میرے ساتھ چلیں۔ چند گھنٹے کے لیے اس کتاب کو پڑھتے ہوئے میرے ساتھ شیر، تیندوے اور ہاتھی کی سلطنت میں داخل ہو جائیں۔
 
آخری تدوین:

قیصرانی

لائبریرین
تفصیل

تیندوے کے طور طریقے
یلاگری کی پہاڑیوں کا آدم خور تیندوا
منو سوامی اور مگادی کا تیندوا
سیوانی پلی کا سیاہ چیتا
سانپ اور جنگل کی دیگر مخلوقات
حیدر آباد کا قاتل
گڈیسل کا بڑا بھینسا
چوردی کا ایال دار شیر
پگی پالیم کا آدم خور
 

قیصرانی

لائبریرین
1۔ تیندوے کے طور طریقے
ہر تیندوا دوسرے سے فرق ہوتا ہے۔ کچھ تیندوے بہت نڈر ہوتے ہیں جبکہ کچھ تیندوے شرمیلے۔ کچھ تیندوے کمینگی کی حد تک چالاک ہوتے ہیں جبکہ دیگر تیندوے احمق۔ میری مڈھ بھیڑ ایسے تیندوؤں سے بھی ہوئی ہے جن میں چھٹی حس پائی جاتی تھی اور ان کے افعال سے ایسا لگتا تھا کہ جیسے وہ اپنے مخالف کی سوچ پڑھ رہے ہوں۔ آخر میں وہ کمیاب تیندوے ہوتے ہیں جو کسی وجہ سے انسانوں پر حملے شروع کر دیتے ہیں۔ تاہم آدم خور تیندوے انتہائی کم ہوتے ہیں۔
عام طور پر آدم خور تیندوا کسی غیر معمولی وجہ سے انسانوں کو خوراک بنانے لگتا ہے۔ شاید اسے کسی نے زخمی کیا ہو اور وہ اپنے قدرتی شکار کے قابل نہ رہا ہو۔ اس لیے ضرورت سے مجبور ہو کر وہ انسانوں کو خوراک بنانے لگتا ہے کیونکہ انسان کافی آسان شکار ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر کوئی لاش زمین کی سطح کے بالکل نزدیک دفن کی گئی ہو اور اسے گیدڑوں یا ریچھ نے نکال لیا ہو اور اسے کھا کر تیندوا آدم خور بن گیا ہو۔ انسانی گوشت کو چکھتے ہی تیندوا عموماً اسے پسند کرنے لگ جاتا ہے۔ ایک اور صورت بھی ہے کہ آدم خور تیندوا کسی آدم خور کی اولاد ہو اور بچپن سے ہی اسے یہ لت لگ گئی ہو۔
عام طور سے تیندوا انتہائی بے ضرر اور انسانوں سے ڈرنے والا جانور ہے۔ انسان کی جھلک دیکھتے ہی یا آواز سنتے ہی جھاڑیوں میں دبک جاتا ہے۔ تاہم جب تیندوا زخمی ہو چکا ہو تو اس کی ہمت اور بہادری انتہائی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ تاہم ان میں سے بعض اتنے بزدل ہوتے ہیں کہ ان کا پیچھا آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔
اگر کسی پہاڑی کی چوٹی سے آپ ٹھہر کر تیندوے کو شکار پر گھات لگاتے دیکھیں تو آپ کو قابل دید نظارہ دیکھنے کو ملے گا۔ آپ دیکھیں گے کہ کس طرح ہر ممکن آڑ، درختوں کے تنے، ہر جھاڑی اور ہر پتھر کی اوٹ سے تیندوا کیسے گھات لگاتا ہے۔ تیندوا خود کو پھیلا کر زمین سے بہت قریب چپکا لیتا ہے۔ اس کی رنگت گرد و پیش سے اتنی زیادہ مل جاتی ہے کہ عام طور پر دکھائی نہیں دیتا۔ ایک بار میں دوربین سے یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ کس طرح تیندوا جنگل کے طور طریقوں کا ماہر تھا۔ پھر ایک آخری دوڑ۔ دو ہی چھلانگوں میں تیندوا بجلی کی سی تیزی سے اپنے شکار کو پہنچ جاتا ہے۔
انتہائی مہارت سے تیندوا سیدھا اپنے شکار کا گلا دبوچتا ہے۔ اس کے طاقتور جبڑے اوپر اور پیچھے سے اس کی گردن کو پکڑتے ہیں تاکہ جب جانور گرے تو تیندوے اس کی مخالف سمت میں ہو اور کھروں یا سموں سے اسے کوئی خطرہ نہ ہو۔ بصورت دیگر مرتے ہوئے جانور کے کھر تیندوے کے لیے مہلک ثابت ہو سکتے ہیں۔ تیندوا اپنے شکار کو زمین پر بے بس کر دیتا ہے اور جب تک وہ جانور مر نہ جائے، تیندوا اپنی گرفت ڈھیلی نہیں کرتا۔ جب جانور مر جاتا ہے تو بھی تیندوا اپنی گرفت ڈھیلی نہیں کرتا بلکہ اپنے شکار کا خون پیتا رہتا ہے۔
اب آپ ذرا تصور کریں کہ جنگل میں موجود خاموشی اور بے آواز چلتا ہوا تیندوا جب کسی جانور یا گارے کی طرف بڑھتا ہے۔ اگر آپ تیندوے کے شکار کے شائق ہوں تو آپ کو چاہیے کہ ہر جھاڑی، گھاس کے جھنڈ، پتھروں اور چٹانوں کو خوب غور سے دیکھ کر آگے بڑھیں اور کھائیوں اور کھڈوں میں بھی جھانکنا نہ بھولیں کیونکہ تیندوا ان میں سے کسی بھی جگہ چھپا ہوا یا زمین پر موجود کسی گڑھے میں لیٹا ہو سکتا ہے۔ نہ صرف آپ کی کامیابی بلکہ آپ کی زندگی کا بھی دار و مدار آپ کی احتیاط پر ہے کیونکہ آپ نے جنگل کے سب سے چالاک اور سب سے خطرناک قاتل کے مقابلے کی ٹھانی ہوئی ہے۔
مشکل ترین شکاروں میں سے ایک اور بہترین مشغلہ تیندوے کو اس کے اپنے طریقے سے شکار کرنا ہے۔ اس طرح کا شکار سٹل ہنٹنگ کہلاتا ہے۔
اس قسم کے شکار میں آپ کو جنگل کے طور طریقے، بے آواز چلنا، تقریباً تیندوے جیسی سوچ رکھنا لازمی ہیں۔ کیونکہ آپ کا مقابلہ انتہائی مکار جانور سے اس کی سلطنت پر ہے۔ آپ نے زمین پر رہتے ہوئے اسے شکار کرنا ہے اور یاد رہے کہ تیندوا بہترین شکاریوں میں سے ایک ہے۔
پہلی بات تو یہ جاننا ضروری ہے کہ تیندوا کس وقت شکار کی تلاش میں باہر نکلتا ہے۔ عموماً تیندوا شب بیدار جانور ہے اور جنگل میں رات کو پھرتا ہے۔ انسان ہونے کے ناطے آپ کو تاریکی میں مصنوعی روشنی کے بغیر کچھ نہیں دکھائی دے گا۔ لیکن یہ سٹل ہنٹنگ نہیں ہے۔ شام گہری ہونے پر جب تاریکی چھانے والی ہی ہو، اس کا بہترین وقت ہے۔ اس وقت کسی نہ کسی تیندوے سے ملاقات ہو سکتی ہے۔ دن میں پھرنا قطعی بے کار ہے کیونکہ دن کے وقت تیندوے آرام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ تیندوے کو گرم سورج بھی پسند نہیں۔
دوسری بات یہ کہ تیندوے عموماً کس طرح کی جگہوں پر دکھائی دیتے ہیں؟ اس سوال کا جواب جاننے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ عام طور پر جنگل میں تیندوے کن جانوروں کو شکار کرتے ہیں۔ تاہم اس دوسرے سوال کا جواب اگر جان بھی لیا جائے تو کوئی فائدہ نہیں کیونکہ تیندوا عموماً ہر زندہ چیز کو کھاتا ہے ماسوائے ایسے جانور جنہیں وہ مار نہ سکے۔ جنگلی مرغ، مور، خرگوش، بندر، جنگلی سور اور تمام اقسام کے ہرن ماسوائے بہت بڑے سانبھر وغیرہ۔ بستیوں کے قریب رہنے والے تیندوے پالتو سوروں، کتوں، بکریں، بھیڑوں، گدھوں اور مناسب جسامت کے مویشیوں کو لقمہ بناتے ہیں۔ حتٰی کہ آوارہ پھرتی ہوئی بلی بھی اس کے پیٹ میں پہنچ جاتی ہے۔
کچھ دیر کے لیے فرض کریں کہ ہم جنگل میں ہیں جہاں تیندوا شکار کرتا ہے۔ تیندوا کس طرح شکار کرے گا؟ یاد رہے کہ تیندوے کی بصارت اور سماعت انتہائی طاقتور ہوتی ہیں لیکن سونگھنے کی حس تقریباً بے کار۔ اگر آپ تیندوے کی جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟
ظاہر ہے کہ دو ہی ممکنہ صورتیں ہیں۔ پہلی صورت میں آپ انتہائی خاموشی سے ان جگہوں پر پھریں گے جہاں شکار ملتا ہو یا پھر کسی ایسی جگہ کے پاس چھپ جائیں گے جس کے نزدیک سے آپ کی خوراک کے گذرنے کے امکانات ہوں۔ تیندوا بھی یہی کرتا ہے۔
تیندوا جنگل میں انتہائی خاموشی سے اپنے پنجوں کی نرم گدیوں پر چلتا ہے۔ تاہم جھاڑ جھنکار یا خشک پتوں سے تیندوا خاموشی کے ساتھ نہیں گذر سکتا کیونکہ اس سے شور پیدا ہوتا ہے۔
فرض کرتے ہیں کہ آپ تیندوے کی تلاش میں ہیں۔ اگر آپ جنگل میں کسی تالاب یا چاٹن کو دیکھیں تو اس کے پاس ہی کہیں جھاڑیوں میں یا دیمک کی بمیٹھی کے پیچھے چھپ جائیں۔ یہاں آپ کو جنگل کے بے شمار انوکھے واقعات دیکھنے کو ملیں گے۔ اگر آپ کو اپنی طرح کوئی تیندوا یا شیر چھپا ہوا دکھائی دے تو حیران نہ ہوں۔ تاہم اس بات کے امکان کم ہی ہیں کہ یہ جانور چھپ کر گھات لگانے کے ماہر ہوتے ہیں۔ میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ درندے ان جگہوں پر شوق سے گھات لگاتے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں گھاس میں چھپا ایسی ہی ایک چاٹن کو دیکھ رہا تھا جو ایک کھائی کے کنارے پر موجود تھی۔ پہلے میں یہاں بڑی تعداد میں سانبھر اور چیتل یہاں دیکھ چکا تھا۔ اندھیرا چھا رہا تھا کہ مجھے اپنے پیچھے ہلکی سی سرسراہٹ سنائی دی۔ سر موڑ کر دیکھا کہ ایک تیندوا مجھے حیرت سے گھور رہا ہے۔ جب اس نے مجھے اپنی طرف متوجہ پایا تو اٹھا اور مڑ کر چل پڑا۔ اس کے تاثرات قابلِ دید تھے۔
درندے جب اپنے بچوں کے ساتھ ہوتے ہیں تو ان کا مشاہدہ قابلِ دید ہوتا ہے۔ ماں کی فکر دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ جب تک بچے پوری طرح چلنے کے قابل اور شکار کے بارے کچھ بنیادی معلومات نہ جان لیں، ماں انہیں غار سے باہر نہیں نکالتی۔ ابتدا میں انہیں دودھ پر پالا جاتا ہے۔ پھر جب وہ کچھ بڑے ہو جاتے ہیں تو ماں انہیں کچا گوشت کھانے کو دیتی ہے جو وہ خود نیم ہضم کر کے اگلتی ہے۔ پھر جب بچے عام کچا گوشت ہضم کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں تو ماں انہیں جنگلی مرغیاں اور مور لا کر دیتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ چھوٹے جانورجیسا کہ ہرن وغیرہ بھی لانا شروع کر دیتی ہے۔
بچے بہت حریص ہوتے ہیں اور اگر انہیں کھلا چھوڑا جائے تو اتنا کھا لیتے ہیں کہ بیمار پڑ جاتے ہیں۔ میں نے بہت مرتبہ تیندوؤں اور شیروں کے بچے پالے ہیں اور تیندوے کے بچوں کو اکثر قولنج ہو جاتا تھا۔ انہیں کھانے پر روک ٹوک نہ لگائی جائے تو گوشت کے لوتھڑے نگلتے اور خون کے پیالے پیتے جاتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ ہلنے جلنے سے بھی قاصر ہو جاتے ہیں۔
ایک بار قولنج کا حملہ ہو جائے تو پھر ان کے بچنے کے امکانات نہیں رہتے اور تین یا چار دن میں شدید اذیت کے بعد مر جاتے ہیں۔
قولنج کا حملہ عموماً آٹھ ماہ تک کی عمر تک ہو سکتا ہے اور میرے پالتو بہت سارے تیندوے کے بچے اسی طرح مرے ہیں۔
جنگل میں ماں بچوں کو ہمیشہ اتنا کھانے کو دیتی ہے کہ انہیں نقصان نہ پہنچے اور ساتھ دودھ بھی دیتی رہتی ہے۔ جب بچے اتنے بڑے ہو جائیں کہ دودھ پیتے وقت تھنوں کو ناخن مار کر خراشیں ڈالنے لگیں تو پھر ماں دودھ چھڑا دیتی ہے۔
اگر غار میں خطرہ محسوس ہو، جیسے کوئی انسان قریب آن پہنچے یا نر تیندوے کی موجودگی کا شبہ ہو کہ نر تیندوے بچوں کو شوق سے ہڑپ کر جاتے ہیں، تو ماں بچوں کو کسی محفوظ جگہ منتقل کر دیتی ہے۔ اس کے لیے وہ باری باری ہر بچے کو گردن کے پیچھے کھال سے پکڑ کر اٹھا لے جاتی ہے۔
جب بچے چلنے کے قابل ہو جائیں تو ماں انہیں گھات لگانے اور شکار کرنے کی تربیت دینا شروع کرتی ہے۔ یہ کافی طویل عمل ہے۔ ماں پہلے خود شکار کرتی ہے اور بچے گھاس اور جھاڑیوں میں چھپ کر دیکھتے ہیں۔ پھر ماں انہیں مختلف آوازیں نکال کر بلاتی ہے اور انہیں جانور کی لاش پر کھیلنے اور اسے نوچنے کی اجازت دیتی ہے۔ اس طرح بچے تازہ شکار اور گرم خون کے ذائقے سے واقف ہوتے ہیں۔ جب بچے اس طرح نوچ کھسوٹ رہے ہوتے ہیں تو ان کی آوازیں سننے سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ نہ صرف شکار بلکہ ایک دوسرے اور ماں پر بھی جھپٹنے سے نہیں کتراتے۔
اگلے سبق میں ماں جانور کو ادھ موا کرتی ہے یا پھر اسے ہمسٹرنگ کر کے بھاگنے سے معذور کر دیتی ہے اور پھر بچوں کو اسے ہلاک کرنے کا کام سونپتی ہے۔ اس طرح وہ جانور کے گلے پر حملہ کر کے اور نوچ نوچ کر اسے مار ڈالتے ہیں جو بہت ظالمانہ فعل ہے۔
تیندوے کی نسبت شیر کے بچوں کی تربیت زیادہ طویل ہوتی ہے۔ تیندوے اپنے شکار کا گلا دبوچ کر لٹک جاتے ہیں اور دم گھٹنے سے جانور مر جاتا ہے جبکہ شیروں کو بہت سائنسی انداز سے اپنے شکار کی گردن توڑنی ہوتی ہے۔ اس لیے شیر کے بچوں کی تربیت زیادہ طویل ہوتی ہے اور عام طور پر بچوں کو سکھاتے ہوئے شیرنی چار یا پانچ مویشی ایک ہی وقت میں مار دیتی ہے کیونکہ اگر بچوں پر چھوڑ دیا جائے تو وہ جانور کو ہلاک کرنے کی بجائے محض زخمی کریں گے اور جانور فرار ہو جائے گا۔
میں نے جیسا کہ بتایا ہے کہ شیر سائنسی انداز سے جانور مارتا ہے۔ وہ عموماً اپنے شکار کی کمر پر جست لگاتا ہے اور دوسری جانب سے گلے کو پکڑ کر واپس اترتا ہے اور ساتھ ہی جانور کے شانے پر پنجے سے ضرب لگاتا ہے۔ پھر پیچھے کی طرف کھینچتے ہوئے وہ جانور کو گراتا ہے اور اس دوران شکار کی گردن ٹوٹ جاتی ہے۔
جب شیر یا تیندوے کے بچے اپنی ماں کے ساتھ شکار کی تربیت پر نکلتے ہیں تو وہ اس کے عین پیچھے اس کی نقالی کرتے ہیں۔ جونہی ماں نیچے جھکتی ہے، بچے بھی اسی طرح اسی جگہ جھک جاتے ہیں۔ ایسے مواقع پر قریب جانا خطرناک ہوتا ہے۔ شیرنی ایسے مواقع پر اکثر حملہ کر دیتی ہے۔ تیندوے کی مادہ کے حملے کے کم امکانات ہوتے ہیں، تاہم وہ شور بہت کرتی ہے۔ خیر کوئی بات یقین سے کہنا ممکن نہیں، اس لیے رائفل تیار رکھنی چاہیے۔
یاد رہے انتہائی مجبوری کے سوا کسی حالت میں بھی ماں کو مت ماریے گا، کیونکہ اگر بچے بھاگ گئے تو پھر وہ جنگل میں بھوکے مر جائیں گے اور اگر وہ کچھ بڑے ہوئے تو امکان ہے کہ آدم خور بن جائیں۔ یاد رہے کہ ابھی تک انہوں نے اپنے فطری شکار کو مارنا پوری طرح نہیں سیکھا۔ اگر آپ نے اس مرحلے پر ان کی تربیت کو روک دیا تو عین ممکن ہے کہ وہ بھوک سے مجبور ہو کر انسانوں کو کھانا شروع کر دیں۔ یاد رہے کہ انسان پر گھات لگانا بہت آسان ہے اور اس کا شکار کسی بھی دوسرے بڑے جانور کی نسبت بہت آسان ہے۔
اس طرح کے مشاغل کا بہترین وقت انڈین موسمِ سرما ہے جو نومبر سے جنوری تک پھیلا ہوا ہے اور پھر شیروں اور تیندوؤں کے ملاپ کا موسم ہوتا ہے۔
ظاہر ہے کہ آپ جانتے ہی ہوں گے کہ یہ درندے زیادہ تر رات کے وقت باہر نکلتے ہیں اور یہ بھی کہ شام یا صبح کے دھندلکے میں بھی دکھائی دے سکتے ہیں۔ اپنے جوڑے کی تلاش میں نکلی شیرنی کی آواز سننا بہت دلچسپ ہوتا ہے اور آپ ان میں طلب کا عنصر آسانی سے محسوس کر سکتے ہیں۔ تاہم یاد رہے کہ اس عرصے میں شیر بہت خطرناک ہو جاتے ہیں خصوصاً جب وہ مادہ کے ساتھ ہوں یا پھر جنسی ملاپ کی حالت میں۔ شیروں کا جنسی ملاپ انتہائی خطرناک ہوتا ہے جس کا اندازہ آپ گھریلو بلیوں کے جنسی ملاپ سے لگا سکتے ہیں۔ بلیوں کی حرکات کو کئی گنا خطرناک بنا دیں تو وہ شیروں پر پورا اترے گا۔ اس دورانیے میں شیرنی زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ جنسی ملاپ کی حالت میں اگر کوئی انسان قریب آ جائے تو اس کی قسمت پر مہر لگ جاتی ہے۔ ملاپ کے لیے نر کی تلاش میں نکلی ہوئی شیرنی مسلسل بولتی رہتی ہے اور کئی بار تو بڑے رقبے پر جنگل میں ہونے والے کام اور بیل گاڑیوں کی آمد و رفت بھی روک دیتی ہے۔
تیندوے بھی ایسے ہی ہیں مگر وہ ایسی حالت میں انسان پر حملہ آور کم ہوتے ہیں، مگر دھمکاتے بہت ہیں۔
شیر کی نسبت تیندوا بلی سے زیادہ مشابہہ ہے۔
سڑک یا جنگل کی پگڈنڈی کے کنارے خشک پتوں کا ڈھیر یا کھرچی ہوئی ریت دکھائی دے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تیندوے نے رفع حاجت کے بعد اسے چھپا دیا ہے، جیسا کہ پالتو بلی کرتی ہے۔ تاہم شیر اتنی دقت نہیں اٹھاتا اور جیسے کتے فضلے کو زمین پر چھوڑ جاتے ہیں، ویسے ہی شیر کرتا ہے۔ تاہم دونوں فضلوں میں ان کے پچھلے شکار کے غیر ہضم شدہ بال زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔
لگڑبگڑ مردار خور ہے اور ہڈیاں بھی نگل جاتا ہے۔ اس کے فضلے کی پہچان آسان ہے کہ اس میں نیم ہضم شدہ ہڈیاں صاف دکھائی دیتی ہیں۔ لگڑبگڑ کے پنجوں کے نشان پہچاننا آسان ہے کہ اگلے پنجے پچھلوں کی نسبت کافی بڑے ہوتے ہیں۔
شیروں کی مانند تیندوے بھی چلتے ہوئے اپنے ناخن چھپا کر چلتے ہیں۔ تیندوے اور لگڑبگڑ کے پگ ایک جسامت کے ہوتے ہیں مگر تیندوے کے پگ میں ہتھیلی لگڑبگڑ سے کہیں بڑی ہوتی ہے اور دوسرا ناخن بالکل دکھائی نہیں دیتے۔ لگڑبگڑ اپنے ناخن سکیڑنے کے قابل نہیں ہوتا، سو اس کے پگ پر ناخنوں کے نشان واضح دکھائی دیتے ہیں۔
ماضی میں یہ بحث خاصی دھواں دھار شکل اختیار کر گئی تھی کہ آیا تیندوے اور بور بچے ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں یا دو الگ الگ نسلوں کے جانور ہیں۔ تاہم دورِ جدید میں یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ یہ دونوں ایک ہی نسل سے متعلق ہیں۔ ماحول اور خوراک کی وجہ سے کچھ کی جسامت زیادہ بڑی ہو جاتی ہے۔ جنگل میں رہنے والا تیندوا جنگلی جانوروں پر قانع رہتا ہے اور اس کی جسامت دوسروں سے کہیں بڑی ہوتی ہے اور اس کی کھال کا رنگ گہرا اور زیادہ موٹی ہوتی ہے جبکہ گاؤں کے ساتھ رہنے والے بور بچے کتوں اور بکریوں پر گزارا کرتے ہیں اور ان کی کھال کا رنگ ہلکا جبکہ بال چھوٹے اور سخت ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ گہرے رنگ کی کھال جنگل میں رہنے والے تیندوے کو اس کے ماحول میں چھپا دیتی ہے تو گاؤں کے پاس چٹانوں میں رہنے والا تیندوا اپنے ہلکے رنگ کی وجہ سے بہ آسانی چھپ جاتا ہے۔
کبھی کبھار اس کے برعکس بھی ہوتا ہے۔ میں نے دیہاتوں کے پاس رہنے والے بہت بڑے اور گہرے رنگ والے تیندوے بھی شکار کیے ہیں اور آبادیوں سے بہت دور گھنے جنگلوں میں چھوٹی جسامت اور ہلکی رنگ والے تیندوے بھی۔
شیروں پر بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے۔ جو شیر مویشی خور یعنی لاگو ہو جائیں، وہ موٹے اور سست ہو جاتے ہیں جبکہ جنگلی جانوروں کا شکار کرنے والے شیر مضبوط جسامت والے اور چربی سے بالکل پاک ہوتے ہی کیونکہ ان کو شکار پر زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ لاگو شیر بغیر کسی محنت کے شکار پا لیتے ہیں۔ سخت مشقت سے چربی گھٹتی ہے اور یہ اصول انسانوں کی طرح شیروں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔
تیندوے ہوں یا شیر، ان میں آدم خوری کی عادت استثنائی صورت رکھتی ہے اور اس کی کچھ وجوہات پر میں پہلے ہی روشنی ڈال چکا ہوں۔
تیندوے درختوں پر بخوبی چڑھ سکتے ہیں اور بعض اوقات بندروں کو اپنا کھاجا بنا لیتے ہیں اور جنگلی کتوں سے پیچھا چھڑانے کے لیے بھی درخت پر چڑھ جاتے ہیں۔
شیر درخت پر نہیں چڑھتے اگرچہ میں نے ایک بار میسور کے چڑیا گھر میں ایک شیر کو درختوں پر چڑھتے اور خصوصی طور پر اس مقصد کے لیے بنائے گئے چبوترے پر آتے جاتے دیکھا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کی مانند شیر بھی مختلف شخصیات کے مالک ہوتے ہیں۔
تیندوے اور شیر، دونوں ہی بندروں کے شکار کا انوکھا طریقہ اپناتے ہیں۔ بندر بہت چوکس ہوتے ہیں اور ہر طرف نگرانی کرتے رہتے ہیں کہ ان پر حملہ نہ ہو۔ اپنے دشمن کو دیکھتے ہی بندر درخت کی سب سے اونچی شاخوں پر چڑھ جاتے ہیں جہاں وہ محفوظ ہوتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے شیر اور تیندوے خوب زور سے گرجتے اور دھاڑتے ہوئے درخت پر حملہ آور ہوتے ہیں۔
ان دہشت ناک آوازوں سے بندر پریشان ہو جاتے ہیں اور اپنی محفوظ جگہ پر رکنے کی بجائے وہ دوسرے درخت پر چھلانگیں لگانے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر درخت دور ہو تو زمین پر چھلانگیں لگاتے ہیں کہ بھاگ کر دوسرے درخت پر چڑھ سکیں۔ اس عمل میں وہ زخمی یا بیہوش بھی ہو جاتے ہیں اور چالاک شکاری فائدہ اٹھا لیتا ہے۔
انڈین جنگلوں کا ایک بہت ذہین شکاری جانور جنگلی کتا ہے۔ ماضی کے ماہر شکاریوں نے یہ درجہ پہلے جنگلی ہاتھی، شیر اور تیندوے کو دیا ہوا تھا مگر جب آپ جنگلی کتے کا مطالعہ کریں تو آپ ان ماہرین سے اختلاف کریں گے۔ جنگلی کتے جب ہرن کے شکار پر نکلتے ہیں تو ان میں سے کچھ اطراف میں آگے پہنچ کر چھپ جاتے ہیں تاکہ بعد میں حملہ آور ہو سکیں۔ تیس یا زیادہ تعداد میں یہ کتے نڈر شکاری ہوتے ہیں اور گھیر کر حملہ کرتے ہوئے وہ شیر یا تیندوے کو بھی پھاڑ کھاتے ہیں اور اس دوران ان کے اپنے کئی ساتھی مارے جاتے ہیں۔
سابقہ مدراس پریزڈنسی میں واقع ضلع چتوڑ کے جنگلوں میں ان کی شہرت پھیل چکی ہے اور تین واقعات تو میرے ذاتی علم میں ہیں کہ انہوں نے شیر کو گھیر کر خونریز لڑائی کے بعد اسے پھاڑ کھایا اور اس دوران کم از کم پانچ چھ کتے مارے گئے اور بے شمار زخمی بھی ہوئے۔ تاہم میں نے کبھی تیندوے کو اس طرح مرتے نہیں دیکھا کیونکہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ وہ درخت پر چڑھ کر بچ جاتے ہیں۔
شیر پانی میں اتر جاتے ہیں اور بڑا دریا عبور کرنا بھی ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ گرم موسم میں دوپہر کی گرمی کا وقت شیر عموماً کسی ندی یا تالاب کے کنارے سائے میں یا پھر پانی میں اتر کر گزارتا ہے۔ شیر عموماً بارش کے دنوں میں خوب شکار کرتا ہے اور اس کے پگ رات کی بارش کے بعد صبح کے وقت اکثر دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم تیندوے کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔ ہر اعتبار سے بلی ہونے کی وجہ سے اسے پانی سے نفرت ہوتی ہے اور بارش بھی اور تیراکی سے بھی اس کا کوئی واسطہ نہیں۔ تاہم اگر ہنگامی ضرورت پڑے تو تیندوا تیر بھی لیتا ہے جیسا کہ جنگلی کتوں کے تعاقب کے وقت۔
انڈیا میں شیر منگولیا کے سرد علاقوں سے ہجرت کر کے آیا تھا۔ اس لیے اسے گرمی کے دوران سرد مقامات درکار ہوتے ہیں۔ تیندوا انڈیا اور استوائی مقامات کا اصل باشندہ ہے۔
شیر کبھی کبھار سانبھر کی آواز نکالتے ہیں جس کا مقصد سانبھر کو متوجہ کرنا اور ان پر گھات لگانا ہوتا ہے۔ تاہم ایسی آوازیں بہت کم ہوتی ہیں اور صرف ان جنگلوں میں سنائی دیتی ہیں جہاں سانبھر بکثرت ہوں۔ تیندوے ایسا نہیں کرتے بلکہ ان کا سارا دارومدار چھپ کر گھات لگانے پر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ زمین کے ساتھ پھیل جاتے ہیں اور انتہائی چھوٹی جگہ پر بھی چھپ سکتے ہیں اور پھر آخر میں تیز دوڑ لگا کر شکار کو گرا لیتے ہیں۔
اکثر شکاری کہتے ہیں کہ شیر ایک ‘شریف‘ جانور ہے تو تیندوا ایک ‘لفنگا‘۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ پرانے شکاری توڑے دار بندوق لے کر زخمی جانوروں کے پیچھے جاتے ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ اتنی قدیم بندوقیں لے کر اتنے خطرناک کام پر نکلنے والے افراد بہت بہادر ہوتے تھے کہ ان کے لباس اُس دور کے مطابق بہت بھاری ہوتے تھے اور بھاری جوتے پہنے، موٹی ٹوپیاں پہنے وہ پیدل زخمی جانوروں کے تعاقب میں نکلتے تھے۔ موجودہ دور کا شکاری ان سے کتنا آگے ہے کہ اپنی گاڑی میں محفوظ بیٹھے ہوئے وہ مصنوعی روشنی سے جانور کو اندھا کر کے اسے بچنے کا کوئی موقع دیے بغیر شکار کر لیتا ہے۔ زخمی شیر کے قریب جائیں تو وہ آواز نکالتا ہے جبکہ تیندوا زخمی ہونے کے بعد خاموشی سے چھپا رہتا ہے اور شکاری کے گزرنے کے بعد اس پر پیچھے سے حملہ کرتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے تیندوے کو لفنگا کہا جاتا ہوگا۔
اصل میں شیر کہیں زیادہ بہادر اور خطرناک ہوتا ہے اور جب وہ حملہ کرتا ہے تو اس کا مقصد اپنے دشمن کو ہلاک کرنا ہوتا ہے جبکہ تیندوا جب تک آدم خور نہ ہو، اپنے دشمن پر حملہ کر کے زخمی کرے گا اور پھر بھاگ جائے گا۔
تیندوے اپنے شکار کی ہڈیاں بھی چچوڑتے ہیں چاہے لاش کتنی ہی سڑ گئی ہو۔ اصولی طور پر شیر اپنے شکار پر دو دن سے زیادہ نہیں جاتے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ بڑی جسامت کی وجہ سے وہ زیادہ کھاتے ہوں اور دو یا تین بار سے زیادہ بچتا ہی نہ ہو۔ اس کے علاوہ شیر صفائی پسند ہیں۔
سڑتا ہوا گوشت دونوں قسم کے درندوں کے ناخنوں کے نیچے پھنس جاتا ہے۔ جس میں خطرناک جراثیم پلتے ہیں اور ان جانوروں سے لگنی والی خراشیں ان کے کاٹنے سے زیادہ انفیکشن پیدا کرتی ہیں۔ شیر ناخنوں میں پھنسی چیزوں سے بہت خار کھاتے ہیں اور صاف کرتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ شیر کو درختوں کی نرم چھال پر پنجے تیز کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ تیندوے ایسا کم ہی کرتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کے پنجے زیادہ زہریلے ہوتے ہیں۔ درخت پر چھ یا سات فٹ کی بلندی پر لگی ایسی خراشیں شکاری کے لیے اچھی خبر ہوتی ہیں کہ ان کا شکار موجود ہوگا۔
ہر طرح سے شیر صفائی پسند ہے۔
تیندوے اپنے شکار کے پیٹ پھاڑ کر کھانا شروع کرتے ہیں اور جلد ہی اوجھڑی، آنتیں، فضلہ، سبھی کچھ شکار کے گوشت کے ساتھ مل جاتا ہے جبکہ شیر اپنے شکار کے مقعد کے پاس چیرا لگاتے ہیں اور آنتیں، معدہ وغیرہ نکال کر انہیں تقریباً دس فٹ دور پھینک آتے ہیں۔ پھر وہ صفائی سے گوشت کھانا شروع کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کھانا شروع کرنے سے قبل وہ شکار کی دم بھی کتر کر پھینک دیتے ہیں۔ بڑے تیندوے بھی اکثر ایسا کرتے ہیں مگر چھوٹے تیندوے اور بور بچے کھاتے ہوئے معدے، آنتوں اور فضلے سے تعرض نہیں کرتے۔
شیرنی اور اس کے بچوں والی غار ہمیشہ صاف ستھری، ہڈیوں سے پاک اور اچھی حالت میں ہوگی جبکہ تیندوے کی غار میں ہر طرح کی گندگی اور غلاظت ملے گی۔
جنسی ملاپ کے علاوہ دیگر موسموں میں شیر تیندوے کی نسبت زیادہ آوازیں نکال کر اپنی موجودگی کی اطلاع دیتے ہیں۔ انڈیا میں رہنے والے مقامی قبائل اس بات کی تصدیق کریں گے اور آپ کو بتائیں گے کہ عام طور پر ان کے علاقے میں شیر کن راستوں پر چل کر شکار کرتے ہیں۔ شیر کی گہری اور خوبصورت دھاڑ وادیوں، جنگلوں، پہاڑوں سے گونجتی ہوئی جب سنائی دیتی ہے تو رات کو درختوں کے پتوں سے چھن کر آنی والی چاندنی میں کھڑے انسان کے رونگٹے بھی کھڑے ہوتے ہیں اور انسان عجیب سی خوشی بھی محسوس کرتا ہے۔ تیندوے کی آواز سخت مگر کم بلند آواز آرے کی آواز سے مشابہہ ہوتی ہے اور کم سنائی دیتی ہے۔
شیر کی ایک اور مخصوص عادت یہ ہے کہ وہ شکار کے دوران مخصوص راستے پر چلتا ہے۔ یہ راستہ میلوں طویل ہوتا ہے اور بسا اوقات سو میل سے بھی تجاوز کر جاتا ہے مگر شیر ہمیشہ ایک ہی راستے پر چلتا ہے، چاہے وہ کوئی خشک نالہ ہو، وادی سے گزرنی والی ندی ہو یا کوئی پہاڑی۔ جب کسی جنگلی راستے پر آپ شیر کے پگ دیکھیں تو وہی پگ آپ کو بار بار اسی راستے پر دکھائی دیتے رہیں گے چاہے وہ کچھ دنوں یا کچھ ہفتوں کے وقفے سے ہوں یا کچھ ماہ۔ شیر جس راستے سے جاتا ہے، اس سے شاید ہی کبھی واپس آتا ہو۔ مگر وہ دائرے کی شکل میں چلتا ہے اور واپس اسی جگہ لوٹتا ہے جہاں سے وہ گزرا تھا۔
اگر اس راستے پر چلتے ہوئے شیر شکار میں کامیاب ہو تو اس مقام پر قیام کی مدت بڑھ جاتی ہے تاکہ شکار کردہ جانور سے پوری طرح لطف اندوز ہو سکے۔
آدم خور کے تعاقب میں یہ بات بہت مدد کرتی ہے کہ شیر عموماً ایک ہی جگہ ہر مخصوص مدت کے بعد لوٹے گا جس میں چند دن کا فرق ہو سکتا ہے۔ جب آپ نقشے پر شیر کی وارداتوں اور تاریخوں کو رکھیں تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ آنے والے وقت میں شیر کب اور کہاں مل سکتا ہے۔
تیندوا ایسے چکروں میں نہیں پڑتا بلکہ وہ ہر وقت اور ہر جگہ ہوتا ہے۔ اس طرح آدم خور تیندوے کی تلاش بہت مشکل ہوتی ہے کہ آپ پیش گوئی نہیں کر سکتے۔ تیندوا کسی ایسی جگہ بھی نمودار ہو کر واردات کر کے پھر غائب ہو جاتا ہے کہ بڑے سے بڑا اور تجربہ کار شکاری بھی اس کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔
اس باب میں میں نے تیندوؤں کے شکار کے بارے کچھ معلومات دی ہیں اور بتایا ہے کہ تیندوے کا قدرتی مسکن کیسا ہوتا ہے اور اس کی عادات اور خصائل کیسے ہوتے ہیں۔ ایسے مواقع پر میں نے ان کے شکار کی بات جان بوجھ کر گول کی ہے کہ اس سے آپ کو کوئی دلچسپی نہیں ہوگی۔ شکار کا اصل مزہ درندے کو اس کے فطری ماحول میں اپنی مہارت، جنگلی ہنر، برداشت اور ذہانت سے شکست دینا ہے۔ میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ ایسے مواقع پر اپنے ساتھ کیمرہ لے جائیں اور مارنے کی بجائے ان خوبصورت ترین جانوروں کی تصاویر ان کے فطری ماحول میں لیں۔ اپنی رائفل ساتھ لے جانا مت بھولیں کہ اس کی کسی وقت بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ تاہم بے فائدہ جانوروں کو ہلاک کرنے سے گریز کر سکیں تو ضرور کریں۔
یاد رہے کہ مناسب مقام پر اچھی طرح سے کھینچی گئی ایک تصویر بھی دیوار پر لٹکتی ٹرافی یا فرش پر بچھی کھال سے بدرجہا بہتر ہوتی ہے۔ تصویر میں جانور اپنے فطری ماحول میں زندہ اور حقیقی دکھائی دیتا ہے جبکہ بھس بھری کھال وقت کے ساتھ ساتھ کیڑوں وغیرہ کا شکار ہو کر کباڑ میں ڈال دی جاتی ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
2۔ یلاگری کی پہاڑیوں کا آدم خور تیندوا
سہ پہر کا وقت تھا۔ استوائی سورج کی حدت جلائے ڈال رہی تھی اور سورج آگ کا گولا دکھائی دیتا تھا۔ سارا جنگل اس کی حدت کے زیر اثر خاموش تھا۔ حتٰی کہ بندر اور پرندے جو ساری صبح بولتے رہے تھے اب چپ ہو کر اس جھلسا دینے والی ہوا میں ہانپ رہے تھے۔
جنگل کے گھنے درختوں کے سائے کے نیچے کچھ آرام ملتا تھا لیکن گرمی کی شدت سے یہ سائے بھی محض کم گرم ہی رہ گئے تھے۔ جنگل میں زمین پر گرے ہوئے پتوں کو جنبش دینے کے لیے بھی ہوا نہیں تھی۔ تاہم مون سون شروع ہوتے ہی یہی پتے گل سڑ کر نئے درختوں کی کھاد کا کام دیں گے اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
یہ خاموشی اس وقت ٹوٹتی ہے جب جنگل میں چرنے کے لیے بھیجے جانے والے مویشیوں کے گلے میں لٹکی چوبی گھنٹیاں بجتی ہیں۔ ان گھنٹیوں کا ایک مقصد تو چرواہے کو جانور تلاش کرنے میں مدد دینا ہے تو دوسرا مقصد درندوں کو ڈرا کر دور بھگانا ہے۔ دوسرا مقصد اکثر پورا ہو جاتا ہے کہ تیندوے اور شیر ایسے جانور پر حملہ کرنے سے ہچکچاتے ہیں کہ جس کے گلے سے عجیب سی چیز لٹک رہی ہو اور اس میں سے نئی نئی آوازیں بھی آ رہی ہوں۔ تاہم بعض اوقات بھوک یا تجسس سے مجبور ہو کر کوئی درندہ ان پر حملہ کر بیٹھتا ہے۔
اِس دوپہر کو بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ایک فربہ اور کم عمر بیل ریوڑ کے کنارے پر انجیر کے درخت کے نیچے ہری بھری گھاس چر رہا تھا۔ پُرسکون اور لاشعوری طور پر وہ گھاس توڑتا اور سر بلند کر کے چرتے ہوئے جنگل کو دیکھنے لگ جاتا۔ اس کے جبڑے گھاس کو چباتے رہتے۔ ہر چیز بالکل خاموش تھی اور بیل بھی سکون سے پیٹ بھر رہا تھا۔ تاہم اگر وہ پیچھے مڑ کر دیکھتا تو اس کا سکون قائم نہ رہ سکتا۔ ہلکی سی آواز بھی نہ ہوئی اور گھاس اچانک اس طرح ہٹی کہ اس میں سے دو سبز آنکھیں بیل پر مرکوز ہو گئیں۔ یہ آنکھیں ایک بڑے تیندوے کی تھیں جو جنگل میں رہنے والا تھا۔ اس کی جسامت بھاری تھی اور لگ بھگ شیرنی کے برابر رہا ہوگا۔ اس کا جسم زمین کے ساتھ لگا ہوا تھا اور اس کی کھال پر بنی چتیاں مختلف رنگوں کی گھاس میں بالکل مل گئی تھیں۔
بالکل خاموشی سے تیندوے نے اپنی پچھلی ٹانگیں موڑ کر پیٹ کے نیچے رکھیں۔ اس کے پٹھے جوش کی وجہ سے لرز رہے تھے۔ پورا جسم ہلکا سا ہِلا تاکہ مہلک حملہ شروع کر سکے۔
پھر جیسے بجلی چمکتی ہے، حملہ شروع ہوا۔ زرد رنگ کی ایک لکیر سی دکھائی دی اور بیل کو حملے کا علم بھی تب ہوا جب تیندوا اس کی شہ رگ میں اپنے دانت پیوست کر چکا تھا۔ چند لمحے تو بیل اپنی ٹانگیں پھیلائے کھڑا رہا کہ شاید بھاگ کر وہ ریوڑ میں جا گھسے مگر چونکہ اس کی سانس بند ہو چکی تھی اور شہ رگ سے خون ابل رہا تھا، سو جلد ہی اس کی ہمت جواب دے گئی۔ دھم کی آواز سے وہ زمین پر گرا اور کچھ دیر اس کی ٹانگیں ہلتی رہیں مگر تیندوے نے اپنی بے رحمانہ گرفت ہلکی نہ کی۔ تیندوا جان بوجھ کر اس کی پشت کی جانب بیٹھا رہا تاکہ کھروں سے بچا رہے۔ پھر بیل کے حلق سے خرخراہٹ کی آواز آنے لگی اور اس کی ٹانگوں کی حرکت کم ہوتی گئی۔ حملہ شروع ہونے کے چند منٹ بعد اس کی بے جان آنکھیں پتھرا چکی تھی۔
اس طرح ناتھن نامی چرواہے کا ایک بہترین جانور ہلاک ہوا۔ باقی ریوڑ اس دوران گھبرا کر بھاگا تو جنگل سے نکل کر فائر لائن سے ہوتا ہوا دو میل دور گاؤں جا پہنچا۔
تاہم ناتھن کا یہ واحد نقصان نہیں تھا۔ اگلے تین ماہ میں اس کے چار بہترین مویشی مارے گئے اور اس کے دیہات میں رہنے والے دو اور چرواہوں کے بھی دو دو مویشی مارے گئے۔ دوسری جانب تیندوے کے حملوں کی کوئی وجہ بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہاں جنگلوں میں بے شمار جنگلی جانور موجود تھے۔ شاید اس نے سوچا ہو کہ جنگلی جانوروں سے پیٹ بھرنے کی نسبت گاؤں کے پاس قیام پذیر ہو کر مویشیوں پر حملے کہیں آسان ہیں۔
جلد ہی مون سون کا موسم آن پہنچا اور ہر طرف لہلہاتی گھاس نمودار ہو گئی۔ اب جنگل میں مویشی بھیجنے کی ضرورت نہ رہی تھی کہ گاؤں کے پاس ہی چند کھیتوں میں موجود گھاس مویشیوں کے لیے کافی تھی۔ یہاں دیکھ بھال کرنا بھی زیادہ آسان تھا۔
تاہم اس تبدیلی سے تیندوے کو نقصان ہوا اور وہ زیادہ نڈر ہو گیا اور اس نے حملوں کا دائرہ گاؤں تک بڑھا دیا۔
دیہات کے پاس جنگل چھدرا تھا اور کھیتوں میں کوئی درخت نہیں تھے۔ اس وجہ سے تیندوے کے حملے کا کام مشکل سے مشکل تر ہوتا گیا اور ہر بار اسے دیکھ لیا جاتا اور چرواہے شور مچا کر اس کی جانب پتھر پھینکتے اور لاٹھیاں لہراتے۔ تیندوا گھبرا کر بھاگ جاتا۔
اس طرح تیندوے کی بھوک بڑھتی رہی اور اسے احساس ہو گیا کہ یا تو اسے مویشیوں کا خیال بھلا کر جنگلی جانوروں سے پیٹ بھرنا ہوگا یا پھر زیادہ بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مویشی مارتا۔
تیندوے نے دوسرے طریقے کو اپنایا۔
ایک شام کو وہ پہلے چھپتا چھپاتا اور پھر کھلے میں بھاگتا ہوا نزدیک ترین گائے کی سمت گیا۔ پاس ہی کھڑے دو چرواہوں نے اسے آتے دیکھا۔ انہوں نے شور مچایا اور لاٹھیاں لہرائیں، مگر تیندوے نے دانت سیدھے گائے کے گلے میں گاڑ دیے۔ جتنی دیر میں گائے مرتی، چرواہے بے حس و حرکت کھڑے دیکھتے رہے۔ پھر انہوں نے تیندوے پر پتھر پھینکے۔
جب پتھر آس پاس گرے تو تیندوے نے گائے کی لاش کو چھوڑا اور خون آلودہ جبڑا کھول کر چرواہوں پر غرایا۔ اس کی آنکھوں سے جیسے شعلے نکل رہے ہوں۔ گھبرا کر چرواہے بھاگ نکلے۔
ان حالات کی وجہ سے دیہاتیوں نے مقامی فارسٹر سے مدد مانگی کہ وہ کچھ کرے یا کسی اور کو بلائے۔ اس کا نام رامو تھا اور اس کے پاس ایک نالی بارہ بور کی بندوق تھی جس سے وہ شکار کیا کرتا تھا۔ اسے سرکاری طور پر چور شکاریوں کو پکڑنے کے لیے بھرتی کیا گیا تھا مگر وہ اکثر خود بھی یہی حرکت کرتا تھا اور ہرن یا سور مار لیتا۔ اپنے ماتحت فارسٹ گارڈوں کو وہ منہ بند رکھنے کے لیے دھمکیوں کے علاوہ شکار شدہ جانور کی ایک آدھ ران بھی تھما دیا کرتا تھا۔ تاہم تمام تر احتیاط کے باوجود رینج آفیسر کو رامو کی حرکات کا علم ہو گیا۔ یہ افسر نوجوان اور اپنے پیشے سے لگاؤ رکھتا تھا اور ہر قیمت پر قوانین کی پاسداری کرنا چاہتا تھا۔ اس نے رامو کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کی بہت کوشش کی مگر ہمیشہ ناکام رہتا۔ شاید فارسٹ گارڈ کو دی جانے والی دھمکیاں اتنی خطرناک ہوتی تھیں کہ کسی نے مخبری نہیں کی۔
رامو نے کبھی درندوں پر گولی نہیں چلائی تھی اور جب گاؤں والے مدد مانگنے پہنچے تو اسے اس مہم پر جانے کا کوئی خاص شوق نہیں تھا۔ تاہم دیہاتیوں کا اصرار جاری رہا اور جلد ہی اسے خبر ہو گئی کہ بار بار کے بہانوں سے اس کی شہرت اب خطرے میں پڑ گئی ہے۔
سو ایک صبح رامو اپنی بندوق کے ساتھ آن پہنچا۔ لوگوں نے اس کی خاطر مدارات میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کھانے سے فارغ ہو کر اس نے ڈھیر سارا قہوہ پیا اور مہم پر نکلنے سے قبل قیلولہ کرنے لگا۔
رامو دو گھنٹے بعد بیدار ہوا تو دوپہر ڈھل چکی تھی۔ پھر اس نے نمبردار سے بکری کا مطالبہ کیا تاکہ اسے باندھا جائے۔ یہ کام بھی ہو گیا تو رامو اب چھ دیہاتیوں کے ہمراہ روانہ ہوا۔
جنگل کے اس حصے کا فارسٹر ہونے کی وجہ سے اس علاقے سے رامو بخوبی واقف تھا اور اس نے اپنی مچان کے لیے پہلے ہی جگہ چن لی تھی۔ یہ برگد کا بہت بڑا درخت تھا جو جنگل کی فائر لائن اور گاؤں سے آنے والے راستے کے سنگم پر اگا ہوا تھا۔ عین اس کے قریب سے ایک نالہ بھی گزرتا تھا۔ تیندوا ان تینوں راستوں سے گزرنے کا عادی تھا اور جگہ جگہ اس کے پگ بھی دکھائی دیتے تھے۔ رامو کا انتخاب واقعی بہترین تھا۔ تیندوا چاہے فارسٹ لائن سے گزرتا یا گاؤں کے راستے سے یا پھر نالے سے، وہ اسی درخت کے پاس سے گزرتا جہاں نیچے بکری بندھی اور اوپر مچان پر رامو بیٹھا اس کا منتظر ہوتا۔
رامو نے مچان کو بیس فٹ کی بلندی پر بنانے کا حکم دیا اور چونکہ وہ خود بھی شکاری تھا، سو اس نے مچان کو ایسے چھپا دیا کہ کوئی بھی اس کو نہ دیکھ سکتا تھا۔
چار بجے کے بعد یہ کام جا کر پورا ہوا۔ رامو مچان پر چڑھا اور پھر دیہاتیوں نے بکری کو گلے میں رسی کے ساتھ زمین میں ایک کھونٹا گاڑ کر باندھ دیا۔
پھر دیہاتی چلے گئے۔ بکری اکیلی ہو گئی۔ اس نے گاؤں کی سمت رخ کر کے ممیانا شروع کر دیا۔ ہر چیز بہترین طور پر ہوتی رہی اور تیندوے نے بکری کی آواز سن لی اور چھ بجے اس پر حملہ کیا۔ رامو نے اپنی بندوق میں ایل جی کے چھرے بھرے ہوئے تھے اور جب تیندوا بکری کا گلا دبوچے بیٹھا تھا، رامو نے اس پر فائر کیا۔ کھانسی کی آواز کے ساتھ تیندوے نے قلابازی کھائی اور جھاڑیوں میں چھپ گیا۔
بکری شدید زخمی ہو چکی تھی اور اتفاق سے رامو کا ایک چھرہ اس کے کان سے ہوتا ہوا دماغ سے گزرا اور اس کا کام تمام کر گیا۔
رامو نے کچھ دیر انتظار کیا اور پھر نیچے اتر کر وہ گاؤں کو بھاگا اور جا کر لوگوں کو بتایا کہ تیندوا شدید زخمی ہوا ہے اور اگلی صبح تک مر جائے گا۔
دن کی روشنی میں کافی لوگ جمع ہوئے اور رامو کی رہننمائی میں برگد کے درخت کو چل دیے۔ وہاں جا کر دیکھا کہ بکری کی لاش سے لگڑبگڑ اپنا پیٹ بھر چکا تھا۔ رامو نے تیندوے کے فرار کی راہ کی نشاندہی کی۔ سب لوگ اسی سمت میں تیندوے کی لاش تلاش کرنے لگے۔
جلد ہی انہیں جھاڑیوں میں خون کے نشانات ملنے لگے کہ واقعی رامو نے تیندوے کو زخمی کیا تھا۔ تاہم تیندوا غائب تھا اور انہوں نے ایک میل سے زیادہ پیچھا کیا مگر لاش نہ مل سکی۔
تاہم اس کے بعد دو ماہ تک تیندوے نے کوئی حملہ نہ کیا اور رامو سمیت ہر کوئی اس نتیجے پر پہنچا کہ تیندوا کسی دور مقام پر جا کر مر گیا ہوگا۔
پھر ایک شام اسی فارسٹ لائن پر ایک سولہ سالہ لڑکا اکیلا آ رہا تھا۔ ایک موڑ پر اس نے بیس گز دور ایک تیندوے کو بیٹھے دیکھا جو اسے گھور رہا تھا۔ لڑکا وہیں رک گیا کہ شاید تیندوا بھاگ جائے گا۔ مگر تیندوے نے ایسی کوئی حرکت نہیں کی۔
الٹا تیندوے نے جھک کر غرانا شروع کر دیا۔
لڑکے نے مڑ کر بھاگنا شروع کر دیا اور تیندوا اس کے پیچھے بھاگا۔ خوش قسمتی سے جس جگہ تیندوے نے لڑکے کو جا لیا، وہاں لکڑی کا ایک ٹکڑا پڑا تھا۔ جب تیندوے نے لڑکے کی پشت پر سوار ہو کر اس کے شانوں کو بھنبھوڑنا شروع کیا تو لڑکا وزن کی وجہ سے زمین پر گر گیا۔ گرتے ہوئے اس نے یہ لکڑی دیکھی۔ دہشت اور خوف کی وجہ سے اس ہاتھ میں زیادہ طاقت آ گئی اور دماغی صلاحیت تیز ہو گئی۔ لکڑی اٹھا کر اس نے پہلو بدلا اور لکڑی سیدھی تیندوے کے منہ میں ٹھونس دی۔ تیندوے نے اپنی گرفت چھوڑ دی مگر اس سے قبل اس نے لڑکے کے بازو اور ٹانگ پر پنجوں سے گہری خراشیں ڈال دی تھیں۔ زمین سے اٹھ کر لڑکے نے پھر تیندوے پر حملہ کیا۔ اس اچانک مزاحمت کی وجہ سے تیندوے نے ہمت ہار دی اور بھاگ کر جھاڑیوں میں چھپ گیا۔ لڑکے نے لکڑی اٹھائے ہوئے دوڑ لگا دی اور اس کے سینے، کمر، بازوؤں اور ٹانگوں سے خون بہہ رہا تھا۔ لڑکا زخموں سے نڈھال ہونے کے باوجود بھی گاؤں پہنچ گیا۔
تیندوے نے انسان پر پہلا حملہ کیا تھا۔ اگلا حملہ تین ہفتے بعد ہوا اور اس مرتبہ تیندوا بھاگا نہیں۔ ہوا کچھ یوں کہ بکریوں کا ریوڑ واپس آ رہا تھا کہ تیندوے نے حملہ کر کے ایک بکری مار ڈالی۔ چرواہا غریب انسان تھا اور یہ بکریاں ہی اس کا کل سرمایہ تھیں، سو اس نے شور مچاتے اور لاٹھی لہراتے ہوئے تیندوے کو ڈرانے کی کوشش کی۔ چند ہفتے قبل ہونے والے جارحانہ حملے ہونے کے پیشِ نظر اس بندے کی کوشش بہادری سے زیادہ حماقت تھی۔ اس حماقت کی قیمت اس نے اپنی جان سے چکائی کہ تیندوے نے بکری کو چھوڑ کر اسے گلے سے پکڑ لیا۔
بکریاں گاؤں کو بھاگیں۔ جب دیہاتیوں نے بکریوں کو بغیر چرواہے کے آتے دیکھا تو پہلے توجہ نہیں دی۔ اتفاق کی بات دیکھیے کہ یہ چرواہا اکیلا تھا اور اس کا کوئی رشتہ دار بھی نہیں تھا۔ سو تاریکی چھانے کے بھی گھنٹے بھر بعد جا کر لوگوں کو اس کی گمشدگی کا احساس ہوا۔ تاہم اُس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
اگلی صبح 30 بندے جمع ہو کر تلاش کو نکلے۔ ان کے پاس لاٹھیاں اور برچھیاں تھیں۔ یہ لوگ گاؤں سے جنگل کو جانے والے راستے پر چل پڑے۔ بکریاں جب دوڑتے ہوئے واپس آئیں تو ان کے کھروں کے نشانات واضح تھے۔ تھوڑا آگے پہنچے تو وہ مقام دیکھا جہاں تیندوے نے حملہ کیا تھا۔ یہاں دھول میں تیندوے کے پگ صاف دکھائی دیے۔ اس جگہ سے متوفی کو گھیسٹ کر لے جانے کی لکیر بنی ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ کہیں کہیں خون کے قطرے بھی دکھائی دیے جو اس بندے کی شہ رگ والے زخم سے نکلے ہوں گے۔ تاہم اس سے ہٹ کر زمین بہت سخت تھی کہ وہاں گرنے والا خون جذب ہو چکا تھا مگر گھسیٹنے کی علامات واضح تھیں۔
تیندوا اپنے شکار کو لے کر اسی راستے سے گزرا جہاں بندہ اپنی بکریوں سمیت آیا تھا۔ پھر وہ لاش کو جنگل میں لے گیا۔ تاہم زیادہ دور جانے کی زحمت کیے بغیر وہ حملے کے مقام سے سو گز کے فاصلے پر رک گیا اور وہیں گاؤں والوں کو متوفی کی لاش ملی۔ اس کا سینہ اور ایک ران کا کچھ حصہ کھایا جا چکا تھا۔ اس طرح یلاگری کا آدم خور پیدا ہوا۔
یلاگری ہلالی شکل میں جلارپت جنکشن کے ساتھ ہی واقع ہے جو جنوبی ریلوے کا حصہ ہے۔ ان پہاڑوں کا کھلا ہوا حصہ جنکشن کی مخالف سمت ہے۔ اس کا بلند ترین مقام سٹیشن سے دو میل دور اور سطح سمندر سے 3000 فٹ اونچا ہے۔ یہاں سے ایک دشوار راستہ آڑا ترچھا ہوتا ہوا اوپر کو جاتا ہے اور بعض جگہوں پر پتھروں پر کودتے ہوئے جانا پڑتا ہے۔
میں نے 1941 میں یہاں چوٹی پر ایک زمین کا ٹکڑا خریدا تھا۔ میرا ارادہ تھا کہ میں یہاں ایک فارم بناؤں گا کہ یہ جگہ بنگلور سے 95 میل دور تھا اور یہاں کبھی کبھار آنا رہتا تھا مگر باقاعدہ چکر نہیں لگتے تھے۔ نتیجتاً یہاں خودرو اور خاردار جھاڑیاں اگنے لگ گئی تھیں۔
سو میں نے سوچا کہ تین روز کے وہاں جا کر ان جھاڑیوں کو ہٹوا دوں گا اور اتفاق سے میرا یہ چکر بکریوں والے چرواہے کی موت کے چند روز بعد لگا۔
جو قلی کام کر رہے تھے، انہوں نے مجھے تیندوے کے بارے بتایا کہ اخبار میں اس بارے کوئی خبر نہیں چھپی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ تیندوا ابھی بھی ان پر گھات لگانے کے چکر میں ہے کہ ایک روز قبل انہوں نے اس کے پگ دیکھے تھے۔
اس اطلاع سے مجھے بھی دلچسپی پیدا ہوئی اور سوچا کہ اسے شکار کرنے کا اچھا موقع ہے۔ تاہم میں اپنے ہمراہ رائفل نہیں لایا تھا اور محض بارہ بور کی بندوق تھی کہ یہ علاقہ جنگلی مرغیوں سے بھرا ہوا ہے۔ میں نے ہر مرتبہ یہاں اپنے کھانے کے لیے مرغیاں ماری تھیں اور اس بار بھی بندوق ساتھ لانے کی یہی وجہ تھی۔ میرے پاس کسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایل جی کے محض دو کارتوس تھے جبکہ باقی چھ نمبر کے کارتوس میں نے جنگلی مرغیوں کے لیے رکھے تھے۔ سو تیندوے کے شکار کے لیے میرے پاس ایل جی کے محض دو کارتوس تھے۔
جھاڑیوں پر کام دوپہر کے وقت رکوا کر میں اس مقام کو دیکھنے کے لیے قلیوں کے ساتھ گیا جو میری توقع کے عین مطابق دکھائی دیا۔ جنگل گاؤں سے چند کھیت دور آ کر خاردار جھاڑیوں کی شکل میں بدل گیا تھا۔
ایک کھیت کی منڈیر پر ایک بڑے نر تیندوے کے پگ صاف دکھائی دے رہے تھے جو پچھلی رات یہاں سے گزرا تھا۔
میں نے گاؤں جا کر پٹیل سے اپنا تعارف کرایا اور آنے کا مقصد بیان کیا۔ پٹیل مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوا اور ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ پھر پٹیل کے ساتھ میں نے تفصیلی گفتگو کی اور اسے بتایا کہ مجھے تیندوے کے شکار کے لیے ایک بکری درکار ہے جس کے لیے وہ مدد کر سکتا ہے کہ اس گاؤں میں کوئی بکری نہیں تھی۔
کافی مشکل اور تاخیر کے بعد وہ پاس والی وادی کے گاؤں سے بکری لے کر آیا۔ یہ بکری کا بچہ تھا جو خوب شور مچاتا۔ پٹیل اور چار دیگر آدمی میرے ساتھ مچان باندھنے کو بکری سمیت چل پڑے۔
یہ لوگ مجھے لے کر اس جگہ پہنچے جہاں چرواہے پر حملہ ہوا تھا اور آخرکار ہم اس جگہ پہنچے جہاں متوفی کی باقیات ملی تھیں۔ یہاں چھوٹی اور خاردار جھاڑیوں کی کثرت تھی۔ زمین پر بیٹھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ یہاں دو گز دور بھی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اس لیے ہم چوتھائی میل پیچھے کو لوٹے۔
پھر ہمیں ایک بہت بڑا کٹھل کا درخت ملا جس کے موٹے پتے بکثرت تھے اور مچان کے لیے انتہائی موزوں۔ آٹھ فٹ کی بلندی پر پہلی شاخ نکل رہی تھی۔ تیسری شاخ راستے کے اوپر دو حصوں میں تقسیم ہو رہی تھی اور اس کی بلندی زمین سے پندرہ فٹ تھی۔ میں نے اس دو شاخے پر اپنی مچان بنانے کی ہدایت کی۔ انہوں نے پہلے تو ساتھ والے درخت سے کچھ ٹہنیاں کاٹیں اور ان کے پتے صاف کیے۔ پھر انہوں نے ان ٹہنیوں کو دوشاخے پر پھیلا دیا اور پھر انہیں بیلوں کی مدد سے دوشاخے سے باندھ دیا۔ جلد ہی چار فٹ لمبا اور تین فٹ چوڑا پلیٹ فارم تیار ہو گیا۔ اس پر میں بہ آسانی بیٹھ سکتا تھا۔
آخر میں چاروں سمتوں کو ڈھانپنے کے لیے پلیٹ فارم والی ٹہنیوں سے اتارے گئے پتے استعمال کیے گئے۔ ہم نے پلیٹ فارم کو چھپانے کے لیے بہت توجہ سے کام کیا تاکہ تیندوا کسی سمت یا عین نیچے سے بھی دیکھے تو اسے کچھ عجیب نہ محسوس ہو۔
پھر ایک بندے کو میں نے میمنے کو باندھنے کا کھونٹا بنانے کا کہا جو اس نے بنا کر ایک پتھر کی مدد سے زمین میں گاڑ دیا۔ یہ جگہ مچان سے بیس فٹ دور تھی کیونکہ میرے پاس بندوق تھی۔
جب سب کچھ تیار ہو گیا تو میں مچان پر چڑھا اور پتوں میں محض اتنا سوراخ کیا کہ جس میں سے بکری اور اس کے آس پاس کی کچھ زمین دکھائی دیتی رہے۔ یہ سب تیاری مکمل ہونے میں پانچ بج گئے۔
جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ میں یلاگری شکار کی نیت سے نہیں آیا تھا، سو میرے پاس رات کے شکار کا سامان نہ تھا اور نہ ہی بڑی ٹارچ جو رائفل پر لگایا کرتا ہوں۔ البتہ میرے پاس کیمپ میں استعمال کے لیے دو سیل والی چھوٹی ٹارچ تھی۔ اس سے کافی مدھم روشنی نکلتی تھی جو اس مقصد کے لیے ناکافی تھی۔ اس کے علاوہ ٹارچ کا کلیمپ بھی نہیں تھا۔ یعنی بائیں ہاتھ میں ٹارچ کو رائفل کی نال کے قریب پکڑنا پڑتا۔ صورتحال کافی مایوس کن تھی کیونکہ اس وقت چاند بھی نہیں تھا۔ مجھے تیندوے کی آمد کے لیے محض اپنے کانوں پر بھروسہ کرنا تھا۔
یہ سب باتیں سوچنے کے بعد میں مچان پر سہولت کے ساتھ بیٹھ گیا۔ پھر میں نے ان لوگوں سے کہا کہ وہ بکری کو کھونٹے سے باندھ کر بہ آوازِ بلند باتیں کرتے واپس چلے جائیں۔ اس طرح نہ صرف بکری کو تنہائی کا احساس ہوتا اور شور مچاتی بلکہ اگر تیندوا کہیں پاس موجود ہوتا تو ان لوگوں کی واپسی اور بکری کے شور سے اسے جلد آنے کا اشارہ ملتا۔
ہدایات کے مطابق ان لوگوں نے بکری کو باندھا اور اونچی آواز سے باتیں کرتے ہوئے گاؤں کو چل دیے۔ بکری نے پورا زور لگا کر کھونٹا اکھاڑنے کی کوشش کی اور پھر اتنے زور سے ممیانے لگی کہ میں دل ہی دل میں پٹیل کے انتخاب پر بہت خوش ہوا۔ اب مجھے یقین ہو گیا کہ اگر تیندوا بکری سے ایک میل کے فاصلے پر کہیں بھی ہوا تو لازمی یہ آواز سن لے گا۔
تاہم ایسا کچھ نہ ہوا۔ بکری نے اتنے زور سے اور مسلسل شور مچایا کہ سورج ڈوبتے ہی اس کا گلا بیٹھ گیا تھا اور بولنے کی کوشش کرتی تو بیٹھی ہوئی آواز نکلتی۔ آخرکار اس نے خود کو قسمت کے حوالے کر کے وہیں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔
اپنی اگلی ٹانگیں موڑ کر وہ زمین پر بیٹھی اور سو گئی۔ اب مجھے علم ہو گیا کہ جب تک تیندوا اس بکری سے ٹھوکر نہ کھائے، اسے بکری کا پتہ نہیں چلنا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ رات نو بجے سے زیادہ دیر تک نہیں بیٹھوں گا۔
اگلے اڑھائی گھنٹے حسبِ معمول جنگل کی آوازیں سنتے گزرے۔ اس دوران ایک پرندے کی آواز آتی رہی جو آٹھ انچ لمبا ہوتا ہے اور اس کی آواز نیچی مگر چبھتی ہوئی ہوتی ہے اور چرواہے کی آواز سے مشابہہ ہوتی ہے جو جانوروں کو چراتے ہوئے نکالتا ہے۔ یہ پرندہ ہمیشہ جنگلی علاقے یا جنگل کے کناروں پر رہتا ہے اور کبھی بھی مزروعہ زمینوں پر نہیں دکھائی دیتا۔
اس سے زیادہ کچھ کہنا مشکل ہے کہ سوا نو بجے میں نے روانگی کا سوچا۔ میں نے اپنی ٹارچ کی روشنی بکری پر ڈالی مگر روشنی کا دائرہ بمشکل وہاں تک پہنچا اور بکری ایک مدھم دھبے کی شکل میں دکھائی دے رہی تھی۔ روشنی دیکھ کر بکری کھڑی ہو گئی۔ اگر تیندوا حملہ کرتا بھی تو مجھے صاف نہ دکھائی دیتا۔ سو میں نے سوچا کہ بہتر ہی ہوا ہے کہ تیندوا نہیں آیا۔
درخت سے اتر کر میں نے بکری کو کھولا اور ساتھ لے کر گاؤں کو چل پڑا جہاں پہنچ کر میں نے مچان باندھنے والے ایک بندے کے ذمے لگا دی۔ اگلے روز صبح سویرے میں واپس لوٹا تاکہ مزید معلومات جمع کر سکوں۔
تاہم میں آپ کو جو باتیں پہلے ہی بتا چکا ہوں، اس سے زیادہ کچھ نہ پتہ چلا۔ کسی کو بھی تیندوے کی رہائش کا علم نہ تھا اور نہ ہی وہ کوئی ایسی جگہ بتا سکے جہاں تیندوا مل سکتا۔
میری زمین پر کام تین دن تک جاری رہا اور ہر روز شام کو میں اسی مچان پر جا کر بیٹھتا اور کوئی نہ کوئی بکری باندھتا اور چند گھنٹے بعد لوٹ آتا۔ تاہم تینوں راتیں بیکار گئیں اور تیندوے کی آواز بھی نہ سنائی دی۔ ہر صبح میں مچان کے پاس کا علاقہ، فارسٹ لائنز اور بے شمار ندی نالوں کی تہہ دیکھتا کہ کہیں تیندوے کے پگ دکھائی دیں۔ مگر کہیں بھی کوئی پگ نہ دکھائی دیے۔ شاید وہ یلاگری کے کسی دور دراز کے علاقے میں چلا گیا ہوگا۔
چوتھے روز صبح کے وقت میں بنگلور لوٹا اور آتے ہوئے پٹیل کو اپنے نام اور پتے کے علاوہ تار بھیجنے کی رقم بھی دیتا آیا تاکہ وہ ہرکارے کے ذریعے جلارپت سے اطلاع بھجوا سکے۔
مہینہ گزر گیا۔ تار نہ آیا۔ میں نے سوچا کہ شاید یہ تیندوا باقاعدہ آدم خور نہیں تھا یا شاید یلاگری کے پہاڑوں سے نکل کر جوادی پہاڑیوں کو چلا گیا ہوگا جہاں زیادہ وسیع جنگلات موجود ہیں۔ یہ پہاڑیاں یلاگری سے کہیں زیادہ دور تک جاتی ہیں اور ان کا رخ جنوب مشرق کی سمت ہے جو تیروان ملائی کو جاتی ہیں۔ یہ پہاڑی ایک سادھو کے نام سے منسوب ہے جس سے کئی چمتکار مشہور ہیں۔
تاہم بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ میں غلط تھا۔
سات ہفتے بعد تار آ گیا۔ اس میں بتایا گیا کہ جلارپت سے پہاڑی دیہاتوں کو جانے والے ڈاکیے کو تیندوے نے مار دیا ہے۔
تار مجھے دن تین بجے آن ملا۔
تاہم ذرا جلدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میں ٹرنکوپولی ایکسپرس پر سوار ہوا جو بنگلور سے سات بجے نکلی اور ساڑھے دس بجے رات کو جلارپت جا پہنچی۔ میرے پاس پیٹرومیکس لیمپ بھی تھا اور اس کی روشنی میں سٹیشن سے گاؤں تک کا آٹھ میل کا فاصلہ طے کر کے دو بجے کے قریب جا پہنچا۔ عموماً میں اس دشوار راستے پر رات کے وقت اور آدم خور تیندوے کی موجودگی میں نہ سفر کرتا مگر مجھے علم تھا کہ جب تک لیمپ جلتا رہے گا، میں محفوظ رہوں گا۔ میرے پاس اعشاریہ 405 بور کی رائفل بھی تھی اور پشت پر سامان کا تھیلا بھی لادے ہوئے تھا اور لیمپ میرے بائیں ہاتھ میں تھا۔ اس چڑھائی پر میں اتنے سامان کے ساتھ چڑھتے ہوئے پسینے پسینے ہو گیا کہ چڑھائی بہت دشوار تھی۔ چوٹی سے گاؤں مزید ایک میل دور تھا مگر یہاں چلنے والی خنک ہوا میرے پسینے سے بھیگے کپڑے خشک کر رہی تھی۔
میں نے گاؤں پہنچ کر پٹیل کو جگایا اور پٹیل نے پورا گاؤں ہی جگا دیا اور جلد ہی میرے لیمپ کی روشنی میں سو سے زیادہ افراد اپنے دانت چمکاتے بیٹھ گئے۔
پٹیل نے مجھے کھانے کی دعوت دی مگر میں نے نرمی سے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر چائے مل جائے تو مشکور رہوں گا۔ جلد ہی چائے تیار ہو گئی اور پیتل کے پیالے میں چسکیاں لیتے ہوئے میں نے پٹیل سے کہانی سنی۔
درحقیقت کچھ تھا ہی نہیں بتانے کو۔ میرے پچھلے چکر کے بعد ہر کوئی دن کے وقت جنگل کے آس پاس پھرتے ہوئے محتاط رہتا تھا۔ رات کو سبھی گھروں کے اندر محفوظ ہو جاتے۔ مگر جب کئی ہفتے تک تیندوے کا اتہ پتہ نہ چلا تو لوگوں نے لاپرواہی شروع کر دی۔
جلارپت سٹیشن سے ملحقہ ڈاکخانے سے ڈاکیہ صبح چھ بجے پہاڑ پر چڑھتا تھا۔ چونکہ ساری میل ٹرینیں چاہے وہ بنگلور، مدراس یا کلکتہ سے آ رہی ہوں، یہیں سے گزرتی تھیں۔ یلاگری کے لیے تھوڑی سی ڈاک آتی تھی اور چند خطوط اور چیزیں جو آتی تھیں، وہ الگ الگ تھیلوں میں ڈال کر جلارپت کے سٹیشن پر اتار دی جاتی تھیں۔ پھر ڈاکیہ ان تھیلوں ایک بڑے تھیلے میں ڈال کر لاٹھی پر لٹکاتا اور لے کر پہاڑ پر چڑھتا اور ترتیب سے تقسیم کرتا جاتا۔ بعض اوقات یہ تھیلہ ڈاکیے کے سر پر رہتا۔
اس کے پاس بچاؤ کا واحد ذریعہ بلکہ اس کی شناختی علامت چھوٹی سی برچھی تھی جس پر لوہے کے چھلے لٹکے ہوتے تھے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ سانپ وغیرہ شور سے ڈر کر بھاگ جائیں۔ یہ برچھا اس کے ہاتھ میں رہتا اور ہر چند قدم پر وہ اسے زمین پر مارتا۔ اس طرح لوہے کے چھلے جھنجھاتے تو آواز پیدا ہوتی۔ تقریباً ایک سو سال سے انڈیا کے طول و عرض میں یہ آواز ڈاکیوں کی علامت سمجھی جاتی ہے۔
متذکرہ روز ڈاکیہ حسبِ معمول جلارپت سے صبح چھ بجے نکلا۔ تاہم وہ پہاڑ کی چوٹی پر نہ پہنچا۔ گاؤں والے اس کی آواز کے عادی تھے کہ وہ ہر روز وہاں سے گزرتا تھا۔ مگر اس صبح انہیں آواز نہ سنائی دی۔ تاہم یہاں کی روایتی لاپرواہی کی وجہ سے کسی نے توجہ نہ دی۔
دوپہر کے کھانے کے بعد کچھ لوگ جلارپت جانے کے لیے پہاڑ سے نیچے اترے۔ چوتھائی فاصلے طے کرنے پر انہیں پتھروں پر خون کے خشک دھبے دکھائی دیے اور پھر خون کی لکیر دکھائی دی۔ وہ حیران ہو کر دیکھنے لگے کہ ایک بندے کو ڈاکیے کی برچھی ایک جھاڑی کے پاس دکھائی دی۔ انہیں فوراً احساس ہو گیا کہ کیا ہوا ہے۔ سب نے گاؤں کا رخ کیا۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے پٹیل کو ملا کر مزید بندے جمع کیے اور پھر لوٹ کر آخرکار ڈاکیے کی لاش تلاش کر لی۔
پٹیل نے میرے نام تار لکھ کر اسی جماعت کے ذریعے جلارپت بھجوا دیا۔ تاہم پریشانی کی وجہ سے تار مجھے اگلے روز تین بجے جا کر ملا یعنی چوبیس گھنٹے کی تاخیر کے بعد، حالانکہ بنگلور سے یہ جگہ 89 میل دور ہے۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ پولیس کے حکام نے لاش کو تفتیش اور پھر جلائے جانے کے لیے اٹھوا لی تھی۔
جتنی دیر یہ سب معلومات جمع کرتا، چار بج گئے۔
پٹیل نے مجھے ایک چارپائی دی جو میں اٹھا کر گاؤں کے سرے پر لے گیا اور اس پر لیٹ کر دو گھنٹے کی نیند لی۔ جب میں اٹھا تو اس کی وجہ جنگلی حیات کی آوازیں نہیں بلکہ آوارہ کتوں کے بھونکنے کی آوازیں تھیں جو چارپائی اور مجھ سے، دونوں سے مشکوک تھے۔
جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں، یلاگری کی پہاڑیوں پر زیادہ جنگلات نہیں اور اسی وجہ سے یہاں مقامی باشندے بھی مفقود ہیں۔ مجھے احساس ہو گیا تھا کہ اس بار مجھے دیہاتیوں اور اپنے بھروسے پر ہی تیندوے کو تلاش کرنا ہوگا۔
ایک سوال میں نے یہ بھی پوچھا تھا کہ تیندوے کی ممکنہ جائے رہائش کہاں ہے۔ اس کا واضح جواب تو نہ ملا مگر دو چرواہوں نے بتایا کہ انہوں نے پچھلے کئی ہفتوں سے ایک تیندوے کو پریاملائی یعنی بڑی پہاڑی پر دھوپ سینکتے دیکھا ہے۔ یلاگری سطح مرتفع ہے اور پریاملائی واحد چوٹی ہے جو اس سطح مرتفع سے زیادہ بلند ہے اور اس کی اونچائی سطح سمندر سے تقریباً 4٫500 فٹ ہے۔
میں پٹیل کے گھر گیا تو وہ ابھی سو رہا تھا مگر جلد ہی بیدار ہو گیا اور مجھے گرم دودھ کی گڑوی پینے کو دی۔ پھر میں نے اسے کہا کہ وہ ان دو چرواہوں کو بلائے اور کہے کہ وہ مجھے مطلوبہ جگہ لے جائیں جہاں انہوں نے تیندوا دیکھا تھا۔
ان دونوں کو آمادہ کرنے پر کافی وقت لگا۔ دونوں ہی خوفزدہ اور ساتھ جانے پر تیار نہ تھے۔ تاہم پٹیل نے اپنے طریقے سے انہیں دھمکیاں دے کر اور منت سماجت کر کے جانے پر تیار کیا۔
پریاملائی گاؤں سے شمال کی سمت تین میل دور ہے اور جلارپت سے آنے والے راستے کی مخالف سمت، جو کہ مغرب کو بلند ہوتا ہے۔ اس پہاڑی اور ڈاکیے کی ہلاکت کے مقام کے درمیان کل پانچ میل کا فاصلہ بنتا ہے۔ ان دونوں مقامات کے درمیان مزروعہ زمین ہے۔
پریاملائی کا جنگل یلاگری پہاڑیوں سے شمال کی جانب نیچے اترتا ہے۔ میرا خیال تھا کہ ان چرواہوں نے کسی اور تیندوے کو دیکھا ہوگا۔
پریاملائی کے دامن میں پہنچ کر میرے دونوں ساتھیوں نے اشارہ کر کے وہ چھجا دکھایا جو ہمارے موجودہ مقام سے لگ بھگ تین سو فٹ بلندی پر نکلا ہوا تھا۔ پہاڑی کے دامن سے لے کر عین اس مقام تک بہت گھنی اور خاردار جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔ صاف دکھائی دے رہا تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ خاردار جھاڑیاں پھیلتی اور جنگل کو نگلتی جائیں گی۔ یلاگری کی مانند پریاملائی میں بھی جگہ جگہ بڑے پتھر یا ٹول پڑے ہوئے تھے اور خاردار جھاڑیوں کے سمندر میں تیندوے کو تلاش کرنا کارِدارد تھا کہ یہ جھاڑیاں ناقابلِ رسائی تھیں۔
سو ہم پٹیل کے پاس گئے اور ایک گدھا حاصل کیا۔ چونکہ ان حالات میں بکری کو بطور گارا استعمال کرنے سے کوئی فائدہ نہ ہوتا، سو میں نے اسے گاؤں میں ہی رہنے دیا۔ اگر بکری ماری بھی جاتی تو تیندوا لوٹ کر آنے کی بجائے ایک ہی وقت میں اسے پورا ہضم کر جاتا۔ گدھا اتنا بڑا تھا کہ تیندوا اس سے ایک سے زیادہ مرتبہ پیٹ بھر سکتا تھا۔ تاہم نقصان یہ تھا کہ بکری کے برعکس گدھا خاموشی سے بندھا رہتا اور تیندوے کی توجہ اپنی جانب مبذول نہ کر سکتا۔
تاہم میں نے سوچا کہ چونکہ تیندوا پہاڑی پر رہتا ہوگا، سو وہ نیچے وادی میں بندھا گدھا دیکھ لے گا۔ اس لیے میں نے مضبوط رسی لی اور اپنے ہمراہیوں سے کہا کہ وہ میری بتائی ہوئی جگہ پر گدھے کو جا کر باندھ دیں۔
جب یہ کام بھی ہو گیا تو پٹیل نے مجھے وہ جگہ دکھائی جہاں ڈاکیہ ہلاک ہوا تھا۔ یہ جگہ گاؤں سے ڈیڑھ میل دور عین اس جگہ تھی جہاں خاردار جھاڑیاں اور ٹول ملتے تھے۔
ظاہر ہے کہ پچھلی رات آتے ہوئے میں یہاں سے گزرا تھا مگر لالٹین کی روشنی میں مجھے خون کے نشانات نہیں دکھائی دیے تھے۔ اگر یہ نشانات دکھائی دے جاتے تو میرا ذہنی سکون غارت ہو جاتا۔
ہمیں راستے پر خون کے چند چھینٹے دکھائی دیے اور پھر ان لوگوں نے مجھے وہ راستہ دکھایا جہاں سے تیندوا لاش کو گھسیٹ کر لے گیا اور پیٹ بھرا تھا۔ جیسا کہ میں پہلے ہی بتا چکا ہوں، لاش کو جلانے کی خاطر پہلے ہی لے جایا جا چکا تھا، سو یہاں رکنا بیکار تھا۔
گھسیٹنے کے نشانات سے تین سو گز اوپر کی جانب کاجو کا ایک درخت کھڑا تھا اور میں نے اسی درخت کے نیچے پٹیل سے کہا تھا کہ وہ دوسرا گدھا بندھوا دے۔
پھر ہم لوگ گاؤں کو لوٹے اور تیسرا گدھا گاؤں کے ساتھ اس جگہ بندھوایا جہاں جنگل اور کھیت ملتے تھے۔ دونوں اضافی گدھے پٹیل نے اپنے اثر و رسوخ سے خریدے تھے اور مختلف افراد بھیج کر انہیں بندھوایا۔
دن کے ایک بجے یہ کام پورا ہوا۔ اب محض انتظار کرنا تھا کہ تیندوا کب شکار کرے گا۔ مجھے امید تھی کہ اگر تیندوے نے گدھے دیکھے تو ضرور ان پر حملہ کرے گا۔ چونکہ تیندوے نے اب تک کم ہی انسان ہلاک کیے تھے، سو وہ جنگلی جانوروں سے بھی پیٹ بھرتا رہا ہوگا۔
پٹیل نے مجھے گرما گرم دال اور چاول پیش کیے جن میں اس نے اپنے کھیتوں سے توڑے گئے بینگن اور پیاز بھی ڈالے تھے۔ ساتھ اس کھانے میں لال مرچیں بھی بکثرت تھیں۔ میں نے کھانے سے پورا لطف اٹھایا مگر مرچوں کی وجہ سے پسینے بھی چھوٹ رہے تھے۔
میرا میزبان میرا حال دیکھ کر بہت پریشان ہوا مگر میں نے اسے بتایا کہ میں بہت مزے لے کر کھایا ہے۔ پھر قہوے کے کئی پیالے پیے خوب سیر ہو کر دسترخوان سے اٹھا۔
وقت گزارنے کے لیے میں اپنے فارم پر چلا گیا اور وہیں بقیہ شام گزاری۔ اس فارم کا رقبہ ڈیڑھ ایکڑ تھا۔ اس کی حد کی نشانی کے طور پر وہ درخت تھا کہ جس کے پھل سے نکلنے والے دودھ کو دھوبی بطور سیاہی استعمال کرتے ہیں۔ ایک بار استعمال ہونے کے بعد یہ سیاہی کبھی نہیں چھوٹتی۔ اس کے علاوہ کٹھل کے تین قلمی درخت بھی موجود تھے جو دو سے بارہ پاؤنڈ وزنی پھل دیتے تھے۔ اس کے علاوہ امرود کے درخت بھی تھے اور آڑو کے درختوں کے علاوہ سبزیاں بھی تھیں۔ پہلے سے موجود مٹی سے بنے دو کوٹھے اور گلاب کے پودے بھی تھے۔
اس وقت میرے پاس تین درجن مرغیاں تھیں جن میں لیگ ہارن، رہوڈ، منارقا اور چند بطخیں بھی شامل تھیں۔ پینے کا پانی چھوٹے کنویں سے آتا تھا جہاں میں نے کچھ مچھلیاں بنگلور سے لا کر چھوڑ دی تھیں تاکہ پانی صاف رہے۔ ایک چھوٹی سی ندی گھر کے سامنے ایک حد بناتی تھی اور باقی تین اطراف میں بانس کے درخت حد بندی کا کام کرتے تھے۔ یہ چھوٹی سی خوبصورت جگہ بنگلور سے اختتامِ ہفتہ گزارنے کے لیے بہترین تھی۔
نصف زمین نشیبی اور ندی سے ملحق تھی۔ اس زمین پر میں نے ندی کے پانی کا رخ موڑ کر کالے چاول کاشت کیے ہوئے تھے جو اصل میں برما سے آئے تھے۔ میرے علم میں اُس دور میں پورے انڈیا میں میرا فارم ان چند مقامات میں سے ایک تھا جہاں اس چاول کی کاشت کامیاب رہی تھی۔ باقی سب جگہوں پر کسی نہ کسی وجہ سے کاشت ناکام ہو جاتی تھی۔
اس فارم کی ایک دلچسپ بات یہ سننے میں آئی تھی کہ میں نے جس اینگلو انڈین خاتون سے یہ فارم 1941 میں خریدا تھا، اس کے مرحوم بھائی کا بھوت یہاں رہتا تھا۔ میں نے یہ فارم بمع مرغیوں اور ہر چیز سمیت کل پانچ سو روپے میں خریدا تھا جو برطانوی اعتبار سے 35 پاؤنڈ بنتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ آدمی عجیب سی بیماری سے ہلاک ہوا کہ اس کے بائیں بازو اور سینے میں انتہائی شدید درد ہو رہا تھا۔ شاید یہ دل کے دورے کی علامت ہو۔ اس بندے نےیہ جگہ پچیس سال قبل خریدی تھی جب یہ بالکل بیکار پڑی تھی۔ پھر اس نے یہ فارم اپنی بہن کو دے دیا جس کا کوئی خاندان نہ تھا۔ تاہم اپنی وفات کے بعد بھی یہ بندہ اکثر شام گئے ایک کوٹھے کے باہر کھڑا دکھائی دیتا رہتا تھا۔ اس لیے دیہاتی اس جگہ کو بالکل ہی ناپسند کرتے تھے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اس کی بہن نے مجھے بھوت کے بارے تب بتایا جب میں نے سب رجسٹرار کے سامنے کاغذات پر دستخط کر کے اسے پوری ادائیگی کر دی۔ شاید اس کا خیال ہو کہ میں بھوت کی وجہ سے سودا منسوخ کر دوں گا۔ پھر اس نے یہ بھی بتایا کہ بعض اوقات رات کے وقت ان دو کمروں کے پاس اس کے بھائی کی روح ٹہلتی ہے اور یہ بھی بتایا کہ اس نے خود اپنے بھائی کی روح کو رات کے وقت چاندنی میں اپنے پسندیدہ گلابوں کی دیکھ بھال کرتے دیکھا ہے۔ پھر اس نے بعجلت بتایا کہ اس کے بھائی کی روح بالکل بے ضرر ہے اور نہ تو کوئی آواز نکالتی ہے اور نہ ہی کوئی تکلیف دیتی ہے۔ اگر قریب جائیں تو ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہے۔
میں شاید بتانا بھول گیا تھا کہ اس فارم کی خریداری کے ساتھ ہی کافی پرانا قسم کا فرنیچر بھی ساتھ ملا تھا جس میں ہر کمرے میں ایک بستر، ایک ٹوٹی ہوئی ڈریسنگ ٹیبل، دو الماریاں اور تین چار بوسیدہ کرسیاں بھی شامل تھیں۔ پلنگ پرانی طرز کے تھے۔
مجھے پہلی رات بخوبی یاد ہے کہ میں ایک کمرے میں سویا (اتفاق سے مالک کا انتقال اسی کمرے میں ہوا تھا) کہ اس رات بارش ہو رہی تھی اور دوسرے کمرے کی چھت ٹپکتی تھی۔ میں نے اپنا بستر پلنگ پر بچھایا اور سو گیا۔ تاہم پلنگ کی لکڑیاں سخت تھیں اور میرے بستر میں گدیلا نہیں تھا۔ سو مجھے نیند نہیں آئی۔
کچھ دیر تک بے آرام لیٹنے کے بعد میں نے سوچا کہ شاید زمین پر لیٹنے سے آرام ملے۔ ظاہر ہے کہ اس وقت بجلی نہیں ہوتی تھی، سو میں نے موم بتی جلائی تاکہ بستر کو اٹھا کر فرش پر بچھا دوں۔ پھر میں نے لیٹ کر موم بتی بجھا دی۔ اس مرتبہ فوراً ہی سو گیا۔
یاد نہیں کہ میں کب بیدار ہوا۔ گھپ اندھیرا تھا۔ مجھے سرد اور نم سی کوئی چیز اپنے گلے پر محسوس ہوئی اور ایسا لگا جیسے دو یخ برفیلی انگلیاں میری گردن کی دونوں جانب ہوں۔
میں تصوراتی دنیا میں نہیں رہتا۔ مجھے اندھیرے سے بھی ڈر نہیں لگتا اور نہ ہی میں توہم پرست ہوں۔ مگر اس وقت میرے ذہن میں اس جگہ کا مرحوم مالک اور اس کی روح آئی۔ میری ٹارچ کھڑکی میں کئی فٹ دور رکھی تھی اور ماچس یاد نہ رہی کہ کہاں ہے۔ اتنی دیر میں یہ سوچتا رہا اور دونوں انگلیاں میرے گلے کے گرد سخت ہوتی رہیں۔ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ مزید لیٹے رہنا ممکن نہ رہا۔ اٹھ کر اندازے سے کھڑی کی سمت دوڑ لگائی اور راستے میں کرسی سے الجھا اور کرسی ٹوٹ گئی۔
اندھیرے میں ٹٹولتے ہوئے آخرکار مجھے ٹارچ مل گئی۔ میں نے بٹن دبایا تاکہ دیکھ سکوں کہ روح کے ہاتھ کیسے ہوں گے کہ جو قبر سے نکل کر آئے ہوں گے۔ مگر مجھے زمین پر ایک بہت بڑا مینڈک بیٹھا دکھائی دیا۔ بہت بڑا، کالا اور لیسدار مینڈک، لگ بھگ ایک فٹ لمبا۔ شاید وہ بارش کی وجہ سے کمرے میں آن گھسا ہوگا۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی لاشعور کیسے ہمارے ساتھ دھوکہ کرتا ہے۔ چند سیکنڈ قبل میں روح کی موجودگی اور خوف کی وجہ سے شدید پریشان تھا اور اب میں اپنی حماقت پر قہقہے لگا رہا تھا۔ پھر جوتے کی مدد سے میں نے مینڈک کو باہر نکال دیا۔
اگلی صبح تینوں گدھے زندہ سلامت تھے، سو میں نے اپنی زمین کی دیکھ بھال پر دن گزارا۔ کہیں سے تیندوے کی خبر نہیں ملی۔ ایک اور رات گزری اور اگلی صبح بھی گدھے سلامت تھے۔
تاہم اس بار ایک چھوٹی سی خبر بھی تھی۔ ڈاکیے کی موت کے بعد اب ڈاک لانے کا کام تین افراد کو ایک ساتھ سونپا گیا تھا جن میں سے ایک ڈاکیہ اور دو چوکیدار تھے۔ ان کے پاس نیزے تھےاور ڈاکیے کے پاس اس کی برچھی۔
ان لوگوں نے گاؤں پہنچ کر بتایا کہ انہوں نے ڈاکیے کی ہلاکت کے مقام سے چوتھائی میل دور ایک تیندوے کو ایک چٹان پر دھوپ سینکتے دیکھا تھا۔
یہ خبر سنتے ہی پٹیل نے ایک دیہاتی میری طرف بھیجا۔ رائفل اٹھا کر میں اس کے ساتھ گاؤں کو چل پڑا جہاں دونوں چوکیدار میری رہنمائی پر تیار تھے۔ ہم جلد ہی دو میل کا سفر طے کر کے مطلوبہ مقام پر پہنچ گئے۔ تاہم چٹان خالی تھی۔ تیندوا شاید گرمی سے تنگ آ کر چلا گیا تھا۔
تاہم خبر حوصلہ افزا تھی کہ تیندوا ابھی اسی علاقے میں ہی تھا۔ واپسی سے قبل میں نے ایک بار پھر کاجو کے درخت والے گدھے کو دیکھا اور بوقتِ ضرورت اپنے بیٹھنے کے لیے ایک شاخ بھی منتخب کر لی۔
رات کامیاب رہی مگر کاجو کے درخت سے بندھے گدھے کے لیے بری خبر تھی کہ تیندوے نے اسے مار کر پیٹ بھرا تھا۔
اگلی صبح میرے بھیجے ہوئے بندوں نے یہ خوشخبری آن سنائی جن کے ذمے گدھوں کو پانی پلانا اور چارہ مہیا کرنا تھا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے ٹہنیاں توڑ کر گدھے کی لاش کو گِدھوں سے بچانے کے لیے چھپا دیا تھا۔
میں نے دوپہر کا کھانا قبل از وقت کھایا اور اپنا کوٹ، ٹارچ، چائے کے تھرماس اور بسکٹ لے کر گاؤں کو چل پڑا جہاں میں نے پٹیل سے چارپائی ادھار مانگی۔ چار دیہاتی سامان لے کر کاجو کے درخت کو پہنچے جہاں رسیوں کی مدد سے ہم مچان باندھتے۔ میں نے مچان کو چھپانے کے کام کی خود نگرانی کی اور مچان ہر سمت اور نیچے سے بھی دکھائی نہ دیتی تھی۔ مجھے بخوبی علم تھا کہ آدم خور درندے کے شکار کے لیے مچان کا چھپا ہونا کتنی اہمیت رکھتا ہے۔ ذرا سی بھی بے احتیاطی سے کامیابی ہاتھ سے نکل جاتی۔ ایک پتا بھی الٹا ہوتا یا چارپائی کا کوئی حصہ دکھائی دے رہا ہوتا، درخت کے نیچے ٹہنیاں یا پتے پڑے ہوتےتو اس سے آدم خور کو شبہ ہو جاتا۔ آدم خور اپنے شکار پر لوٹتے ہوئے بہت محتاط ہوتے ہیں۔ جب سارے انتظامات میری تسلی کے مطابق ہو گئے تو مجھے احساس ہوا کہ مچان نسبتاً نیچے ہے اور زمین سے اس کی اونچائی بمشکل دس فٹ تھی۔ اس کے علاوہ کاجو کے درخت پر چڑھنا بھی آسان تھا۔ دوپہر کے اڑھائی بجے میرے ہمراہی مجھے مچان پر بٹھا کرروانہ ہو گئے۔ میں نے انہیں بتایا کہ وہ اندھیرا ہونے پر آ جائیں کیونکہ رات کو میں اکیلا گاؤں اندھیرے میں نہیں جانا چاہ رہا تھا۔
آرام سے میں مچان پر بیٹھ گیا۔
دوپہر کی گرمی جھلسا دینے والی تھی کہ ہر طرف پتھر بکھرے ہوئے تھے جن سے سورج کی گرمی منعکس ہو رہی تھی۔ درخت زیادہ سایہ دار نہیں تھا۔ سو جب شام ہونے لگی تو مجھے کچھ سکون ملا۔ بہت دور نیچے وادی میں مجھے جلارپت کا سٹیشن دکھائی دے رہا تھا اور وہاں حرکت کرتے انجنوں سے بھاپ کے بادل نکل رہے تھے۔ وقفے وقفے سے ٹرینیں آتی اور جاتی رہیں اور انجن کی سیٹیاں بخوبی سنائی دیتی تھیں۔ باقی ہر طرف خاموشی رہی۔
مغرب کے قریب ایک مور بولنا شروع ہوا اور دو شب بیدار پرندے بھی اڑتے دکھائی دیے۔ ان کے علاوہ نہ تو کوئی پرندہ اور نہ ہی کوئی جانور دکھائی یا سنائی دیا۔
پھر رات کے سائے نیچے اترنے لگے۔ میں مغربی رخ پر بیٹھا تھا اور نیچے وادی کو گہری تاریکی میں لپٹے دیکھ رہا تھا جبکہ اوپر پہاڑ کی چوٹی پر سورج کی روشنی ابھی چمک رہی تھی۔ نیچے جلارپت کی روشنیاں ایک ایک کر کے روشن ہو رہی تھیں اور ان میں سے شنٹنگ یارڈ کی نیلی نیون کی روشنیاں سب سے زیادہ روشن تھیں۔ کہیں کہیں ریلوے کے سرخ اور سبز سگنل بھی دکھائی دے رہے تھے۔ شمال سے ایک ٹرین جلارپت کو آ رہی تھی اور اس کے انجن کی طاقتور روشنی اندھیرے کو کاٹ کر راستہ دکھا رہی تھی۔ پھر چڑھائی آئی تو انجن پر دباؤ بڑھ گیا۔ دھوئیں کے بادل اڑاتی اور شور مچاتی ہوئی ٹرین سٹیشن کو رواں دواں تھی۔
یہ تمام آوازیں اتنے قریب ہونے کے باوجود مجھ سے کم از کم پانچ میل دور تھیں۔
پھر میرے اطراف میں تاریکی چھا گئی۔ چاند نہیں تھا۔ آسمان پر گہرے بادل چھانے لگے جن میں سے کچھ یلاگری پہاڑوں کی چوٹیوں کو چھو رہے تھے۔ ایک بھی ستارہ نہ دکھائی دیا اور تاریکی گہری ہو گئی۔ اب مجھے اپنی سماعت پر بھروسہ کرنا تھا۔
حشرات بھی کم پائے جاتے تھے اور جھینگر کی آواز بھی غائب تھی۔ میں اپنی مچان پر ساکن بیٹھا رہا۔ پھر ایک مچھر کی بھنبھناہٹ سنائی دی اور پھر وہ شاید میرے ہاتھ یا چہرے پر بیٹھ گیا ہوگا۔
پھر کھال پر مچھر نے جیسے سوئی چبھوئی ہو۔ ہلکا سا انگلی کو ہلا کر یا ہلکی سی پھونک مار کر میں نے مچھر کو اڑا دیا۔
میں جنگل میں مچان یا کمین گاہوں پر بیٹھنے کا عادی ہو چکا ہوں اور وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوتا۔ ویسے بھی گھڑی دیکھنے سے کیا فرق پڑتا۔ کون سا وقت جلدی گزرنے لگتا؟
ایسے مواقع پر انسان کے ذہن میں سوچوں کی یلغار ہو جاتی ہے جن میں سے کچھ خوشگوار ہوتی ہیں تو کچھ بری۔
اس شام مجھے یاد ہے کہ بغیر کسی وجہ کے میں ایک ایسی سائیکل بنانے کے بارے سوچنے لگا جو کم سے کم محنت میں زیادہ سے زیادہ فاصلہ طے کر سکے۔ ظاہر ہے کہ جب انسان فارغ بیٹھا ہو تو ایسی سوچیں ہی آتی ہیں۔ اچانک میری سوچیں ایک ہلکی سی آواز سے منتشر ہو گئیں۔ مجھے علم ہو گیا کہ تیندوا گدھے کی لاش پر کھڑا ہے۔ جب اس نے سانس لی تو مجھے آواز آئی۔
میں نے فیصلہ کیا کہ اس وقت ٹارچ جلا کر گولی چلانا بہتر نہ ہوگا۔ پہلے تیندوے کو کھانا شروع کرنے دوں۔ کاش کہ میں یہ فیصلہ نہ کرتا تو شاید تیندوا ہلاک ہو جاتا اور ایک انسان کی جان بچ جاتی۔
میں نے تیندوے کے پیٹ بھرنے کی آواز سننے کا انتظار کیا جس سے مجھے اندازہ ہو جاتا کہ تیندوا مصروف ہو گیا ہے۔ مگر مجھے کچھ نہ سنائی دیا۔ وقت گزرتا گیا اور مجھے اندازہ ہو گیا کہ کچھ گڑبڑ ہو گئی ہے۔
تجربے سے مجھے پتہ چل چکا ہے کہ اگر کوئی درندہ خاموشی سے آنا چاہے تو وہ کتنی خاموشی سے آتا ہے، خصوصاً تیندوے نہ صرف خاموشی سے حرکت کرتے ہیں بلکہ دکھائی بھی نہیں دیتے، چاہے دن کی روشنی ہی کیوں نہ ہو۔ اب رات کے گھپ اندھیرے میں تو تیندوا چاہے ایک گز دور ہو یا ایک میل دور، مجھے کیا فرق پڑتا۔
میں نے گھڑی کے چمکدار ڈائل پر نگاہ ڈالی تو پتہ چلا کہ آٹھ بج کر چالیس منٹ ہیں۔ میں نے کوئی حرکت نہ کی۔ نو بج گئے اور پھر اچانک دائیں جانب کے پتھروں سے تیندوے کے غرانے کی آوازیں آئیں۔
تیندوے کو میری موجودگی کا علم ہو گیا تھا۔
تیندوے کو میری بو سے تو علم نہیں ہوا ہوگا کہ تیندوے میں قوتِ شامہ بالکل نہیں ہوتی اور نہ ہی میں نے کوئی آواز کی تھی۔ شاید اس نے سر اٹھا کر مچان کو دیکھ لیا ہوگا یا پھر اس کی چھٹی حس نے اسے خبردار کیا ہوگا۔ خیر، جو بھی وجہ رہی ہو، اسے میری موجودگی کا علم ہو چکا تھا۔ شاید وہ درخت پر چڑھ کر مجھے گھیسٹنے کی کوشش بھی کرتا مگر شاید اپنے بچاؤ کی حس نے اسے اس سے باز رکھا ہوگا کہ اس بار اس کا شکار نہیں شکاری سامنے ہے۔
یہ بھی ممکن تھا کہ تیندوا آدم خور نہ ہوتا۔ مگر اس کا موجودہ رویہ بتا رہا تھا کہ وہ آدم خور ہی ہے۔
ابتدا میں غراہٹیں دھمکی کا کام دے رہی تھیں۔ جوں جوں ان کی شدت بڑھتی گئی، ظاہر ہو رہا تھا کہ تیندوا حوصلہ مجمتع کر رہا ہے۔ شاید وہ حوصلہ پا کر درخت پر دھاوا بول دے۔ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ تیندوے یہ کام بندروں کے ساتھ بھی کرتے ہیں۔ عموماً دہشت کی وجہ سے بندر نیچے گر جاتے ہیں۔ شاید وہ سمجھ رہا ہو کہ مجھ پر بھی یہی اثر ہوگا۔
جلد ہی غراہٹوں کی رفتار اور شدت بڑھ گئی۔
تیندوا اب بہت شور کر رہا تھا۔ یا تو وہ مجھے ڈرانے کی کوشش کر رہا تھا یا پھر حوصلہ جمع کر کے مجھ پر حملے کی تیاری میں تھا۔ میں نے حملے کے حساب سے تیاری کر لی۔
چند اور منٹ تک یہ غراہٹیں جاری رہیں اور پھر وہ کھانسی کی آواز آئی جو ہر تیندوا حملے سے قبل نکالتا ہے۔ جب وہ درخت کے نیچے پہنچا تو میں نے مچان سے نیچے جھک کر شاخیں ہٹائیں اور رائفل کو نیچے جھکا کر ٹارچ جلائی۔ مجھے یہ سب جلدی جلدی کرنا تھا کہ مچان زمین سے دس فٹ بلند تھی اور تیندوا فوراً ہی پہنچ جاتا۔
بدقسمتی سے ایک شاخ نیچے تیندوے پر جا گری اور اس کے راستے میں رکاوٹ بنی۔ مگر اس شاخ کی وجہ سے ٹارچ کی روشنی تیندوے پر نہ پڑ سکی۔ جب میں نے نیچے شاخ کو زور زور سے ہلتے دیکھا تو اندازہ ہو گیا کہ تیندوا اس کے نیچے ہے۔
اس لمحے مجھ سے حماقت ہوئی۔ بجائے اس کے کہ میں انتظار کرتا کہ تیندوا شاخ کے نیچے سے نکلے، میں نے شاخ پر ہی اندازے سے گولی چلا دی۔ گولی چلتے ہی تیندوا نیچے گرا اور میں سمجھا کہ تیندوا مارا گیا۔ مگر اگلے ہی لمحے تیندوا شاخ کے نیچے سے نکل بھاگا اور میں رائفل میں گولی بھر نہ پایا۔
میں نے تیندوے کے پیچھے روشنی ڈالی مگر نہ کچھ دکھائی دیا اور نہ ہی کوئی آواز آئی۔ عین ممکن ہے کہ وہ ساتھ ہی مرا پڑا ہو، یا زخمی ہو یا پھر بغیر زخمی ہوئے فرار ہو چکا ہو۔ میں کیسے جان پاتا۔
کچھ دیر تک میں نے ٹارچ جلائے رکھی اور پھر فیصلہ کیا کہ ٹارچ بجھا کر تیندوے کی آہٹ سننے کی کوشش کروں۔ ہر طرف خاموشی کا راج رہا۔ ایک گھنٹہ مزید انتظار کے بعد میں نے تیندوے کے فرار کی سمت گولی چلانے کا سوچا کہ اگر تیندوا وہاں زخمی پڑا ہو تو کچھ نہ کچھ آواز نکالے گا۔ سو میں نے ٹارچ جلا کر عین اس جگہ گولی چلائی جہاں تیندوا غائب ہوا تھا۔ دھماکے کی گونج سنائی دیتی رہی مگر تیندوے کی طرف سے کوئی آواز نہ آئی۔
جلارپت سے ملانپور کی جانب مال گاڑی چڑھائی پر آ رہی تھی۔
پیچھے والا انجن پورے زور سے ٹرین کو چڑھائی پر دھکیل رہا تھا اور اگلا انجن پچھلے کے سہارے آرام سے چلا جا رہا تھا۔ پچھلے انجن سے بھاپ کے بادل بلند ہو رہے تھے۔
میں نے ساڑھے گیارہ بجے تک انتظار کیا۔ مدراس سے کوچن جانے والی ایکسپریس ٹرین کی سیٹی سن کر میں نے اتر کر اپنے فارم پر جانے کا فیصلہ کر لیا۔ مجھے یقین تھا کہ تیندوا اگر زخمی اور قریب ہی ہوتا تو دوسری گولی چلنے پر کوئی نہ کوئی آواز ضرور نکالتا۔ اب چاہے تیندوا مر چکا ہو یا پھر بھاگ گیا ہو، میرے لیے اب واپسی محفوظ ہو گئی تھی۔
میں کاجو کے درخت کے نیچے اترا اور ٹارچ کی روشنی میں گاؤں کو چل پڑا اور اپنے فارم پر جانے سے قبل میں نے پٹیل کو سارے حالات سے آگاہ کر دیا۔
اگلی صبح میں گاؤں پہنچا جہاں بیس سے زیادہ افراد میری مدد کو جمع ہو چکے تھے۔ میری ہدایات اور رہنمائی میں انہوں نے پانچ چھ کتے بھی جمع کر لیے۔ ہر طرح سے محفوظ ہو کر ہم رات والے درخت کو چل پڑے۔
گدھے کی باقیات ان چھوئی پڑی تھیں۔ درخت کے نیچے زمین میں سوراخ تھا جہاں میری گولی لگی تھی۔ خون کا کوئی دھبہ بھی نہ مل سکا۔ ہم نے تیندوے کے فرار کی سمت جھاڑیوں اور پتھروں کو اچھی طرح دیکھا اور وہ بھی جہاں دوسری گولی چلائی تھی، مگر کچھ بھی دکھائی نہ دیا۔ تیندوا مکمل طور پر بچ کر نکل گیا تھا۔
غصے اور مایوسی کی وجہ سے میں ان لوگوں کے ساتھ گاؤں کو لوٹا جہاں میں نے پٹیل کو بتایا کہ میری واپسی کا وقت ہو چکا ہے۔ تاہم میں نے اسے ہدایت کی کہ اگر تیندوے کے بارے مزید کوئی معلومات ہوں تو مجھے تار بھیج دے۔ پھر میں اپنے فارم پر گیا اور سامان اٹھا کر جلارپت کو چل پڑا۔ وہاں سے میں نے مدراس سے آنے والی ٹری پکڑی اور سوا آٹھ بجے رات کو گھر پہنچ گیا۔
اس طرح یلاگری کے آدم خور تیندوے کے شکار کا پہلا مرحلہ تمام ہوا۔
توقع کے برعکس پٹیل سے کوئی اطلاع نہ آئی۔ دو مہینے گزر گئے، پھر میں نے پٹیل کو خط لکھا جس کا جواب چند روز بعد آ گیا کہ تیندوے کی کوئی اطلاع نہیں۔ میں نے سوچا کہ شاید تیندوے نے یا تو آدم خوری ترک کر دی ہے یا پھر جوادی پہاڑوں کی سمت نکل گیا ہوگا جو یلاگری سے جنوب کی سمت بمشکل پندرہ میل دور تھے۔ تاہم اگر ایسا ہوتا تو اخبارات میں یا سرکاری طور پر مجھے کوئی نہ کوئی اطلاع ضرور مل جاتی کہ جوادی پہاڑوں میں انسان مارے جا رہے ہیں۔
سو میں نے یہی سوچا کہ تیندوا اب شاید آدم خوری ترک کر چکا ہوگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ میری گولی اسے لگی ہو اور کہیں دور جا کر وہ مر گیا ہوگا۔
تاہم یہ آخری نظریہ بھی ممکن نہیں تھا۔
نو ہفتے بعد پٹیل کی طرف سے بھیجا گیا تار ملا جس میں بتایا گیا کہ تیندوے نے ایک اور انسان کو ہلاک کر دیا ہے۔ تار میں مجھے فوراً آنے کا کہا گیا تھا اور اگلی ٹرین دو گھنٹے بعد روانہ ہونی تھی۔
تاہم یہ ٹرین سست رفتار تھی اور میں ساڑھے آٹھ بجے رات کو جلارپت جا پہنچا۔ چونکہ فوراً کچھ کرنا ممکن نہیں تھا، سو میں نے رات وہیں سٹیشن پر رکنے کا فیصلہ کیا تاکہ چند گھنٹے سو سکوں۔ تاہم یہ فیصلہ غلط ثابت ہوا کہ ہر گزرنے والی ٹرین کے شور سے میں بیدار ہو جاتا۔ دوسرا مچھر اور پسو بکثرت تھے، سو میں نے ساری رات پلیٹ فارم پر ٹہلتے ہوئے گزاری۔ پانچ بجے میں یلاگری روانہ ہو گیا جو یہاں سے دو میل دور تھا۔ چڑھائی چڑھ کر میں سوا سات بجے پٹیل کے پاس جا پہنچا۔
پٹیل نے حسبِ معمول میری تواضع کی اور گرما گرم کافی پیش کی۔ پھر اس نے بتایا کہ تین روز قبل تیندوے نے ایک نوجوان خاتون کو ہلاک کیا ہے۔ یہ خاتون پریاملائی پہاڑوں کے دامن میں چشمے سے پانی لانے گئی تھی۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ اس لڑکی کے گاؤں والے کچھ دیر بعد جا پہنچے اور لاش کو جلانے کے لیے اٹھا گئے۔ بظاہر تیندوے نے اس خاتون کو تھوڑا سا ہی کھایا تھا کہ امدادی جماعت فوراً ہی پہنچ گئی تھی۔ اس بار میں نے تیندوے کے چارے کی خاطر بکری باندھنے کا سوچا کہ میرے پاس زیادہ سے زیادہ چار روز تھے۔ سو پٹیل نے میری خاطر ساتھ والے گاؤں سے بیس روپے میں بکری خریدی کہ اس علاقے میں بکریاں نایاب تھیں اور یہ بھی کہ بکریوں کے مالکان کو علم ہو چکا تھا کہ ہمیں بکری کی کتنی ضرورت ہے سو انہوں نے قیمت بڑھا دی تھی۔ میں نے فوراً بیس روپے پٹیل کے ہاتھ پر رکھ دیے۔ جتنی دیر وہ بکری خریدتا، میں نے اپے فارم پر جا کر معائنہ کرنے کا سوچا۔
دوپہر کو میں اپنے ساتھ لائے ہوئے ٹھنڈے کھانے سے پیٹ بھرا اور پھر پٹیل کے گاؤں گیا جہاں پتہ چلا کہ بکری ابھی نہیں آئی۔
دوپہر کے دو بجے ایک بندہ بوڑھی بکری کو لایا جو کالے رنگ کی تھی۔ مجھے مایوسی ہوئی کہ اس عمر کی بکری اکیلے ہونے پر بالکل بھی شور نہ کرتی۔ دوسرا اس کا رنگ سیاہ تھا، تیندوے عموماً سیاہ اور سفید رنگ کی بکریوں کے بارے مشکوک ہوتے ہیں۔ بھورے رنگ کا جانور، چاہے وہ بکری ہو، بیل یا کتا، ہمیشہ بہتر رہتا ہے کہ اس کا رنگ عام جنگلی جانوروں سے مشابہہ ہوتا ہے۔ تاہم اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
پٹیل اور چار پانچ آدمی میرے ساتھ کلہاڑیاں، رسیاں اور چارپائی لے کر روانہ ہوئے۔ ہم ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں متوفیہ کے گاؤں پہنچے۔ یہاں سے مزید دو آدمی ہمارے ساتھ چل پڑے جو ہمیں متوفیہ کی ہلاکت کے مقام تک لے جاتے۔
یہ جگہ گاؤں سے پون میل دور تھی۔ چھوٹی سی ندی مغرب سے مشرق کی سمت بہہ رہی تھی اور پہاڑی کے دامن سے نصف میل دور سے گزرتی تھی۔
ندی کا کنارہ ریتلا تھا اور کنارے پر خاردار جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔ جہاں لڑکی پر حملہ ہوا، اس جگہ گاؤں والوں نے چھوٹا سا تالاب بنایا ہوا تھا جہاں سے جانوروں کو پانی پلایا جاتا تھا۔ چونکہ موسم گرم تھا، سو ندی کا زیادہ تر حصہ خشک تھا۔ یہاں جھاڑیاں تالاب سے کافی قریب تک اگی ہوئی تھیں اور صاف پتہ چل رہا تھا کہ تیندوا انہی جھاڑیوں میں چھپ کر پہنچا ہوگا۔
اب یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ یہ تیندوا واقعی عجیب جانور تھا۔ اس نے دن دیہاڑے انسان پر حملہ کیا تھا۔ یہ عادت محض شیروں کی ہوتی ہے کیونکہ آدم خور تیندوے بہت بزدل ہوتے ہیں اور ان کی سرگرمیاں رات کی تاریکی تک محدود رہتی ہیں۔
میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ تیندوا ضرور وہیں کہیں چھپ کر لیٹا ہوگا اور جب لڑکی پانی بھرنے آئی تو اس نے حملہ کر دیا۔
یہ سوچ کر میں گھٹنوں اور کہنیوں کے بل چلتا ہوا ان جھاڑیوں کا معائنہ کرنے لگا اور جلد ہی میرے شبے کی تصدیق ہو گئی کہ ایک جھاڑی میں اتنی جگہ تھی کہ تیندوا آرام سے چھپ سکتا تھا۔ جھاڑی کے نیچے خشک پتوں کی موٹی تہہ تھی، سو پگ دکھائی نہ دیے۔ تاہم جنگلی درندوں والی مخصوص بو ہلکی سی محسوس ہو رہی تھی جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ تیندوا یہاں اکثر آ کر بیٹھتا ہوگا اور پانی پینے کے لیے آنے والے کسی بھی جانور یا انسان پر آسانی سے حملہ کر سکتا ہوگا۔
یہ بات کافی حوصلہ افزا تھی کہ اگر تیندوے نے یہ جگہ پہلے استعمال کی ہے تو اب بھی کرے گا۔ ویسے بھی میں بتا چکا ہوں کہ پریاملائی کی پہاڑی نصف میل دور تھی۔ اگر تیندوا اس میں کسی غار میں رہتا ہوگا تو یہ جگہ اس کے شکار کے لیے بہترین انتخاب ہوتی۔
جب میں یہ سب دیکھ رہا تھا کہ اچانک ایک خیال آیا۔
میں ایسا منظر تخلیق کرتا جو تیندوے کے لیے غیر متوقع نہ ہوتا۔ میں تالاب کے کنارے ایک کھونٹا گاڑ کر بکری باندھ دیتا جو ایسے دکھائی دیتی کہ جیسے پانی پینے آئی ہو۔ اس کے بعد میں تیندوے کی کمین گاہ میں چھپ کر اس کی آمد کا انتظار کرتا۔ اگر تیندوا بکری کی آواز سنتا یا پھر پہاڑی سے اترتے ہوئے اسے دیکھ لیتا تو سیدھا حملے کے لیے آتا اور میں اس کے لیے تیار ہوتا۔
میں نے یہ خیال پٹیل اور دیگر لوگوں کو سنایا۔ باقی لوگوں نے تو اسے پسند کیا مگر پٹیل نے اسے احمقانہ منصوبہ کہا۔ میں نے اسے بتایا کہ اس میں خطرہ تو نہیں ہے کہ کیونکہ کمین گاہ کے تین طرف خاردار جھاڑی موجود ہے جو تیندوے کو نہیں گزرنے دے گی۔ دوسرا تیندوے کو میری موجودگی کی ہرگز خبر نہ ہوگی مگر میں اس کے لیے تیار بیٹھا ہوں گا۔ اس کے علاوہ اس کی توجہ بکری پر مرکوز ہوگی اور ہرگز یہ نہ سوچے گا کہ اس کی کمین گاہ میں ہی اس کا دشمن چھپا ہوا ہے۔
سو اپنے ساتھ لائے ہوئے کھونٹے کو ہم نے نہر سے پتھر لا کر اس کی مدد سے گاڑ دیا۔ پھر میں جھاڑی کے نیچے چھپ گیا اور آرام سے بیٹھ گیا۔ اس کے علاوہ میں نے ٹارچ کو رائفل کی نال سے منسلک کر دیا اور آزما بھی لیا۔ یہ ٹارچ میں نے حال ہی میں خریدی تھی۔ اس میں تین سیل لگتے تھے اور اس کی روشنی مختصر دائرہ بناتی تھی۔ پھر میں نے ڈھیر ساری چائے پی اور پھر ان لوگوں کو کہا کہ بکری کی پچھلی ٹانگ کھونٹے سے باندھ دیں۔
یہ بکری کچھ دور ٹھہرائی گئی تھی تاکہ اسے علم نہ ہو کہ اس کے پاس ہی انسان چھپا ہوا ہے۔ ورنہ وہ بالکل بھی نہ ممیاتی۔ اس لیے اگر بکری کو یہ شک ہوتا کہ وہ تنہا رہ گئی ہے تو وہ خوب شور مچاتی۔
جتنی دیر بکری باندھی جاتی، میں بے حس و حرکت بیٹھا رہا۔
کام ختم کرنے کے بعد پٹیل اور اس کے ساتھی چلے گئے اور میں اکیلا رہ گیا۔
جھاڑی کے نیچے گرمی اور حبس تھا اور سورج ابھی غروب بھی نہیں ہوا تھا کہ میری کمین گاہ میں تاریکی چھا چکی تھی۔ بکری کچھ بار بولی اور پھر چپ کر گئی۔ مجھے امید تھی کہ تاریکی چھانے پر پھر شور کرتی۔ تاہم یہ میری خوش فہمی تھی۔ کبھی کبھار بکری رسی کو کھینچتی تو آواز آتی، ورنہ خاموشی رہتی۔ مگر پھر کافی دیر تک چھائی خاموشی سے لگا کہ بکری سو چکی ہے۔
میری نشست ایسی تھی کہ ساری رات بیدار رہنا میری مجبوری تھی۔
مجھے بکری سے حسد ہونے لگا۔
مچھروں نے کافی تنگ کیا اور ہر قسم کے کیڑے مکوڑے مجھ پر سوار رہے۔ جھاڑیوں میں رہنے والے چوہے جو گھریلو چوہوں سے بھی چھوٹے ہوتے ہیں، اودھم مچائے ہوئے تھے۔ ایک بار کچھ لمبی اور نرم چیز سرسراتی ہوئی پاس سے گزری۔ یہ سانپ تھا۔
اب یہ سانپ بے ضرر تھا یا زہریلا، کہہ نہیں سکتا۔ میں بالکل ساکن بیٹھا رہا اور کچھ دیر بعد سرسراہٹ ختم ہو گئی۔
تاہم تیندوا نہ آیا۔ کسی قسم کی آواز نہ سنائی دی، نہ ہی کوئی شب بیدار پرندہ بولا۔ وقت آہستگی سے گزرتا رہا۔ میری گھڑی کی چمکدار سوئیوں سے وقت کا پتہ چلتا رہا۔ مجھ پر غنودگی سی طاری ہونے لگی مگر آنکھیں چند سیکنڈ بند کرنے کی بھی ہمت نہ ہوئی۔ میں نے تیندوے کی بجائے دیگر باتیں سوچنا شروع کیں۔ مگر واحد چیز جو ذہن میں آئی، وہ یہی ملعون بکری تھی۔
صبح کی روشنی بتدریج نمودار ہوئی مگر کسی بھی جنگلی پرندے کی چہچہاہٹ نہ سنائی دی۔ میں جھاڑی سے انتہائی مایوس اور تھکا ماندہ نکلا۔ بکری جو زمین پر سو رہی تھی، بیدار ہو کر کھڑی ہوئی اور انگڑائی لینے کے بعد اپنی دم ہلانے اور مجھے حیرت سے دیکھنے لگی۔
میں نے بکری کو کھونٹے سے کھولا اور اپنے ساتھ لے کر پٹیل کے پاس آیا جو اپنے ساتھی جمع کر کے میرے پاس آنے کو تیار ہو رہا تھا۔ اسے کالی بکری واپس لوٹانے کا کہہ کر میں نے بتایا کہ میں چند گھنٹے سونے جا رہا ہوں اور پھر خود ہی کوئی بکری تلاش کرنے جاؤں گا۔ پھر میں اپنے فارم پر جا سویا اور دوپہر کو اٹھا۔
بیدار ہوا تو کافی بھوک لگی تھی، سو میں نے سامن کا ڈبہ کھولا اور اپنے ساتھ لائی ہوئی روٹی کے ساتھ پیٹ بھرا۔ روٹی اب خشک ہو گئی تھی مگر اس پر ڈبہ بند مکھن لگایا تو ذائقہ بہتر ہو گیا۔ اس دوران میں نے اپنے ساتھ لائے ہوئے تیل کے چولہے کو جلایا اور چائے تیار کی۔
کھانا کھاتے ہوئے میں نے دوسری کیتلی بھی تیار کی اور اسے اپنی پانی کی بوتل میں ڈال لیا۔ ضروری سامان جمع کر کے میں پھر پٹیل کے گاؤں کو لوٹا۔ خوش قسمتی سے موسم کل کی طرح گرم ہی تھا، سو کوٹ کی ضرورت نہ محسوس ہوئی۔
پٹیل کو ساتھ لے کر میں اس گاؤں کو گیا جہاں بکریاں دستیاب تھیں۔
وہاں کچھ دیر معائنہ اور کافی مول تول کرنے کے بعد میں نے ایک کم عمر بکری خریدی جو بہت شور کرتی۔ ساڑھے تین بجے ہم دوبارہ کل رات والے مقام پر ہنچے۔ اس بار ہمیں کوئی جلدی نہیں تھی کہ مقام پہلے سے منتخب اور تیار تھا اور مچان باندھنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
پانچ بجے سے ذرا قبل میں جھاڑی میں گھس گیا اور پھر بکری باندھ کر میرے ہمراہی واپس چل دیے۔
ان کے نظروں سے اوجھل ہونے کی دیر تھی کہ بکری نے شور مچا دیا اور مستقل بولتی رہی۔ میں اپنے انتخاب پر بہت خوش تھا۔
شام ڈھلتے ہی جھاڑی کے اندر اندھیرا چھا گیا۔ ایک گھنٹہ گزرا۔ پھر مجھے اچانک انتہائی مدھم سی سرسراہٹ سنائی دی جیسے کسی ٹہنی پر کسی نے پیر رکھا ہو۔ مجھے معلوم ہو گیا کہ تیندوا آ رہا ہے۔ امتحان کی گھڑی تقریباً آن پہنچی۔ اب مجھے ٹارچ جلانے سے قبل انتظار کرنا تھا کہ تیندوا پوری طرح سامنے آ جائے۔ اگر میں عجلت کرتا تو تیندوا فرار ہو سکتا تھا۔ اگر میں بہت زیادہ دیر کرتا تو امکان تھا کہ تیندوا مجھے دیکھ کر حملہ آور ہو جاتا۔
اپنی حسوں کو تیز کر کے میں منتظر رہا۔ مزید کوئی آواز نہ آئی۔ پھر مجھے مدھم سی سسکاری سنائی دی۔ فوراً ہی مجھے علم ہو گیا کہ تیندوا مجھے دیکھ یا محسوس کر چکا ہے۔ اس نے اپنا بالائی ہونٹ سکوڑ کر جب سانس کھینچا ہوگا تو یہ آواز نکلی ہوگی۔ اب یا پھر کبھی نہیں۔ میں نے انگوٹھے کی مدد سے ٹارچ جلائی۔ روشنی سیدھی تیندوے کی سرخی مائل سفید آنکھوں پر جا پڑی۔
مجھے اس کا منہ اور سینہ بمشکل دس فٹ دور دکھائی دے رہا تھا۔ بعجلت میں نے اس کے گلے کا نشانہ لیا اور گولی چلا دی۔
تیندوا ایک قدم آگے بڑھا اور پھر اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہوا۔ اتنی دیر میں میں نے دوسری گولی اس کے سینے میں اتار دی تھی۔ وہ نیچے گرا اور نظروں سے اوجھل ہو گیا اور جھاڑیوں سے چند لمحے شور سنائی دیتا رہا۔پھر تیندوے کے عالمِ نزع کی خرخراہٹ سنائی دی اور پھر خاموشی چھا گئی۔
میں نے مزید نصف گھنٹہ انتظار کیا۔ جب تسلی ہو گئی تو میں بھری ہوئی رائفل تھامے اپنی کمین گاہ سے باہر نکلا اور بکری کے پاس جا کھڑا ہوا۔ پہلی سوچ یہی تھی کہ میں بکری کی رسی کاٹ کر اسے اپنے ساتھ لے جاؤں، مگر پھر خیال آیا کہ اگر یہ آدم خور کی بجائے عام تیندوا ہوا تو واپسی کا سفر بہت محتاط ہو کر کرنا پڑے گا۔ تاریکی میں انجان راستے پر چلتے ہوئے بکری ساتھ ہو تو سفر بہت مشکل ہو جائے گا۔ سو میں نے بکری وہیں چھوڑی اور خود پٹیل کے گھر کو محتاط طریقے سے روانہ ہو گیا۔ وہاں ابھی لوگ بیدار تھے، سو میں نے انہیں پوری کہانی سنائی۔ پھر میں اپنے فارم جا کر سو گیا۔
اگلی صبح تیندوا وہیں مرا ہوا ملا۔
یہ تیندوا بوڑھا نر تھا اور اس کی کھال بھی مدھم رنگ کی تھی اور آدم خور ہونے کی تمام علامات اس پر منطبق ہوتی تھیں۔ اس کے بڑے دانت اور ناخن بھی گِھس چکے تھے۔تاہم اصل فیصلہ وقت کرتا۔
دوپہر کو میں اس کی کھال سمیت پہاڑی سے نیچے اتر رہا تھا۔
اس واقعے کو کئی برس گزر چکے ہیں مگر یلاگری یا جوادی کے علاقے میں مزید انسانی جانیں نہیں گئیں۔ سو مجھے یقین ہے کہ میں نے اصلی آدم خور کو ہی ہلاک کیا تھا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
3۔ منو سوامی اور مگادی کا چیتا
میں بنگلور میں رہتا ہوں جو خلیج بنگال کے مغربی ساحل پر واقع مدراس اور بحیرہ عرب کے مشرقی ساحل پر واقع منگلور کے درمیان کھینچی جانے والے سیدھے خط پر واقع ہے۔
بنگلور سطح سمندر سے تین ہزار فٹ کی بلندی پر ایک سطح مرتفع پر واقع ہے۔ یہاں رہنے والے افراد اس کے موسم کو کبھی نہیں بھول سکتے کہ یہاں کا موسم نہ تو کبھی بہت گرم ہوتا ہے اور نہ ہی کبھی بہت سرد۔ نہ بہت زیادہ بارش ہوتی ہے اور نہ ہی بہت زیادہ خشکی۔ نومبر سے وسط فروری تک سرما میں صبح دھند آلود رہتی ہے اور گرمیوں میں بھی صبح خوشگوار رہتی ہے۔ بنگلور کو کنارسی زبان میں بنگالورو کہتے ہیں جس کا مطلب ‘غلے کا شہر‘ ہے۔ جس شخص نے بنگلور میں اگنے والے مقامی یا یورپی نسل کے پھل اور سبزیاں کھائی ہیں، وہ ان کا ذائقہ کبھی نہیں بھول سکتے۔
دوسری جنگِ عظیم کے اختتام تک بنگلور قصبہ نما تھا اور فوجی نکتہ نظر سے اہم ہونے کی وجہ سے یہ صنعتی شہر بننا شروع ہوا اور اس میں انڈیا کا سب سے بہترین شہر ہونے کی تمام تر خوبیاں موجود ہیں۔ جنگ کے دوران اور اس کے بعد آنے والے پناہ گزینوں کی تعداد سے آبادی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ اب یہ شہر تیزی سے پھیل رہا ہے۔
تاہم یہاں میں بنگلور کی خوبیاں نہیں گنوانا چاہ رہا، بلکہ یہاں بتانا چاہتا ہوں کہ یہ خوبصورت شہر ہے۔ یہ شہر کئی پہاڑیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ اگر آپ ایک پہاڑی پر کھڑے ہو کر دیکھیں تو افق پر تین بہت اونچی پہاڑیاں دکھائی دیں گی۔ ایک شمال، ایک شمال مغرب اور ایک مغرب کی سمت واقع ہے۔ تینوں کا فاصلہ بنگلور سے 35 میل سے زیادہ نہیں اور ہر ایک 4٫000 فٹ سے اونچی ہے۔ شمال والی پہاڑی سب سے زیادہ اونچی ہے اور اس کی تین چوٹیاں ہیں جنہیں نندروگ کہا جاتا ہے۔
دروگ کا مطلب پہاڑی قلعہ ہے اور ان تین چوٹیوں میں مشرق کی سمت والی پہاڑی پر ایک پرانے قلعے کے کھنڈرات ہیں جو ماضی کے طاقتور بادشاہ ٹیپو سلطان نے بنوایا تھا جو شیرِ میسور کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے ایک سرے پر چھ سو فٹ گہری ڈھلوان ہے جہاں سلطان معتوب افراد کو آنکھوں پر پٹی باندھ کر چلنے کو چھوڑ دیتا تھا۔ جو بندہ اس پر لگے تختے پر چل کر بخیریت واپس لوٹ آتا، اس کی جان بخشی ہو جاتی تھی۔ تاہم ابھی تک کسی خوش قسمت کا تذکرہ نہیں ملتا جو کامیاب رہا ہو۔ شاید تختہ لرزتا ہو، یا پھر اسے بنایا ہی ایسے گیا ہو کہ بہت لرزتا ہو۔ کون جانے۔ مؤرخین اس بارے خاموش ہیں۔
بنگلور سے شمال مغرب میں سیوانگانا پہاڑی ہے۔ اس پہاڑی کی چوٹی پر ہندو یاتریوں کے لیے مندر ہے۔ چوٹی پر ایک انتہائی گہرا کنواں بھی ہے جس کے بارے مشہور ہے کہ اس کی کوئی تہہ نہیں۔ ایک اور روایت کے مطابق اس کنویں سے ایک سرنگ نما راستہ 35 میل دور بنگلور تک جاتا ہے۔
تیسری پہاڑی کو مگادی پہاڑ کہتے ہیں۔ بنگلور میں اونچی جگہ کھڑے ہو کر دیکھیں تو ایک ابھار سا دکھائی دیتا ہے مگر قریب جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ دو کوہان والے اونٹ کی مانند یہ دو ابھار ہیں۔ دونوں کے درمیان دشوار گزار اور گھنے جنگلات پر مشتمل وادی ہے جہاں گزرگاہ بہت پھسلوان ہے اور اگر پیر پھسل جائے تو آپ کے ساتھ وہی ہوگا جو ٹیپو سلطان اپنے دشمنوں کے ساتھ کرتا تھا۔
اسی وادی سے میری کہانی شروع ہوتی ہے کہ اسی جگہ مگادی کے تیندوے کی غار تھی۔
مگادی کی پہاڑی کے آس پاس گھنے جنگل ہیں۔ جنوب میں محفوظ جنگل ہے جو بہت ساری پہاڑیوں سے ہوتا ہوا جنوب کی سمت ستر میل دور سنگم کے مقام پر دریائے کاویری سے جا ملتا ہے۔ یہ سارا جنگل محفوظ نہیں مگر اس کا بہت بڑا حصہ محفوظ شمار ہوتا ہے۔ غیرمحفوظ جنگل کا زیادہ تر حصہ جھاڑیوں پر مشتمل ہے۔ ان پہاڑیوں کی سیدھ میں نصف فاصلے پر کلازپت اور کنکن ہالی کے شہروں کے درمیان پہاڑ کافی بلند ہیں اور یہ علاقہ تیندوؤں سے پٹا ہوا ہے۔ یہ علاقہ میرے بیٹے کی پسندیدہ شکارگاہ ہے۔ اس نے یہاں چالیس سے زیادہ تیندوے اور بارہ سے زیادہ ریچھ مارے ہیں اور اس کی عمر تیئس برس ہے۔
مگادی کے مغرب میں میدانی علاقہ ہے جو جھاڑیوں سے بھرا ہے۔ کالا ہرن، خرگوش، مور، تیتر اور بٹیر بکثرت ملتے ہیں۔ یہ پہاڑیاں شمال کو پھیلی ہوئی ہیں مگر ان کی اونچائی کم ہوتی جاتی ہے۔ مشرق میں پہاڑی علاقہ ہے اور بنگلور یہاں سے لگ بھگ 35 میل دور ہے۔
ارکاورتی دریا ایک چھوٹی سی ندی ہے جو بنگلور کو جانے والی سڑک پر تیئسویں سنگِ میل سے گزرتا ہے اور یہاں اس پر بند باندھا گیا ہے۔ پانی جمع کرنے کا علاقہ بہت وسیع ہے تاکہ بنگلور کو سارا سال پانی کی فراہمی بلاتعطل جاری رہ سکے۔ اس بند پر بہت بڑے پمپ لگے ہوئے ہیں جو تیئس میل دور بنگلور تک پانی پہنچاتے ہیں۔
اب آپ اس علاقے سے بخوبی واقف ہو گئے ہیں جہاں یہ تیندوا نمودار ہوا۔ یہ تیندوا کوئی غیرمعمولی درندہ نہیں تھا۔
اب جو واقعات بیان کر رہا ہوں، وہ پچھلی جنگ سے قبل ہوئے تھے۔
مگادی کے دامن میں پھیلی ہوئی کئی بستیوں میں اس تیندوے نے کچھ بکریاں اور دو تین کتے مار کھائے۔ کسی نے توجہ نہ دی کہ ان علاقوں میں نسل ہا نسل سے تیندوے ایسی حرکات کرتے آ رہے ہیں اور لوگ عادی ہو چکے ہیں۔
وقت گزرتا گیا اور تیندوے کا حوصلہ بڑھتا گیا۔ اس نے چند بچھڑے اور گائیں بھی ماریں۔ بیل ہندو مت میں مقدس سمجھا جاتا ہے اور کوئی ہندو بیل کے گوشت کو ہاتھ نہیں لگاتا۔ اس کے باوجود بیل کےذمے سارے مشقت والے کام ہوتے ہیں۔ ہل چلانے سے لے کر بیل گاڑی کھینچنے تک سبھی کام بیل کے ذمے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ چونا پیسنے والی چکی بھی یہی چلاتے ہیں۔
اتنے مختلف فوائد کی وجہ سے بیلوں کی قیمت کافی زیادہ ہوتی ہے اور کبھی کبھار اگر تیندوا ایک آدھ بیل کھا بھی جائے تو لوگ بھول جاتے ہیں۔ تاہم جب تیندوا گائے کو ہلاک کرے تو گائے سے دودھ آتا ہے اور دودھ سے مکھن اور گھی بنتا ہے اور یہ گھی پورے انڈیا میں کھانا پکانے میں استعمال ہوتا ہے۔ سو گائے کی ہلاکت ناقابلِ معافی جرم ہے۔
بنگلور میں ابھی تک ایک بندہ رہتا ہے جس کا نام منو سوامی ہے جو خود کو انگلستانی شرفا کا مددگار شکاری کہتا ہے۔ بہت بدمعاش انسان ہے۔ اس کا کام اناڑی شکاری کو جا کر شکار سے متعلق خبریں گھڑ کر سنانا ہے۔ ‘ماسٹر، وائٹ فیلڈ کے پاس جنگلی سوروں کا پورا ریوڑ موجود ہے جو یہاں سے محض بارہ میل دور ہے‘، ‘ماسٹر، مگادی والی سڑک پر دسویں اور اٹھارہویں سنگِ میل کے درمیان کالے ہرنوں کے ان گنت غول پھر رہے ہیں اور ہر غول میں کم از کم پچاس ہرن ہیں جو ماسٹر آرام سے مار سکتے ہیں‘۔ پھر وہ اس اطلاع کی خاصی معقول پیشگی رقم وصول کرتا ہے۔ جب شکاری مطلوبہ روز مطلوبہ مقام پر جاتا ہے تو وہاں نہ جنگلی سور ملتے ہیں اور نہ ہی ہرن۔ شکاری حیران و پریشان ہو جاتا ہے۔ تاہم منو سوامی کے بارے ایسا ویسا مت سوچیے۔ بہت تیز اور خاصا جھوٹا انسان ہے۔ ‘ماسٹر ، دیکھیے میں نے آپ کو بہت پہلے بتایا تھا۔ مگر آپ نہ آئے۔ کل ہی بہت سارے فوجی افسران کار میں آئے تھے۔ انہوں نے دو سور مارے۔ باقی سب بھاگ گئے۔ ماسٹر کسی دوسرے روز آئیں‘۔ اس کا جواب ہوتا ہے۔ جنگلی سور اور کالے ہرن محض شکاری کو پھنسانے کی خبر کا درجہ رکھتے ہیں۔
جب وہ کسی اناڑی شکاری کے پاس تیندوے کی خبر لے کر آتا ہے تو دیکھنے والا منظر ہوتا ہے۔ وہ پہلے بنگلے کے گیٹ پر نمودار ہوتا ہے یا صاحب کو سڑک پر روکتا ہے اور کہتا ہے، ‘سار، میں صاحبوں کا بہت بڑا مددگار شکاری ہوں۔ میں ماسٹر کو کالے ہرن، جنگلی سور، مور، خرگوش، تیتر اور ہریل دکھاتا ہوں۔ یا پھرماسٹر کو سنائپ اور مرغابیاں پسند ہیں؟ دسمبر اور کسٹمس کے وقت بہت آتی ہیں۔ ماسٹر کو بہت بڑا تیندوا مارنا ہے؟ میں لا سکتا ہوں۔ یہاں سے پندرہ میل دور کنکن ہالی سڑک پر۔ آپ مجھے پندرہ روپے پیشگی دیں۔ میں ایک گدھا خرید کر باندھ دوں گا۔ تیندوا گدھے کو مارے گا اور میں آپ کو آن کر بتاؤں گا۔ میں بہترین مچان بھی بنا سکتا ہوں۔ ماسٹر تیندوےکو آسانی سے مار سکتے ہیں۔‘ اناڑی حیران ہو جاتا ہے کہ پندرہ روپے کے گارے کے بدلے پندرہ میل دور تیندوا شکار ہو سکتا ہے؟ کون کہتا ہے کہ شکار بہت مہنگا شغل ہے؟ سو ماسٹر فوراً پندرہ روپے منو سوامی کو تھما دیتا ہے جو ماسٹر سے مطالبہ کرتا ہے کہ اسے تین روپے بس کے کرائے اور دو روپے کھانے کے لیے بھی دے۔ اناڑی شکاری سمجھتا ہے کہ یہ بہت معقول مطالبہ ہے۔ منو سوامی پیسے لے کر رفوچکر ہو جاتا ہے۔
اس کا پہلا پڑاؤ تاڑی خانے میں ہوتا ہے۔ اسے تاڑی کا شوق ہے جو اس کے بس سے باہر ہے۔ وہ تین بوتلیں پی کر وہیں انٹا غفیل ہو جاتا ہے۔ تاڑی پام کے درخت کے عرق سے تیار کی جاتی ہے۔
اگلے دن بیدار ہو کر منو سوامی تیندوے کے پیچھے نکل جاتا ہے۔
بنگلور میں دو پھاٹک ہیں جہاں آوارہ اور لاوارث مویشی، کتے اور گدھے رکھے جاتے ہیں۔ سرکاری طور پر پکڑے گئے گدھے کا جرمانہ ایک روپیہ ہوتا ہے۔ دس روز بعد لاوارث جانوروں کو نیلام میں بیچ دیا جاتا ہے تاکہ ان کی دیکھ بھال کا خرچہ نکل آئے۔ یہ نیلامی ہر ہفتے دو بار ہوتی ہے اور منو سوامی بہ آسانی دو روپے میں مرگھلا سا گدھا خرید لیتا ہے۔ بعض اوقات وہ کسی گدھے کی ملکیت کا دعویٰ کر کے ایک روپیہ جرمانے کی ادائیگی کے بعد اسے لے آتا ہے۔ چونکہ سبھی گدھے ایک جیسےدکھائی دیتے ہیں، سو سرکاری طور پر اس کا دعویٰ جھٹلایا نہیں جا سکتا اور ضرورت پڑے تو اس کے دوست گواہی دینے پہنچ جاتے ہیں۔
سو منو سوامی گدھے کے پندرہ روپے وصول کر کے دو روپے میں خریدتا ہے یعنی پورے تیرہ روپے کا منافع۔
پھر وہ کئی میل کا فاصلہ طے کر کے اس جگہ جاتا ہے جہاں کے بارے وہ شکاری کو بتا چکا ہوتا ہے۔ وہاں گدھے کو دو روز کے لیے باندھ دیتا ہے۔ تیسرے روز علی الصبح وہ جا کر گدھے کو خود ہی مار ڈالتا ہے۔ اس کا طریقہ کچھ یوں ہے: پہلے وہ بڑے چاقوؤں کی مدد سے گدھے کی شہ رگ میں سوراخ کرتا ہے۔ جب گدھا گرتا ہے تو اس کی گردن کے دوسری جانب بھی مزید سوراخ کرتا ہے جو تیندوے کے چار دانتوں کی مانند دکھائی دیتے ہیں۔ پھر وہ تیز چاقو کی مدد سے گدھے کا پیٹ پھاڑ کر اس کی آنتیں نکال کر پھیلا دیتا ہے اور پھر جگہ جگہ گوشت اتنی صفائی سے کاٹتا ہے کہ جیسے تیندوے نے پیٹ بھرا ہو۔ پھر وہ لاش کو شاخوں سے ڈھانپ دیتا ہے۔ پھر وہ اپنے غلیظ تھیلے سے ایک عجیب سی چیز نکالتا ہے۔ اندازہ کیجیے کہ وہ کیا ہوگی؟ دراصل وہ ایک تیندوے کی ٹانگ ہے جس میں بھس بھرا ہوا ہے۔ اس سے وہ جگہ جگہ پگ بنا دیتا ہے۔
جب مطمئن ہو جاتا ہے تو چند آنے دے کر وہ کسی لاری پر سوار ہو کر صاحب کو یہ ‘خوشخبری‘ سنانے پہنچ جاتا ہے۔ اناڑی شکاری کو جوش چڑھ جاتا ہے۔ عجلت میں وہ اپنی بیوی کو سینڈوچ اور چائے تیار کرنے کو کہتا ہے اور اپنی رائفل صاف کر کے اور گولیاں، ٹارچ، سیل اور دیگر ضروری سامان جمع کرتا ہے جن کی اکثریت بیکار پڑی رہے گی۔ پھر منو سوامی اور صاحب تیز رفتاری سے ‘تیندوے‘ کے ‘شکار‘ کے مقام کو روانہ ہو جاتے ہیں۔
منو سوامی وہاں پہنچ کر گدھے کی گردن پر سوراخ اور زمین پر تیندوے کے پگ دکھاتا ہے تو صاحب فوراً یقین کر لیتا ہے۔ پھر منو سوامی دو قلیوں کی مدد سے مچان بندھواتا ہے اور اس کی قیمت دو چار روپے وصول کرتا ہے اور انہیں بارہ آنے دے کر ٹرخا دیتا ہے۔ پھر جب صاحب مچان پر چڑھنے لگتا ہے تو منو سوامی اس کے ساتھ سودا کرتا ہے۔ اگر صاحب نے تیندوا شکار کر لیا تو منوسوامی کو بیس روپے بخشش ملے گی۔ اگر صاحب اپنی غلطی سے شکار میں ناکام رہا تو پھر بھی دس روپے منو سوامی کو ملیں گے۔ اگر تیندوا واپس نہ لوٹا تو یاد رہے کہ تیندوے بہت مکار ہوتے ہیں اور بعض اوقات واپس نہیں لوٹتے۔ تاہم اس صورت میں منو سوامی نے کافی محنت کی ہے اور اسے پانچ روپے تو ضرور ملیں۔ سودا طے ہو جاتا ہے۔
عجیب بات دیکھیں کہ منو سوامی کو صاحب پر اتنا ہی اعتبار ہوتا ہے جتنا صاحب کو منو سوامی پر۔
اب ظاہر ہے کہ تیندوا نمودار نہیں ہوتا کیونکہ تیندوا تھا ہی نہیں۔ منو سوامی پانچ روپے جیب میں ڈال کر صاحب کو تسلی دیتا ہے کہ تیندوے بہت مکار ہوتے ہیں۔ اگلی مرتبہ شاید موقع مل جائے۔ وہ ایک اور گدھے کو چارہ بنانے کی پیشکش کرتا ہے۔ اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے حتیٰ کہ اناڑی شکاری تیندوے کے شکار کو بھلا کر مرغابیوں اور تیتر کے شکار سے آگے نہیں سوچتا۔ تاہم منو سوامی یہاں بھی فائدہ اٹھاتا ہے۔
اب آپ یہ پوچھنے میں بجا ہیں کہ: ‘مجھے منو سوامی کے بارے یہ سب کیسے علم ہوا ہے؟‘ میں بھی کبھی اناڑی شکاری تھا اور اس نے چار بار مجھے لوٹا۔ ایک روز حادثاتی طور پر مجھے علم ہوا۔ منو سوامی مجھے پگ دکھا رہا تھا۔ ایک آوارہ کتا ہمیں دیکھ رہا تھا اور اچانک اس نے بھاگ کر ایک جھاڑی سے کپڑے کا تھیلا اچک لیا۔ منو سوامی بہت گھبراہٹ میں اس کے پیچھے بھاگا۔ کتا بھاگا اور تھیلے سے کچھ عجیب سی چیز گری جس پر دھبے سے تھے۔ ہم دونوں اس چیز کی طرف بھاگے۔
یہ چیز تیندوے کا بھس بھرا پیر تھا۔ پھر خوفناک دھمکیوں کے بعد جا کر اس نے زبان کھولی اور تفصیل سے اس بارے بتایا۔
میں بقائے باہمی کا قائل ہوں اور اگر کوئی احمق اپنی خوشی سے منو سوامی کا شکار بننا چاہے تو مجھے کیا اعتراض؟ سو میں نے کبھی اس کا راز نہیں فاش کیا۔ منو سوامی مجھے شاید پسند کرنے لگا ہے۔
یہ نہ سمجھیں کہ آپ کو بتانے پر اس کا راز فاش ہو گیا ہوگا۔ منو سوامی ہر مرتبہ نئے شکاری کے پاس نئے نام سے جاتا ہے۔ اس کا نام رامیہ بھی ہو سکتا ہے، پویاہ بھی اور پونیا بھی یا پھر کئی سو دیگر نام۔ تاہم اگر وہ آپ کے پاس دھوکہ دینے آئے تو ایک نشانی بتاتا ہوں۔ وہ ہمیشہ انگریزی بولتے ہوئے خود کو صاحبوں کا مددگار شکاری کہہ کر متعارف ہو اور اس کا قد لمبا، بوڑھا اور سیاہ بھجنگ انسان ہو اور بالوں کا جوڑا بنایا ہوا ہو، ابلی ہوئی آنکھیں ہوں اور چاہے اس نے ٹوپی پہنی ہو، پگڑی یا دھوتی یا لنگوٹی یا نیکر اور چاہے وہ اپنا نام جیک جانسن ہی کیوں نہ بتائے، اپنا بٹوہ کسی محفوظ جگہ چھپا کر اسے بھگا دیں کہ یہ بندہ منو سوامی کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔
اس بندے کے بارے بات کرتے ہوئے آپ کو لگا ہوگا کہ میں اصل موضوع سے دور بھٹک گیا ہوں۔ مگر ایسا نہیں کیونکہ منو سوامی نے اس کہانی میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ویسے بھی ایسے دلچسپ کردار کے بارے جان کر کسے برا لگے گا؟
منو سوامی کو علم ہو گیا کہ مگادی کا یہ چیتا مویشی مار رہا ہے۔ یہ مت سوچیں کہ وہ تیندوے اپنی طرف سے گھڑتا ہوگا اور اصل تیندوے کے بارے کچھ علم نہ رہا ہوگا۔ اسے اچھی طرح علم ہے۔ ماضی میں وہ بہت اچھا شکاری رہ چکا ہے اور اسے جنگلی درندوں کے بارے کافی علم ہے۔ سو جب اس تک خبر پہنچی تو اس نے مگادی جا کر خود تحقیقات کیں اور پوری طرح یقین کر لیا کہ تیندوا کافی مویشی مار رہا ہے۔
یہ بات تو آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ منو سوامی کے ساتھ جانے والے کسی شکاری کا کبھی کسی جانور سے سامنا نہیں ہوا تھا، سو بطور گائیڈ شکاری، اس کی شہرت خطرے میں تھی۔
آدھے سے زیادہ مقامی اور یورپی شکاری، چاہےو ہ اناڑی ہوں یا تجربہ کار، منو سوامی کی شکل دیکھنے کے روادار نہ تھے۔ منو سوامی کے لیے یہ بات خطرے کی گھنٹی تھی کہ اس کا روزگار براہ راست متاثر ہو رہا تھا۔ اس بار اس نے ایک انوکھا کام کرنے کا سوچا جو اس کی شہرت کو چار چاند لگا دیتا۔
چونکہ تیندوا دن دیہاڑے مویشی مار رہا تھا، سو اس کو شکار کرنا آسان ہوگا۔ اس طرح اس کی شکاری حس بیدار ہو گئی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ خود ہی تیندوے کو شکار کر کے پھر جلوس کی شکل میں اسے بنگلور کی سڑکوں پر پھرائے گا اور ساتھ نقارچی بھی ہوں گے۔ پھر وہ اس تیندوے کی لاش کے ساتھ اپنی تصویر کھینچوا کر اپنے پرانے گاہکوں کو دکھائے گا کہ اس نے خود تیندوا مارا ہے۔ جو شکاری اس سے بات کرنے کے روادار نہ تھے، یہ تصاویر ان کو بذریعہ خط بھیجنے کا سوچ چکا تھا۔
ہر تصویر کے پیچھے وہ ہاتھ سے لکھ دے گا کہ یہ تیندوا منو سوامی نامی شکاری نے فلاں جگہ اور فلاں روز ہلاک کیا کیونکہ اس کے ساتھ آئے ہوئے دیگر صاحبان اس کی مدد کے باوجود تیندوے کو مارنے میں ناکام رہے تھے۔
وہ جتنا اس بارے سوچتا، اتنا ہی خوش ہوتا جاتا۔ اس طرح سب لوگ سوچیں گے کہ منو سوامی واقعی سچا شکاری ہے اور اس کی ڈوبتی شہرت پھر سے بہتر ہو جائے گی۔
اپنی پرانی بندوق وہ عرصہ ہوا بیچ چکا تھا، سو اب اس نے منت سماجت کر کے کسی سے بارہ بور کی پرانی دو نالی بندوق لی۔ پھر اس نے متعلقہ مقام کا چکر لگایا اور دیہاتیوں کو بتایا کہ منو سوامی نامی مشہور شکاری جو وائسرائے اور جرنیلوں کو شکار پر لے جا چکا ہے، اب خود تیندوے کو ہلاک کرنے آیا ہوا ہے تاکہ ان کے مویشی بچ سکیں۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ مگادی کے دیہات میں مقیم رہے گا جو مگادی کی پہاڑی سے چار میل دور ہے۔ اس نے یہ بھی حکم دیا کہ تیندوے کے شکار کی خبر فوراً اس تک پہنچائی جائے۔
دو روز بعد خبر پہنچی کہ تیندوے نے گائے ماری ہے۔ اس کے پاس گولی والا ایک اور ایل جی کے تین کارتوس تھے جو بندوق کے ساتھ ہی اس نے ادھار مانگے تھے۔ انہیں لے کر منو سوامی جائے وقوعہ پر پہنچا اور مچان باندھ کر بیٹھا اور تیندوے پر گولی چلائی جو اس کے شانے کے اوپر لگی۔ اس نے ساتھ ہی دوسری نالی بھی چلائی جس میں ایل جی کے چھرے بھی تیندوے کو لگے مگر وہ فرار ہو گیا۔ بعد میں صورتحال کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا کہ اس کی عمر اتنی ڈھل گئی ہے کہ وہ تیندوے کے پیچھے نہ جائے تو بہتر ہے۔ ویسے بھی پروپیگنڈے سے حاصل ہونے والے فوائد کی نسبت زخمی تیندوے کا تعاقب زیادہ خطرناک تھا۔ سو اس نے شکار ختم کر کے بنگلور کا رخ کیا۔
کئی ہفتے گزر گئے اور پھر ہمیشہ کی طرح کہانی شروع ہو گئی۔ ایک تیندوے نے مگادی سے کلازپت جانےو الی سڑک کے کنارے آباد دیہاتوں کے باہر کتے اور بکریاں مارنا شروع کر دیں۔
دو مرتبہ چرواہوں نے بکریاں بچانے کی کوشش کی مگر تیندوے نے ان پر حملہ کر دیا۔
ایک بندہ اور ایک لڑکا اس طرح گھائل ہوئے۔
پھر ایک جھٹکا یعنی تانگے والا اور اس کا گھوڑا نمودار ہوتے ہیں۔ ایک رات کو میسور سے آنے والی ٹرین سے کلازپت کے ریلوے سٹیشن پر تین بندے اترے۔ اتنی رات گئے کوئی بس نہیں چلتی تھی، سو انہوں نے دس میل کا سفر طے کرنے کے لیے ایک جھٹکا یعنی تانگہ کرائے پر لیا۔ یہ گھوڑا گاڑی ہوتی ہے جس پر انسان بیٹھ سکتے ہیں اور اس کی چھت بھی ہوتی ہے۔ اسے چلانے والے گھوڑے کی نسل اسی مقصد کے لیے متعارف کرائی گئی ہے۔ جھٹکے کے گھوڑے ٹٹو کی طرح ہوتے ہیں مگر ان کی ایال اور دمیں نسبتاً چھوٹی ہوتی ہیں۔
جھٹکا اپنی منزل پر بخیر و عافیت پہنچ گیا اور مسافر اتر گئے۔
تانگے والے نے سوچا کہ وہ رات وہیں گزار کر اگلی صبح کلازپت جائے گا۔ اس نے گھوڑے سے زین وغیرہ اتاریں اور اس کے سامنے کچھ خشک گھاس ڈال کر خود پاس ہی سو گیا۔
گھوڑے نے گھاس ختم کی اور مزید گھاس کی تلاش میں گلی میں گھومنے لگا۔ اس طرح گھومتے گھامتے گھوڑا گاؤں کے باہر پہنچ گیا کہ چھوٹا سا گاؤں تھا۔
آخری جھونپڑے کے پیچھے سے ایک جانور نمودار ہوا اور جست لگا کر گھوڑے کے گلے پر حملہ آور ہو گیا۔ ہنہناتے ہوئے گھوڑا واپس بھاگا۔
تاہم یہ جانور اپنی گرفت برقرار نہ رکھ سکا اور گر گیا۔ مگر جاتے جاتے گھوڑے کی گردن پر گہرا زخم چھوڑتا گیا۔ یہ جانور تیندوا تھا۔
گھوڑے کی ہنہناہٹ اور تیندوے کی غراہٹوں کی آواز سے جھٹکے والا بیدار ہوا اور گھوڑے کو بھاگ کر آتے ہوئے دیکھا۔ گھوڑا خون میں نہایا ہوا اور دہشت سے کانپ رہا تھا۔ مالک نے فوراً شور مچا دیا۔
زخمی گھوڑا جھٹکے کے قابل نہ تھا، سو اس کا مالک اسے پیدل چلا کر کلازپت لے گیا اور وہاں پولیس میں رپورٹ کی۔ خبر جلد ہی پھیل گئی کہ تیندوا یہاں ہے اور عنقریب آدم خوری شروع کر دے گا۔
کچھ روز بعد مگادی سے دو میل دور ایک گاؤں کے پاس ایک بندے پر تیندوے نے حملہ کر کے اسے بری طرح گھائل کیا۔ پاس کھیتوں میں کام کرتے کسان اس کی مدد کو بھاگے اور اسے بچایا۔ مگر تیندوے نے اسے بری طرح بھنبھوڑا اور پنجوں سے نوچا۔ کسان اسے لے کر مگادی پہنچے جہاں ایک چھوٹا سا ہسپتال تھا۔ پولیس کو بھی اطلاع دی گئی اور مقامی دفعدار یعنی سارجنٹ اس پولیس چوکی کا سب سے بڑا ‘افسر‘ تھا جو جائے وقوعہ کے معائنے پر روانہ ہوا۔ اس کے ساتھ ایک سپاہی اور سائیکل بھی تھی۔
اسے سیدھا جائے وقوعہ پر لے جایا گیا۔ جتنی دیر وہ پگ اور خون کے نشانات دیکھتا اور یاداشتیں درج کرتا رہا، کسی نے اوپر دیکھا تو پتہ چلا کہ ایک چھوٹی پہاڑی کے ایک بڑے پتھر پر تیندوا بمشکل دو فرلانگ دور بیٹھا ہے۔ دفعدار نے دیکھا اور سپاہی کی سائیکل پر سوار ہو کر سیدھا دیہات پہنچا جہاں تین سرکاری رائفلیں موجود تھیں۔
ہر ممکن عجلت کے ساتھ وہ تھانے سے رائفل لے کر آیا، اتنی دیر میں اس کے ساتھیوں نے بتایا کہ تیندوا نیچے اتر کر غائب ہو گیا ہے۔ دیہاتیوں نے بتایا کہ اگر وہ چکر کاٹ کر جائے تو فاصلہ زیادہ نہیں اور شاید اسے دوسری جانب تیندوا جاتا ہوا دکھائی دے جائے۔
دفعدار بہادر اور شوقین تھا، سو اس نے ایک دیہاتی کو ساتھ لیا اور سیدھا چل پڑا۔ اس کے پاس تھری ناٹ تھری کی ایک گولی والی رائفل تھی۔ انڈیا میں پولیس کو فوجی تھری ناٹ تھری ہی دی جاتی ہے مگر اس میں سے میگزین نکال دیا جاتا ہے تاکہ اناڑی سپاہی گولیوں کی بوچھاڑ نہ کرنے لگیں۔ اس وجہ سے دفعدار نے رائفل میں ایک گولی بھری اور دو یا تین اس کی جیب میں اضافی موجود تھیں۔
جب وہ پہاڑی کی دوسری جانب پہنچے تو تیندوے کا کوئی نشان نہ دکھائی دیا۔ اس جگہ بہت سارے ٹول یعنی بڑے پتھر بکھرے ہوئے تھے۔ دیہاتی نے مشورہ دیا کہ اس پہاڑی سے تھوڑا سا نیچے اتر کر دیکھا جائے کہ تیندوا کہاں گیا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور اچانک دو بڑے ٹول کے درمیان سے تیندوا نکل آیا۔
دفعدار بوکھلا گیا اور رائفل پوری طرح اٹھائے بغیر ہی چلا دی۔ اگلے لمحے تیندوے نے اسے زمین پر گرایا اور اس کے سینے اور بازوؤں کو چبانا شروع کر دیا۔
اس کا ساتھی سیدھا نیچے کو بھاگا۔
چند لمحے بھنھوڑنے کے بعد تیندوا اسے چھوڑ کر واپس پتھروں میں گم ہو گیا کہ وہ ابھی تک آدم خور نہ بنا تھا۔ بری طرح زخمی ہونے کے بعد دفعدار وہیں پڑا رہا۔
اس دوران بھاگنے والے دیہاتی نے جا کر سپاہی اور دوسرے دیہاتی کو اطلاع دی تو سپاہی فٹا فٹ سائیکل چلاتا ہوا پولیس چوکی کو بھاگا تاکہ کمک لا سکے۔ وہاں جا کر اس نے بتایا کہ دفعدار شاید ہلاک ہو چکا ہے۔
باقی دو رائفلیں اور دو لاٹھیاں اٹھا کر چاروں سپاہی جائے وقوعہ کی جانب بھاگے اور ان کے ساتھ مزید دیہاتی جمع ہوتے گئے۔ جب یہ لوگ وہاں پہنچے تو ان کی تعداد دس سے بڑھ چکی تھی۔ شدید زخمی دفعدار کو اٹھا کر وہ لوکل فنڈ ہسپتال تک لائے۔ اگلے دن بذریعہ ایمبولینس اسے بنگلور کے وکٹوریہ ہسپتال بھیجا گیا۔
تیندوے کے مختلف حملوں کی تفاصیل پھیل چکی تھیں مگر جب ان کا اپنا ایک ساتھی تیندوے کے ہاتھوں زخمی ہوا تو پولیس نے تیزی دکھائی۔ جلد ہی انہیں پتہ چل گیا کہ اس ساری مصیبت کی جڑ کون ہے، اس مرحلے پر میرا پرانا دوست منو سوامی کہانی میں دوبارہ داخل ہوتا ہے۔
پولیس نے اسے گرفتار کر لیا۔ گواہ موجود تھے کہ اس نے مچان باندھ کر تیندوے کا شکار کرنے کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ تیندوا زخمی ہو چکا ہے۔ اب اس سارے کام کے لیے اس کے پاس بندوق ہونی چاہیے۔
کیا اس کے پاس بندوق ہے؟ کیا لائسنس بھی ہے؟ اگر لائسنس نہیں تو پھر غیر لائسنس یافتہ بندوق کہاں ہے؟ کیا اس نے ادھار مانگی تھی؟ کس سے؟ کب؟ کہاں؟ کیوں؟ کیا مالک کے پاس لائسنس ہے؟ اس نے کتنے کارتوس لیے تھے؟ بے شمار سوالات تھے۔ منو سوامی کا برا وقت آ گیا تھا۔
اس پر بے شمار الزامات لگ گئے، دفعدار اگر مر گیا تو اقدامِ قتل کی دفعہ بھی لگ جائے گی اور اتنے الزامات اس کو تاحیات جیل میں رکھنے کو کافی ہوں گے۔
منو سوامی نے اب پولیس کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی کوشش کی۔ اس نے پولیس سے وعدہ کیا کہ وہ چار روز میں تیندوے کو ہلاک کر کے اس کی لاش پولیس کے ضلعی افسر کے قدموں میں لا کر رکھ دے گا۔ اگر ناکام رہا تو پولیس جو چاہے، اس کے ساتھ سلوک روا رکھے۔ مگر کامیابی کی صورت میں تمام تر الزامات ختم ہو جائیں گے۔
ضلعی افسر کافی سمجھدار تھا۔ اسے منو سوامی کو سزا دلوانے سے زیادہ دلچسپی تیندوے کی ہلاکت میں تھی۔ ظاہر ہے کہ تیندوا کسی وقت بھی آدم خوری شروع کر سکتا تھا جبکہ منو سوامی سے ایسا کوئی خطرہ نہیں تھا۔
سو اس نے منو سوامی کو حوالات سے نکالا اور چار روز کی مہلت دی۔
اسی روز دوپہر کے وقت مجھے گھر کے باہر سے آوازیں آنے لگیں: ‘سار، سار‘۔ یہ منو سوامی تھا۔ دروازہ کھولتے ہی وہ دھاڑیں مار کر روتا ہوا میرے قدموں پر گرا اور ساری کتھا سنا ڈالی۔ منو سوامی نے مجھے ابھی تک یہ راز نہیں بتایا کہ وہ کہاں سے اتنے آنسو لاتا ہے۔
اس کے پاس کل چار روز تھے اور اس نے واضح کیا کہ اگر وہ ناکام رہا تو ‘بہت بڑی سزا‘ اس کی منتظر ہوگی۔ ہنس کر میں نے کہا کہ تم کہیں دور بھاگ جاؤ۔ اس نے بتایا کہ وہ اس بارے بھی سوچ چکا ہے مگر پورے انڈیا میں اتنے احمق شکاری اسے اور کہیں نہ ملتے اور نہ ہی ایسی جگہیں جہاں سرکاری طور پر دو روپے میں گدھا نیلامی سے مل جائے اور دیگر فوائد اس پر مستزاد۔ جتنی دیر وہ بولتا رہا، اس کے آنسو بہتے رہے۔ شاید کچھ اصلی آنسو بھی نکلے ہوں۔
اس نے سوال کیا کہ آیا میں اس کی مدد کو تیار ہوں، اس کی خاطر تیندوے کو ماروں گا؟ نہ صرف اس کی جان بچ جائے گی بلکہ دیگر بے گناہ لوگ بھی بچ جائیں گے۔
میں نے دیگر لوگوں کی جان بچانے کا سوچا مگر منو سوامی کو میں نے صاف بتا دیا کہ مجھے اس کے بچاؤ کی کوئی فکر نہیں۔ اسے برا نہ لگا۔
تاہم میں نے یہ بات واضح کی کہ کہ چونکہ سارا مسئلہ اس کا پیدا کردہ ہے، سو ایک شرط پر میں اس کی مدد کروں گا اگر تیندوے کی ہلاکت کے وقت وہ میرے ساتھ کھڑا رہے گا اور فرار نہیں ہوگا۔
اس نے مسکرا کر حامی بھری، اس کے آنسو اچانک غائب ہو گئے تھے۔
شام کو منو سوامی کے ساتھ میں ڈی ایس پی کے گھر گیا اور اسے ساری بات بتائی۔ میں نے اسے بتایا کہ اگر وہ واقعی سنجیدہ ہے تو پھر چار دن کی پابندی ہٹا دے کیونکہ میں منو سوامی کے ساتھ شکار پر نکل رہا ہوں۔ سو اگر پانچویں دن پولیس والے آ کر اسے لے گئے تو میرا کام ادھورا رہ جائے گا۔
پولیس والے نے واضح کیا کہ اس نے چار ہی روز کی مہلت دی ہے مگر میری سفارش پر وہ چار روز کی قید ہٹا دیتا ہے اور جتنے دن میں تیندوے کے پیچھے لگا رہوں، منو سوامی آزاد رہے گا۔ اس کے علاوہ اس نے مجھے ایک خط بھی دیا جس کی رو سے تمام پولیس والے میری مدد کو تیار ہوتے۔
ظاہر ہے کہ یہ سب باتیں منو سوامی کی عدم موجودگی میں ہوئیں۔ ورنہ وہ سست پڑ جاتا۔ تاہم اسے میں نے یہ بتایا کہ ڈی ایس پی کو افسوس ہو رہا تھا کہ اس نے چار روز کیوں دیے، سو اس نے مدت کم کر کے تین روز کر دی ہے، تاہم میں نے بروقت مداخلت کر کے اسے بچا لیا ہے۔
منو سوامی بڑا متاثر ہوا اور شکریہ ادا کرتے ہوئے اصرار کرنے لگا کہ ابھی سفر پر نکلیں۔ سٹڈ بیکر میں ہم لوگ اگلی صبح سویرے مگادی جا پہنچے اور وہاں پہاڑی کے دامن میں موجود کئی دیہاتوں سے معلومات جمع کرتے رہے۔ اس جگہ بھی گئے جہاں تیندوا منو سوامی کے ہاتھوں زخمی ہوا تھا۔ اس طرح معلومات لیتے ہوئے ہم آخرکار مگادی گاؤں جا پہنچے اور میں نے وہاں ان سپاہیوں سے بات کی جو دفعدار کو واپس لائے تھے۔ پھر ہم کار پر سوار ہو کر کلازپت روانہ ہوئے اور راستے سے معلومات جمع کیں۔ راستے میں وہ گاؤں بھی آیا جہاں گھوڑا زخمی ہوا تھا۔ آخرکار ہم کلازپت جا پہنچے اور وہاں میں سب انسپکٹر سے ملا اور اسے ڈی ایس پی کا خط دیا۔ اس نے جھٹکے والے کو بلوا بھیجا اور میں نے اس سے مزید سوالات کیے۔
ان سب باتوں میں شام ہو گئی اور ابھی تک تیندوے کے بارے کوئی معلومات نہ مل سکیں کہ وہ کہاں رہتا ہے یا اس کی مخصوص عادات کیا ہیں۔ ظاہر ہے کہ مجھے علم تھا کہ ہمیں کوئی جلدی نہیں مگر منو سوامی کو ایسے لگ رہا تھا کہ اس کی زندگی کے تین دن بچ گئے ہیں۔
ہم مگادی واپس لوٹے اور مسافر بنگلے میں رات گزاری۔
اگلی صبح ایک دبلا پتلا سا بندہ آیا اور بولا کہ وہ آس پاس کی پہاڑیوں سے شہد جمع کر کے گزربسر کرتا ہے اور اس کے علاوہ جڑی بوٹیاں ڈھونڈتا ہےاور موقع ملے تو خرگوش، تیتر اور بٹیر بھی پکڑتا ہے۔ اس نے بتایا کہ ایک رات قبل اسے ہماری آمد کا علم ہوا کہ ہم تیندوے کے بارے پوچھ گچھ کر رہے ہیں تو وہ ہمیں بتانے آیا ہے کہ وہ تیندوے کی رہائش گاہ تقریباً یقین سے جانتا ہے کہ وہ مگادی پہاڑی پر کس جگہ رہتا ہے۔
میں نے جرح کی کہ تمہیں کیسے پتہ چلا؟اس نے بتایا کہ چند ہفتے قبل وہ کچھ جڑی بوٹیاں جمع کر رہا تھا کہ اس نے خون کی لکیر دیکھی۔ اس نے پیچھا کیا تو دیکھا کہ یہ خون کے نشانات ایک تیندوے کے پگ کے ساتھ جا رہے تھے۔
اس نے مزید پیچھا نہ کیا کہ اسے علم تھا کہ ایک شام قبل کسی نے تیندوے کو زخمی کیا تھا۔ وہ بندہ منو سوامی تھا۔
اسے ایک غار کا علم تھا جس پر شہد کے کئی چھتے تھے اور وہ ان سے شہد نکالتا تھا۔ دو روز قبل وہ وہاں گیا تاکہ شہد کا جائزہ لے سکے۔ اسے دفعدار کے زخمی ہونے کے بارے کوئی علم نہیں تھا۔ ابھی وہ کچھ دور تھا کہ اسے تیندوے کے غرانے کی آواز آئی۔ ایک ہفتہ قبل کے خون کے نشانات اسے یاد آئے تو اس نے دوڑ لگا دی۔
یہ خبر واقعی اہم تھی۔
میں نے مزید سوالات شروع کیے اور وہ بندہ مجھے غار تک لے جانے پر آمادہ ہو گیا مگر کہا کہ کم از کم ایک فرلانگ تک خاردار جھاڑیوں کے نیچے رینگ کر جانا ہوگا۔
میں نے حامی بھری اور منو سوامی کو حکم دیا کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق ہمارے ساتھ چلنے کو تیار ہو جائے کیونکہ اسی نے تیندوے کو زخمی کیا تھا۔
اس نے ذرا بھی خوف نہ ظاہر کیا۔ پولیس نے اسے اتنا ڈرا دیا تھا کہ وہ تیندوے سے زیادہ پولیس سے خوفزدہ تھا۔
میں نے دن گرم ہونے کا انتظار کرتے ہوئے ناشتہ کیا۔ مقصد یہ تھا کہ دن کی گرمی کی وجہ سے تیندوا غار کے اندر آرام سے سو جائے۔ اگر زیادہ جلدی پہنچے تو ہماری آمد سے باخبر ہو کر تیندوا فرار ہو جاتا۔
ہم بنگلے سے دس بجے نکلے اور پندرہ منٹ سے بھی کم وقت میں ہم مطلوبہ وادی کے سامنے پہنچ گئے۔ میرے رہنما کا نام الی مٹھو تھا۔ اس نے بتایا کہ اب ہمیں کار یہیں چھوڑ دینی چاہیے۔ میں نے کار کو سڑک سے ہٹا کر ایک درخت کی چھاؤں میں کھڑا کیا اور ہم تینوں اتر گئے۔ میں نے رائفل کا بولٹ دیکھ لیا کہ صحیح کام کر رہا ہے۔ پھر ہم تینوں غار کی سمت چل پڑے۔
یہ پہاڑی سڑک سے دو میل دور ہے۔ ہم اس کے دامن می پہنچے اور وادی کو چل پڑے جو درختوں کی وجہ سے اب نظروں سے اوجھل ہو گئی تھی۔ تاہم دونوں پہاڑی چوٹیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ ایک گھنٹے کی سخت چڑھائی کے بعد ہم خاردار جھاڑیوں تک جا پہنچے۔ اسی جگہ ہمیں الی مٹھو نے اشارہ کر کے کچھ دور جھاڑیوں کے سوراخ کی جانب اشارہ کیا جہاں سے ہمیں رینگنا تھا۔
یقین کیجیے کہ ایک فرلانگ کا یہ فاصلہ انتہائی مشقت طلب تھا۔ پسینے سے شرابور ہم باہر نکلے اور جگہ جگہ کانٹوں سے لہو بہہ رہا تھا۔ الی مٹھو آگے تھا، میں اس کے پیچھے اور منو سوامی سب سے پیچھے۔ نکلنے تک ہمارے کپڑے بری طرح پھٹ چکے تھے۔
آخر ہم ان جھاڑیوں سے آگے بڑھے تو پہاڑیاں شروع ہو گئیں اور جگہ جگہ بڑے ٹول بکھرے ہوئے تھے اور گھاس بکثرت تھی جو کئی فٹ اونچی تھی۔ علی مٹھو نے بتایا کہ یہاں سے وادی کے تین چوتھائی حصے کے بعد بائیں جانب جانب وہ غار ہے جہاں تیندوا ہوگا۔ یہ جگہ ایسی تھی کہ چند قدم پر چھپا ہوا تیندوا نظر نہ آتا۔ درجنوں شیر بھی ہوتے تو بھی دکھائی نہ دیتے۔
یہاں سے میں آگے ہو گیا، میرے پیچھے الی مٹھو اور پھر منو سوامی تھا۔ میں نے جان بوجھ کر دائیں سمت سے بڑھنا شروع کیا تاکہ بائیں پہاڑی کے غار سے یا کمین گاہ سے تیندوا ہم پر حملہ کرتا تو دفاع کا موقع مل جاتا۔ ہم غار کے سامنے جا پہنچے۔ اس جگہ ایک چٹان اوپر سے غار پر جھکی ہوئی تھی۔ اس غار پر جگہ جگہ شہد کے خالی چھتے دکھائی دیے۔
باہر پڑے پتھروں اور گھاس کی وجہ سے غار کے اندر کا منظر نظروں سے اوجھل تھا۔ بہت سارے پتھر تو اوپر سے نیچے گرے تھے۔
پھر ہمیں آواز آئی۔ کوئی جانور غرا رہا تھا۔ الی مٹھو نے میرا بازو پکڑا مگر میں نے یہ آواز پہلے سن لی تھی۔
یہ آواز تیندوے کی بھی ہو سکتی تھی اور ریچھ کی بھی۔
میں نے رک کر غور کیا۔ دو کام ہو سکتے تھے۔ یہ آواز ہمارے سامنے یا تو غار سے آئی تھی یا اس کے پاس کسی اور جگہ سے۔ میں یا تو غار میں پتھر پھینکتا یا پھر سیدھا آگے بڑھتا۔ تاہم مجھے پیش قدمی مناسب نہ لگی کہ درندہ اوپر تھا اور نیچے کی طرف بھاگتے ہوئے اس کی رفتار بہت بڑھ جاتی۔ اگر میں اسے گھاس اور پتھروں کی وجہ سے آتا نہ دیکھ پاتا یا گولی خطا جاتی تو مہلک صورتحال بن جاتی۔
سو میں نے الی مٹھو کو سرگوشی کی کہ وہ اور منو سوامی اس جانب پتھر پھینکیں۔
کچھ نہ ہوا۔
بھری ہوئی رائفل کو اٹھائے ہوئے میں کسی بھی جنبش کو دیکھنے کا منتظر رہا۔
میرے ساتھیوں نے مزید پتھر پھینکے، مگر کچھ نہ ہوا۔
پھر مجھے دائیں جانب لمبی گھاس میں ہلکی سی حرکت دکھائی دی۔ یہ گھاس غار تک پھیلی ہوئی تھی اور اس کے کنارے سے شروع ہو رہی تھی۔
ہوا سے بھی یہ جنبش ہو سکتی تھی اور کوئی جانور بھی ہو سکتا تھا۔ تاہم یہ بات پکی تھی کہ یہ جانور ریچھ نہیں ہو سکتا۔ جنوبی انڈیا میں پایا جانے والا ریچھ کالے رنگ کا ہوتا ہے اور بھوری گھاس میں کالا ریچھ صاف دکھائی دے جاتا۔ نہ ہی ریچھ اس طرح دبک کر حرکت کر سکتا ہے کہ کافی سادہ لوح جانور ہوتا ہے اور یا تو سیدھا حملہ کرتا ہے یا پھر بھاگ جاتا ہے۔
میں نے خوب غور کیا تو مجھے کچھ چتکبرا سا دکھائی دیا جو غار کے اوپر والی چٹان پر پہنچ گیا۔
یہ جانور اب رک کر ہمیں دیکھنے لگا مگر اس کا منہ یا سر دکھائی نہیں دیا۔ چند سیکنڈ میں یہ جانور غائب ہو جاتا۔
میں نے اس جانور کا نشانہ لیا اور آہستہ سے گولی چلا دی۔
تیندوا سیدھا ہوا میں اچھلا اور دوہرا ہو کر نیچے گرا اور قلابازیاں کھاتا ہوا ڈھلوان میں پہنچ کر گھاس میں غائب ہو گیا۔ میں ایک بڑے پتھر پر چڑھا مگر کچھ دکھائی نہ دیا۔
دس منٹ انتظار کے بعد الی مٹھو اور منو سوامی کو چھپنے کا اشارہ کر کے میں آگے بڑھا۔ ایک پتھر سے دوسرے پر جست کرتے ہوئے میں نے تلاش جاری رکھی۔
تاہم یہ ساری احتیاط بیکار ثابت ہوئی کہ تیندوا مر چکا تھا۔ میری گولی اس کی گُدی سے ہو کر کھوپڑی میں پیوست ہو گئی۔
معائنے سے پتہ چلا کہ منو سوامی کی گولی اس کی کمر پر لگی اور شانوں سے بچ کر گزری۔ نتیجتاً گولی کا سوراخ کافی بڑا اور کیڑوں سے بھرا ہوا تھا۔
اس کی کھال میں ایل جی کے دو چھرے بھی پیوست تھے مگر وہ زخم بھر رہے تھے۔ تاہم گولی والا زخم مہلک ثابت ہوتا۔ یہ اوسط جسامت کا تیندوا تھا جس کی لمبائی سات فٹ سے ذرا کم تھی۔
اب تیندوے کی لاش کو خاردار جھاڑیوں کے نیچے سے نکالنا بہت مشکل کام تھا مگر ہم نے کر کے ہی دم لیا۔
شام کو تیندوے کی لاش ڈی ایس پی کے قدموں میں رکھ دی گئی۔
ڈی ایس پی کے ساتھ میری ملاقات کو ابھی دو روز بھی نہیں ہوئے تھے کہ ہم نے تیندوے کی لاش لا کر رکھ دی۔ وہ بہت خوش ہوا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
4۔ سیوانی پلی کا سیاہ چیتا
سیوانی پلی ہمیشہ سے میرا پسندیدہ مقام رہا ہے کہ یہ بنگلور سے قریب بھی ہے اور یہاں بہ آسانی آپ اختتامِ ہفتہ پر آ سکتے ہیں اور چاہیں تو چاندنی رات کو چند گھنٹے ہی گزارنا کافی رہتا ہے۔ اس کے لیے بنگلور سے کار پر آپ ڈینکانی کوٹہ پہنچیں جو کل اکتالیس میل بنتا ہے۔ یہاں سے مزید چار میل کا سفر کار پر طے ہو سکتا ہے اور پھر کار کو چھوڑ کر آپ پانچ میل کے پیدل سفر پر جائیں گے اور سیوانی پلی آ جائے گا۔ یہ وادی محفوظ جنگل کے سرے پر واقع ہے۔
اس وادی سے تین میل مغرب کی سمت تین سو فٹ گہری ڈھلوان شروع ہوتی ہے جو ندی پر جا کر ختم ہوتی ہے۔ اس وادی کے جنوب میں ایک اور ندی سرحد کا کام دیتی ہے۔ یہ ندی مشرق سے مغرب کو بہتی ہے اور نیچے اترتی ہوئی پہلی ندی سے جا ملتی ہے۔ سیوانی پلی کے مشرق میں جنگل کے سرے پر فارسٹ لاج ہے جسے گلہٹی بنگلا کہا جاتا ہے۔ یہ بنگلا پہاڑی پر پانچ سو فٹ کی بلندی پر بنا ہے۔ گلہٹی کے مشرق میں ساڑھے چار میل کی سیدھ پر ایک اور فارسٹ بنگلا ہے جو آئیور کہلاتا ہے۔ مزید چار میل شمال مشرق کی سمت محکمہ جنگلات کا ایک اور چھجا موجود ہے جو کچوادی کہلاتا ہے۔ یہ سارا علاقہ صندل کے درختوں سے بھرا ہوا ہے اور اس چھجے میں ایک زمانہ قدیم کا ترازو موجود ہے جو جنگل سے باہر جانے والی صندل کی لکڑی کا وزن کرتا ہے اور پھر یہ لکڑی ڈینکانی کوٹہ میں محکمہ جنگلات کے گودام کو بھیجی جاتی ہے۔
سیوانی پلی کے شمال میں جھاڑیوں پر مشتمل جنگل ہے جو پانچ میل دور سڑک سے بھی آگے تک پھیلا ہوا ہے۔
سیوانی پلی بذاتِ خود پانچ چھ جھگیوں پر مشتمل ہے اور اسے دیہات بھی نہیں کہا جا سکتا۔ سالیورم کا دیہات اس کے شمال میں تین میل دور ہے۔
سیوانی پلی کے چار اطراف میں محکمہ جنگلات کی فائر لائن ہیں جو محفوظ جنگل اور سیوانی پلی کی حد بندی کرتی ہیں اور یہاں سے نصف سے ایک میل دور گزرتی ہیں۔ جنوب مشرقی کنارے پر جہاں دو فائر لائنیں ملتی ہیں، ایک تالاب ہے۔ اس کی مغربی سمت بہنے والی ندیاں جو آبشار سے ہوتی ہوئی گزرتی ہیں، گھنے جنگل میں سے بہتی ہوئی ایک اور بڑے دیہات کو جاتی ہیں جو انچتی کہلاتا ہے۔ یہ گاؤں سیوانی پلی سے آٹھ میل دور جنوب مغرب کی سمت واقع ہے۔
میں نے جان بوجھ کر اس علاقے کی تفصیل بیان کی ہے تاکہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ میں جو واقعات بیان کرنے لگا ہوں، وہ کہاں پیش آئے۔
یہ علاقہ تیندوے کے لیے جنت ہے کہ یہاں ہر سمت چھوٹی پتھریلی پہاڑیاں ہر سمت موجود ہیں، جھاڑیوں کا جنگل، گھنا جنگل اور دو ندیاں اور ایک تالاب کہ جن سے نہ صرف تیندوے کو پانی ملتا ہے بلکہ اس کا شکار بھی یہاں بکثرت ہوتا ہے۔ پانی کی کثرت اور سارا سال دستیابی کی وجہ سے یہاں مویشیوں کا بڑا ریوڑ پالا جاتا ہے جو تیندوؤں کے لیے اضافی کشش ہے۔ سو کئی تیندوے یہاں مستقل رہتے ہیں۔ پہلی بار جب میں 1929 میں سیوانی پلی آیا تو بڑی وجہ یہی تیندوے تھے۔
یہاں تالاب کے کنارے بانس کا جنگل ہے اور جنوبی اور مغربی سمت میں گھنا جنگل ہو جاتا ہے جبکہ مشرق اور شمال کی جانب نسبتاً چھدرا اور صندل کے درختوں کا ہے۔
یہ علاقہ انتہائی خوبصورت ہے اور بہترین نظارے ہر طرف دیکھنے کو ملتے ہیں کہ پہاڑیاں ہلکی دھند میں جب نیلے آسمان کے سامنے دکھائی دیتی ہیں تو بہت خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔ علی الصبح جنگل سے اٹھنے والا کہرا ان پہاڑیوں کا نچلا حصہ چھپا دیتا ہے اور چوٹیاں ایسے لگتی ہیں جیسے اون کے سمندر میں جزیرے ہوں۔ مطلع ابر آلود ہو تو ان پہاڑیوں کی چوٹیاں بادلوں میں چھپ جاتی ہیں جس سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے مسطح علاقہ ہو۔
میں نے سیوانی پلی کے اردگرد جنگلات میں بے شمار چاندنی راتیں گھومتے ہوئے گزاری ہیں۔ یہاں بھینسے کو چھوڑ کر ہر قسم کے جانور معقول تعداد میں پائے جاتے ہیں۔
یہاں ہمیشہ ہاتھی دکھائی دیتے ہیں اور شیر کی دھاڑ بھی سنائی دیتی ہے اور تیندوے کی آواز بھی اور آپ کو آتے ہوئے محسوس کر کے جب سانبھر بھاگتا ہے تو وہ آوازیں بھی عام سنائی دیتی ہیں۔ اگرچہ آپ کو صرف ہاتھی ہی دکھائی دے گا کہ شیر، تیندوے اور سانبھر بہت محتاط رہتے ہیں اور آپ کی آمد کو دور سے محسوس کر کے غائب ہو جاتے ہیں۔
کہیں آپ کو دیمک کے بل یا مختلف جڑوں کو کھود کر نکالتا ہوا ریچھ بھی مل سکتا ہے جو کافی شور مچا رہا ہوگا۔ اسے دیکھنے سے بہت پہلے اس کی آواز سے آپ کو پتہ چل جائے گا کہ ریچھ مصروف ہے اور چاندنی رات میں عجیب دکھائی دیتا ہے۔
1934 میں سیوانی پلی میں ایک عجیب اتفاق پیش آیا۔ ایک چرواہے نے شام کو اپنے مویشیوں کے ساتھ واپس آتے ہوئے تالاب سے ایک سیاہ تیندوے کو پانی پیتے دیکھا۔ وقت شام پانچ بجے کا تھا جب مویشی عام طور پر گاؤں واپس لوٹتے ہیں۔ مویشی صبح 9 بجے کے بعد چرنے کو بھیجے جاتے ہیں اور واپس جلدی لائے جاتے ہیں تاکہ دو مرتبہ دودھ نکالا جا سکے۔
سو پانج بجے تھے کہ چرواہے نے تیندوے کو جھاڑی کے ساتھ کھڑے سکون سے پانی پیتے دیکھا۔ وہ بندہ قسم اٹھا کر کہتا ہے کہ اس تیندوے کا رنگ سیاہ کالا تھا اور مجھے کوئی وجہ نہیں ملتی کہ اس کی بات پر یقین نہ کروں۔
جب ریوڑ قریب پہنچا تو تیندوے نے انہیں دیکھا مگر جب چرواہا سامنے آیا تو تیندوا فرار ہو گیا۔
اب یہ بات واضح کرتا چلوں کہ سیاہ رنگ کا تیندوا کوئی الگ نسل نہیں بلکہ ایک تغیر ہے۔ ایک ہی مادہ تیندوے کے ہاں جب بچے پیدا ہوتے ہیں تو بسا اوقات ایک بچہ سیاہ رنگ کا نکل آتا ہے جبکہ باقی عام ہوتے ہیں۔ سیوانی پلی کی بجائے کالے تیندوے عموماً ملایا، برما، آسام اور دیگر علاقوں کے گھنے جنگلات میں زیادہ ملتے ہیں۔ سیاہ تیندوے کبھی کبھار انڈیا کے مغربی گھاٹ میں بھی دیکھے اور شکار کیے گئے ہیں۔
میں یہی سمجھتا ہوں کہ گھنے اور سدابہار جنگلات میں سیاہ رنگ چھپنے کے لیے بہتر ہے۔ تاہم یہ تغیر غیر معمولی نہیں اور جہاں جہاں تیندوے پائے جاتے ہیں، یہ چیز ممکن ہے، چاہے جنگلات جیسے بھی ہوں۔ تاہم میرے تجربے میں ایسا نہیں ہوا کہ ایک بار میں نے پناگرام سے متور جاتے ہوئے گھاٹ کے درمیانی جنگل میں شام چھ بجے ایک سیاہ تیندوے کو سڑک عبور کرتے دیکھا ہے۔ یہ جگہ دریائے کاویری کے پاس ہے۔ یہ جنگل کے ان سربستہ اسراروں میں سے ایک ہے جو ابھی تک پوری طرح حل نہیں ہو پائے۔
اگر آپ چڑیا گھر میں سیاہ تیندوے کو قریب سے دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ اس کے پھول کالے بالوں کے نیچے اور غیر واضح دکھائی دیتے ہیں۔
خیر، جب چرواہے نے کالے تیندوے کو دیکھا تو اس نے فوراً گاؤں پہنچ کر سب کو بتا دیا۔ چونکہ اس علاقے میں پہلے کبھی سیاہ تیندوا نہیں دکھائی دیا، سو لوگوں نے اس کی بات پر یقین نہیں کیا۔ تاہم چرواہا سیاہ تیندوا اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا، سو اس نے سوچا کہ یہ شاید تیندوا نہ ہو بلکہ شیطان ہوگا جو جنگل میں اس جیسے غریبوں کو ڈرانے کے لیے کسی بھی شکل میں ظاہر ہو جاتا ہے۔
چند ہفتے گزر گئے اور کسی نے سیاہ تیندوا نہیں دیکھا۔ لوگ چرواہے کی کہانی بھول گئے۔
چند ماہ بعد ایک روز دوپہر کو کافی گرمی تھی اور دو چرواہے اور ان کے مویشی سائے میں آرام کر رہے تھے۔ جانور دو دو چار چار جمع ہو کر بیٹھے یا لیٹے تھے۔ دونوں چرواہوں نے کچھ دیر قبل راگی اور سالن سے پیٹ بھرا تھا اور اب سے ایک درخت تلے سکون سے سو رہے تھے۔
پرسکون منظر تھا کہ گرمی شدید تھی اور زمین سے جیسے آگ کے لپٹے نکل رہے ہوں۔ مویشی سکون سے تھے کہ سیاہ تیندوے نے پہلا حملہ کیا۔
غیر متوقع طور پر تیندوے نے ایک نیم جوان سفید اور بھورے رنگ والی گائے کے گلے پر اپنے دانت جما دیے۔ تاہم اس سے قبل گائے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے اور شور کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ تیندوا بھی اس کے ساتھ ہی زمین سے اٹھ گیا کہ اس کے دانت گلے میں پیوست تھے۔
گائے کی تکلیف بھری آوازوں سے ایک چرواہا جاگا اور ششدر رہ گیا۔ اس نے اپنے ساتھی کو جگایا تاکہ وہ بھی اپنی آنکھوں سے مجسم شیطان کو دیکھ لے۔ انہوں نے خوف سے بت بنے ہوئے گائے کو ہلاک ہوتے دیکھا۔ سیاہ تیندوے نے اپنی گرفت ڈھیلی نہیں کی۔ گائے مر گئی۔ پھر یہ اٹھے۔
عام حالات میں جب تیندوا حملہ کرتا تو یہ لوگ اس کی مدد کو بھاگتے اور لاٹھیاں وغیرہ ہلاتے اور اگر شور کرتے ہوئے یہ لوگ جانور کو بچا نہ پاتے تو بھی تیندوے کو بھگا ضرور دیتے۔
تاہم اس بار دونوں کی ہمت نہ ہوئ۔ اپنی جگہ رکے ہوئے انہوں نے دہشت سے یہ منظر دیکھا۔ ابھی وہ دیکھ ہی رہے تھے کہ تیندوے نے گرفت ڈھیلی کی اور ان کی سمت دیکھا۔ اگرچہ وہ لوگ پچاس گز دور تھے مگر پھر بھی انہیں گائے کی ادھڑے ہوئے نرخرے سے لال رنگ کا لہو بہتا صاف دکھائی دے رہا تھا اور یہ خون تیندوے کے منہ اور ناک پر لگا ہوا تھا اور تیندوے کے سیاہ رنگ پر خوب چمک رہا تھا۔
انہوں نے مڑ کر گاؤں کی طرف دوڑ لگا دی۔
جب سیوانی پلی کے لوگوں نے یہ خبر سنی تو وہ گائے کی لاش لانے کو تیار نہ ہوئے۔ عام حالات میں تیندوا جب کوئی جانور مارتا تو وہ فوراً جا کر جانور کو گھسیٹ لاتے۔ مگر سیاہ تیندوے کی موجودگی ان کے اوسان خطا کرنے کو کافی تھی۔ انہیں پہلے ہی تالاب پر دیکھے جانے والے سیاہ تیندوے کے بارے پتہ چل چکا تھا مگر انہیں علم تھا کہ دیہاتی گپیں مارتے رہتے ہیں۔ مگر اس بار دو چرواہے تھے جو وہی بات کر رہے تھے۔ کیا واقعی ایسا ہوا ہوگا؟ اس روز سے سیاہ تیندوے نے سیوانی پلی سے خراچ وصول کرنا شروع کر دیا۔ بہت مرتبہ اسے حملہ کرتے دیکھا گیا اور سب کو یقین آ گیا کہ تیندوا واقعی سیاہ ہے اور حقیقی بھی۔
جب مسلسل حملوں اور مویشیوں کی ہلاکت سے لوگوں کو تیندوے کی موجودگی اور حرکات کا یقین ہو چلا تو ان کا اعتقاد کچھ ٹوٹا اور وہ محتاط سے محتاط تر ہوتے گئے۔ آخرکار ایک وقت ایسا آیا کہ مویشی گاؤں سے چوتھائی میل سے دور نہ بھیجے جاتے۔
جب خوراک کی کمی ہوئی تو سیاہ تیندوے نے حملوں کا دائرہ وسیع تر کر دیا۔ اب وہ جنوب مغرب میں انچتی سے لے کر مشرق میں گلہٹی اور آئیور تک شکار کرنے لگا۔ ایک بار وہ سلیورم سے ایک بڑا گدھا بھی مار کر لے گیا۔ یہ مقام سیوانی پلی سے شمال میں اور محفوظ جنگل سے باہر واقع ہے۔
انہی دنوں اتفاق سے میں سیوانی پلی اپنے دوست کے ہمراہ آیا ہوا تھا۔ اتوار کے روز ہم لوگ دوپہر کے کھانے کی نیت سے گئے تھے اور سوچا تھا کہ دوپہر کو جنگل میں پھرتے ہوئے مور یا ہریل وغیرہ کھانے کے لیے شکار کر لیں گے۔ سیاہ تیندوے کی حرکات سے مجھے کافی دلچسپی ہوئی۔ چونکہ میں نے اس سے قبل محض ایک بار ہی سیاہ تیندوا چڑیا گھر کے باہر دیکھا تھا، سو میں نے سوچا کہ اسے شکار کرنا چاہیے۔
میں نے دیہاتیوں سے کہا کہ اگر وہ تیندوے کے اگلے شکار کو وہیں چھوڑ کر مجھے مطلع کریں تو میں اس جانور کی قیمت دوں گا۔ تاہم اس کے لیے انہیں بذریعہ بس ہسور جانا پڑتا کہ نزدیک ترین تار گھر وہیں تھا۔ وہاں سے وہ مجھے بنگلور تار بھجوا دیتے۔ میں نے انہیں یہ بھی ہدایت کی کہ آس پاس کے تمام دیہاتوں میں بھی یہ اطلاع پہنچا دیں۔ اس کے علاوہ میں نے کہا کہ جو بندہ میری ہدایات پر پورا عمل کرے گا، اسے پچاس روپے کا انعام بھی دوں گا۔
مجھے توقع تھی کہ چند روز میں اطلاع آ جائے گی، سو میں نے اپنی چارپائی مچان اور دیگر سامان تیار رکھا کہ تار ملتے ہی فوراً روانہ ہو جاؤں گا۔ تاہم دو ہفتے بعد پہلی اطلاع آئی اور کافی دیر سے ملی۔ شام چار بج رہے تھے جب تار پہنچا۔ سوا چار بجے میں روانہ ہو گیا تھا مگر سوا سات بجے سیوانی پلی پہنچا تو تاریکی چھا چکی تھی۔
میں نے یہ دیکھا تھا کہ تار ایک روز قبل ہسور سے دن کو ڈیڑھ بجے بھیجا گیا تھا۔ بھیجنے والے نے اسے عام تار کے طور پر بھیجا تھا حالانکہ میں نے انہیں کہا بھی تھا کہ ایکسپریس بھیجنا ہے۔ سو ایک دن اضافی لگ گیا تھا۔
سیوانی پلی میں رنگا سوامی نامی ایک بندہ رہتا ہے جو پہلے بھی دو تین مواقع پر شکار میں میری مدد کر چکا تھا اور اس بار اسی نے یہ تار بھیجا تھا کہ صبح کو دس بجے تیندوے نے ایک گائے ہلاک کی تھی۔ چرواہے کو میری پیشکش کی خبر مل چکی تھی، سو اس نے عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گائے کی لاش کو چھوؤا تک نہیں اور سیدھا رنگا سوامی کے پاس پہنچا جو مجھے تار دینے کے لیے سوا بارہ بجے والی بس پر سوار ہوا۔ اس طرح وہ ایک بجے تار گھر پہنچ گیا۔
رنگا سوامی اور چرواہے کو شاباش دینے کے بعد میں نے سوچا کہ اب کیا کروں؟ ٹارچ کی مدد سے تیندوے کے شکار پر نکلوں یا انتظار کروں کہ اگلے روز شام کو مچان باندھ کر تیندوے پر بیٹھوں۔ ظاہر ہے کہ رات کے اندھیرے میں مجھے علم نہ ہوتا کہ تیندوا کہاں ہوگا مگر اگلے چوبیس گھنٹے نکما بیٹھنا بھی مجھے پسند نہ آیا۔
میں نے پوچھا تو پتہ چلا کہ گاؤں سے مغرب کی سمت بمشکل نصف میل دور جہاں زمین ندی کی طرف ڈھلوان ہونا شروع ہوتی ہے، وہاں گائے ماری گئی ہے۔ سو میں نے رنگا سوامی اور چرواہے سے کہا کہ میں اس تیندوے کو آج ہی شکار کروں گا۔ بس وہ مجھے اس جگہ سے چوتھائی میل قریب لے جا کر سمت بتا دیں۔
مجھے یقین تھا کہ میری حسیں مجھے مایوس نہیں کریں گی۔
دونوں کا خیال تھا کہ اگلے روز شام تک انتظار کروں، مگر میرا فیصلہ اٹل تھا۔
جب یہ گفتگو ختم ہوئی تو آٹھ بجنے میں دس منٹ رہتے تھے۔ سو وقت ضائع کرنا مناسب نہ تھا کیونکہ عین ممکن ہے کہ تیندوا ابھی پیٹ بھر رہا ہو۔ اپنی تین سیل والی ٹارچ رائفل پر لگا کر تین اضافی سیل جیب میں ڈالے اور پانچ گولیاں بھی اٹھا لیں۔ ٹارچ پر سیاہ رنگ تھا تاکہ رات کے اندھیرے میں بلاوجہ نہ چمکے۔
میں نے چار کارتوس بھرے جن میں سے تین میگزین میں اور ایک نالی میں تھا۔ اگرچہ اعشاریہ 405 بور کی ونچسٹر کے میگزین میں چار گولیاں آتی ہیں اور پانچویں نالی میں، میں ہمیشہ اسے جام ہونے سے بچانے کے لیے ایک گولی کم بھرتا ہوں۔ جب عجلت میں گولی بھری جائے تو جام ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ پھر میں نے اپنے بوٹ اتار کر ہلکے ربر کے جوتے پہنے۔ ان جوتوں کی وجہ سے خاموشی سے چلنا آسان ہو جاتا ہے۔ میں خاکی قمیض اتار کر میں نے کالی قمیض پہنی جو مچان پر بیٹھتے وقت عموماً پہنتا ہوں۔
رنگا سوامی اور چرواہا میرے ساتھ ایک خشک نالے تک آئے۔ پھر چرواہے نے بتایا کہ یہ نالا تقریباً سیدھا مغرب کو جاتا ہے اور دوسرے موڑ کے بعد وہ مقام آئے گا جہاں تیندوے نے گائے ماری تھی۔ اس نے بتایا کہ تیندوا گائے مارنے کے بعد اسے گھیسٹ کر دو سو گز دور جنگل میں لے گیا تھا اور یہ مقام دوسرے موڑ کے شمال میں تھا۔
ان کی ہدایات واضح تھیں اور میں خوش ہوا کہ نالے کے موڑ مددگار ثابت ہوئے۔ ان لوگوں کو واپس جانے کا کہہ کر میں چل پڑا۔ واپسی کا راستہ دیکھا بھالا تھا۔
میں نے سوچا کہ نالے کے کنارے جھاڑ جھنکار ہوگا، سو خاموشی سے چلنے کے لیے نالے کی تہہ بہتر رہے گی۔ اس طرح چلتے ہوئے اگر کوئی آواز پیدا بھی ہوتی تو تیندوے کو خبر نہ ہوتی۔
دوسرا یہ بھی کہ ندی کے اندر چلتے ہوئے مجھے راستہ دیکھنے کے لیے ٹارچ کی ضرورت نہ پڑتی جبکہ کنارے پر چلتے ہوئے جھاڑ جھنکار کی وجہ سے مسلسل ٹارچ کی ضرورت رہتی کہ رات تاریک تھی اور آسمان پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے۔
سو میں بڑے محتاط انداز میں چلنا شروع ہوا اور جلد ہی محسوس کیا کہ نالہ جنوب مغربی سمت میں مڑ رہا تھا۔ تھوڑی دور جا کر نالہ پھر مغرب کی سمت مڑا اور پھر دوبارہ سیدھا ہو کر مغرب کی سمت جانے لگا۔ سو چرواہے کے بیان کے مطابق پہلا موڑ عبور کر لیا تھا۔
جلد ہی دوسرا موڑ آ گیا مگر یہ موڑ شمال کی سمت تھا۔ میں ہر ممکن احتیاط سے آگے بڑھتا رہا۔ اگرچہ مجھے دی گئی معلومات سے معلوم تھا کہ گائے کی لاش ابھی تین سو گز دور ہوگی مگر مجھے یہ بھی علم تھا کہ تیندوے کی سماعت بہت قوی ہوتی ہے اور اگر وہ کہیں آس پاس ہوا تو میری آمد کو محسوس کر کے بھاگ جائے گا۔
خوش قسمتی سے نالے میں پتھر وغیرہ نہ ہونے کے برابر تھے سو میں اس کے ایک کنارے کے پاس سے چلتا رہا۔ تھوڑا آگے جا کر شمال کی سمت والا موڑ پورا ہوا اور پھر جنوب کو مڑا۔ چند گز دور جا کر پھر نالہ سیدھا اور مغرب کی سمت چلنا شروع ہو گیا۔
میں رک گیا۔ اب میں اس جگہ تھا جہاں تیندوے نے گائے ہلاک کی تھی اور پھر یہاں سے لاش کو دو سو گز شمال کو لے گیا تھا۔ سو اب مجھے اس نالے سے نکل کر لاش اور تیندوے کو تلاش کرنا تھا جس کے بارے مجھے توقع تھی کہ وہ اب گائے کی لاش سے پیٹ بھر رہا ہوگا۔ اس گھپ اندھیرے میں محض اپنی سماعت سے کام لینا تھا۔
پنجوں کے بل چلتے ہوئے میں شمالی کنارے کو پہنچا جو سینے تک اونچا تھا۔ نالے کی تہہ میں کھڑے کھڑے میں نے رائفل کو کنارے پر رکھا اور بازو سینے پر باندھتے ہوئے آگے کو جھک کر غور سے سننے کی کوشش کی۔
پانچ منٹ گزر گئے مگر کوئی آواز نہ آئی۔ شاید لاش اتنی دور ہوگی کہ اگر تیندوا پہنچ کر پیٹ بھر رہا ہوگا تو بھی مجھے سنائی نہ دیا ہوگا۔
ہاتھوں کے سہارے میں خود کو کنارے پر اٹھایا اور اس دوران کوئی آواز نہ نکالی۔ پھر میں نے رائفل اٹھائی اور آہستگی سے چلنا شروع کیا۔
تاریکی گہری تھی۔ تاہم مجھے تیندوے سے خوف نہیں تھا کہ ابھی تک نہ تو وہ آدم خور بنا تھا اور نہ ہی انسانوں پر حملے کا سوچا تھا۔ پھر بھی چونکہ یہ میری کسی سیاہ تیندوے کے ساتھ پہلی مڈبھیڑ تھی اور ان کے اشتعال کی بہت ساری داستانیں سن چکا تھا، سو ظاہر ہے کہ میں کچھ پریشان تو تھا۔
قدم بقدم آگے بڑھتے ہوئے میں ہر چند قدم پر رک کر تیندوے کے کھانے کی آوازیں سننے کی کوشش کرتا رہا۔ یہی آوازیں میری رہنمائی کرتیں کیونکہ ٹارچ میں تب استعمال کرتا جب اتنا قریب پہنچ جاتا کہ گولی چلانے کا وقت آ جاتا۔ تاہم دور سے اگر تیندوے کو روشنی دکھائی دے جاتی تو وہ فرار ہو جاتا۔
اسی طرح آگے بڑھتے ہوئے مجھے کافی وقت لگا۔ ابھی میں پچہتر گز آگے بڑھا ہوں گا کہ ایک بار مجھے رک کر سنتے ہوئے ایسا محسوس ہوا جیسے بہت مدہم سے آواز سنائی دی ہو جو سامنے مگر تھوڑا سا دائیں جانب سے آئی ہو۔ میں نے کچھ دیر انتظار کیا مگر آواز دوبارہ نہ آئی۔
اب میرے اردگرد درخت اور جھاڑیاں کافی گھنی تھیں اور میرا جسم ان سے گزرتے ہوئے کچھ نہ کچھ آواز کر رہا تھا حالانکہ میں پوری طرح محتاط چلنے کی کوشش میں تھا۔ سو ہر قدم اٹھا کر زمین کی سطح کے ساتھ ساتھ ہی بڑھاتے ہوئے نیچے رکھتا۔ تاہم ہر ممکن احتیاط کے باوجود کچھ نہ کچھ آواز ہوتی رہی۔ میرا مقصد آوازوں کو ختم کرنا نہیں بلکہ اس طرح چھپانا تھا کہ تیندوا انہیں سن کر بھی نہ پہچان سکے۔ اس طرح سے پیدا ہونے والی آواز سرسراہٹ سے مشابہہ ہوتی اور تیندوا سمجھتا کہ کوئی چھوٹا جانور حرکت کر رہا ہے۔ عام قدموں کی آواز سے صاف پتہ چل جاتا کہ انسان آ رہا ہے۔ اچانک میرے ذہن میں ایک ڈراؤنا خیال آیا کہ اگر میں نے اندھیرے میں کسی زہریلے سانپ پر پیر رکھ دیا تو کیا ہوگا؟ میرے ربر کے جوتے ٹخنے سے نیچے محفوظ تھے۔ تاہم میں نے اس خیال کو جھٹک کر پیش قدمی جاری رکھی۔ پھر سامنے جھاڑیاں آ گئیں تو میرا رخ کچھ بدل گیا۔
وقفے وقفے سے رک کر میں آواز سننے کی کوشش کرتا رہا مگر پھر آواز نہ آئی۔ کچھ وقت گزرنے پر مجھے احساس ہوا کہ میں دو سو گز سے کہیں زیادہ فاصلے طے کر چکا ہوں اور راستہ بھی بھٹک گیا ہوں۔ سمتوں کا تعین ممکن نہ رہا اور آسمان بادلوں سے بھرا ہوا تھا۔
پھر اچانک مجھے وہ آواز آئی جس کا شدت سے منتظر تھا یعنی گوشت کھانے اور ہڈیاں ٹوٹنے کی آواز۔
میری خوش قسمتی تھی کہ تیندوا نہ صرف پہنچ چکا تھا بلکہ اس کی پوری توجہ کھانے پر مرکوز تھی۔
اب مجھے اس سمت چلنا تھا اور بہت قریب پہنچ کر ٹارچ جلاتا تاکہ گولی چلا سکوں۔ تاہم یہ کہنا بہت آسان تھا مگر کرنا بہت مشکل۔
سب سے پہلے تو یہ مسئلہ تھا کہ میں غلط سمت جا رہا تھا اور آواز میرے بائیں جانب کچھ پیچھے سے آئی تھی یعنی میں سیدھا چلنے میں ناکام رہا تھا۔ سو دائیں سمت چلتے ہوئے میں لاش سے دور سے گزر گیا تھا۔
شاید مجھے اس لیے آواز اب آئی تھی کہ تیندوا اب لوٹا ہوگا یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ تیندوا مجھے قریب سے گزرتے دیکھ کر خاموش ہو گیا ہوگا۔
چند لمحے رک کر میں نے طے کیا کہ یہ آواز کس سمت سے آ رہی ہے اور فاصلہ پچاس سے سو گز کے درمیان ہوگا۔
اب پھر اسی طرح محتاط ہو کر میں نے اس سمت بڑھنا شروع کر دیا۔
اگر تیندوا لاش کو کسی جھاڑی کے پیچھے لے گیا ہوگا تو گولی چلانا ناممکن ہو جائے گا۔ دوسری جانب اگر تیندوے پر گولی چلا کر میں اسے زخمی کر دیتا تو خود گھاٹے میں رہتا۔
تاہم میں نے خود کو یہ سوچ کر تسلی دی کہ اس تیندوے نے ابھی تک کسی انسان پر حملہ نہیں کیا۔ دوسرا اگر میں ٹارچ کی روشنی ڈالوں تو شاید تیندوا گھبرا جائے اور حملہ نہ کرے۔
تاہم ان لمحات کی درست تصویر کشی نہیں ہو سکتی۔ انتہائی تیاری کی حالت میں میں نے پیش قدمی جاری رکھی۔ مجھے علم تھا کہ جتنی دیر تیندوے کی آواز آتی رہے گی، اس سے کوئی خطرہ نہیں۔ جب تک وہ پیٹ بھرتا رہے گا، اسے میری آمد کا پتہ نہیں چلے گا۔ جب یہ آوازیں رک جاتیں تو مجھے بھی رکنا پڑتا کہ تیندوا شاید رک کر آواز سننے کی کوشش کر رہا ہوگا۔
جتنی دیر آواز آتی رہی، میں بھی پوری احتیاط سے پیش قدمی کرتا رہا۔ جب بھی پیر تلے ٹہنی یا پتہ محسوس ہوتا تو میں پیر کو وہاں نہ رکھتا۔ اسی دوران تاریکی میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے ہوئے میں مسلسل آوازیں سننے کی کوشش کرتا رہا۔ اچانک یہ آوازیں رک گئیں اور ہر طرف سناٹا چھا گیا۔
کیا تیندوا میری آمد کو محسوس کر کے خبردار ہو گیا ہے؟ کیا اس نے پیٹ بھر کر واپسی اختیار کر لی؟ یا وہ ویسے ہی چلا گیا ہوگا؟ یا اس نے میری آمد کی آہٹ سن کر حملہ کی تیاری شروع کر دی ہے؟ رکتے ہوئے یہ سب خیالات ذہن میں آئے۔
میں کچھ دیر وہیں بالکل ساکت کھڑا رہا۔ یہ تو علم نہیں کہ کتنی دیر رکا، مگر یہ ضرور سوچتا رہا کہ اب کیا کروں۔ چونکہ تیندوا کھانا چھوڑ چکا تھا، سو پیش قدمی کرتا تو تیندوے کو میری پیش قدمی صاف سنائی دے جاتی، چاہے وہ پہلے خبردار نہ بھی ہوتا۔
میں چاہے جتنا محتاط ہوتا، مکمل تاریکی میں بغیر آہٹ کیے انسان نہیں چل سکتا کہ تیندوے کی سماعت بہت اچھی ہوتی ہے۔ دوسری جانب اگر میں خاموش کھڑا رہتا تو امکان تھا کہ تیندوا اگر میری طرف آتا تو میں اس کی آہٹ سن لیتا۔
سو میں نے دوسرے خیال پر عمل کیا اور خاموش کھڑا ہو گیا۔ آگے چل کر آپ دیکھیں کہ میں نے خوش قسمتی سے درست فیصلہ کیا تھا۔
چند لمحے بعد مجھے ہلکی سی سرسراہٹ سنائی دی۔ پھر تھم گئی اور پھر دوبارہ شروع ہوئی۔ کوئی چیز میرے سامنے تاریکی میں حرکت کر رہی تھی، مگر کیا چیز؟ یہ سرسراہٹ مسلسل تھی جیسے کوئی چیز جھاڑ جھنکار میں رینگ رہی ہو۔ یہ چیز سانپ بھی ہو سکتا تھا مگر جب تیندوا نیچے جھک کر حرکت کرتا ہے تو اس کے پیٹ کے زمین پر لگنے کی آواز بھی ایسی ہی ہوتی ہے۔ یقین کریں یہ بہت خوفناک سوچ تھی۔
یہ بات تو یقینی تھی کہ یہ آواز کسی چوہے، مینڈک، چھوٹے جنگلی جانور یا پرندے کی نہیں تھی۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ آواز اچانک آتی اور اچانک رک جاتی۔ مگر یہ مسلسل سرسراہٹ تھی جیسے کوئی چیز میری سمت بڑھتی آ رہی ہو۔ یہ بات واضح تھی کہ یا تو یہ سانپ ہے یا پھر تیندوا۔
میں نے یہ سب بیان کرنے پر جتنا وقت لگایا ہے، حقیقت میں اس سے کہیں کم وقت لگا۔ درحقیقت یہ سب چند سیکنڈ میں ہوا۔
اگلے چند سیکنڈ گزرے اور مجھے یقین ہو گیا کہ تیندوا اب میرے قریب آ رہا ہے۔ جتنی دیر سرسراہٹ آتی رہی، تیندوے کے حملے کا خطرہ نہیں تھا۔ اچانک آواز رک گئی۔
پھر جانی پہچانی پھنکار کی آواز آئی جیسے کوئی سانپ پھنکارتا ہے۔ تیندوے کی غراہٹ شروع ہو رہی تھی۔
جلد ہی یہ غراہٹ سنائی دینے لگی اور حملہ اس کے فوراً بعد شروع ہوتا ہے۔ میں نے یہ آوازیں بہت مرتبہ سنی تھیں، سو مجھے اندازہ تھا کہ اب کیا ہوگا۔ میں نے رائفل اٹھائی اور شانے سے لگا کر ٹارچ جلائی۔
دو سرخی مائل سفید آنکھیں سیدھا مجھے دیکھ رہی تھیں مگر مجھے تیندوے کا کچھ حصہ نہ دکھائی دیا۔ پھر مجھے یاد آیا کہ تیندوا سیاہ رنگ کا ہے جو رات میں دکھائی نہیں دینا۔
شاید تیندوا پہلے سرسراہٹ کی آواز سن کر تحقیق کرنے آیا کہ اس کے شکار کے پاس کون ہے اور پھر انسان کو دیکھتے ہی اس کو خطرے کا احساس ہوا۔ غراہٹ سے اس کی ناراضگی ظاہر ہو رہی تھی کہ اب وہ حملہ کرنے والا ہے۔ اس کی ساکت آنکھیں مجھے گھور رہی تھیں۔
آرام سے نشانہ لے کر گولی چلانے کا مجھے بہترین موقع ملا۔
تاہم گولی چلتے ہی میری توقع کے عین برعکس گرنے کی بجائے تیندوے نے جست لگائی اور غراتا ہوا فرار ہو گیا۔ کیا گولی خطا گئی ہے یا پھر محض زخمی ہوا ہے؟ مجھے یقین تھا کہ گولی خطا نہیں گئی، سو صبح کی روشنی میں ہی یہ بات طے ہوتی۔ میں نے واپسی کا رخ کیا۔
اب میں اپنی ٹارچ استعمال کر سکتا تھ، سو میں اندازے سے واپسی کے لیے اسی سمت چل پڑا جس سے آیا تھا۔
تاہم میں غلط تھا، نصف گھنٹہ بھٹکنے کے بعد بھی میں نالے تک نہ پہنچ پایا۔
آسمان پر دیکھا تو بادل چھائے ہوئے تھے، پھر مجھے یاد آیا کہ یہاں کی زمین بتدریج مغرب کی سمت ڈھلوان ہوتی جاتی ہے جہاں دو ندیاں ملتی ہیں۔ سو میں نے سوچا کہ اگر میں چڑھائی کا رخ کروں تو گاؤں آسانی سے پہنچ جاؤں گا۔
سو میں نے چڑھائی کا سفر شروع کیا مگر سیوانی پلی کے قریب بھی نہ پہنچ سکا۔ ساڑھے گیارہ بجے میں سالیورم کے نصف راستے پر تھا۔
تاہم یہاں سے مجھے راستے کا علم تھا، سو نصف گھنٹے بعد گاؤں پہنچ گیا۔
وہاں پہنچ کر میں نے رنگا کو جگا کر واقعات بتائے۔ چونکہ اور کچھ کرنا ممکن نہ تھا، سو میں سو گیا۔
جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں، سیوانی پلی چھوٹی سی جگہ ہے اور یہاں بمشکل چھ جھونپڑے ہیں۔ رنگا سوامی شادی شدہ تھا اور گھر اس کی بیویوں اور بچوں سے بھرا ہوا تھا۔ سو اس کے گھر رات گزارنا تو ممکن نہ تھا۔ میں نے باہر رکھے ہوئے بھوسے کے ڈھیر کو پھیلایا جو شبنم سے تر تھا، اور کچھ اپنے اوپر ڈال کر سو گیا۔
ساری رات پسوؤں نے جی بھر کر میرا خون چوسا۔ یہ پسو ننھے سے ہوتے ہیں مگر خون چوسنے کے بعد بہت بڑے ہو جاتے ہیں۔ خون چوسنے کے مقام پر یہ کوئی زہریلا مادہ چھوڑتے ہیں جس سے شدید خارش ہوتی ہے اور پھر زخم بن جاتا ہے۔ جتنا کھجلاتے جائیں گے، اتنا تکلیف بڑھتی جائے گی اور انجام کار چھالہ بن جائے گا۔ اب اگر ایک سے زیادہ پسو خون چوسیں تو اندازہ کر سکتے ہیں کہ تکلیف کتنی شدید ہوگی۔
ساری رات بمشکل آنکھ لگی اور زیادہ تر وقت کھجلاتے ہوئے گزرا۔ پو پھٹتے ہی میں تھکن اور تکلیف سے بے حال اٹھا۔
پہلا کام گرما گرم چائے بنانا تھی، سو میں نے رنگا سوامی کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سبھی سو رہے تھے۔
کچھ دیر اندر سے آوازیں آتی رہیں اور پھر دروازہ کھلا جس سے نیم خوابیدہ رنگا سوامی نکلا۔
میں نے اسے آگ جلانے کا کہا جو اس نے زمین پر تین پتھر رکھ کر جلا لی۔ چونکہ میرے پاس کیتلی وغیرہ نہیں تھی، سو وہ بھی میں نے رنگا سوامی سے ادھار مانگی۔ اس نے قسم اٹھائی کہ یہ برتن بالکل صاف ہے، حالانکہ صاف دکھائی دے رہا تھا کہ کتنا گندا برتن ہے۔
تاہم پانی ابال کر میں نے اپنی پانی کی بوتل میں چائے کی پتی ڈال کر پانی بھی ڈال دیا اور پھر ڈھکن بند کر کے خوب ہلایا۔ اس دوران لوگ بیدار ہونا شروع ہو گئے تھے۔ انہوں نے مجھے توجہ اور دلچسپی سے دیکھا۔ کچھ لوگوں نے دودھ کی پیشکش کی تو کچھ گڑ لے آئے جو کہ اچھا ہوا کہ میں چینی لانا بھول گیا تھا۔ ہم نے دودھ ابالا اور پھر میں نے اپنے مگ میں کچھ گڑ ڈال کر گرم دودھ اور قہوہ ڈالا۔ بننے والی چائے کافی عجیب سی تھی۔
ناشتے میں چند انڈے تھے جو میں نے وہیں خرید کر ابالے۔ سات بجے ہمت بحال ہو چکی تھی اور پسوؤں کے کاٹے کی تکلیف بھی کم ہو گئی تھی۔ اب میں نے تیندوے کے بارے سوچا۔
میں نے رنگا سوامی سے کہا کہ وہ کل شام والے چرواہے یا اس کے کسی ساتھی کو لے آئے اور بھینسوں کا ریوڑ جمع کر کے ہم انہیں اس جگہ چھوڑیں جہاں تیندوا موجود ہوگا۔ مجھے یقین تھا کہ رات والی گولی خالی نہیں گئی ہوگی۔
سب نے یک زبان ہو کر بتایا کہ سیوانی پلی میں کوئی بھینسیں نہیں اور کوئی بھی اپنے مویشی جان بوجھ کر تیندوے کے سامنے نہیں بھیجنا چاہتا تھا۔ اتنے میں رات والا چرواہا آن پہنچا۔ اس نے بتایا کہ سالیورم میں اس کے ایک جاننے والے کے پاس توڑے دار بندوق ہے۔ وہ اس سے بندوق ادھار لینے گیا ہوا تھا اور اسی وجہ سے وہ صبح منہ اندھیرے ہی چل پڑا تھا۔ بدقسمتی سے اس کا دوست بندوق سمیت کہیں گیا ہوا تھا، سو اسے خالی ہاتھ آنا پڑا۔
بظاہر تو میں نے اسے اس خیال پر داد دی مگر دل ہی دل میں خوش تھا کہ اسے بندوق نہیں مل سکی۔ ناتجربہ کار بندے کے ہاتھ توڑے دار بندوق مہلک ہتھیار بن جاتی ہے اور ایسے بندے کے ساتھ شکار پر جانا بہت خطرناک کام ہوتا۔
بھینسیں نہ مل سکیں تو میں نے دیہاتی کتے مانگے۔ کافی بحث مباحثے کے بعد ایک کتیا لائی گئی جس کے کان جڑ سے کٹے ہوئے تھے، رنگ بھورا اور دم بہت لمبی۔ یہ عام دیہاتی کتیا تھی اور بچپن میں ان کے کان کاٹ دیے جاتے ہیں تاکہ بڑے ہونے پر انہیں پسوؤں وغیرہ سے تکلیف نہ ہو۔ دیہاتیوں کے خیال میں مسلسل کتوں کے کان سے پسوؤں کو نکالنے سے کہیں آسان کام ان کے بچپن میں ان کے کان کاٹ دینا ہے۔
عجیب اتفاق دیکھیں کہ اس کتیا کا نام ‘کُش‘ تھا جو میرے دوست بیرا پجاری کی کتیا ‘کُش کُش کریہا‘ سے مماثل تھا۔ اب علم نہیں کہ ان جنگلوں میں رہنے والوں کو یہ نام پسند تھا یا محض اس کی صوتی شکل ایسی تھی کہ کتے کو بلانے کے کام آتی تھی۔ خیر، کچھ بھی ہو، مجھے علم نہیں تھا کہ یہ کتنی کارآمد ثابت ہوگی۔
پھر رنگا سوامی، چرواہا، کُش اور اس کا مالک، ہم سب مل کر اس مقام کو چل دیے جہاں میں نے تیندوے پر گولی چلائی تھی۔
ہم نے رات والا راستہ اختیار کیا جہاں میرے ساتھی مجھے چھوڑ گئے تھے اور وہاں میرے قدموں کے نشانات پر چلتے ہوئے ہم اس جگہ پہنچے جہاں میں کنارے پر چڑھا تھا۔
اس جگہ سے میں نے رہنمائی کا کام سنبھال لیا۔ میرے پیچھے رنگا، پھر چرواہا اور پھر کتیا اور پھر اس کا مالک چل رہے تھے۔
جیسا کہ میں نے رات کو محسوس کیا تھا، جھاڑ جھنکار بہت زیادہ تھا اور بارہ گھنٹہ قبل اپنے گزرنے کے نشانات تلاش کرنا بہت مشکل تھا۔ دن کے وقت اب وہی جھاڑیاں اور وہی درخت بالکل مختلف لگ رہے تھے۔ بہر طور میں نے عمومی سمت وہی رکھی۔
چرواہا تو جانتا تھا کہ لاش کدھر پڑی ہے مگر میں وہاں نہیں جانا چاہتا تھا۔ میرا خیال تھا کہ میں وہ جگہ دیکھوں جہاں سے میں نے تیندوے پر گولی چلائی تھی۔ مجھے ناکامی ہوئی۔
آپ میں سے جو افراد رات کو جنگل میں گئے ہوں، جانتے ہوں گے رات کو دکھائی دینے والی جھاڑیاں اور درخت دن کی روشنی میں نہ صرف مختلف شکل بلکہ مختلف جسامت کے دکھائی دیتے ہیں۔ تاریکی میں ان کی جسامت بہت بڑی اور بہت فرق لگتی ہے۔
اب میں نے کام آسان کرنے کے لیے چرواہے کو آگے رہنمائی کرنے کا کہا جو سیدھا گائے کی لاش پر لے گیا۔
لاش آدھی کھائی جا چکی تھی مگر یہ کہنا ممکن نہیں تھا کہ آیا تیندوا مڈبھیڑ کے بعد بھی آیا تھا یا پہلے ہی اتنا کھا چکا تھا۔
تیندوؤں پر گولی اگر خطا ہو جائے تو وہ بعض اوقات واپس کھانے کے لیے آتے ہیں۔
لاش پر پہنچ کر میں نے یاد کر کے اس سمت کا اندازہ لگایا جہاں سے میں آیا ہوں گا تاکہ پھر اسی سمت چل کر وہ مقام دیکھوں جہاں تیندوے پر گولی چلائی تھی۔ بدقسمتی سے یہ جاننا ممکن نہ تھا کہ تیندوا کتنی دور تک آیا ہوگا۔ سو مجھے یہ اندازہ لگانا تھا کہ میں نے کہاں اس کی آہٹ سنی تھی کہ وہ پیٹ بھر رہا تھا۔ جنگل میں رات کے وقت آواز کا منبع اور سننے والا جب دونوں ہی جھاڑیوں میں ہوں تو فاصلے کا درست اندازہ لگانا ممکن نہیں رہتا۔ مجھے یقین تھا کہ میں گولی چلاتے وقت لاش سے پندرہ سے پچاس گز کے فاصلے پر رہا ہوں گا۔
جب میں یہ سوچ لیا تو پھر میں نے لاش سے پندرہ قدم چل کر ایک ٹہنی رکھوا دی۔ پھر میں نے مزید پینتیس قدم اٹھائے اور وہاں کھڑا ہو کر وہاں بھی ایک شاخ رکھوا دی۔
ان دونوں نشانات کے درمیان اور لگ بھگ اسی سمت مجھے دیکھنا تھا کہ آیا گولی تیندوے کو لگی یا نہیں۔ اگر کوئی نشان نہ ملتا تو اس کا مطلب گولی خطا گئی تھی۔
اس وقت تک مجھے یہ بھی یقین ہو چکا تھا کہ اگر تیندوا زخمی بھی ہوا ہو تو بھی آس پاس موجود نہیں ہوگا کہ چلتے ہوئے ہم باتیں بھی کرتے رہے تھے اور تیندوا ہمیں اپنی موجودگی سے غرا کر یا اچانک حملہ کر کے احساس دلا چکا ہوتا۔ ایسی کسی بھی علامت کی عدم موجودگی میں یہ فرض کرنا آسان تھا کہ اگر تیندوا زخمی بھی ہوا ہے تو بھی زخموں کی شدت کاری نہیں تھی کہ وہ یہاں سے دور نہ جا پاتا۔
میں نے اپنے تینوں ساتھیوں سے کہا وہ پھیل کر دائرے کی شکل میں خون کے نشانات تلاش کریں۔ میں نے بھی ان کے ساتھ یہی کام شروع کیا اور جلد ہی کُش نے سونگھتے ہوئے کچھ تلاش کیا۔ اس کے مالک نے فوراً مجھے بلایا۔ اس کے پاس پہنچ کر دیکھا کہ گھاس کے ایک پتے پر خون کا نشان دکھائی دے رہا تھا۔
میرا حوصلہ بڑھ گیا۔ ہمیں ثبوت مل گیا کہ گولی خطا نہیں گئی۔ گھاس پر خون کی بلندی سے پتہ چلتا تھا کہ تیندوے کو بالائی جسم پر زخم لگا ہے۔ چونکہ میں نے ٹارچ کی روشنی میں چمکتی آنکھوں کا نشانہ لیا تھا، سو گولی اس کے سر سے رگڑ کھاتی گئی ہوگی۔ یہ بھی ممکن تھا کہ اگر وہ جھک کر اپنے پچھلے دھڑ کو اٹھائے ہوئے ہوتا تو میری گولی اس کی کمر میں کہیں لگی ہو (تینندوے رینگتے ہوئے اس طرح نہیں کرتے)۔
 

قیصرانی

لائبریرین
کُش نے اپنی خوبی دکھا دی تھی۔ اگرچہ وہ غیر تربیت یافتہ کتیا تھی مگر اس نے اندازہ کر لیا تھا کہ ہم کیا چاہ رہے ہیں۔ کچھ دیر اِدھر اُدھر گھومنے کے بعد وہ شور مچاتی ہمارے آگے بھاگنے لگی۔
ہم نے اس کا پیچھا کیا اور راستے میں خون کے مزید نشانات دکھائی دیے۔ جھاڑیوں اور اونچی گھاس کے علاوہ بعض جگہ زمین پر بھی خون کے نشان تھے۔ یہ کافی حوصلہ افزا صورتحال تھی۔ تیندوے سے خون کافی بہہ رہا تھا سو زخم سطحی نہیں ہوگا۔
کہیں کہیں سایہ دار جگہ پر خون ابھی تک نم تھا۔ تاہم یہ خون نہ تو گاڑھا تھا اور نہ ہی زیادہ شوخ، یعنی گولی کسی کاری جگہ نہیں لگی۔
کُش نے تیزی سے مغربی سمت دوڑنا شروع کر دیا۔ ظاہر ہے کہ اس کے سامنے واضح نشانات ہوں گے۔ پھر ہم کافی ڈھلوان جگہ پہنچ گئے جہاں شمال سے جنوب کو بہنے والی ندی گزرتی ہے۔ یہ ندی دوسری سے ملنے سے قبل انیکل ونکا کہلاتی ہے۔ دونوں ندیوں کے ملنے پر انہیں دودا ہالا کہتے ہیں جو کنارسی زبان میں ‘بڑی کھائی‘ بنتا ہے۔
اس جگہ دریا اپنا رخ اچانک بدل کر جنوب کو مڑتے ہوئے گنڈالم سے گزر کر پھر دریائے کاویری سے جا ملتا ہے۔ اسی ندی کے کنارے ہی جولاگری کے آدم خور کا ظہور ہوا تھا مگر وہ ایک اور واقعہ ہے۔ جہاں یہ دریا کاویری سے ملتا ہے، اس کا چپہ چپہ میں نے چھانا ہوا ہے اور اسے میں ‘پوشیدہ دریا‘ کہتا ہوں کیونکہ اس علاقے میں بہت کم لوگ آتے ہیں اور اسی دریا کے کنارے میں کئی دلچسپ جغرافیائی علامات بھی دیکھی ہیں۔ میں اس بارے بات نہیں کروں گا کہ ان کی مشہوری ہوتے ہی لوگ ان پر جوق در جوق ٹوٹ پڑیں گے اور پھر ان کی تباہی شروع ہو جائے گی۔
خیر، واپس چلتے ہیں۔ جھاڑیاں بہت گھنی تھیں مگر کُش نے بالکل درست پیش قدمی جاری رکھی۔ ہمارے لیے اس کے ساتھ چلنا دشوار ہو گیا۔ اس کی چھوٹی جسامت خاردار جھاڑیوں سے بچ بچا کر نکلتی رہی جبکہ ہمارے ہاتھ، پیر اور بازو لہو لہان ہو گئے تھے کہ ہم نے بھاگتے ہوئے پروا نہیں کی تھی۔ اگر تیندوا کہیں پاس چھپا ہوا ہوتا تو بہ آسانی حملہ کر سکتا تھا۔ کئی جگہ رکاوٹوں کی وجہ سے ہم سست پڑ جاتے اور ہمیں سیٹی بجا کر کتیا کو واپس بلانا پڑتا جو وہ کچھ دیر بعد لوٹتی اور پھر اسے پیچھا کرنے میں دشواری ہونا شروع ہو جاتی۔
ہمارے پاس رسی نہیں تھی، سو میں نے چرواہے کی پگڑی ادھار مانگ کر کتیا کی گردن سے باندھ کر اس کے مالک کو تھما دی۔ تاہم یہ بہت مختصر تھی، سو مالک کو جھک کر کتیا کے ساتھ بھاگنا پڑ رہا تھا جبکہ کتیا دوڑنے کی کوشش میں زور لگا کر اسے کھینچ رہی تھی۔
اس طرح بڑھتے ہوئے آخرکار ہم اس سطح مرتفع کے کنارے پر پہنچ گئے جہاں ڈھلان شروع ہوتی تھی۔ نیچے ہمیں چمکتے ہوئے پانی کے ساتھ گھنے درختوں کے جھنڈ بھی دکھائی دینے لگے۔ ندی اس وقت تین چوتھائی خشک تھی۔
کچھ دور چل کر ہمیں پہلی بار ایسی جگہ دکھائی دی جہاں تیندوا لیٹا تھا۔ اس جگہ تیندوا گھاس میں ببول کے ایک بڑے درخت کے نیچے تکلیف سے کروٹیں بدلتا رہا تھا کہ خون کئی جگہ دکھائی دیا۔ کُش نے اس جگہ کافی دیر لگائی اور خون کو چاٹا بھی۔ یہ بات مجھے غیرمعمولی لگی کہ عام کتے تیندوے سے دہشت زدہ رہتے ہیں۔ خوش قسمتی سے میں اس کتیا کو ساتھ لایا تھا۔ عجیب بات دیکھیں کہ اپنے پِلوں کے کان کاٹنے والے دیہاتی کو جب کہا جائے کہ زخمی تیندوے یا شیر کی تلاش میں مدد کے لیے کتا بھیجو تو وہ اسے ظلم گردانتے ہوئے انکار کر دیتے ہیں۔ اب سوچیے کہ اگر یہ کتیا ساتھ نہ ہوتی تو ہم تیندوے کی تلاش میں ناکام رہتے کہ تیندوے کی علامات عام انسانی آنکھ سے اوجھل تھیں۔
جب ہم اس ڈھلوان سے اترنے لگے تو سبزہ کم ہوتا گیا اور زمین پتھریلی۔ بڑے بڑے پتھر ہر طرف بکھرے ہوئے تھے اور ان کے درمیان اونچی لیمن گراس اگی ہوئی تھی۔
پھر ہم اس جگہ پہنچے جہاں صرف چھوٹے بڑے پتھر بکھرے ہوئے تھے اور ڈھلوان ختم ہونے والی تھی۔ برسات میں پانی اس جگہ تک آتا ہوگا۔
یہاں سبزہ ختم ہونے کی وجہ سے تعاقب کرنا آسان ہو گیا تھا۔
خون کے خشک دھبے یہاں جگہ جگہ دکھائی دے رہے تھے۔ اتنی دور تک بہنے والے خون کی مقدار سے ہم نے اندازہ لگایا کہ تیندوے کو گہرا زخم لگا ہے اور گولی نے کسی رگ کو متاثر کیا ہوگا۔ اگر گولی کسی جگہ گوشت میں لگتی تو خون کم بہتا اور عموماً ایسے زخموں میں جسم کی چربی کچھ دیر بعد گولی کے سوراخ کو بند کر دیتی ہے۔
ندی کی تہہ میں تھوڑا بہت پانی بہہ رہا تھا۔ اس جگہ تیندوے نے لیٹ کر پانی پیا اور یہاں ہمیں خون کے دو نشانات ملے، ایک پانی کے قریب تر اور دوسرا کچھ فاصلے پر۔ نسبتاً فاصلے پر موجود زیادہ خون تھا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ میں نے رات ایک گولی چلائی تھی۔ تاہم جواب حیران کن تھا۔
یہاں شاید تیندوے نے اپنے خون پر پیر رکھا اور ایک پتھر پر واضح نشان چھوڑ گیا جس سے اندازہ ہوا کہ اوسط جسامت کا شاید نر تیندوا ہے۔ ندی عبور کرتے ہوئے تیندوے کے پیر سے خون صاف ہو گیا مگر زخم سے نکلنے والے خون کی بوندیں دکھائی دیں۔
ندی عبور کر کے تیندوے نے اپنا رخ بدلا اور دو سو گز تک پانی کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ پھر اس نے بائیں جانب مڑ کر مخالف سمت والی چڑھائی چڑھی۔ یہاں پتھروں کی جگہ سبزہ آتا گیا۔ جگہ جگہ ہمیں اونچی گھاس، خاردار جھاڑیوں، بانس اور دیگر درختوں سے گزرنا پڑا۔
تیندوا اوپر چڑھتا گیا اور کُش ہمیں اس کے پیچھے اتنے آرام سے لے کر چلتی رہی جیسے وہ باقاعدہ تربیت یافتہ ہو۔ آخرکار ہم ڈینکانی کوٹہ سے انچتی جانے والی سڑک پر جا پہنچے۔ یہاں ہم نویں سنگِ میل کے عین مخالف آ کر نکلے۔ اسی سڑک پر پانچویں سنگِ میل پر میں نے اپنی کار چھوڑی تھی اور پیدل سیوانی پلی تک آیا تھا۔
رات کے دوران کئی بیل گاڑیاں سڑک سے گزری تھیں اور دھول کی وجہ سے تیندوے کی بو یکسر غائب ہو گئی تھی۔ تاہم سڑک عبور کر کے کُش نے فوراً پیچھا شروع کر دیا۔
گھاس اور بانس کی جگہ بتدریج زیادہ خاردار جھاڑیاں لینے لگیں اور ہمارے کپڑے اور جسم پر جگہ جگہ اٹک جاتے۔ کئی جگہ تیندوا ان خاردار جھاڑیوں کے نیچے سے دبک کر گزرا، ہمارے لیے یہ ممکن نہیں تھا مگر پھر بھی ہمیں رینگ کر گزرنا پڑا۔
ایسے مقامات پر رائفل رکاوٹ بن جاتی ہے سو میں کانٹوں اور جھاڑیوں پر لعنت بھیجتا چلتا رہا کہ کانٹے ہر جگہ چبھ رہے تھے۔ میرے ساتھیوں کی تکلیف کہیں کم تھی کہ انہوں نے نہ ہونے کے برابر تن ڈھانکا ہوا تھا۔ شاید ان کی جلد سخت ہو۔ تاہم یہ بات یقینی ہے کہ ہمارے منہ سے نکلنے والی مغلظات ناقابلِ بیان تھیں۔ تاہم کُش کا واحد مسئلہ یہ تھا کہ اسے ہماری وجہ سے بہت سُستی سے چلنا پڑ رہا تھا۔
اب یہ واضح ہو چکا تھا کہ تیندوے کا رخ نصف میل دور واقع بڑی پہاڑی کی طرف تھا جو کنڈوکٹائی نامی دیہات کے بعد تھی۔ یہ دیہات ڈینکانی کوٹہ سے انچتی جانے والی سڑک کے ساتویں اور آٹھویں سنگِ میل کے درمیان آباد ہے۔ اس پہاڑی کی چوٹی پر چھوٹے بڑے، کافی غار تھے۔ دقت یہ تھی کہ کئی غاروں کی چھت پر شہد کی مکھیوں کے بڑے بڑے چھتے بنے ہوئے تھے۔ اس سڑک پر کار کا سفر کرتے ہوئے میں نے ان چھتوں کو بہت بار دیکھا تھا۔
اب مجھے لگا کہ تیندوے کی ہلاکت اب مشکل تر ہو گئی ہے۔ ان غاروں میں تیندوے کی تلاش بھوسے کے ڈھیر سے سوئی تلاش کرنے کے برابر ہوگی۔ اس کے علاوہ اگر غار میں شہد کے چھتے ہوتے تو مکھیاں اس کے بچاؤ کا کام کرتیں۔ یقین کیجیے کہ یہ مکھیاں خوفناک ہوتی ہیں۔
خیر، پیش قدمی جاری رہی اور جھاڑیاں کم ہوتی گئیں اور زمین دکھائی دینا شروع ہو گئی۔
تیندوے کی بو سیدھا پہاڑی کے اوپر کی سمت بڑھتی گئی اور ایک بڑے غار تک جا پہنچی۔ اس غار کے باہر کھڑے ہو کر ہم اندر لٹکے چھتے صاف دیکھ رہے تھے۔ ہر چھتہ ایک گز لمبا اور دو فٹ چوڑا تھا۔ اس کے علاوہ پرانے چھتے بھی لٹک رہے تھے اور ان سے ٹپکنے والا موم نیچے زمین پر ڈھیر بنا ہوا تھا۔
میرے کینوس والے جوتوں کی وجہ سے چڑھائی میں آسانی ہوئی اور ننگے پیر ہونے کی وجہ سے میرے ساتھی بھی آسانی سے چڑھتے گئے۔ کُش کے ناخنوں سے ہلکی سی آواز پیدا ہوئی۔
جب ہم غار کے دہانے پر پہنچے تو مکھیوں کا شور بہت زیادہ تھا۔ اس کے علاوہ بہت ساری مکھیاں پھلوں کا رس چوس کر آ رہی تھیں اور بہت ساری پھولوں کی طرف جا رہی تھیں۔
یہ مکھیاں اپنے کام میں اتنی مگن تھیں کہ بالکل متوجہ نہ ہوئیں۔ مگر ہمیں علم تھا کہ اگر انہیں ذرا سا بھی خطرہ محسوس ہوا تو لاکھوں کی تعداد میں ٹوٹ پڑیں گی اور ڈنک مار مار کر ہمیں منٹوں میں مار ڈالیں گی۔
یہاں کھڑے ہوئے ہم نے تیندوے کے خون کی بوندیں اسی غار میں جاتے دیکھیں۔ یعنی تیندوا اندر ہی تھا۔
غار کا دہانہ لگ بھگ بیس فٹ چوڑا اور بیس فٹ اونچا تھا۔ دن کی روشنی چند گز اندر تک جا رہی تھی مگر اس کے بعد محض تاریکی تھی۔ میں نے مختلف جسامت کے نو چھتے گنے جو دہانے کے ساتھ چھت سے لٹک رہے تھے۔ خلافِ معمول اس غار کی تہہ نمی سے پاک تھی اور شاید اسی وجہ سے مکھیاں اور تیندوا یہاں رہ رہے تھے۔ جانور ہوں یا حشرات، دونوں کو ہی نمی والی جگہیں پسند نہیں۔
میں نے اپنے ساتھیوں کو سرگوشی کی کہ وہ غار کے اطراف میں اوپر کو چڑھ جائیں۔ ان کی نیچے کو پیش قدمی بیکار تھی کہ تیندوا نکلتے ہی سیدھا نیچے کو بھاگتا۔ اب میں اور کُش اندر داخل ہوئے۔
اسی لمحے سے کُش کو سامنے موجود خطرے کا احساس ہو گیا۔ اس کا حوصلہ جواب دے گیا اور وہ میرے پیروں میں چھپنے لگی۔
جتنی دور روشنی جا رہی تھی، میں اتنا اندر گھسا۔ زیادہ سے زیادہ یہ فاصلہ تیس گز رہا ہوگا۔ پھر ہم رک گئے۔ چونکہ مجھے علم نہ تھا کہ تیندوا ایسی جگہ چھپ سکتا ہے، میں اپنی ٹارچ ساتھ نہ لایا تھا۔
اب دو ہی باتیں ممکن تھیں: یا تو میں اس تیندوے کو باہر نکالتا یا پھر سیوانی پلی جا کر ٹارچ لاتا اور اس دوران میرے ساتھی غار کی نگرانی کرتے۔ مجھے دوسری بات پر عمل کرنا چاہیے تھا۔ نہ صرف یہ محفوظ تر تھا بلکہ زیادہ یقینی بھی۔ تاہم اپنی سستی کی وجہ سے میں نے اس پر عمل نہیں کیا۔ سو میں نے تیندوے کو جگانے کا سوچا۔
میں نے سیٹی بنائی اور زور سے چلایا۔ کچھ نہ ہوا۔ دوبارہ یہی کام کیا تو کانپتی ہوئی کتیا اب بھونکنے لگی۔
کچھ بھی نہ ہوا۔
غار کی چوڑائی بتدریج کم ہوتی گئی تھی۔ میری کاوش کا جواب خاموشی سے ملا۔ غار کا اندرونی حصہ کسی قبر کی مانند تاریک اور خاموش تھا۔
کیا زخمی تیندوا اندر مر گیا ہوگا؟ یہ بات قبول نہ کر سکا کہ انیکل ونکا ندی عبور کر کے ایک بار بھی تیندوا نہ رکا تھا۔ کیا وہ ہماری آمد سے قبل باہر نکل گیا ہوگا؟ ظاہر ہے کہ ایسا ممکن تو تھا مگر ایسی کوئی علامت نہ مل سکی۔
میں نے آس پاس دیکھا کہ کچھ پھینکنے کو مل جائے۔ میرے پیروں کے پاس ایک پتھر پڑا تھا۔ میں نے اسے بائیں ہاتھ سے اٹھایا تو وہ بھاری نکلا۔
پیدائشی طور پر میں کام بائیں ہاتھ سے جبکہ گولی دائیں ہاتھ سے چلاتا ہوں۔ سو رائفل کو تیار حالت میں اٹھا کر میں نے بائیں ہاتھ سے پوری قوت سے پتھر غار کے اندر پھینکا۔ پتھر غار کی تاریکی میں گم ہو گیا۔ دور پتھر گرنے کی آواز میرے کانوں میں آئی۔
اگلے لمحے تیندوے کے حملے کی غراہٹیں سنائی دیں اور تیندوا باہر کی جانب لپکا۔ چونکہ وہ سیاہ رنگ کا تھا، سو جب تک روشنی میں نہ آتا، مجھے دکھائی نہ دیتا۔ یہ فاصلہ محض دو یا تین گز دور ہوتا۔ میں نے گولی چلائی مگر اپنے زور میں تیندوا میری جانب بڑھا۔ میں نے دوسری گولی چلائی۔ غار کے محدود رقبے میں گولیوں کی آواز بہت بڑے دھماکے کی طرح محسوس ہوئی۔
اگلے لمحے جیسے قیامت برپا ہو گئی۔ شہد کی مکھیاں جو اب تک اپنے کام میں مگن تھیں، اچانک اٹھیں اور ہلہ بول دیا۔
دن کی روشنی جو غار کے دہانے سے آ رہی تھی، پر بے شمار مکھیاں دکھائی دینے لگیں اور ان کا شور بہت زیادہ بڑھ گیا۔
ان سب نے مجھ پر حملہ کر دیا۔
میں نے مکھیوں کو مشتعل کر دیا تھا۔ تیندوے کی ساری سوچ ہوا ہو گئی اور میں دونوں ہاتھوں سے مکھیاں جھاڑتا اپنی جیکٹ کو منہ اور سر پر لپیٹتا ہوا باہر کو بھاگا۔
مکھیاں بہت بڑے ریلے کی شکل میں میرے ہاتھوں پر ڈنک مارنے لگیں۔
پھر جیکٹ میں گھس کر انہوں نے میری گردن، سر، چہرے اور قمیض کے اندر گھس کر کمر پر بھی ڈنک مارے۔
ڈنک شدید تکلیف دہ تھے۔
میں پہاڑی پر سے پھسلتا ہوا نیچے کو اترا۔ دور بھاگتے ہوئے میں نے کُش کو بھی درد سے چلاتے سنا۔ میں جتنا تیز بھاگ سکتا تھا، بھاگا مگر مکھیاں زیادہ تیز تھیں۔ مجھے جاپانی خودکش بمبار یاد آئے جو اپنے ہوائی جہاز کو دشمن پر گرا دیتے تھے۔ اسی طرح جو مکھی بھی مجھے ڈنک مارتی، وہ اپنا ڈنک وہیں چھوڑ جاتی اور زخم کے نتیجے میں خود مر جاتی۔ شہد کی مکھیوں کے ڈنک کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں وہ خود نہیں نکال پاتیں اور نتیجتاً زخم بن جاتا ہے جو ان کے لیے مہلک ہوتا ہے۔ زہر کی تھیلی ڈنک کے ساتھ شکار میں رہ جاتی ہے۔
میں نیچے دامن تک پہنچا مگر مکھیوں نے پیچھا نہ چھوڑا۔ مجبوری میں میں رینگتا ہوا خاردار جھاڑیوں کے نیچے گھس گیا۔ ساری عمر میں نے اس قسم کی جھاڑی کو لعنت سمجھا ہے مگر آج مجھے اپنی رائے سےرجوع کرنا پڑا۔ اس نے میری زندگی بچا لی۔ مکھیاں محض اڑتے ہوئے حملہ کر سکتی ہیں۔اپنی تمام تر عقلمندی کے باوجود مکھیاں یہ نہیں سوچ سکتیں کہ وہ زمین پر چلتے ہوئے جھاڑی میں گھس کر مجھے ڈنک مارنے آتیں۔ ان کا کام اڑنا، غوطہ لگانا، ڈنک مارنا اور مر جانا ہے۔ جھاڑی کی بناوٹ اس طرح کی ہے کہ مکھیاں اڑتے ہوئے اندر نہیں گھس سکتیں۔ اس طرح میں یقینی موت سے بچ گیا۔
چاہے میں جتنا تیز بھاگتا، مکھیوں سے آگے نہ نکل سکتا اور وہ ہزاروں کی تعداد میں ڈنک مارتیں۔
تمام کے تمام نو چھتے اب اڑ رہے تھے اور فضا ان کی آواز سے کانپ رہی تھی۔ میں جھاڑی کے نیچے چھپا اور محفوظ تھا۔
قریب قریب دو گھنٹے بعد جا کر مکھیاں آرام سے بیٹھنے لگیں۔ مجھ پر غنودگی طاری ہونے لگی اور اگر ڈنک کی تکلیف نہ ہوتی تو سو جاتا۔ ہر ڈنک سے جیسے آگ نکل رہی ہو۔
سہ پہر تین بجے میں باہر نکل سکا اور سڑک پر پہنچ کرکنڈوکوٹی گاؤں کا رخ کیا۔ میرے تینوں ساتھی وہاں موجود تھے۔ مکھیوں نے ان پر توجہ نہ دی تھی۔ مکھیوں کی پوری توجہ غالباً متحرک اجسام یعنی مجھ پر اور کُش پر تھی۔ وہ بیچاری بھی ان لوگوں کے ساتھ آ گئی تھی اور مجھے یقین ہے کہ تیندوے کو بھی کافی ڈنک لگے ہوں گے۔
پھر ہم سب چل کر کار تک پہنچے۔
کار میں بیٹھ کر ہم ڈینکانی کوٹہ پہنچے جہاں لوکل فنڈ ہسپتال اور ڈسپنسری ہے۔ ہم نے جا کر ڈاکٹر کو اٹھایا۔ وہ ہمیں ہسپتال لے گیا اور پھر چمٹی کی مدد سے ایک ایک کر کے اس نے کُش سے اور مجھ سے ڈنک نکالے۔ کُش کو انیس اور مجھے اکتالیس ڈنک لگے تھے۔ پھر ڈاکٹر نے ہمارے زخموں پر امونیا لگایا۔
رات ہم نے ڈینکانی کوٹہ کے فارسٹ بنگلے میں گزاری۔
لوہے کے پلنگوں پر گدے نہیں تھے، سو میں نے رات کو کرسی پر نیم دراز حالت میں جبکہ میرے ساتھی اور کُش برآمدے میں فرش پر سو گئے۔
پھر مجھ پر بخار اور کمزوری کا حملہ ہوا اور کُش کی حالت بھی زیادہ بہتر نہ تھی کہ اس کی ممناہٹ سنائی دیتی رہی۔ میری گردن، چہرہ اور ہاتھ سوجے ہوئے تھے۔ ایک مکھی تو میری بائیں آنکھ کے گوشے پر بھی ڈنک مار گئی تھی جو بمشکل کھلتی تھی۔
پو پھٹنے تک سوجن اور تکلیف کم نہ ہوئی تھی۔
دس بجے کے بعد ہم دوبارہ نویں سنگِ میل کو گئے۔ پھر وہاں نسبتاً آسان راستے سے اس غار تک جا پہنچے۔
اس مرتبہ مکھیاں پھر سکون سے کام کر رہی تھیں۔ ہر طرف سکون اور خاموشی تھی۔
ساتھیوں کو وہیں چھوڑ کر میں کُش کے ساتھ پھر اوپر چڑھا اور انتہائی احتیاط سے غار کو پہنچا۔ جب تک میں مکھیوں کو تنگ کرتا، ہم محفوظ رہتے۔
مجھے یقین تھا کہ کل والی دو گولیوں سے تیندوا مر چکا ہوگا۔ اگر نہ بھی مرا ہوتا تو مکھیوں کے ڈنک سے مر چکا ہوتا۔
میرا اندازہ درست تھا۔ دہانے سے چند قدم اندر تیندوا مردہ حالت میں پڑا تھا۔ کش اس سے ایک گز دور رک گئی اور غرانے لگی۔ میں نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھا تاکہ پھر سے مکھیاں مشتعل نہ ہوں۔
غار سے نکل کر میں نے اشارے سے ان لوگوں کو بلایا۔ ہم سب نے مل کر تیندوے کو ڈھلوان سے اتارا۔ چرواہے کے پاس چاقو تھا جس کی مدد سے اس نے ایک شاخ اور کافی ساری بیلیں کاٹیں۔ پھر ہم چاروں اسے کار تک اٹھا کر لائے اور پھر اسے گاڑی پر لاد دیا۔
ڈینکانی کوٹہ کے فارسٹ بنگلے پہنچ کر میں نے کھال اتاری۔
یہ عام جسامت کا نر تیندوا تھا جس کی لمبائی چھ فٹ سات انچ تھی۔ اس کی چتیاں کالے بالوں کے نیچے واضح تھیں۔ یہ پہلا اور واحد سیاہ تیندوا ہے جو میں نے شکار کیا ہے۔
سیاہ رنگت کی وجہ سے ڈنک کی تعداد دیکھنا مشکل تھا مگر میں نے اپنے ساتھیوں کو اس کام پر لگایا اور نکالے ہوئے ڈنک خود گنے جو کل 273 تھے۔ نامعلوم کتنے ہمیں دکھائی نہیں دیے ہوں گے۔
ان لوگوں کو میں نے بنگلور واپسی سے قبل معقول انعام دیا اور خود میرے لیے سیاہ تیندوے کی کھال بہت قیمتی تھی کہ ایسا جانور نایاب ہوتا ہے۔ اس کےعلاوہ میں نے کُش کے مالک کو سات روپے دے کر اسے بھی خرید لیا تھا۔
اب یہ بتانا رہ گیا ہے کہ تیندوے نے جب پانی پیا تو اس وقت زخم کے دو نشان دکھائی دیے تھے۔ ایک سے زیادہ جبکہ دوسرے سے کم خون بہا تھا۔ حالانکہ میں نے صرف ایک گولی چلائی تھی۔
میری چلائی ہوئی گولی جو آنکھوں کے بیچ لگنی تھی، کنپٹی کے پیچھے کان پر گہری خراش ڈالتی ہوئی پیٹ میں جا لگی۔ دوسرے زخم سے زیادہ خون بہا تھا کہ پہلا زخم سطحی تھا۔ شاید اس وقت تیندوا بالکل سیدھا نہ تھا اور جست لگانےوالا ہی تھا کہ میں نے گولی چلائی تھی۔
غار میں دو گولیاں چلائی تھیں جن میں سے پہلی گولی سینے میں لگی اور دوسری گولی اس کے کھلے منہ سے ہوتی ہوئی گُدی سے جا نکلی۔
 

قیصرانی

لائبریرین
5۔ سانپ اور جنگل کی دیگر مخلوقات
انڈین جنگلات اور اس کی جنگلی حیات کے بارے بہت کچھ لکھا جا چکا ہے جو اس میں دلچسپی رکھنے والے اصحاب کے لیے بے پناہ کشش رکھتا ہے۔ ڈنبار برینڈر، چیمپین، گلسفرڈ، بیسٹ اور کاربٹ جیسے شہرہ آفاق شکاریوں نے ان جانوروں سے متعلق اپنے ذاتی تجربات کے بیش بہا خزانے کتب کی شکل میں پیش کیے ہیں۔
بعض کتب نصف صدی قبل لکھی گئی ہیں جب انڈیا میں ہر قسم کے جانور بالخصوص درندے بکثرت پائے جاتے تھے۔ ان کی تحاریر ہمیشہ شوق سے پڑھی جاتی تھیں۔ مگر ان تحاریر کی اہمیت اب زیادہ واضح ہوتی ہے کہ جوں جوں وقت گزر رہا ہے، انڈیا سے جنگلی حیات کا خاتمہ ہوتا جا رہا ہے۔ سو ان شکاریوں کی داستانیں گزرے دنوں کی یادگار بن گئی ہیں۔
ان میں سے کچھ کتابیں نصف صدی قبل لکھی گئی تھیں اور اس وقت جنگلی حیات بشمول درندے اپنے عروج پر تھی۔ ان کتب کی اہمیت ہمیشہ رہی ہے مگر اب ان کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ عنقریب یہ جنگلی حیات قصہ پارینہ بن جائے گی۔
یہ بھی اہم حقیقت ہے کہ انڈیا اور افریقہ کے شکاریوں کی بڑی اکثریت نے اپنی زندگی کا آغاز پیشہ ور یا شوقیہ شکاری کے طور پر کیا اور بعد جنگلی حیات اور جنگل سے ان کی محبت اتنی بڑھ گئی کہ وہ ان کی بقا کے لیے کام کرنے لگے۔ ان میں سے بہت سوں نے شکار کی جگہ فوٹوگرافی اور فطرت کے مشاہدے کو اپنا لیا۔
شروع کے سالوں میں تو جنگل کے اندر شکار کے لیے جانا خطرناک کام سمجھا جاتا تھا۔ نہ صرف جنگلی جانوروں سے لاحق خطرات تھے بلکہ زہریلے سانپ، بچھو، مکڑیاں اور دیگر مخلوقات کے علاوہ جنگل میں ملیریا، کالا پانی اور دیگر بیماریاں بھی بہت پائی جاتی تھیں۔
مثال کے طور پر میرے والد کے دور میں نیلگری پہاڑوں میں یا میسور میں کدور اور شموگا کے اضلاع یا مغربی گھاٹ کو جانا کافی خطرناک سمجھا جاتا تھا۔ ان علاقوں میں صبح کے وقت چھانے والے کہرے کے بارے مشہور تھا کہ اس سے سانس کی بیماریاں، نمونیا اور ملیریا لاحق ہوتے ہیں۔ جنگلی درندے بھی نڈر اور خوفناک ہوتے تھے۔
پرانے لکھاریوں نے ہمیں دکھایا کہ یہ جنگلی درندے اپنے فطری مسکن میں بالکل بھی خطرناک نہیں تھے بلکہ تقریباً ہمیشہ ہی انسان سے خوفزدہ رہتے تھے۔
سائنس نے ہمیں بتایا کہ انڈیا میں کوئی زہریلی مکڑی نہیں اور محض چند اقسام کے سانپ ہی زہریلے ہیں۔ اس کے علاوہ نمونیا اور سانس کی دیگر بیماریاں انڈیا کے گرم ترین اور خشک ترین شہروں میں بھی لاحق ہو سکتی ہیں۔ سر رونلڈ روس نے بتایا کہ ملیریا ایک مخصوص قسم کے مچھر میں موجود طفیلیے سے پھیلتا ہے۔ یہ مچھر کھڑے پانی اور نکاسئ آب کے مقامات پر رہتا ہے جو بڑے شہروں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ اس پر بہت ساری کاروائیاں کی جا رہی ہیں تاکہ اس بیماری کو ختم کیا جا سکے۔ سائنس نے ان بیماریوں کے علاج بھی دریافت کر لیے ہیں اور اب یہ بیماریاں مہلک نہیں رہیں۔
جہاں تک زہریلے سانپ اور جنگلی جانوروں کا خطرہ ہے تو اس بارے ہمیشہ تجربہ مدد کرتا ہے۔
تاہم چند استثنائی صورتوں اور انتہائی مخصوص مقامات کے علاوہ جنگل میں کہیں بھی موجود خطرات سے کہیں زیادہ خطرات بڑے شہر میں سڑک عبور کرنے والے افراد کو لاحق ہوتے ہیں۔ ماضی کے لکھاری ہمیں یہ باتیں واضح کر کے بتا چکے ہیں۔
ظاہر ہے کہ نئے شکاری بعض اوقات ایسی غلطی کر جاتے ہیں کہ انہیں مشکل ہو، مگر وہ ان کی اپنی غلطی اور نادانی ہوتی ہے۔
تاہم تجربہ ایسی چیز ہے جو متلاشی کو آسانی سے مل جاتی ہے۔
شیر کو انڈین جنگلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے کیونکہ انڈیا میں ببر شیر کم مقدار میں اور محض گجرات کے علاقے میں گیر کے جنگلات میں پایا جاتا ہے اور وہاں ان کی سختی سے حفاظت کی جاتی ہے۔
شیر شاندار، خوبصورت اور بارعب جانور ہے مگر جنگل کا حقیقی بادشاہ ہاتھی ہوتا ہے جو اپنے عظیم جُثے، بے پناہ طاقت اور بسا اوقات غیر متوقع رویے سے جانا جاتا ہے۔ اصولی طور پر شیر کی نسبت ہاتھی کہیں زیادہ خطرناک ہوتا ہے اور ایسے جنگلات جہاں ہاتھی اور شیر دونوں رہتے ہوں، کے مقامی باشندے شیر کی نسبت ہاتھی سے کہیں زیادہ ڈرتے ہیں۔ آدم خور شیر الگ چیز ہے۔
آپ جنگل میں کسی مقامی بندے کے ساتھ پیدل سیر پر نکلیں۔ اگر آپ نے شیر یا تیندوا دیکھا تو وہ آپ کو اشارہ کر کے بتائے گا کہ وہ شیر یا تیندوا جا رہا ہے۔ مگر کسی شاخ کے توٹنے کی آواز سنتے ہی وہ اچانک رک کر اپنی زبان میں ایک ہی لفظ کہے گا جس کا مطلب ہے ‘ہاتھی‘۔ پھر آواز کی سمت جانچ کر ایسے راستے پر چل پڑے گا جو پیٹ بھرتے ہوئے ہاتھی سے ہر ممکن طور پر دور جاتا ہو۔
ان کا یہ خوف ان کے آباؤ اجداد کے وقت سے چلا آ رہا ہے۔ انہیں ہاتھی کی بدمزاج کا بخوبی علم ہے اور وہ کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتے۔
عام طور پر جنگلی ہاتھی بے ضرر جانور ہے تاہم اس کا رویہ اس کے جذبات اور ہیجان کے پابند ہوتے ہیں اور آسانی سے اسے مشتعل ہو سکتا ہے۔ عجیب بات دیکھیے کہ افریقی ہاتھیوں کے برعکس انڈین ہاتھی کے غول میں جتنے ہاتھی ہوں، خطرہ اتنا کم ہو جاتا ہے۔ تاہم ہاتھی کے بے ضرر ہونے کا انحصار چار عوامل پر ہے۔
وہ چار عوامل یہ ہیں: ‘پاگل ہاتھی‘، جس نے کسی انسان کو ہلاک کیا ہو، ‘مست‘ ہاتھی یعنی ایسا نر جو جنسی ملاپ کے لیے تیار ہو، کبھی کبھار ایسا نر ہاتھی جو غول سے الگ اور اکیلا چر رہا ہو اور بچے کے ساتھ ہتھنی۔ یہ بھی بات اہم ہے کہ ان چاروں مواقع پر ہاتھی یا ہتھنی غول کے ساتھ نہیں بلکہ الگ ہوں گے۔ افریقی ہاتھی تقریباً ہمیشہ ہی غول کی صورت میں ایک ساتھ شکاری پر ہلہ بولتے ہیں۔ انڈین ہاتھی ایسا نہیں کرتے۔
تاہم مندرجہ بالا چاروں حالتوں میں ہاتھی ہمیشہ مہلک اور تباہی کا کارندہ بن جاتا ہے۔ وہ انسان کا ایک میل تک پیچھا جاری رکھے گا، اگر انسان اتنی دور بھاگ سکے، اور اسے مار گرائے گا۔ پھر اس کے بازو اور ٹانگیں دھڑ سے نوچ کر الگ کر دے گا یا پھر اپنے پیر رکھ کر اسے قیمہ بنا دے گا یا پھر سونڈ میں جکڑ کر درخت یا کسی چیز سے مار مار کر ہلاک کر دے گا یا پھر ہوا میں اونچا اچھال دے گا۔
جنگل میں تالاب کے کنارے بیٹھ کر میں گھنٹوں جنگلی ہاتھیوں کو پانی پینے آتے اور پھر پانی میں کلیلیں کرتے دیکھا ہے اور پھر شیر یا تیندوے کی آواز نکال کر ان کے رویے کا مشاہدہ کیا ہے۔ شیر کی آواز سن کر سارا غول ایک ساتھ مل کر چنگھاڑتے ہیں اور راستے میں آنے والی جھاڑیوں وغیرہ کو بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ اس طرح بھاگتے ہوئے ہاتھی اپنے بچوں کو سونڈ سے پکڑ کر اپنے سامنے رکھتے ہیں۔ اگر ہاتھی اکیلا ہو تو شیر کی آواز سن کر خاموش کھڑا ہو کر اپنے کان آگے کو کرے گا اور پھر سونڈ کو اٹھا کر شیر کی بو سونگھنے کی کوشش کرے گا۔ پھر مڑ کر وہ خاموشی سے جنگل میں غائب ہو جائے گا۔ میں نے آج تک کبھی شیر کی آواز سن کر اکیلے ہاتھی کو اپنی جگہ کھڑے رہتے نہیں دیکھا۔ ظاہر ہے کہ اپنے جثے اور طاقت کے باوجود ان میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ شیر کا سامنا کر سکیں۔
میں نے ایک جگہ پڑھا ہے کہ ہاتھی کی آنکھ چیزوں کو بڑا کر کے دکھاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ شیر اور انسان دونوں ہی ہاتھی کو اصل سے بڑے ہو کر دکھائی دیتے ہوں گے۔ شاید اسی وجہ سے ہاتھی شیروں اور انسان سے دور بھاگتے ہیں۔
تیندوے کی آواز کا کچھ مختلف اثر ہوتا ہے۔ اگر غول ہو تو نر مشتعل ہو کر دفاع پر کمربستہ ہو جاتے ہیں۔ اکیلا ہاتھی لگ بھگ ہمیشہ فرار کو ترجیح دیتا ہے تاہم شیر کی نسبت تیندوے کی آواز پر کچھ رک کر فرار ہوتا ہے۔ ایک آدھ بار ایسا ہوا ہے کہ کہ ہاتھی نے سونڈ پانی پر ماری اور پھر پانی پیتا رہا۔ تاہم صاف ظاہر تھا کہ وہ گھبرا چکا ہے۔
میرے یہ دلچسپ مذاق ہاتھیوں کے عظیم جثے اور قوت کے باوجود ان کو کم ہمت ثابت کرتے ہیں۔ ہاتھی خاصے بزدل اور کمزور اعصاب رکھتے ہیں۔ شاید وہ کمزوروں پر رعب جمانے کے ماہر ہوتے ہیں۔ تاہم مندرجہ بالا چار وجوہات کے علاوہ عام ہاتھی کبھی بھی ایسے کسی جانور یا انسان پر حملہ نہیں کرتا جو دفاع کے قابل ہو۔
ہاتھیوں سفید رنگ سے نفرت ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے ہاتھیوں والے جنگلات میں سنگِ میل اور فرلانگ کے نشانات کو سفید کی بجائے کالا رنگا جاتا ہے۔ اگر یہ سفید ہوں تو ہاتھی انہیں دیکھتے ہی اکھاڑ کر دور پھینک دیتا ہے۔ اسی وجہ سے شکاری یا جنگل کی سیر پر جانے والے افراد کو سفید رنگ نہیں پہننا چاہیے ورنہ ہاتھی حملہ کر دیں گے۔ پہلے فیشن کے مطابق سمجھا جاتا تھا کہ سفید رنگ کی ٹوپی سے نہ صرف دھوپ سے بچاؤ ہوتا ہے بلکہ پہننے والے کو گرمی سے بھی بچاتا ہے۔ ایک بار میرا ایک جاننے والا ایسی سفید ٹوپی پہن کر جنگل شکار کے لیے گیا۔ اب سفید ٹوپی پہن جنگل میں سیر کرنے کیوں گیا، اس بارے کچھ نہیں کہہ سکتا کہ نہ صرف ہاتھی حملہ کر دیتے ہیں بلکہ جنگل میں سفید رنگ ویسے بھی ہر قسم کی حرکات کو مشکوک بنا دیتا ہے۔
خیر، اس نے ٹوپی پہنی۔ وہ اور اس کا رہنما شلوگا دونوں ایک پہاڑی پر جا رہے تھے کہ انہیں دو سو گز دور ایک ہاتھی دکھائی دیا جو کچھ بلندی پر اور صاف قطعے کی دوسری جانب کھڑا چر رہا تھا۔ عین اسی وقت ہاتھی نے انہیں دیکھا۔ عموماً ہاتھی اتنی دور سے نہیں دیکھ سکتے کہ ان کی نظر بہت کمزور ہوتی ہے اور ہوا مخالف سمت میں چل رہی تھی اور ہاتھی ان کی بو نہ سونگھ سکتا تھا۔ تاہم سفید رنگ کی ٹوپی سبز اور بھورے پسِ منظر میں خوب چمک رہی ہوگی۔
ہاتھی چنگھاڑ کر ان کے پیچھے بھاگا۔ شکاری اور رہبر، دونوں بھاگ نکلے۔ خوش قسمتی سے رہبر کافی ماہر تھا اور برسوں سے ‘صاحبوں‘ کو شکار کھلا رہا تھا۔ شکاری کے پیچھے بھاگتے ہوئے اسے ہدایات دیتا رہا کہ کس سمت جانا ہے۔ ہاتھی قریب سے قریب تر ہو رہا تھا۔ سو رہبر نے رفتار تیز کر کے صاحب کی ٹوپی اتاری اور زمین پر پھینک کر دوڑ جاری رکھی۔ ہاتھی ٹوپی کے پاس پہنچا تو ان لوگوں میں اس کی دلچسپی ختم ہو گئی۔ یہ کہنا تو ضروری نہیں کہ ہاتھی نے ٹوپی ریزہ ریزہ کر دی۔ ہاتھی کا مقصد ان پر حملہ کرنا نہیں تھا بلکہ وہ سفید رنگ کی اس چیز سے پیچھا چھڑانا چاہ رہا تھا۔
نر ہاتھیوں کے درمیان ہونے والی لڑائیاں مناسب وقفوں کے بعد تین روز تک بھی جاری رہ سکتی ہیں۔ عموماً یہ لڑائی کسی ہتھنی کی وجہ سے شروع ہوتی ہے مگر ایسا کم ہوتا ہے۔ زیادہ تر نر ہاتھیوں میں مستی کی کیفیت میں لڑائی ہوتی ہے جس میں متعلقہ نر کو غول سے بھگا دیا جاتا ہے۔
زیادہ تر نوجوان ہاتھی جب مست ہوتے ہیں تو غول کے سربراہ سے لڑائی کرتے ہیں۔
ایسی لڑائیوں میں نر ایک دوسرے کو اپنے بیرونی دانت جگہ جگہ گھونپتے ہیں۔ یہ کہنا تو ضروری نہیں کہ ایسے وقت کسی بھی زندہ چیز کو دیکھتے ہی وہ اسے مار ڈالتے ہیں۔
ایک بار ضلع سالم کے محمکہ جنگلات کا ایک کارندہ ایسی ہی لڑائی کے دوران وہاں جا پہنچا۔ دونوں ہاتھیوں نے اپنی لڑائی چھوڑ کر اس بندے پر حملہ کر کے اس کا قیمہ بنا دیا۔ چند روز بعد اس کے ساتھیوں نے آ کر اس کی باقیات اٹھائیں۔
میں پاگل ہاتھیوں کے بارے پہلے لکھ چکا ہوں، اس لیے یہاں زیادہ لکھنا مناسب نہیں۔ بس اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ جنگل میں یہ کمینے دشمن ثابت ہوتے ہیں اور جب اپنی سونڈ کو موڑ کر یہ عظیم الجثہ جانور حملہ کرتے ہیں تو ان کی دم اور کان سیدھے ہوتے ہیں اور ہر چیز کو کچلتے ہوئے آتے ہیں۔ ان کی چنگھاڑ مرتے دم تک یاد رہتی ہے۔ کسی انسان کو جب یہ پکڑ لیں تو مختلف طریقوں سے مارتے ہیں۔ ایک بار ایک پاگل ہاتھی نے نیلگری کے فارسٹ گارڈ کو ہوا میں اچھال دیا تھا اور وہ بیچارہ بانس کے درخت پر گرا اور بانس ٹوٹ کر اس کے جسم میں گھس گیا اور وہ بعد میں مر گیا۔ سیگور کے پاگل ہاتھی کو پادری بُل نے ہلاک کیا تھا۔ اس کی جسامت چھوٹی تھی مگر اس کا غصہ اور نفرت بہت زیادہ۔ اس کی عادت تھی کہ انسانوں کا پیچھا بھی کرتا اور بانس کے جھنڈ یا چٹانوں کے پیچھے بھی چھپ کر کھڑا ہو جاتا۔ ایک بار اس نے سیگور روڈ پر ایک قلی عورت کو پکڑا اور اسے کچل دیا۔ پھر اس کے ٹخنے سے بندھی چاندی کی پازیب اور گلے میں لکڑی کے موتیوں کا ہار بھی اتار کر کئی گز دور پھینک دیے۔
ایک اور واقعے میں ایک فارسٹر پر ناروا نامی کیڑے والی بیماری کا حملہ ہوا۔ بیماری کی وجہ سے لمبی چھٹیوں کے بعد اسے کاہلی کی عادت پڑ گئی اور کام چھوڑنا چاہ رہا تھا۔ اسے بلیریرینگن پہاڑی سلسلے میں تعینات کیا گیا تھا جو ہاتھیوں سے بھرا ہوا تھا۔ اُن دنوں یہاں ایک پاگل ہاتھی موجود تھا جو کافی عرصے سے پاگل مشہور تھا مگر کسی نے شکار نہیں کیا تھا۔ ایک روز بدقسمتی سے یہ بندہ ہاتھی کو دکھائی دے گیا۔ ہاتھی نے اس کا پیچھا کیا۔ بھاگتے ہوئے ایک ندی عبور کرنے کے دوران اس کے ٹخنے میں موچ آ گئی۔ ہاتھی نے اسے پکڑا اور چیر کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ اس نے تین روز تک باقیات پر پہرہ دیا اور ہر قسم کی آمد و رفت روکے رکھی۔ پھر جا کر اس کے رشتہ داروں نے باقیات کو اٹھا کر جلا دیا۔
اسی ضلع میں بیلور کے پاس ایک اور پاگل ہاتھی نے ایک بار بیل گاڑی بمع بیلوں کے الٹ دی۔ اس نے وان انگن کو بھی ہلاک کیا جو میسور کا مشہور ٹیکسی ڈرمسٹ تھا۔
یاد رہے کہ یہ واقعات پاگل ہاتھیوں سے متعلق ہیں۔ عام ہاتھی کے بارے جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں، شرمیلا اور بزدل ہوتا ہے۔
انڈین جنگلوں میں سب سے زیادہ بہادر اور شیر دل جانور زخمی سؤر ہوتا ہے۔ اپنی مختصر جسامت میں اپنے سے کہیں بڑے جانوروں کے مقابلے میں جنگلی سور میں زیادہ ہمت، بہادری اور جوش کے علاوہ قوتِ برداشت بھی ہوتی ہے۔ زخمی ہاتھی، بھینسے اور شیر اور تیندوے بھی فرار کی کوشش کرتے ہیں اور اس وقت حملہ کرتے ہیں جب کوئی اور چارہ نہ رہے۔ تاہم بوڑھا سؤر جب زخمی ہو جائے تو شکاری کے مقام سے آگاہ ہوتے ہی سیدھا ہلہ بول دیتا ہے۔ اس سے زیادہ خوفناک دشمن اور کوئی ممکن نہیں۔
دلچسپ ہونے کے اعتبار سے شیر بھی لگ بھگ ہاتھی جتنا ہی دلچسپ ہے۔ میں شیر کو مسحور کن سمجھتا ہوں۔ چند واقعات میں کہ جب شیر آدم خور بن کر کئی سو مربع میل کے علاقے میں دہشت پھیلا دیتا ہے، کے علاوہ شیر حقیقتاً شریف جانور ہے۔ اس کا شکار بلاشبہ شاہانہ کھیل ہے۔ زخمی شیر کا پیچھا کرنا انتہائی مہارت اور خطرے سے بھرپور کام ہے اور شکاری کو ماہر کھوجی بھی ہونا چاہیے۔ تاہم زخمی شیر کو ختم کیے بغیر چھوڑ دینا بہت بزدلانہ اور ظالمانہ فعل ہے کہ اس طرح درندہ تکلیف سے تڑپتا رہتا ہے اور اس علاقے کے باسیوں کے لیے بھی خطرہ ہوتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اسی زخم سے وہ آدم خوری شروع کر دے۔ شیر بہت نڈر حریف ہے۔ وہ لڑائی سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور اگر لڑائی سے بچا نہ جا سکے تو پھر آخری سانس تک لڑتا ہے۔
بنگلور کے ایک فوجی اور پادری یروس نے ایک بار شموگا ضلعے میں کُمسی میں گولی چلا کر ایک شیر کو زخمی کیا۔ شیر نے حملہ کر کے اس کے بازو کو چبا ڈالا۔ اس کا انڈین ڈرائیور جو بندوق بردار تو تھا مگر بندوق چلانا نہیں جانتا تھا، نے شیر کو بندوق کا کندہ مار مار کر بھگا دیا۔ چرچ نے اس کی بہادری کے اعزاز میں تقریب منعقد کی۔
اس بدقسمت پادری کو کُمسی کے مسافر بنگلے لایا گیا جہاں مقامی ڈاکٹر نے اس کا بازو کاٹ دیا۔ بعد میں کٹے ہوئے بازو کو اسی بنگلے کے صحن میں ایک درخت کے نیچے دفن کیا گیا۔ بنگلور جانے والی اگلی ٹرین سے اضافی بوگی لگا کر یروس کو بھیجا گیا اور بنگلور کے ہسپتال میں اگلے روز وہ زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسا اور پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔
تیندوے جسامت، طاقت یا شان میں شیر کے برابر نہیں ہو سکتا۔ تیندوا انتہائی مکار بھی ہوتا ہے۔ جیسا کہ میں پہلے آدم خور تیندوؤں کے بارے بتا چکا ہوں کہ آدم خوری شروع کرنے کے باوجود بھی تیندوے کے دل سے انسان کا خوف نہیں نکلتا۔ شاید ہی کبھی تیندوا سامنے سے حملہ کرے، مگر اس کا حملہ تقریباً ہمیشہ ہی عقب سے اور بے خبری کی حالت میں ہوتا ہے۔ یہ حملے بھی تاریکی میں کیے جاتے ہیں۔
تیندوے کو کتے کا گوشت بہت پسند ہوتا ہے۔ ایک بار تیندوؤں کا ایک جوڑا چھوٹی سی پہاڑی پر پر مندر کے پاس رہنے لگ گئے جو کومبتور ضلع میں کولیگل کے قصبے سے ایک میل دور ہے۔ انہوں نے امریکی مشنریوں کے لیے مصیبت کھڑی کر دی اور جونہی کوئی کتا آتا، اسے لے اڑتے۔
آخرکار تیندوے اتنے بدنام ہو گئے کہ مقامی سب انسپکٹر نے کچھ جوانوں کو ساتھ ملا کر ان تیندوؤں کا شکار کرنے نکل کھڑا ہوا۔ اس کا ارادہ تھا کہ غار میں سلگتی ہوئی لکڑی وغیرہ ڈال کر دھوئیں سے انہیں باہر نکالا جائے۔ انہوں نے اس علاقے کی گھاس کو پہلے ہی آگ لگا دی تھی۔ جب تیندوے نہ نکلے تو انہوں نے مشعلیں وغیرہ بنا کر غار کے اندر پھینکیں۔ اس پر تیندوے باہر کو بھاگے۔ ایک تیندوا ہلاک ہوا مگر کئی لڑکے بھی زخمی ہوئے۔ دوسرا تیندوا ایک مرد کو زخمی کر کے بھاگا۔ ایک مشنری اس کے پیچھے گیا مگر تیندوا اسے بھی زخمی کر کے بھاگ گیا۔
کالا ریچھ یا بھالو جنوبی انڈیا کے جنگلات میں بھی پایا جاتا ہے اور اس کی نظر کمزور ہوتی ہے اور بدمزاج بہت۔ کسی بھی اعتبار سے بہادر نہیں ہوتا بلکہ الٹا آسانی سے مشتعل ہو جاتا ہے۔ ریچھ بزدل ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل تین ریچھوں کا خاندان جو ماں، باپ اور بڑے بچے پر مشتمل تھا، کلازپت کے پاس ایک ایسی غار میں گھسا جہاں تیندوا رہتا تھا۔ تیندوے نے تینوں پر حملہ کر دیا۔ بچہ تو بھاگ گیا مگر بڑے ریچھوں نے رک کر مقابلہ کیا مگر جب تیندوے کے تیز پنجوں نے مزاج پرسی کی تو وہ بھی بھاگ نکلے۔ بھاگنے کی جلدی میں نر ریچھ یہ نہ دیکھ سکا کہ کہاں جا رہا ہے اور سو فٹ اونچی چٹان سے نیچے گرا اور اس کے بازو ٹوٹ گئے۔ اگلی صبح گاؤں والوں نے اسے نیزے مار مار کر مار ڈالا۔
اگر ریچھ آپ کو آتے ہوئے دیکھ لے یا آواز سن لے تو فوراً بھاگ نکلتا ہے۔ اگر آپ کسی موڑ پر اسے اچانک دکھائی دیں تو وہ حملہ کر دیتا ہے۔ تاہم یہ حملہ محض بھاگنے کی کوشش اور راستہ صاف کرنے کی حد تک ہوتی ہے، کوئی بہادرانہ حملہ نہیں ہوتا۔ شاید وہ سمجھے کہ آپ اسے روکنے کی کوشش کریں گے۔ حملے میں وہ اپنے چار انچ لمبے پنجوں سے بندے کا چہرہ اور آنکھیں نوچ لیتا ہے۔ پھر وہ کاٹتا بھی ہے۔ میں نے جنگل میں رہنے والے لوگوں کو دیکھا کہ جن پر ریچھ نے حملے کیے تھے۔ ان لوگوں کا حلیہ بگڑ کر رہ گیا تھا۔
ریچھ زمین کھودتے یا دیمک کی بمیٹھی کو کھدیڑتے ہوئے بالکل مسخرہ دکھائی دیتا ہے۔ اس کے منہ سے ایسی آوازیں نکلتی ہیں جیسے دھونکنی چل رہی ہو یا پھر جیسے بِھڑ غصے سے بھنبھا رہا ہو۔ مطلوبہ چیز تک پہنچنے کے لیے اس کے جسم میں عجیب عجیب حرکات اور اندازہ دکھائی دیں گے۔ ریچھ کی نیند بہت گہری ہوتی ہے اور اکثر زمین میں گڑھا کھود کر اس میں سوتا ہے۔ یا پھر پتھروں کے درمیان یا پھر غار یا پھر کسی سایہ دار درخت کے نیچے یا پھر گھاس پر بھی سو جاتا ہے۔ اس کے خراٹے دور سے سنائی دے جاتے ہیں۔ تاہم جب خراٹے نہ لے رہا ہو تو انسان اس کے سر پر جا پہنچتا ہے۔ اس طرح اچانک نیند سے بیدار ہونے پر ریچھ حملہ کر دیتا ہے۔
کومبتور کے شلوگا ریچھوں کے بارے کافی محتاط رہتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی چھوٹی مگر تیز دھار کلہاڑی سے ریچھ کی کھوپڑی کاٹ ڈالتے ہیں۔ ریچھ اپنے شکار پر حملہ کرنے کے لیے اپنے پچھلے پیروں پر انسان کی طرح کھڑا ہو جاتا ہے اور اس طرح اس کا اپنا چہرہ، سر، گلا اور سینہ سامنے آ جاتا ہے اور تیز کلہاڑی سے کیا گیا ایک ہی وار کاری ثابت ہوتا ہے۔ ان لوگوں کے بائیں بازو پر کالا اونی کمبل پڑا رہتا ہے جو ڈھال کا کام دیتا ہے۔
بنیادی طور پر ریچھ سبزی خور اور حشرات تک محدود رہتا ہے مگر مردار کھانے سے بھی عار نہیں۔ میں نے بہت مرتبہ ریچھ کو شیر یا تیندوے کے شکار کے سڑتے گوشت سے پیٹ بھرتے دیکھا ہے۔
جنگل کے خطرات میں سے ایک اہم خطرہ زہریلے سانپ بھی ہوتے ہیں۔ اصل میں سانپوں سے متعلق داستانوں کا بہت بڑا حصہ فرضی ہوتا ہے۔ جنگل میں رہنے والے سانپوں کی تعداد کم ہے اور ان سے شاذ ہی مڈبھیڑ ہوتی ہے۔ ان کی اکثریت دیہاتوں کے نزدیک، کھیتوں اور ایسی جگہوں پر رہتی ہے جہاں غلہ اگایا جاتا ہے۔ ایسی جگہوں پر لاکھوں چوہے رہتے ہیں جو سانپ کی خوراک بنتے ہیں۔
جہاں تک انسان کا تعلق ہے، پورے انڈیا میں سانپ کی محض پانچ اقسام زہریلی ہیں۔ کچھ اور سانپ بھی زہریلے ہیں مگر وہ محض سوجن اور درد سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے۔ زہریلے سانپوں میں شیش ناگ یعنی کنگ کوبرا یعنی ہمڈریارڈ، رسلز وائپر، تکون چھلکوں والا وائپر یعنی پُرسا اور کریٹ شامل ہیں۔ کورل سانپ بہت زہریلا ہوتا ہے مگر اس کا منہ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ انسان کو نہیں کاٹ سکتا۔ ویسے بھی یہ سانپ بہت خاموش طبع ہے۔ پٹ وائپر سارے ہی زہریلے ہوتے ہیں مگر وہ محض ان افراد کے لیے ہی مہلک ثابت ہوتے ہیں جو پہلے سے ہی کسی دوسری بیماری میں مبتلا ہوں۔ تاہم یہ موت زہر سے زیادہ خوف سے ہوتی ہے۔ زیادہ تر سمندری سانپ انتہائی زہریلے ہوتے ہیں اور ان میں سے بعض کا زہر کوبرا سے بارہ گنا زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ تاہم یہ سمندری مخلوق ہیں۔
آئیے ان کا مقابلہ کر کے دیکھتے ہیں: رسل وائپر کا زہر تکون چھلکوں والے سے دو گنا طاقتور ہوتا ہے، کوبرا کا زہر رسل وائپر سے تین گنا زیادہ طاقتور جبکہ کریٹ کا زہر کوبرا سے دو گنا زیادہ زہریلا ہوتا ہے۔ عام کوبرا کی نسبت شیش ناگ یا کنگ کوبرا کا زہر اتنا طاقتور نہیں ہوتا۔ تاہم کنگ کوبرا پندرہ فٹ تک بھی پایا جاتا ہے، سو اس کے زہر کی شدت کی کمی زہر کی مقدار سے پوری ہوتی ہے کہ یہ چار گنا زیادہ زہر چھوڑتا ہے۔ سو دنیا کا یہ سب سے بڑا زہریلا کنگ کوبرا عام کوبرا سے تین گنا زیادہ زہریلا ہوتا ہے۔
کنگ کوبرا محض ایسے سدا بہار جنگلات میں پایا جاتا ہے جہاں سارا سال خوب بارش ہوتی ہو۔ یہ سانپ انسانی مساکن سے ہر ممکن دور رہتا ہے۔ اس کی خوراک دوسرے سانپ بنتے ہیں، سو اسے پالنا آسان کام نہیں۔ میسور کے چڑیا گھر میں ایک کنگ کوبرا پورا ایک سال بھوکا رہ کر مر گیا حالانکہ اسے بے ضرر سانپ بہت مرتبہ کھانے کو دیے گئے مگر اس نے منہ نہ لگایا۔ اس کی موت سے میسور کے پریس میں کافی شور مچا اور شہر کے لوگوں نے مذہبی بنیاد پر سانپوں کو چڑیاگھر رکھنے کے خلاف احتجاج کیا۔
شیش ناگ یا کنگ کوبرا کافی بڑے حجم کا ہوتا ہے اور اس کا رنگ زیتونی سبز ہوتا ہے اور سفید دھاریاں بنی ہوتی ہیں۔ برما اور ملایا میں نر تقریباً کالا ہوتا ہے اور اس پر سفید دھاریاں بھی۔ اس کا پھن بھی سانپ کی جسامت کے اعتبار سے اتنا بڑا نہیں ہوتا جتنا کوبرے کا ہوتا ہے اور نہ ہی V کی شکل کا نشان بھی۔ یہ سانپ بہت زودرنج ہوتا ہے اور دیکھتے حملہ کر دیتا ہے خصوصاً انڈے سینچتی ناگن۔ اس کا گھونسلہ گرے ہوئے پتوں سے بنا ہوتا ہے۔ میں نے اس کے غصیلے پن کا مشاہدہ کبھی نہیں کیا حالانکہ دو مرتبہ بہت قریب سے دیکھ چکا ہوں۔ پہلی بار میں بنگلور میں اپنے باغ کے لیے کچھ پودے کھود رہا تھا اور ساتھ ہی کوشش تھی کہ شوخ لال رنگ کی دم والی کچھ مچھلیاں بھی پکڑتا جاؤں جو مغربی گھاٹ کی گہری ندیوں میں عام پائی جاتی ہیں۔ یہ مقام آگمبے کہلاتا تھا۔ مچھلیاں میں نے اکیوریم میں رکھنی تھیں۔ اچانک مجھے ایسا لگا کہ پودوں سے کوئی گوہ مجھے گھور رہی ہو۔ میں اس وقت ندی میں گھسا ہوا تھا، سو میں اس کے قریب ہوا تاکہ دیکھوں کہ پتہ چلا کہ وہ گوہ نہیں بلکہ شیش ناگ تھا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ چھ فٹ بلند ہوا اور چونکہ اوپر کنارے پر تھا، سو مجھ سے کافی اوپر کھڑا ہو گیا۔
غصے سے وہ لرز رہا تھا اور ننھی ننھی کالی آنکھیں جیسے شعلے برسا رہی ہوں اور منہ سے پھنکار نکل رہی تھی۔ میرے پاس اس وقت چھڑی بھی نہیں تھی، سو میں وہیں بالکل ساکت کھڑا ہو گیا۔ چند لمحے بعد سانپ کا غصہ فرو ہوا اور نیچے ہو کر وہ مجھ سے پانچ فٹ دوری سے ندی میں گھسا۔ نصف ندی عبور کر کے وہ رکا اور مجھے دیکھا کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ چونکہ میں بالکل ساکت کھڑا تھا تو سانپ نے سفر جاری رکھا اور دوسرے کنارے پر پہنچ کر غائب ہو گیا۔
دوسری مرتبہ میں بابا بدان پہاڑیوں میں سنتاویری کے مقام پر جنگل میں فائر لائن ساتھ ایک درخت کے پیچھے بیٹھا شیر کے ہانکے کا منتظر تھا۔ اچانک مجھے اپنے پیچھے سے مخصوص سیٹی نما آواز سنائی دی۔ یہ آواز ایسی تھی جیسے جنگلی بھینسا خطرے کا اظہار کر رہا ہو۔ جب مڑا تو بھینسے کی بجائے اپنے قریب سے کالا ناگ رینگتا ہوا دکھائی دیا۔ مجھے نہیں یقین کہ سانپ نے مجھے دیکھا ہوگا کہ میں اس وقت بالکل بے حرکت بیٹھا تھا۔
میں نے جسے بھی یہ واقعات سنائے، وہ یہی کہتے ہیں کہ بالکل ساکت ہو جانا ہی حملے سے بچاؤ کی وجہ بنا، ورنہ سانپ فوراً حملہ کر دیتا۔ چونکہ مجھ پر اس سانپ نے کبھی حملہ نہیں کیا، سو میں اس بارے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ تاہم یہ بات یقینی ہے کہ میں اُس جرمن ماہرِ حیوانات سے زیادہ خوش قسمت ہوں جو کچھ سال قبل آگمبے سے کسی چڑیا گھر کے لیے شیش ناگ کا جوڑا پکڑنے آیا تھا۔ اس نے نر تو آسانی سے پکڑ لیا اور جب دو تین روز بعد اس نے مادہ کو پکڑنے کی کوشش کی تو مادہ نے اسے ڈس لیا۔ بیچارہ جنگل میں اکیلا مر گیا۔ پرانی کہاوت واقعی سچ ہے کہ نر کی نسبت مادہ زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔
پھر مجھے برما کا ایک منظر یاد آتا ہے۔ سڑک کے کنارے ایک تماشہ لگا تھا۔ ایک انتہائی خوبصورت سپیرن نے تماشا دکھایا تھا۔ اس نے ایک کنگ کوبرا ٹوکری سے نکالا اور اس کے سامنے ناچنے لگی۔ سانپ نے زمین سے کئی فٹ اونچا ہو کر پھن پھیلا لیا۔
پھر اس خاتون نے ناگ کے منہ کو چوما۔ میں نے بعد میں سانپ کا معائنہ کیا۔ اس کا زہر اور دانت بالکل صحیح سلامت تھے۔ تاہم یہ نر سانپ تھا اور خاتون انتہائی خوبصورت۔ شاید اسی وجہ سے اُس جرمن کی نسبت اس خاتون کا تجربہ بہت اچھا رہا۔
عام انڈین کوبرا بہت جانا پہچانا ہے۔ اس کی لمبائی بمشکل چھ فٹ سے زیادہ ہوتی ہے۔ انڈیا میں اس کی دو اقسام پائی جاتی ہیں۔ ایک وہ جس پر V کی شکل کا نشان پایا جاتا ہے اور دوسرا جس کے پھن پر ایک گول سفید نشان ہوتا ہے جس کے گرد کالے رنگ کا دائرہ ہوتا ہے۔ بعض جگہوں پر ایسے کوبرے بھی ملتے ہیں جن پر کوئی نشان نہیں ہوتا۔
کوبرے کی پہچان کے لیے رنگ کافی نہیں کیونکہ یہاں سیاہ کالے سے لے کر بھورے اور سرخی مائل وغیرہ رنگ دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم بھورا اور سرمئی زیادہ عام ہے۔ کم عمر کوبرے جب انڈوں سے نکلتے ہیں تو چھ انچ لمبے ہوتے ہیں اور ان کا زہر بھی مہلک ہوتا ہے۔ پہلے دو سال کی عمر تک کوبرے بہت غصیلے ہوتے ہیں۔ پھر عمر کے ساتھ ساتھ ان کا جارحانہ پن کم ہوتا جاتا ہے اور بوڑھے سانپ تو انتہائی مجبوری کے علاوہ کبھی حملہ نہیں کرتے۔ اس عمر کے سانپ کو پالنا بہت آسان ہے اور ان کا زہر اور دانت بھی نکالنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
کوبرا کے انڈوں کا چھلکا بہت نرم ہوتا ہے اور انڈوں کی تعداد پندرہ تک ہوتی ہے۔ ہر انڈہ کبوتر کے انڈے جتنا ہوتا ہے۔ ان کا گھونسلہ سڑتے ہوئے پتوں کے درمیان کسی گڑھے میں ہوتا ہے۔ ان انڈوں کو سینچنے کے لیے سورج کی بالواسطہ روشنی اور خاصی نمی درکار ہوتی ہے۔ نمی کے بغیر انڈے سکڑ جاتے ہیں۔
کریٹ تین فٹ لمبا ہوتا ہے اور اس کا رنگ سیاہ۔ اس کے جسم پر سفید دائرے بنے ہوتے ہیں۔ اس کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے مگر بہت شرمیلا ہوتا ہے اور قید میں ایک یا دو دن بعد بغیر کسی وجہ کے مر جاتا ہے۔
کنگ کوبرا، کوبرا اور کریٹ کا زہر اعصاب شکن کہلاتا ہے کہ وہ پورے اعصابی نظام کو تباہ کر دیتا ہے۔ اس کے منہ میں دو دانت مستقل گڑے ہوتے ہیں اور کوبرا کے دانت چوتھائی انچ، کنگ کوبرا کے نصف انچ اور کریٹ کے ایک انچ کے اٹھویں حصے کے برابر ہوتے ہیں۔
وائپر نسل کے سانپ میں تکون چھلکوں والے اور رسل وائپر آتے ہیں۔ ان میں بھی دو زہریلے دانت ہوتے ہیں۔ یہ دانت منہ میں چپٹے رکھتے ہوتے ہیں اور استعمال کے وقت سیدھے ہوتے ہیں۔ رسل وائپر کے دانت ایک انچ لمبے اور نرم چمڑے والے جوتوں، جرابوں، پتلونوں یا موٹی اونی جرابوں سے بھی پار ہو جاتے ہیں۔ کوبرا یا کریٹ کے دانت چونکہ جبڑے میں گڑے ہوتے ہیں، سو وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ رسل وائپر پانچ فٹ کا مضبوط سانپ ہوتا ہے اور اس کی کمر پر ہیرے نما نمونوں کی تین قطاریں بنی ہوتی ہیں جو زنجیر نما دکھائی دیتی ہیں۔ اس کا رنگ گہرا بھورا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے بعض اوقات اسے چین وائپر کہتے ہیں۔
تکون چھلکوں والے وائپر کی لمبائی بمشکل دو فٹ ہوتی ہے اور اس کا رنگ بھورا۔ اس پر سفید چتیاں سی بنی ہوتی ہیں۔ اس کے چھلکوں کی شکل ایسی ہوتی ہے کہ جب یہ سانپ خوفزدہ ہو تو دائرے کی شکل میں حرکت کرنا شروع کر دیتا ہے اور اس سے کافی بلند آواز نکلتی ہے۔ اس کا مقامی نام پُرسا ہے جو اس آواز کی نقالی ہے۔
اعصاب شکن زہر والے سانپ کے دانتوں کی جڑ پر سوراخ ہوتے ہیں جہاں سے زہر نکلتا ہے جبکہ وائپر میں یہ سوراخ دانت کے نیچے ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ وائپر کے لیے موٹے جوتے، جرابیں وغیرہ کوئی رکاوٹ نہیں بنتے جبکہ پہلی قسم والے سانپ کا زیادہ تر زہر جوتے یا کپڑوں میں جذب ہو جاتا ہے۔ وائپر سانپ کے دانت اس طرح بنے ہیں کہ بدقسمت انسان کو پورا زہر ملتا ہے۔ رسل وائپر کے دانت بھی بہت لمبے ہوتے ہیں جو عام قسم کے لباس اور جوتے سے گزر جاتے ہیں۔
وائپر سانپ کا زہر جریانِ خون کا سبب بنتا ہے اور اس سے متاثرہ شخص کو بہت تکلیف اٹھانی پڑتی ہے۔
ظاہر ہے کہ سو فیصد یقین سے یہ کہنا تو ممکن نہیں کہ کس سانپ کے کاٹنے سے بندہ کتنی دیر میں مر جائے گا۔ اس بارے محض اندازہ ہوتا ہے۔ متاثرہ انسان کی عمر، صحت، جسمانی ساخت وغیرہ کے علاوہ سانپ کی جسامت، اس نے حال ہی میں کسی اور کو ڈسا یا نہیں، کتنا زہر جسم میں داخل ہوا وغیرہ بھی اہم عوامل ہیں۔ اوسط کچھ اس طرح سے ہے: کنگ کوبرا کے کاٹنے سے ڈیڑھ گھنٹہ، کریٹ سے دو یا تین گھنٹے، کوبرا میں چار سے چھ گھنٹے، رسل وائپر میں بارہ سے چھتیس گھنٹے اور تکون چھلکوں والے وائپر میں تین سے سات دن میں موت واقع ہو جاتی ہے۔
انڈیا میں غیر زہریلے سانپوں کی بے شمار اقسام ہیں۔
ان میں سب سے دلچسپ پائتھن یا اژدہا ہوتا ہے جو انڈیا میں اٹھارہ فٹ جبکہ ملایا میں پینتیس فٹ تک کا ہو جاتا ہے۔ یہ اپنے شکار کے گرد بل ڈال کر اور پھر اسے جکڑ کر مارتا اور پھر اسے سالم نگل جاتا ہے۔ اس کا شکار چوہے اور خرگوش سے لے کر سور اور چھوٹے ہرن تک کچھ بھی ہو سکتا ہے جس کا انحصار اس اپنی جسامت پر ہے۔ جاپان کے خلاف برما کی مہم کے دوران ایک جگہ چالیس فٹ سے زیادہ لمبا اژدہا شکار کیا گیا تھا۔ دم توڑتے ہوئے اس نے تشنج کی کیفت میں ایک جاپانی سپاہی کی لاش اگل دی تھی جس کا ہیلمٹ تک سر پر موجود تھا۔ میں اس کی تصدیق تو نہیں کر سکتا مگر یہ اخبارات میں چھپی خبر ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اژدہا اپنے شکار کو نگلنے سے قبل تھوک سے گیلا کرتا ہے جو غلط تصور ہے۔ دیگر سانپوں کی مانند اژدہے کے جبڑے الگ الگ ہوتے ہیں۔ ان کی بیرونی جلد کافی لچکدار ہوتی ہے اور اپنی موٹائی سے کئی گنا زیادہ بڑا جانور بھی یہ نگل سکتے ہیں۔
دیگر غیر زہریلے سانپوں کی اقسام میں زمین پر رہنے والے، بہت تیز اور درختوں پر رہنے والے، مضبوط، کیڑے نما ریتلے سانپ اور بہت سارے میٹھے پانی میں رہنے والے سانپ شامل ہیں۔ ریت والے سانپوں کی دم موٹی ہوتی ہے اور دوسرا سر لگتی ہے۔ بہت سے لوگ اسے دو منہ والا سانپ سمجھتے ہیں۔
مجھے ہمیشہ سانپ پسند ہیں اور آٹھ سال کی عمر سے میں نے سانپ پالنا شروع کر دیے تھے۔ اسی وجہ سے سکول میں لڑکیاں مجھ سے دہشت زدہ رہتی تھیں۔ میں بچپن میں سینما، سکول اور چرچ تک میں سانپ چھوڑ دیتا تھا اور لوگوں کو دہشت زدہ دیکھ کر مجھے عجیب سکون ملتا تھا۔ ‘سپیرا اینڈرسن‘ آج تک میرا نام مشہور ہے۔
سانپ کا زہر بہت ساری ادویات میں استعمال ہوتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ بہت سارے نئے علاجوں میں بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ تاہم اس بارے مسئلہ یہ ہے کہ زہر کو انسان پر آزمانا خطرناک فعل ہے۔ سانپ کے زہر کو ہومیوپیتھی کے اصولوں کے مطابق پتلا کیا جاتا ہے اور بہت کم مقدار کا زہر بہت بڑی مقدار کے زہر کا اثر ختم کر دیتا ہے۔ بڑی مقدار میں زہر اگر جریانِ خون کا سبب بنتا ہے تو معمولی مقدار میں وہ جریان کو روکتا ہے۔ اس زہر کو ڈینٹسٹ دانت نکالنے یا چھوٹی جراحی کے بعد خون روکنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اسی طرح اعصاب شکن زہر کی بڑی مقدار پورے نظامِ اعصاب کو تباہ کر دیتی ہے تو معمولی مقدار مرگی اور دیگر دماغی امراض میں مفید ثابت ہوتی ہے۔
بمبئی میں ہافکن ادارے میں انڈیا میں پائے جانے والے پانچوں اقسام کے سانپوں کے زہر کے تریاق تیار کیے جاتے ہیں اور اگر پوری طرح علم ہو کہ کس نسل کے سانپ نے کاٹا ہے تو اس کا الگ زہر بھی دستیاب ہے اور پانچوں زہروں کا مشترکہ تریاق بھی۔ یہ تریاق گھوڑوں کو زہر کے بتدریج بڑھتی ہوئی مقدارکے ٹیکے لگا کر اس وقت تیار کیا جاتا ہے جب یقینی موت سے چار گنا زیادہ زہر سے بھی گھوڑا ہلاک نہیں ہوتا۔ پھر اس گھوڑے کی ران سے خون نکالا جاتا ہے اور پھر اس سے یہ تریاق بنتا ہے۔
جب میں نے لڑکپن میں یہ طریقہ پڑھا تو میں نے اپنا تریاق بنانے کا سوچا۔
میں نے دو بوڑھے پونی اور ایک گدھا خریدا مگر ان ذرائع کے بارے ابھی بھی بات کرتے ہوئے جھجھک ہوتی ہے۔ پھر ایک سی سی والی سرنج سے میں نے انہیں ٹیکے لگائے۔ بدقسمتی سے مجھے زہر کی مقدار کے بارے زیادہ علم نہیں تھا، سو چند گھنٹے بعد مجھے تینوں جانوروں کی لاشیں اٹھوانے کا بندوبست کرنا پڑا۔ میرے والد اس پر سخت ناراض ہوئے۔
پچھلی جنگ سے قبل میں سانپوں بالخصوص کوبرا کے زہر کی امریکی اداروں کو برآمد سے کافی کمائی کر رہا تھا۔ اوسطاً کوبرے سے ہر چار یا پانچ دن بعد ایک معکب سینٹی میٹر زہر نکلتا ہے جو خشک کرنے پر ایک گرام بنتا ہے اور اس کے مجھے ڈیڑھ ڈالر ملتے تھے۔ میرے پاس بیس کوبرے تھے جن سے ہر پانچ دن بعد مجھے تیس ڈالر ملتے تھے اور ماہانہ آمدنی ایک سو اسی ڈالر بنتی تھی۔ ہر سانپ کو ہر دس دن بعد ایک چھپکلی یا مینڈک کافی رہتا تھا جو میرا پندرہ سالہ ملازم چھوکرا مجھے لا کر دیتا تھا۔ اس لڑکے کو میں ہر ماہ سات روپے دیتا تھا جو دس شلنگ کے مساوی ہے۔
سانپ کا زہر نکالنے کے لیے اس کے سر کو پیچھے سے پکڑ کر اس کے منہ کو شیشے کے گلاس سے لگائیں جس پر ربر کی جھلی لگی ہوئی ہو۔ سانپ جھلی کو کاٹے گا اور زہر نکل کر گلاس میں چلا جائے گا۔ بہت باریک جھلی کا یہ فائدہ ہے کہ زہر جھلی پر ضائع نہیں ہوتا۔ تاہم کچھ احتیاط اس بارے کرنی چاہیے کہ سانپ کا دانت شیشے سے ٹکرا کر ٹوٹ نہ جائے۔ اس لیے گلاس کے کنارے پر پلاسٹک ٹیپ چڑھا دینی چاہیے۔
کوبرا پکڑنا آسان ہے کہ وہ اپنا پھن زمین سے اٹھاتا ہے۔ کسی ڈنڈے کی مدد سے اس کے سر کو نیچے دبا کر گُدی سے پکڑ لیتے ہیں۔
وائپروں کو پکڑنا مشکل کام ہے کہ وہ اپنے بلوں میں سر چھپا لیتے ہیں اور ان کی رفتار بھی کوبرے سے کہیں تیز ہے۔ اس کے علاوہ اس کے بڑے دانتوں کی وجہ سے اس کو پکڑنا خطرناک ہے اور احتیاط کرنی چاہیے۔
کوبرے کو پالتو بنانا بھی آسان ہے۔ سپیروں کی ٹوکری میں موجود کوبروں کے دانت اور زہر کی تھیلیاں نکال دی جاتی ہیں۔ دانت تو دوبارہ ایک ماہ میں اُگ آتے ہیں مگر زہر کی تھیلی نکل جائے تو پھر دوبارہ نہیں بنتی اور باقی ساری عمر کے لیے سانپ بے ضرر ہو جاتا ہے۔
رسل وائپر کے زہر کی تھیلی اس کے دماغ اور منہ کی بڑی رگ کے قریب ہوتی ہے، سو اسے نکالنا دشوار ہے۔ اگر تھیلی نکال لی جائے تو سانپ جریانِ خون اور دماغی صدمے سے مر جاتے ہیں۔ سو سپیرے اس کا منہ سوئی دھاگے سے سی دیتے ہیں اور ہفتے میں ایک بار انڈے کی سفیدی کسی ہڈی سے بنی نلکی سے پلا دیتے ہیں۔
قید میں کوبرا اگر خوراک نہ کھائے تو اسے بھی اسی طرح کھلایا جاتا ہے۔
کبھی کبھار کھانے کی عادت کی وجہ سے سانپوں کو پالنا بہت آسان ہے۔ سانپ کی جسامت کے اعتبار سے عموماً چوہا، مینڈک، چھپکلی یا چھوٹا موٹا پرندہ ہفتہ دس روز کے لیے کافی رہتا ہے۔ عجیب بات دیکھیں کہ چھوٹی اقسام زیادہ غصیلی ہوتی ہیں۔ اژدہے یا پائتھن زیادہ وقفے سے کھاتے ہیں جو پندرہ روز سے ایک ماہ پر محیط ہو سکتا ہے اور اس کا انحصار پچھلے جانور پر ہے جو اس نے کھایا ہو۔ سانپوں کے بارے تفصیل سے بات کرنے کا مقصد ہر قسم کے بارے کچھ نہ کچھ معلومات بہم پہنچانا ہے۔
کنگ کوبرا یا شیش ناگ کے علاوہ ہر سانپ، چاہے وہ زہریلا ہو یا بے ضرر، ہمیشہ انسان سے خوفزدہ رہتا ہے۔ انسان کی آمد کو محسوس کر کے سانپ کھسک جائے گا اور کبھی بلاوجہ حملہ نہیں کرے گا۔ ہاں کوئی اس کی بے خبری میں اس پر چڑھ دوڑے تو ظاہر ہے کہ سانپ حملہ کرے گا جو خوف اور اپنی حفاظت کے لیے ہوتا ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ سانپ میں کان جیسا کوئی عضو نہیں ہوتا اور سانپ اپنے جسم سے آواز کی تھرتھراہٹ کو محسوس کرتے ہیں۔ سانپ کے سامنے چاہے بین بجایا جائے یا کوئی اور ساز، سانپ کو فرق نہیں پڑتا۔ یہ سپیرے کی موسیقی نہیں بلکہ سپیرے کی حرکات ہوتی ہیں جو سانپ کو توجہ کرتی ہیں۔ اسی وجہ سے انڈیا میں تاریک راستوں پر چلتے ہوئے آپ گانا گائیں، سیٹی بجائیں یا شو کریں تو اس سے سانپ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ البتہ بھاری جوتوں کی دھمک یا چھڑی کے شور سے سانپ بھاگ جائیں گے۔
ہر سانپ سال میں دو یا تین مرتبہ اپنی کینچلی اتارتا ہے۔ یہ کینچلی ایسے اترتی ہے جیسے کسی ذبح شدہ جانور کی کھال اتاری جا رہی ہو۔ سانپ کسی کھردری چیز سے رگڑ کر اور بل کھاتے ہوئے کینچلی اتارتا ہے۔
سانپوں کی دو اقسام ہیں۔ ایک وہ جو انڈے دیتی ہیں اور دوسرے وہ جو بچے دیتی ہیں۔ زہریلے یا غیر زہریلے سے فرق نہیں پڑتا۔ کوبرا انڈے دیتا ہے تو رسل وائپر اور پائتھن بچے دیتے ہیں۔
پانچوں زہریلی اقسام کے سانپوں میں کوبرا زیادہ تر انسان کے قریب رہتا ہے اور کھیتوں میں موجود سوراخوں اور چیونٹیوں کے بِلوں میں رہتے ہیں اور شاید ہی کبھی جنگل میں دکھائی دیں۔
کنگ کوبرا اس کے اُلٹ ہوتے ہیں اور ہمیشہ جنگلوں میں ملتے ہیں۔ رسل وائپر انسانی آبادی کی نسبت جنگلات میں زیادہ ملتے ہیں۔ کریٹ کہیں بھی زیادہ نہیں ملتے اور تکون چھلکوں والے وائپر زیادہ تر بنجر اور ریتلے علاقوں میں رہتے ہیں۔
دور دراز جنگلوں میں جب تریاق ساتھ نہ ہو کہ اس کے لیے ریفریجریٹر کی ضرورت ہوتی ہے، تو واحد قابلِ اعتبار طریقہ یہ ہے کہ کاٹے کے مقام پر گہرا چیرا لگا کر ہر ممکن عجلت سے زیادہ سے زیادہ زہر چوس لیا جائے تاکہ خون میں جانے والے زہر کی مقدار کم سے کم ہو۔ عجیب بات دیکھیں کہ کسی بھی سانپ کا زہر اگر نگل لیا جائے تو کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ انڈیا میں مسلمان عموماً کوبرے کا زہر تیتروں اور مرغوں کو لڑائی سے قبل کھلاتے ہیں تاکہ وہ زیادہ جارح مزاج ہو جائیں۔ اس پر بڑی رقمیں داؤ پر لگتی ہیں اور جیتنے کا یہ بھی ایک عام طریقہ ہے۔
کاٹے کے مقام کے اوپر کس کر پٹی باندھنے کا طریقہ مہارت مانگتا ہے۔ ویسے بھی پٹی باندھنے سے قبل ہی زہر کا زیادہ تر حصہ جذب ہو چکا ہوتا ہے۔ اگر سانپ نے دھڑ پر کسی جگہ کاٹا ہو تو پٹی باندھنا ممکن نہیں رہتا۔ متاثرہ مقام پر پوٹاشیم پرمیگنیٹ کی قلمیں ڈالیں تو کیمیائی تعامل سے وہ زہر کو کچھ حد تک ختم کر دیتے ہیں۔ مگر اس کے لیے پہلے گہرا چیرا لگانا پڑتا ہے۔ اسی لیے میں جنگل میں جاتے وقت ہمیشہ انتہائی تیز دھار چاقو جیب میں رکھتا ہوں۔
میرے علم میں ہے کہ ایک بار ایک چور شکاری کو شکار کے دوران کوبرا نے پیر پر کاٹا۔ اس نے حاضر دماغی سے کام لیتے ہوئے متاثرہ مقام پر باردو چھڑک کر اسے آگ لگا دی۔ نتیجتاً گہرا زخم بنا جو آج بھی اسے چلتے ہوئے لنگراہٹ دیتا ہے مگر اس کی جان بچ گئی۔ ایک بار ایک سپیرے کو انگوٹھے پر کوبرا نے کاٹا۔ اس نے اگلے جوڑ پر چاقو رکھا اور دوسرے ہاتھ سے پتھر کی دو ضربوں سے انگوٹھا کاٹ دیا۔ بیچارہ جریانِ خون سے مرتے مرتے بچا مگر آج بھی زندہ ہے۔ ایک بار جب میں متور کے فارسٹ بنگلے میں رکا ہوا تھا کہ ایک اور واقعہ پیش آیا۔ صبح پو پھٹتے وقت مجھے ایک بندے نے آن جگایا کہ ایک گھنٹہ قبل اسے کوبرے نے پیر پر ڈسا تھا۔ یہ بندہ کٹے ہوئے بانس بیل گاڑی پر لاد کر لے جا رہا تھا۔ پچھلے روز شام کو اسی جگہ اسے جنگلی ہاتھیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا، سو وہ خوفزدہ ہو کر واپس لوٹ گیا۔ چار بجے صبح وہ دوبارہ اٹھا اور روانہ ہوا۔ وہ گاڑی کے پیچھے چل رہا تھا تاکہ اگر ہاتھی حملہ کریں تو اسے فرار میں آسانی رہے۔ شاید سانپ گاڑی کے پہیے کے نیچے کچلا گیا تھا۔ گاڑی بان کو پیر میں درد کی ٹیس محسوس ہوئی تو اس نے دیکھا کہ کوبرا فرار ہو رہا تھا۔ اس نے فوراً دو میل دور فارسٹ بنگلے کا رخ کیا کہ شاید کوئی مدد مل جائے۔ میں نے فوراً اس کے زخم پر گہرا چیرا لگایا اور فارسٹ گارڈ کی مدد سے اسے برآمدے میں ٹہلانا شروع کر دیا تاکہ وہ کومے میں نہ چلا جائے۔ جلد ہی مجھے احساس ہو گیا کہ میری کوششیں بیکار گئی ہیں۔ اس بندے کے منہ سے جھاگ نکلنے لگا، آنکھیں چڑھ گئیں اور وہ کسی شرابی کی طرح لڑکھڑانے لگا۔ اس کی گفتگو بے ربط ہو گئی۔
میں نے اس دوران اس کا نام، اس کے خاندان کے بارے اور اس کے گاؤں کے بارے بھی پوچھ لیا جو پناگرام سے ایک میل آگے تھا۔
پھر اچانک یہ بندہ ہمارے بازوؤں میں بیہوش ہو کر جھول گیا۔ ساڑھے آٹھ بجے وہ مر چکا تھا۔ میں نے فارسٹ گارڈ کو اس کے خاندان اور پناگرام کی پولیس کو اطلاع دینے بھیج دیا۔ اس کے گھر والے دو بجے بیل گاڑی پر آئے اور بین کرنا شروع کر دیا۔ پھر پولیس بھی پہنچ گئی۔ پولیس نے پوچھا کہ آخر برآمدے میں خون کے اتنے نشانات کیوں ہیں۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں ہم متوفی کو چلاتے رہے تھے۔ پھر پولیس نے پوچھا کہ میں نے اس بندے کے زخم کو کیوں چیرا لگایا؟ وہ مر کیوں گیا؟ آخرکار لاش کو بیل گاڑی میں ڈال تھانے لے گئے۔ وہ مجھے بھی ساتھ لے جانا چاہتے تھے مگر میں نے صاف انکار کر دیا۔ چیف کانسٹیبل نے کچھ ردوکدح کے بعد پوسٹ مارٹم کا نتیجہ آنے تک مجھے بنگلے میں رہنے کا حکم دیا۔ اس بات پر میں نے حامی بھر لی۔ پھر یہ سب لوگ سات میل دور پناگرام چلے گئے جہاں سے بس کے ذریعے پوسٹ مارٹم کے لیے لاش سالم کے ہسپتال بھیجی گئی جو 42 میل دور تھا۔ تین دن بعد نتیجہ ملا کہ یہ بندہ کوبرے کے ڈسنے سے ہلاک ہوا تھا۔ چوتھے روز پولیس نے مجھے شک سے آزاد کر دیا۔
سانپوں سے میرا تعلق 39 سال پرانا ہے اور اس دوران صرف ایک بار مجھے ایک سانپ نے کاٹا جو کوبرا تھا۔ میں نے اس سانپ کو پکڑا تھا جو میرے ہاتھ سے پھسل گیا اور بائیں ہاتھ کی دوسری انگلی پر ڈس لیا۔
تاہم میں ابھی تک زندہ ہوں اور انگلی بھی صحیح سلامت ہے۔ خوش قسمتی سے میں بنگلور سے نو میل دور تھا اور فوراً کار چلا کر ہسپتال پہنچا اور وہاں تریاق کا ٹیکہ لگوا لیا۔ عجیب بات دیکھیں کہ زہر سے مجھے کوئی نقصان نہ ہوا مگر تریاق سے تیسرے روز میری ٹانگیں عارضی طور پر جزوی مفلوج ہو گئیں۔ تاہم کیلشیم اور دیگر ٹیکوں سے اسی روز ٹھیک ہو گیا۔
آخر میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ جنوبی انڈیا میں عجیب روایت پائی جاتی تھی کہ نرسیہ نامی ایک سٹیشن ماسٹر جو جنوبی ریلوے پر مدراس شہر کے پاس ہی پول ریڈی پلیان سٹیشن پر کام کرتا تھا، کسی بھی زہریلے سانپ کا علاج کر سکتا ہے، اسے محض تار بھیجنا کافی ہوتا ہے۔ یہ بات اتنی مشہور تھی کہ ریلوے حکام نے اس بندے کے نام تاروں کو اپنے نظام پر ترجیحی ترسیل کا حکم جاری کر دیا تھا۔ میں نے بہت مصدقہ افراد سے اس بندے سے متعلق کہانیاں سنی ہیں اور جنوبی انڈیا میں ابھی بھی ایسے سینکڑوں افراد زندہ ہیں جن کی جان اس نے بچائی تھی۔ طریقہ کار کچھ یوں تھا: تار ملتے ہی وہ سٹیشن کے احاطے میں اگے درخت کو جاتا اور اپنی دھوتی سے ایک دھجی پھاڑ کر درخت کے ساتھ باندھ دیتا اور کچھ دعا مانگتا اور پھر تار بھجوا دیتا کہ یہ بندہ بچ جائے گا مگر اسے تاحیات تمباکو، شراب اور کافی سے گریز کرنا ہوگا۔ ہمیشہ بندہ بچ جاتا تھا۔
افسوس، نرسیہ اپنی موت کو نہ روک سکا اور اب ہم میں نہیں۔ تاہم اس کی یاد ہمیشہ قائم و دائم رہے گی۔ مجھے علم نہیں کہ اس کا راز اس کے ساتھ ہی چلا گیا ہے یا اس نے کسی اور کو بھی بتایا ہے، تاہم اس کے بعد پھر مجھے کسی اور کے بارے ایسی بات نہیں سننے کو ملی۔
 

قیصرانی

لائبریرین
6۔ حیدرآباد کا قاتل
برطانوی راج کے دنوں میں ریاست میسور کے شمال میں بیلری، اننت پور، کرنو اور نندیال کے اضلاع واقع ہیں جو مدراس پریزیڈنسی کا حصہ ہوتے تھے۔ ان کے مزید شمال میں ریاست حیدرآباد ہے جو نظام حیدرآباد کے ماتحت ہوا کرتی تھی۔ نظام برطانوی حکومت کے انتہائی قابلِ اعتماد اتحادی تھے اور دہلی کی مسلمان مغل بادشاہت کی ایک شاخ تھے۔
حیدر آباد کی ریاست اب باقی نہیں اور نظام کی ریاست کو اب اننت پور، کرنول اور نندیال کے ساتھ تلیگو بولنے والی ریاست اندھرا پردیش کا حصہ بنا دیا گیا ہےجو نئے انڈیا کی دوسری بڑی ریاست ہے۔ پہلی بڑی ریاست مدھیہ پردیش کی ہے جو اس کے بھی شمال میں واقع ہے۔
تاہم یہ کہانی بہت عرصہ پہلے کی ہے جب یہ علاقہ مدراس کا حصہ اور تلیگو بولنے والے افراد کی اکثریت پر مشتمل تھا۔
اُن دنوں اِن اضلاع کی زیادہ ترقی نہیں ہوئی تھی کیونکہ سال کے دس ماہ گرمی ہوتی تھی (باقی دو ماہ بھی انتہائی گرم ہوتے تھے) اور یہاں بہت کم بارش ہوتی ہے۔ آبادی بھی زیادہ نہیں تھی۔ اننت پور، کرنول اور نندیال کے شہروں کو چھوڑ کر باقی سارا علاقہ چھوٹے چھوٹے دیہاتوں پر مشتمل ہے۔یہ تین شہر اپنے اپنے اضلاع کے صدر مقام بھی ہیں۔
بمبئی سے مدراس ریلوے لائن نقل و حمل کا اہم ترین ذریعہ ہے اور انہی شہروں سے گزرتی ہے۔ ایک جگہ یہ گنتاکل جنکشن سے گزرتی ہے۔ یہ لائن براڈ گیج یعنی ساڑھے پانچ فٹ چوڑی ہے۔
گنتاکل سے تین لائنیں نکلتی ہیں جو میٹر گیج ہیں۔ ایک لائن مغرب کو بیلری اور ہبلی کو جاتی ہے، ایک لائن جنوب کی سمت میسور میں بنگلور کو جاتی ہے جبکہ تیسری لائن دروناچلم، نندیال اور بزوادہ کو انڈیا کے مشرقی ساحل کو جاتی ہے۔ بزوادہ پر کلکتہ سے مدراس والی میٹر گیج کی لائن اس سے ملتی ہے۔ دروناچلم والی میٹر گیج لائن شمال مشرق کو سکندر آباد اور حیدر آباد کو جاتی ہے۔ میٹرگیج انجن اور بوگیاں ظاہر ہے کہ براڈ گیج سے چھوٹی اور نسبتاً ہلکی ہوتی ہیں۔
گنتاکل، دروناچلم اور نندیال سے نکل کر مشرقی میٹر گیج پانچ سٹیشنوں سے گزرتی ہے جو جنگل میں واقع ہیں اور ان کے نام بالترتیب گزولاپور، بسواپورم، چیلما، بُگارا اور دیگوامتہ ہیں، پھر یہ لائن بزوادہ کو جاتی ہے۔
جنگل سے گزرنے والا حصہ میری کہانی سے متعلق ہے اور یہ حصہ زیادہ تر دریائے کرشنا کے شمالی کنارے سے ہوتا ہوا حیدرآباد کی سابقہ ریاست کی سمت جاتا ہے اور جنوب میں کڈپہ کو۔
میٹر گیج کی ٹرینیں سُست ہوتی ہیں اور ڈرائیور رات کے وقت انجن کی روشنی میں جنگلی جانوروں کو بھاگتے دیکھتے اور بسا اوقات دیر سے پٹڑی عبور کرنے والے جانور ٹرین کے نیچے آ کر کٹتے دیکھتے۔
ان پانچ سٹیشنوں سے بیل گاڑی کے راستے اورپگڈنڈیاں آس پاس کے جنگلوں کو جاتی ہیں۔ اُن دنوں یہاں کوئی سڑک ایسی نہیں تھی جہاں کار وغیرہ چل سکتی۔
شاید انہی وجوہات کی بنا پر یہاں زیادہ شکار نہ ہوا اور جنگلی حیات بچی رہی۔ نئے مگر گھٹیا شکاری انہی سڑکوں پر رات کے وقت کار میں بیٹھ کر سپاٹ لائٹ چمکاتے ہوئے گزرتے ہیں اور جونہی کسی جانور کی آنکھیں روشنی میں چمکیں تو یہ قصاب شکاری گولی چلا دیتے۔ اکثر تو انہیں یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ کس جانور پر گولی چلائی ہے اور آیا یہ نر تھا یا مادہ، بچہ یا بالغ جانور۔ اس طرح کی قصابانہ سرگرمیاں جنگلی حیات کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوتی ہیں کہ نر مادہ یا جوان بچے کے فرق کے بغیر ہر جانور پر گولی چلا دی جاتی ہے اور بہت سے جانور تو شدید زخمی ہو کر تکلیف دہ موت کا شکار ہوتے ہیں۔
برطانوی حکومت نے اپنے دور اسے روکنے کی کوشش کی تھی اور اب انڈین حکومت بھی اپنی سی کوشش کر رہی ہے تاہم دونوں کو اس میں ناکامی ہوئی ہے اور تباہی کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہ سلسلہ اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک عوام کو یہ سمجھ نہ آئے گی کہ جنگلی حیات قومی اثاثہ ہے اور اسے ایسے تباہ نہیں کرنا چاہیے۔
تاہم جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، یہاں موٹر کے قابل سڑک نہ ہونے کے باعث گزلاپلی سے دیگوامتہ جانے والی سڑک کا علاقہ ابھی تک کسی حد تک ایسے قصابوں سے پاک ہے اور یہاں جنگل میں کیمپ لگائیں تو رات کو کار کی آواز اور پھر ٹارچ کی روشنی اور گولی کی آواز کے بعد جانور کی چیخ بھی نہیں سنائی دیتیں۔
یہاں مقامی باشندے چنچو کہلاتے ہیں جو تلیگو بولتے ہیں۔ دیگر مقامی افراد کی مانند یہ بھی بہت کم لباس پہنتے ہیں اور مرد و زن کا واحد لباس ایک گندی اور غلیظ سی لنگوٹی ہوتی ہے۔ مردوں کے پاس تیر کمان ہوتے ہیں اور اکثریت کے گلے میں موتیوں کے ہار یا پر ہوتے ہیں۔ خاص تہوار وغیرہ پر مور کے پر لگائے جاتے ہیں۔ انہیں شراب کا شوق ہے اور یہ لوگ مہوہ کے پھل یا ببول کی چھال سے خود شراب تیار کرتے ہیں۔ برطانوی راج میں یہ لوگ ہمیشہ ایکسائز کے محکمے کے لیے دردِ سر بنے رہتے تھے اور آج اندھرا پردیش کی حکومت کی شراب بندی کے سلسلے میں یہ لوگ مسئلہ ہیں۔
خیر، یہ کہانی نہ تو ان قصاب شکاریوں سے متعلق ہے اور نہ ہی شراب بندی کے موضوع پر اور نہ ہی چنچو قبائل کے طرزِ حیات پر۔ یہ کہانی اس علاقے کے ایک آدم خور شیر کے بارے ہے جس نے چار سال تک وقفے وقفے سے یہاں دہشت پھیلائے رکھی۔ اس کی کاروائیوں کا آغاز جس علاقے سے ہوا، وہ حیدر آباد کی ریاست میں واقع ہے۔ یہاں چھ ماہ تک وہ چنچو لوگوں اور یہاں سے گزرنے والے مسافروں کو ہڑپ کرتا رہا اور پھر جنوب کو منتقل ہوا اور سب سے پہلے اس نے ریلوے کے ایک گینگر کو کھا کر اپنی آمد کا اعلان کیا۔ یہ گینگر بسواپرم کے مغرب کو جانے والی لائن پر روزمرہ کی گشت پر تھا۔
اُن دنوں یہ علاقہ شیروں سے بھرا ہوا تھا مگر جنگلی جانوروں کی کثرت کی وجہ سے یہ شیر شاذ و نادر ہی کسی مویشی پر حملہ کرتے تھے۔ تاہم اس گینگر کی گمشدگی کو شیر کی حرکت نہیں سمجھا گیا بلکہ لوگوں نے سوچا کہ شاید وہ کسی وجہ سے علاقہ چھوڑ گیا ہوگا۔ تاہم اگلے کئی ماہ تک جب مسلسل چنچو غائب ہوتے رہے تو لوگوں کو شک ہوا کہ یہ شاید کسی آدم خور شیر کی حرکت ہوگی۔ تاہم آدم خور شیر کی موجودگی کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں مل سکا تھا کہ پگڈنڈیوں پر شیر کے پگ عام دکھائی دیتے تھے۔ اس لیے لوگوں نے گینگر اور چنچو لوگوں کی گمشدگی کو حیدر آباد کے جنگلوں میں آدم خور کی وارداتوں سے نہیں جوڑا۔
گینگر کے حادثے کے دو یا تین ماہ بعد آدم خور شیر کی موجودگی کی تصدیق ہوئی۔ کوئلہ بنانے والے دو مزدور ایک شام وڈاپلی نامی چھوٹے دیہات سے آ رہے تھے جو جنگل کے کنارے واقع ہے۔ آگے پیچھے چلتے ہوئے یہ لوگ اپنی منزل ابھی آدھا میل دور ہوں گے کہ اگلے بندے کو کافی اونچے درخت پر ایک مادہ کوئل ایک گھونسلے سے اڑتی دکھائی دی۔ نر کوئل کا رنگ سیاہ کالا ہوتا ہے۔ کوئل کی عادت ہے کہ وہ ہمیشہ دوسرے پرندوں کے گھونسلے میں انڈے دیتی ہے اور دوسرے پرندے ان کے انڈے کو سی کر بچے پیدا کرتے ہیں۔
جب چنچو کو مادہ کوئل گھونسلے سے اڑتی دکھائی دی تو یہ بات ظاہر تھی کہ وہ انڈہ دے کر گئی ہوگی۔ چنچو لوگوں کو یہ انڈے بہت پسند ہیں اور چونکہ وہ کسی بھی گھونسلے میں ہو سکتے ہیں، سو انہیں تلاش کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس نے فوراً اپنے ساتھی کو بتایا۔ دوسرا بندہ جو نسبتاً کم عمر تھا، نے فوراً درخت پر چڑھناشروع کیا تاکہ انڈے لائے۔ ابھی وہ گھونسلے تک پہنچا ہی ہوگا کہ نیچے سے چیخ سنائی دی۔ اس نے نیچے دیکھا تو ایک شیر اس کے ساتھی کو اٹھا کر لے جاتے دکھائی دیا۔ اس کا ساتھی مدد کو پکار رہا تھا۔
یہ بندہ فوراً مزید اونچی شاخوں پر چڑھ گیا اور شیر بندے سمیت غائب ہو گیا۔
رات ہونے والی تھی سو اس بندے نے اترنے کی ہمت نہیں کی۔ اگلے بارہ گھنٹے وہ درخت پر ٹنگا، خوف اور سردی سے کانپتا رہا کہ شیر کسی وقت بھی لوٹ سکتا ہے۔ اگلی صبح جب سورج نکل آیا تو اس نے مدد کو پکارنا شروع کر دیا۔ ہوا گاؤں کی سمت چل رہی تھی، سو لوگوں نے اس کی آواز سن لی اور کئی لوگ جمع ہو کر دیکھنے آئے کہ کیا ہوا۔
اس طرح چیلما کے علاقے میں پہلی بار آدم خور شیر کی تصدیق ہوئی۔
وڈاپلی کے چنچو لوگوں نے چیلما کے سٹیشن ماسٹر کو خبر دی جس نے نندیال تار بھیجا۔ پھر یہ خبر وہاں سے پولیس، محکمہ جنگلات، ریلوے حکام اور ضلعی کلیکٹر کو پہنچی۔ لوگوں کو علم ہوا تو کئی ماہ سے غائب ہونے والے افراد کی گمشدگی کی کڑیاں ملنے لگیں۔
عام طور پر جب کسی علاقے میں آدم خور کی موجودگی ثابت ہو جائےتو محکمہ جنگلات اس علاقے کے جنگلات کو بغیر اجازت نامہ شکار کے لیے کھول دیتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ شکاری آئیں۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا مگر شکاریوں نے توجہ نہیں دی کہ ایسی جگہ کوئی شکاری نہیں جانا چاہتا تھا جہاں گاڑی نہیں جا سکتی اور ہر جگہ پیدل جانا پڑتا۔
ریلوے کے ایک دو افسروں نے گزلاپلی اور چیلما کے درمیان ٹرالی پر بیٹھ کر شکار کی کوشش کی کہ شاید شیر کہیں پٹڑی کے پاس بیٹھا دکھائی دے جائے گا۔ تاہم انہیں مایوسی ہوئی کہ شیر تو نہیں دکھائی دیا مگر چنچو غائب ہوتے رہے اور گینگر سمیت یہ تعداد گیارہ ہو گئی۔ محض دو بار لوگوں نے لاٹھیوں، کلہاڑیوں اور تیر کمان سے لیس ہو کر پیچھا کیا اور باقیات لے آئے تھے۔
باقیوں کا کوئی نشان نہ ملا کیونکہ نہ تو یہاں راستے آسان تھے اور نہ ہی لوگوں نے ادھ کھائی لاش کی خاطر اپنی جان خطرے میں ڈالنا گوارا کی۔
یہ رویہ شاید آپ کو بہت خودغرض لگے۔ مگر یاد رہے کہ یہ لوگ بہت سادہ لوح اور غیر مسلح ہوتے ہیں اور انہیں آدم خور کا مقابلہ کرنے کا کوئی تجربہ بھی نہیں ہوتا۔ جنگل بہت گھنا اور وسیع ہوتا ہے اور چند پگڈنڈیاں ہی اس میں سے گزرتی ہیں اور جگہ جگہ ندی نالے ہوتے ہیں جن میں بڑے بڑے پتھر اور ریت پائی جاتی ہے۔ ہر ایک انسان جانتا ہے کہ آدم خور ان کا منتظر ہوگا اور حملہ کر سکتا ہے۔ کوئی بھی اس کا شکار نہیں ہونا چاہتا۔ سو انہیں کیوں الزام دیا جائے؟ ویسے بھی مشرقی فلسفے کے مطابق اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر لاش کی تلاش احمقانہ فعل ہے۔
ان گیارہ ہلاکتوں کے بعد آدم خور کچھ وقت کے لیے گم ہو گیا اور کرشنا دریا کے پاس وارداتیں شروع ہو گئیں۔ تب جا کر یہ بات واضح ہوئی کہ یہ حیدرآباد والا آدم خور ہے۔
ریاست حیدر آباد نے اس شیر کےشکار کا اعلان کرایا تو ایک دو مقامی نوابوں نے اس بارے کوشش شروع کی۔ آخرکار ایک مرتبہ آدم خور نے مدی کونڈا میں ایک مسافر کو ہلاک کیا۔ تاہم اس مرتبہ وہ ابھی کھانا شروع بھی نہ کر سکا تھا کہ اسے لوگوں نے بھگا دیا اور یہ اطلاع نواب کو پہنچائی جو چند میل دور کیمپ لگائے ہوئے تھا۔
نواب فوراً ان کی مدد کو پہنچا اور چونکہ متوفی لاوارث تھا، سو اس کی لاش کسی نے نہیں اٹھائی تھی۔ فوراً ساتھ والے درخت پر مچان بنائی گئی اور نواب اس پر بیٹھ گیا۔
تاہم نواب کی قسمت خراب تھی کہ شیر کی آمد کے ساتھ ہی طوفانِ بادوباراں شروع ہو گیا۔ خیر، جو بھی وجہ ہو، گولی تو چلی مگر شیر ہلاک نہ ہو سکا۔ اگلی صبح خون کے چند دھبے دکھائی دیے جو بارش میں دھلنے سے بچ گئے تھے۔ یعنی یہ بات تو واضح تھی کہ شیر کو گولی لگی ہے مگر کسی نے اگلے روز پیچھا کرنے کی ہمت نہیں کی۔ نواب اور دیگر کا خیال تھا کہ شیر کہیں مر گیا ہوگا۔
ایک بار پھر چند ہفتے کا توقف ہوا۔ پھر تیتر اور جنگلی مرغیاں پھانسنے والا ایک چنچو دن کے وقت کھانے کو نہ لوٹا۔
یہ بندہ ایک روز قبل لگائے گئے پھندوں کو دیکھنے صبح گھر سے نکلا اور بتا کر گیا کہ حسبِ معمول دوپہر کے کھانے تک لوٹ آئے گا۔ تاہم دوپہر کے بعد شام کے سائے ڈھلنے لگے اور وہ نہ لوٹا۔ اس کی بیوی اور بیس سالہ بیٹا فکرمند ہو گئے۔ انہیں چیلما میں آدم خور کی وارداتوں کا تو علم تھا مگر چونکہ کئی ماہ ہو چکے تھے، سو سب اسے بھول گئے۔ اب اس بندے کی گمشدگی کے باعث لوگوں کو آدم خور یاد آ گیا۔
آدم خوروں کے بارے یہ عجیب بات ہے کہ وہ ایک مخصوص انداز میں وارداتیں کرتے ہیں۔
آدم خور عموماً کسی شکاری کی گولی سے زخمی ہو کر جب اپنے فطری شکار کے قابل نہیں رہتا تو آدم خور بن جاتا ہے۔ بسا اوقات آدم خور اپنے والدین سے یہ عادت سیکھتے ہیں۔
شروع میں انسانی ہلاکتیں وقفے وقفے سے اور اِدھر اُدھر ہوتی ہیں اور جوں جوں آدم خور نڈر ہوتے جاتے ہیں تو وارداتوں کا وقفہ کم ہوتا جاتا ہے۔ عجیب بات دیکھیے کہ آدم خور چاہے شیر ہو یا تیندوا، ان میں احتیاط کی چھٹی حس پیدا ہوجاتی ہے جسے بعض شکاری بزدلی سے تعبیر کرتے ہیں۔
آدم خور ہمیشہ اپنے شکار پر اس کی لاعلمی میں حملہ کرتا ہے اور اکیلا بندہ چنتا ہے۔ اگر اکیلا بندہ نہ ہو تو قطار میں سب سے آگے یا سب سے پیچھے والا انسان شکار بنتا ہے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کسی جماعت پر آدم خور حملہ کرے۔ یہ بھی اہم ہے کہ اگر آدم خور کا شکار مزاحمت کرے تو اکثر آدم خور اسے چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے۔ تاہم ایسا شیر کی بہ نسبت تیندوؤں کے حملے میں زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ شاید یہ ہو کہ شیر کے حملے سے کم ہی لوگ بچ پاتے ہیں جبکہ تیندوا اتنا طاقتور نہیں ہوتا۔ آدم خوروں کے شکار میں سب سے بڑی مشکل ان میں پیدا ہونےوالا احتیاط کا عنصر ہے۔ ان کو مارنے کی کئی کوششیں اس وجہ سے ناکام رہتی ہیں کہ انہیں خطرے کا احساس قبل از وقت ہو جاتا ہے۔
آدم خور شیر ہمیشہ ایک مخصوص راستے پر چلتا ہے جو کئی سو مربع پر محیط ہوتا ہے اور اس راستے پر موجود دیہاتوں اور گاؤں سے ایک دو آدمی کھاتا اور آگے بڑھتا جاتا ہے۔ اس طرح وہ ایک ہی جگہ زیادہ خطرے کا سامنا نہیں کرتا اور اپنے شکاروں کو ان کی بے خبری میں ہڑپ کرتا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے جب آدم خور ایک مقام کو چھوڑتا ہے تو چند روز میں سب لوگ اسے بھول کر غیرمحتاط ہو جاتے ہیں۔ جب آدم خور واپس آتا ہے تو لوگ تیار نہیں ہوتے۔ اس طرح آدم خور ایک بڑے دائرے کی صورت میں حرکت کرتا ہے ہر ہر مقام پر ایک دو ماہ یا زیادہ وقفے سے لوٹتا ہے۔
میں اس کتاب کے شروع میں بتا چکا ہوں کہ اگر شکاری میں صبر کا مادہ ہو اور مناسب معلومات مل جائیں تو مطلوبہ علاقے کے نقشے کی مدد سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ آدم خور کا اگلا شکار کب اور کہاں ہوگا۔ اس اندازے میں دو ہفتے کی کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ تاہم مناسب معلومات کا حصول مشکل ہوتا ہے۔ تاہم یہ طریقہ کار آدم خور کے شکار میں بہت مددگار ثابت ہوتا ہے۔
تیندوے میں ایسا کوئی نظام نہیں ہوتا کہ وہ کہیں بھی حملہ کر سکتا ہے۔ تیندوا عموماً رات کے اندھیرے میں شکار کرتا ہے۔ چھوٹی جسامت کی وجہ سے وہ کہیں بھی چھپ سکتا ہے۔ جوں جوں تیندوا حملے کرتا جاتا ہے، اس کی ہمت بڑھتی جاتی ہے اور آخر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ لوگوں کو گھروں میں گھس کر مارنا اور گھسیٹ کر لے جانا شروع کر دیتا ہے۔ آدم خور شیر میں ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ شیر عموماً اپنے شکار پر دن کی روشنی میں حملہ کرتا ہے اور کسی گاؤں کے پاس جھاڑیوں میں پگڈنڈی کے پاس چھپ کر حملہ ہوتا ہے۔
میں نے یہ سب معلومات کافی وقت لگا کر جمع کی تھیں جو اوپر بیان کی ہیں۔
اس کے شکار کردہ گزلاپلی کے رہائشی چنچو کی ادھ کھائی لاش اس کے بیٹے نے کیسے تلاش کی، شاید آپ کی دلچسپی کا سبب نہ ہو۔ ہر واقعہ عموماً ایک جیسا ہی تھا اور شیر گزلاپلی اور چیلما کے درمیان مقام تبدیل کرتا ہوا جنوب میں دریائے کرشنا اور شمال میں حیدر آباد تک جاتا تھا۔ یہ علاقہ بہت وسیع تھا۔ مزید براں نواب کے ہاتھوں لگنے والے زخم کے بعد اس کا محتاط پن مزید بڑھ گیا اور لوگ یہ سمجھنے لگے کہ شیطان مجسم ہو کر آ گیا ہے۔ اس کے علاوہ اب وہ شکار کرنے کے بعد موقعے پر ہی پیٹ بھر کر چلا جاتا اور شاید ہی کبھی واپس لوٹتا۔ اس سے نہ صرف اس کے شکار پر نکلے شکاریوں کا کام دشوار تر ہو گیا بلکہ آدم خور کی وارداتیں بھی بہت بڑھ گئیں۔
یہ علاقہ بڑا اور دورافتادہ تھا، سو اس آدم خور کو زیادہ شہرت نہ ملی اور جب اس کے بارے بات ہوئی بھی تو اخبار میں چھپنے والے ایک آدھ پیرے میں یہی لکھا گیا کہ آدم خور نے ایک اور انسانی جان لے لی۔ اس طرح ساڑھے تین سال میں شیر کے شکار کردہ انسانوں کی تعداد اسی ہو گئی، پھر جا کر اس کے خاتمے کے بارے سنجیدگی سے سوچا گیا۔
ایک شیر کے ہاتھوں اسی افراد کی ہلاکت مغربی سوچ کے لحاظ سے بہت زیادہ ہے مگر یاد رہے کہ آج ہندوستان میں اوسط عمر تیس سال بھی نہیں اور گزرے برسوں میں تو اس سے بھی کم ہوتی تھی۔ ہر سال قحط، سیلاب اور بیماریوں سے ہزاروں افراد ہلاک ہو جاتے تھے اور سانپ کے کاٹنے سے کئی ہزار اور ہلاکتیں ہوتی تھیں اور شرح پیدائش خطرناک حد تک تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ اسی افراد سمندر میں قطرے کے مترادف تھے۔ ساڑھے تین سال میں اسی افراد کا مطلب ہے کہ 1٫300 دن میں 80 ہلاکتیں۔ یعنی شیر صرف انسانی گوشت پر زندہ نہیں تھا بلکہ وقتاً فوقتاً جنگلی جانوروں اور مویشیوں پر بھی ہاتھ صاف کرتا رہتا تھا۔ اس سے یہ فائدہ ہوا کہ شیر کے لیے گارا باندھا جا سکتا تھا۔
آدم خور کے علاوہ بھی اس جگہ بہت سارے شیر اور تیندوے بھی موجود تھے جو حیدر آباد سے لے کر جنوب تک مویشیوں اور دیگر پالتو جانوروں پر ہاتھ صاف کرتے رہتے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ کہنا تو ممکن ہی نہیں تھا کہ کتنے جانور سالانہ آدم خور کا شکار بنتے تھے اور کتنے کی ذمہ داری دیگر درندوں پر تھی۔ اب اگر کوئی شکاری آدم خور کی گشت کا اندازہ لگا لے تو وہ دو ہفتوں کی کمی بیشی کے ساتھ درست جگہ کا تعین کر کے گارا باندھ سکتا تھا۔
میرے پاس اخبارات میں چھپنے والی خبریں موجود تھیں اور محکمہ جنگلات بھی مجھے کئی بار خط بھیج چکا تھا کہ میں اس آدم خور کے پیچھے جاؤں۔ تاہم میں نے ان پر کان نہ دھرا کیونکہ اتنی چھٹی ممکن نہیں تھی کہ طویل عرصے کے لیے آدم خور کے پیچھے جاتا۔ دوسرا یہ بھی کہ مطلوبہ علاقہ اتنا دور تھا کہ کسی انسانی ہلاکت کی خبر سنتے ہی وہاں پہنچنے پر بہت وقت لگ جاتا۔ تاہم آدم خور چاہے تیندوا ہو یا شیر یا پاگل ہاتھی، میرے لیے ہمیشہ دلچسپی کا سبب ہوتے ہیں۔
موجودہ آدم خور کے متعلق میں نے مدراس اور حیدر آباد کے محکمہ جنگلات اور محکمہ پولیس کو خط لکھ کر اس جانور کے بارے اہم معلومات طلب کی تھیں کہ یہ وارداتیں کب اور کہاں ہوئی تھیں۔ پھر میں نے ان تمام معلومات کو نقشے پر لگایا۔ اس طرح ہر واردات کے مقام پر کانٹا لگا کر میں نے تاریخ درج کر دی۔ نقشے سے پتہ چلا کہ آدم خور گزلاپلی اور چیلما میں دو سے تین ماہ گزارنے کے بعد حیدر آباد میں لگ بھگ چار ماہ گزارتا ہے اور پھر لوٹ آتا ہے۔ گزلاپلی سے بسواپرم کا فاصلہ چھ میل ہے جبکہ بسواپرم سے چیلما پانچ میل۔ دونوں کے درمیان موجود جنگل کو دیکھا جائے تو یہ فاصلہ پندرہ میل بنتا ہے۔ یہ علاقے بنگلور سے حیدر آباد کی نسبت زیادہ قریب ہیں اور نسبتاً چھوٹے بھی۔ یہاں میٹر گیج ٹرین بنگلور کو جاتی ہے۔ حیدر آباد کے مطلوبہ مقامات پر نہ تو ٹرین جاتی تھی اور نہ ہی گاڑی جا سکتی تھی۔
اس کے علاوہ جنوبی علاقے میں زیادہ آبادیاں ہیں جہاں سے مجھے زیادہ مدد مل سکتی جبکہ حیدر آباد کے جنگلوں میں یہ سہولت نہ ہوتی۔
چونکہ میں کچھ عرصے سے آدم خور کے پیچھے جانے کا سوچ رہا تھا کہ اچانک شیر نے مجھے فیصلے پر مجبور کر دیا۔ ہوا کچھ یوں کہ ریلوے کا ایک مستقل انسپکٹر روزمرہ معائنے پر نکلا۔ اس کا رخ چیلما سے بسواپرم کی طرف تھا۔ انڈین ریلوے میں اس کام کے لیے لکڑی کی ٹرالی ہوتی ہے جس کے نیچے چار پہیے لگے ہوتے ہیں۔ ٹرالی کی لمبائی چھ فٹ ہوتی ہے اور اس پر افسر کے بیٹھنے کے لیے بنچ لگی ہوتی ہے۔ دو قلی ننگے پاؤں پٹڑی پر چلتے ہوئے اسے دھکیلتے ہیں۔ یہ قلی تجربہ کار ہوتے ہیں اور انہیں علم ہوتا ہے کہ اگر ان کا پیر پٹڑی سے پھسلا تو کنکروں سے زخمی ہو جائے گا۔ چڑھائی پر ٹرالی کی رفتار پیدل چلنے کے برابر ہوتی ہے تو اترائی پر آٹھ میل فی گھنٹہ تک پہنچ جاتی ہے اور قلی جست لگا کر پیچھے بیٹھ جاتے ہیں۔ افسر ٹرالی کی رفتار کو ہینڈ بریک سے قابو کرتا ہے۔ سٹیشن پر پہنچ کر دوسری ٹرینوں کو راستہ دینے کی خاطر پوری ٹرالی اٹھا کر ایک طرف رکھ دی جاتی ہے۔
متذکرہ بالا واقعے کے روز ٹرالی چڑھائی پر جا رہی تھی کہ افسر نے بریک لگا کر ٹرالی کو روکا اور نیچے اتر کر پٹڑی کی دونوں جانب کٹاؤ کا معائنہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ چونکہ اگلی ٹرین دو گھنٹے بعد آنی تھی، سو ان کے پاس کافی وقت تھا۔
ایک قلی ٹرالی پر بیٹھا رہا جبکہ دوسرا بندہ چڑھائی کے کنارے پر بیٹھ گیا جو زمین سے لگ بھگ سات فٹ اونچا تھا۔ یہاں بیٹھ کر اس نے بیڑی نکال سلگا لی۔ بیڑی تمباکو کے پتوں سے بنی سستی سگریٹ ہوتی ہے۔ افسر اتر کر معائنہ کرنے چل پڑا۔
افسر کچھ دور نکل گیا اور ٹرالی پر بیٹھا قلی لیٹ کر اونگھنے لگا۔ دوسرے قلی نے پہلی بیڑی ختم کر کے دوسری سلگائی اور کش لگاتے ہوئے اپنے افسر کو دیکھنے لگا۔
کٹاؤ زیادہ گہرا نہیں تھا، سو گز چل کر افسر نے پٹڑی عبور کی اور دوسری جانب کا معائنہ کرنے لگا۔ اس نے مڑ کر قلیوں کو بھی دیکھا۔ دونوں سمت میں جنگل پچاس گز سے بھی کم فاصلے سے شروع ہو رہا تھا مگر بعض جھاڑیاں قریب تر تھیں۔ افسر کو ایک بڑی جھاڑی کی ایک جانب سے کچھ گول گول سا نکلا ہوا دکھائی دیا۔ پھر اس چیز نے حرکت کی۔ تاہم سورج کی روشنی کچھ اس انداز سے پڑ رہی تھی کہ کچھ واضح نہ دکھائی دیا۔
جھاڑی کا زیریں حصہ اور وہ گول سی چیز سائے میں تھی۔ اس چیز نے پھر حرکت کی اور افسر سوچنے لگا کہ یہ کیا چیز ہوگی۔ پھر وہ چیز زمین کے ساتھ چپک کر نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
افسر نے پٹڑی عبور کی اور واپس ٹرالی کی سمت آنا شروع کر دیا۔ اب وہ دوسری سمت کے کٹاؤ کا جائزہ لے رہا تھا۔ چند سیکنڈ قبل والی چیز اس کے ذہن سے کچھ دیر کے لیے اتر گئی تھی۔
پھر اچانک اس نے زور کی چیخ سنی۔ سر اٹھایا تو دیکھا قلی نیچے گرا اور اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا مگر چیخیں جاری رہیں۔ حیران ہو کر وہ بھاگا تاکہ کنارے پر چڑھ کر دیکھ سکے۔ وہاں پہنچ کر دیکھا کہ ایک بڑا شیر قلی کو اٹھائے آرام سے جا رہا ہے اور قلی کے ہاتھ اور پیر ہل رہے تھے۔ پھر شیر اور قلی دونوں ہی غائب ہو گئے۔
افسر جیسے زمین میں گڑ کر رہ گیا۔ پھر وہ نیچے اتر کر پٹڑی کو ٹرالی کی سمت بھاگا۔
اتنی دیر میں چیخوں کی آواز سے دوسرا قلی بھی جاگ گیا اور نیم بیداری کی کیفیت میں حیران حیران سا دکھائی دیا۔ پھر اسے افسر اپنی سمت بھاگتا دکھائی دیا۔
افسر جونہی قریب پہنچا تو اس نے چلا کر کہا: ‘باگھ (شیر) ریڈی کو لے گیا۔ ٹرالی کو دھکیلو، جلدی‘۔ اس کے بعد قلی کو اور کچھ کہنے کی ضرورت نہیں پڑی اور قلی نے عجلت سے ٹرالی کو دھکیلا۔ جب ڈھلوان آئی تو ٹرالی خودبخود چلنے لگی اور قلی اس پر بیٹھ گیا۔
اس واقعے کو پریس میں بہت شہرت ملی اور لوگوں نے افسر کو بہت برا بھلا کہا کہ اس نے بیچارے قلی کی مدد کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ اسے اخلاقی قاتل اور پتہ نہیں کیا کیا کہا گیا کہ جیسے وہ کوئی انسان نہ ہو بلکہ کوئی کیڑا مکوڑا ہو۔ میں سوچتا ہوں کہ کتنے ناقدین نے اس طرح کی صورتحال میں ایسا رویہ نہ اختیار کیا ہوتا۔ یاد رہے کہ یہ سب اچانک ہوا اور افسر نہتا تھا۔
مجھے لگا کہ اب اس آدم خور کے پیچھے جانے کا وقت آن پہنچا ہے۔
سو رات کے وقت میں ٹرین پر بنگلور سے روانہ ہوا اور اگلے دن دوپہر کو گزلاپلی پر جا اترا۔ میرا ارادہ تھا کہ یہاں سے کاروائی شروع کر کے میں بسواپرم اور چیلما کو جاؤں۔ درمیان میں کہیں سے بغیر ترتیب کے کام شروع کرنے سے کامیابی کا دارومدار قسمت پر ہوتا۔ دوسرا سب سے اہم کام مقامی رہنما اور کھوجی ملازم رکھنا تھا۔ میں یہاں ایک بار پہلے آیا تھا، سو زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ میرے پاس نقشہ تھا جس پر آدم خور کی سرگرمیاں درج تھیں۔ مجھے یہ بھی توقع تھی کہ پرندے پھانسنے والے بندے کا بیٹا بھی مل جائے گا۔ میرا خیال تھا کہ اس جوان سے کافی مدد ملے گی۔
جونہی ٹرین سٹیشن سے نکلی تو میں نے سٹیشن ماسٹر اور دیگر ملازمین سے واقفیت بنائی۔ جب انہیں میری آمد کا مقصد پتہ چلا تو وہ بہت خوش ہوئے اور ہر ممکن مدد کو تیار ہو گئے۔ یہاں کچھ مسئلہ ہوا کہ مجھے تلیگو کے چند الفاظ آتے ہیں مگر خوش قسمتی سے یہ لوگ ہندوستانی اور تامل کافی حد تک سمجھ سکتے تھے جو میں بخوبی بول سکتا ہوں۔ سو ہم ایک دوسرے سے گفتگو کر سکتے تھے۔ سٹیشن ماسٹر کو انگریزی آتی تھی اور وہ میرا مترجم بن گیا۔
سب سے پہلے تو مین نے یہ واضح کیا کہ مجھے شیر کی آمد و رفت، نشانی اور کچھ ایسی معلومات درکار ہیں کہ جن کی مدد سے میں اسے دیگر شیروں سے فرق کر سکوں۔ اس پر ریلوے کے عملے نے معذوری ظاہر کی۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے بہت مرتبہ شیر دیکھے تھے مگر ان کے بارے کچھ زیادہ نہیں جانتے تھے۔ تاہم انہوں نے بتایا کہ گاؤں میں دو فارسٹ گارڈ رہتے ہیں جو مجھے اس بارے بہتر بتا سکتے ہیں۔
اب میں نے انہیں کہا کہ وہ اگر پرندے پھانسنے والے کے بیٹے کو بلا لیں تو زیادہ آسانی رہے گی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اسے شکل سے تو پہچانتے ہیں مگر اس کی رہائش جنگل میں کہیں ہے جو انہیں معلوم نہیں۔ ان کا خیال تھا کہ فارسٹ گارڈ اس کا پتہ بھی جانتے ہوں گے۔
میرے کہنے پر انہوں نے ایک گینگر بھیج کر فارسٹ گارڈز کو بلوا لیا جو بیس منٹ میں پہنچ گئے۔ ان میں سے ایک مسلمان علی محمد تھا جبکہ دوسرا چنچو کرشناپا تھا۔ علی محمد ہندوستانی بول سکتا تھا جبکہ کرشناپا کو محض تلیگو آتی تھی۔ علی محمد میرا مترجم بن گیا۔ ہم سب سٹیشن کے پیچھے آم کے درخت تلے جا کر بیٹھ گئے اور کام کی بات شروع کر دی۔
علی بیگ کی مدد سے میں انہیں بتایا کہ جو شخص بھی مجھے آدم خور کے بارے پہلے معلومات دے گا کہ اس سے کہاں مڈبھیڑ ہو سکتی ہے تو میں اسے معقول انعام دوں گا۔ اس پر دونوں کے کان کھڑے ہوئے۔ علی بیگ نے فوراً کہا کہ جان پر کھیل کر مجھے آدم خور تک لے جائے گا جبکہ چنچو نے علی بیگ کے واسطے سے بتایا کہ وہ بھی مجھے آدم خور کے پاس تو لے جائے گا مگر جان پر کھیلنا اس کے لیے ممکن نہ ہوگا۔ اس نے بتایا کہ اسے آدم خور کی رہائش کے بارے پوری معلومات ہیں۔
میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ مقامی باشندہ ہونے کی وجہ سے کرشناپا زیادہ مددگار اور مفید ثابت ہوگا۔
میں نے شیر کے بارے سوالات شروع کر دیے۔ دونوں کا دعویٰ تھا کہ وہ اسے دیکھ چکے ہیں۔ جب سے آدم خور ظاہر ہوا تھا، وہ جنگل میں ہمیشہ کلہاڑیوں سے مسلح ہو کر اور جماعت کی شکل میں جاتے تھے اور گاؤں سے زیادہ دور کوئی نہیں جاتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ دس روز قبل انہوں نے ایک شیر کو گاؤں سے ایک میل دور ایک فائر لائن عبور کرتے دیکھا۔ شیر نے بھی انہیں دیکھا اور جست لگا کر جنگل میں غائب ہو گیا۔ ایک ماہ قبل بھی انہوں نے تالاب کے کنارے ایک شیر صبح نو بجے دیکھا تھا۔ یہ شیر بھی انہیں دیکھ کر بھاگ گیا۔ تاہم چار ماہ قبل انہوں نے گاؤں سے چوتھائی میل دور ایک شیر دیکھا جو انہیں دیکھ کر بھاگا نہیں بلکہ مڑ کر زمین پر جھک کر غرانا شروع ہو گیا تھا۔ اس پر انہوں نے الٹے قدموں بھاگنے کا سوچا مگر کرشناپا نے سرگوشی کی کہ وہ مل کر شور مچاتے ہیں۔ اس پر شیر غراتا تو رہا مگر حملہ نہیں کیا۔ چند لمحے رک کر شیر ایک طرف چل دیا اور جاتے ہوئے انہیں مڑ مڑ کر دیکھتا گیا۔ جب شیر نظروں سے اوجھل ہوا تو یہ گاؤں کو بھاگے۔
اچانک مجھے ایک خیال آیا، چار ماہ۔ یہ وقفہ میرے بنائے ہوئے نقشے پر عین پورا اتر رہا تھا۔ اس شیر کے رویے سے بھی یہی اندازہ ہوا۔ انہوں نے آدم خور کو پچھلی مرتبہ یہاں کے چکر پر دیکھا تھا۔
ان دونوں کا بھی یہی خیال تھا۔
مزید یہ بھی کہ چار ماہ کا دورانیہ سچ ثابت ہوا۔ شیر نے چیلما اور بسواپرم کے درمیان جو ٹرالی والا قلی مارا تھا وہ اس کا آخری شکار تھا۔ اگر میرا حساب درست ہوتا اور قسمت یاوری کرتی تو شیر اب بسواپرم اور گزلاپلی کے درمیان کسی بھی وقت ظاہر ہو سکتا تھا۔ مجھے جوش چڑھ گیا۔ قسمت میرا ساتھ دے رہی تھی۔ مگر کب تک؟ میں نے ان سے مزید تفصیل سے اس شیر کے بارے پوچھا جو ان پر غراتا رہا تھا۔ علی بیگ نے بتایا کہ وہ بہت بڑا شیر تھا جبکہ کرشناپا کے بقول نر شیر تھا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ شیر کی کھال کا رنگ نسبتاً ہلکا تھا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اُس وقت یہ دونوں بہت ڈرے ہوئے تھے کہ شیر کسی وقت بھی حملہ کر سکتا تھا۔ سو زیادہ تفصیل سے کون دیکھتا۔ پھر میں نے پوچھا کہ آیا وہ اس شکاری کے بیٹے کو جانتے ہیں جو پہلے شیر کا لقمہ بن چکا تھا۔ وہ اسے جانتے تھے۔ یہ لڑکا اپنی ماں، بیوی اور ایک بچے کے ساتھ یہاں سے دو میل دور جنگل میں بنے ایک جھونپڑے میں رہتا تھا۔ اس نے اپنے باپ کی طرح پرندے پھانسنے کا کام جاری رکھا تھا مگر یہ کہنا مشکل ہے کہ آدم خور کی موجودگی کے باوجود وہ کیسے شکار کرتا ہوگا۔ محفوظ جنگل میں پرندے پھانسنا غیر قانونی فعل ہے اور اس کے باپ کو کئی بار جرمانہ بھی ہو چکا تھا مگر وہ باز نہ آیا اور اب وہی کام اس کا بیٹا کر رہا تھا۔ پہلے تو یہ لوگ کبھی مور دے کر تو کبھی جنگلی مرغیاں دے کر اپنی جان چھڑا لیا کرتے تھے۔ مگر اب یہ نذرانہ بھی ملنا بند ہو گیا تھا۔ مگر اس بیچارے کو کیسے الزام دیا جاتا کہ پہلے ہی اس کا کام اتنا مشکل ہو چکا تھا کہ آدم خور اسی علاقے میں کہیں بھی ہوتا۔
مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ شیر کی تلاش کے لیے میرے پاس مناسب افراد جمع ہو گئے ہیں۔ اٹھتے ہوئے میں نے اپنی اعشاریہ 405 بور کی رائفل شانے سے لٹکائی اور دونوں فارسٹ گارڈ سے کہا کہ مجھے اس لڑکے تک لے جائیں۔ ہم نے پٹڑی عبور کی اور قطار میں چلتے ہوئے روانہ ہو گئے۔ کرشناپا آگے، پھر علی بیگ اور پھر میں۔ روانہ ہونے سے قبل میں رائفل بھر لی تھی۔ اگر شیر کہیں آس پاس ہوتا تو یا کرشناپا پر حملہ کرتا یا مجھ پر۔ علی بیگ ہر حال میں محفوظ رہتا۔
تین میل بعد ہم ایک نالے کو عبور کر کے ایک چھوٹی پہاڑی پر چڑھے۔ نالے میں ہلکا سا پانی بہہ رہا تھا۔ پہاڑی پر جھونپڑا بنا تھا جس کے باہر ایک خوش شکل لڑکا کٹے ہوئے بانسوں سے پنجرہ بنانے میں مصروف تھا۔
جب ہم قریب پہنچے تو اس نے اٹھ کر احترام سے سلام کیا۔
کرشناپا نے تلیگو میں میرا تعارف کرایا اور اس نے خوشگوار انداز میں جواب دیا۔ علی بیگ نے ترجمان کا کام کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ اس کا نام بالا ہے۔ پھر جھونپڑی سے دو خواتین نمودار ہوئیں جن میں سے معمر خاتون اس کی ماں اور دوسری اس کی بیوی تھی جو سولہ یا سترہ برس کی ہوگی۔ اس کے بازو میں ایک سال کا بچہ تھا جو اس کی چھاتی سے دودھ پی رہا تھا۔
جھونپڑے کے ساتھ ہی ہم گھاس پر بیٹھ گئے اور میں نے سوال پوچھنا شروع کیے جو علی بیگ نے تلیگو میں لڑکے تک پہنچائے اور پھر اس کے جواب مجھ تک۔ کرشناپا بھی وقفے وقفے سے اگر کہیں الجھن پیدا ہوتی تو اسے دور کرتا رہا۔ لڑکا ‘دورائی‘ کی مدد کیوں نہ کرے گا؟ کیا شیر نے اس کے باپ کو ہڑپ نہیں کیا تھا؟ تاہم وہ اس سلسلے میں کسی قسم کا معاوضہ نہیں لے گا۔ اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے یہ اس کا فرض تھا کہ وہ باپ کا بدلہ لیتا اور اگر اس نے کوئی معاوضہ لیا تو اس کے باپ کی روح خفا ہوگی۔ اس نے آدم خور کو اپنی آنکھوں سے کئی مرتبہ دیکھا ہوا ہے۔ ایک بار وہ اسی نالے سے گھڑا بھرنے گیا تھا کہ جس سے گزر کر ہم آئے تھے۔ دوپہر کا وقت تھا اور یہ سب کھانا کھانے لگے تھے۔ اس نے گھڑا پانی میں ڈبویا اور سر اٹھایا تو دوسرے کنارے سے شیر اترتا دکھائی دیا۔ خوش قسمتی سے اس نے شیر کو سو گز دور سے اپنی سمت بڑھتے دیکھ لیا تھا۔ اس نے گھڑا وہیں چھوڑا اور بھاگ کر سیدھا اپنے جھونپڑے میں گھس گیا اور دروازہ بند کر لیا اور سامنے بھاری چیزیں رکھ دی۔ ان کا خیال تھا کہ آدم خور کسی لمحے دروازہ توڑ کر اندر گھس آئے گا۔ مگر کچھ نہ ہوا۔
رات کو آدم خور کی دھاڑ بکثرت سنائی دیتی تھی کہ وہ اسی نالے سے پانی پینے آتا تھا۔ یہ بڑا نر تھا اور کھال ہلکی زرد۔ جب میں نے شیر کی کوئی خاص علامت پوچھی تو اس نے آنکھیں بند کر کے کچھ دیر سوچا اور پھر آنکھیں کھول کر بولا کہ شیر کی کھال پر بنی پٹیاں غیر معمولی طور پر قریب قریب تھیں۔ اس نے اتنی سی عمر میں بہت سے شیر دیکھے تھے مگر کبھی اتنی تنگ پٹیوں والا شیر نہیں دیکھا۔
پھر میں نے پوچھا کہ آخری بار اس نے کب شیر دیکھا تھا تو اس نے کچھ سوچ کر کہا بتایا کہ چار ماہ قبل۔ اس کے بعد بھی کسی شیر کو دیکھا؟ دو بار۔ تاہم وہ اس کے باپ کے قاتل نہیں بلکہ عام شیر تھے۔ ایک تو ان کی جسامت چھوٹی اور کھال گہرے رنگوں کی تھی اور اسے دیکھتے ہی غائب ہو گئے تھے۔
پھر بالا نے وہ خبر سنائی جو میں سننا چاہ رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ آدم خور شاید واپس آ گیا ہے۔ اس نے شیر کو دیکھا تو نہیں مگر اس نے نالے میں شیر کے بہت بڑے پگ دیکھے تھے۔ یہ پگ ویسے ہی تھے جیسے چار ماہ قبل آدم خور کے تھے۔ یہ نشان اس کے والد کی لاش کے پاس بھی دکھائی دیے تھے۔
یہ سنتے ہی میں اٹھا اور اسے کہا کہ مجھے وہ پگ دکھائے۔ بالا نے خواتین کو گھر کے اندر دروازہ بند کر کے بیٹھنے کا کہا اور میرے ساتھ چل پڑا۔ ہم اسی نالے کو گئے جہاں سے گزر کر ابھی آئے تھے۔ یہاں سے اس نے بہاؤ کی سمت رخ کیا۔ تین فرلانگ بعد نالا چوڑا ہو گیا اور پانی وسط میں بہہ رہا تھا۔ یہاں پانی اور کناروں کے درمیان کچھ وقفہ تھا۔ یہاں دو راتیں قبل شیر مشرق سے مغرب کی سمت گزرا تھا۔
پگ اتنے بڑے تھے کہ دور سے دکھائی دے گئے۔ یہ بہت بڑا نر شیر تھا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
نرم ریت کے اعتبار سے نشان پھیل گئے تھے مگر پھر بھی واضح تھا کہ شیر بہت بڑی جسامت کا حامل ہے۔ ہم جھونپڑے کو واپس لوٹے اور میں نے بالا سے کہا کہ وہ اپنے گھر والوں کو کچھ عرصے کے لیے گزلاپلی منتقل کر دے۔ اس طرح وہ میری مدد کے لیے ہر طرح سے آزاد ہوگا۔ مجھے یہ سوچ کر تکلیف ہو رہی تھی کہ بالا، اس کی ماں، بیوی اور بچہ گھنے جنگل کے عین وسط میں ایک طرح سے اپنی موت کے منتظر تھے۔ دورِ جدید میں جنگوں کے دوران فوجیوں کی غیرمعمولی بہادری کی داستانیں عام ملتی ہیں اور ان کو تمغے بھی دیے جاتے ہیں۔ اسی طرح اپنے ملک کی خاطر جان دینے والے جاسوس گمنام قبروں میں دفن ہوتے ہیں اور ان کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ ان کی داستانیں ہمارے خون کو گرما دیتی ہیں۔ تاہم ان لوگوں کو کئی ماہ تک آدم خور کے رحم و کرم پر رہتے دیکھ کر میری کیفیت عجیب سی ہو گئی۔ یہ آدم خور پہلے ہی ان کے خاندان کے سربراہ کو کھا چکا تھا۔
بالا نے کچھ دیر میری بات پر سوچا اور جب کرشناپا اور علی بیگ نے بھی اصرار کیا تو وہ مان گیا۔ دونوں فارسٹ گارڈوں کے ساتھ میں درخت تلے بیٹھ گئے جبکہ بالا اور اس کے گھر والوں نے ضروری سامان جمع کیا۔ پھر بالا نے کانٹے دار جھاڑیوں والا دروازہ بند کیا اور سامان کی گھٹڑیاں اٹھائے ہم روانہ ہو گئے۔ بالا کا بچہ ابھی تک دودھ پیے جا رہا تھا۔
اس رات سٹیشن ماسٹر نے مجھے کھانے کی دعوت دی۔ وہ سبزی خور تھا مگر اس کی بیوی نے بہت عمدہ کھانا تیار کیا۔ کھانے کے بعد کافی کا دور چلا۔ پھر ہم نے آگے کا لائحہ عمل طے کرنے کا سوچا۔ سٹیشن ماسٹر نے کہا کہ رات کو گنتاکل جانے والی ٹرین کے علاوہ بھی دو تین مال گاڑیوں نے گزرنا ہے، سو اس کی موجودگی سٹیشن پر لازمی ہے۔ اس لیے ہم سٹیشن کو چل پڑے اور وہاں کھلے پلیٹ فارم پر بنچ پر بیٹھ گئے۔ دونوں فارسٹ گارڈ اور بالا ہمارے سامنے زمین پر بیٹھ گئے۔
میرا خیال تھا کہ ہم صبح دو گارے باندھ دیتے۔ ایک گارا اس جگہ جہاں آدم خور نے کرشناپا اور علی بیگ کو دھمکایا تھا اور دوسرا اس جگہ جہاں بالا کے جھونپڑے اور پگ والے مقام کے درمیان۔ بالا اور کرشناپا ان کی دیکھ بھال کرتے رہتے جبکہ میں علی بیگ کو ترجمان کے طور پر لے کر بسواپرم اور چیلما سے مزید تحقیق کرتا۔ سٹیشن ماسٹر کو کوئی خبر ملتی تو وہ مجھے بسواپرم یا چیلما تار بھیج دیتا۔
سٹیشن ماسٹر مجھے اپنے ساتھ دفتر لے گیا اور اس نے بسواپرم اور چیلما کے سٹیشنوں سے خبر کا پوچھا۔ تاہم کوئی تازہ اطلاع نہیں تھی اور ہر کوئی کافی محتاط تھا اور رات کو کوئی بھی گھر سے باہر نہ جاتا تھا۔ چیلما کے سٹیشن ماسٹر نے بتایا کہ اس کے پاس ٹرالی بیکار کھڑی ہے اور اس نے تجویز پیش کی کہ اگر سٹیشن ماسٹر چاہے تو نندیال میں ریلوے کے مقامی صدر دفتر تار بھیج کر میرے لیے اجازت لے سکتا ہے کہ مبادا کہ مجھے ضرورت پڑ جائے۔ سٹیشن ماسٹر نے فوراً ہنگامی تار بھیج کر اجازت مانگ لی۔ ان ریلوے افسران نے بہت تعاون کیا۔
سٹیشن ماسٹر کو اس کے سرکاری فرائض کی ادائیگی پر چھوڑ کر میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ گاؤں گیا اور سوئے ہوئے ایک بندے کو اٹھا کر اسے صورتحال بتائی اور دو بچھڑے مانگے۔
بنگلور اور میسور میں شکار کی غرض سے جانور خریدنا ہمیشہ مشکل کام رہا ہے کہ یہ لوگ اس مقصد کے لیے جانور بیچنا برا سمجھتے ہیں۔ انہیں علم بھی ہوتا ہے کہ متعلقہ درندہ آدم خور ہو چکا ہے اور انسانی جانوں کو بچانے کے لیے ایسا کیا جا رہا ہے۔ سو اس طرح کے سودوں پر کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔
عموماً رات کو ایسے وقت سودے بازی کرنا کارِ دارد سمجھا جاتا ہے مگر اس جگہ کے لوگ بہت سمجھدار تھے۔ جونہی میں نے اسے اپنی آمد کا مقصد بتایا، اس نے فوراً حامی بھر لی۔ اس نے یہاں تک کہا کہ میں اپنی مرضی کے جانور چُن لوں۔
باڑہ اس کے گھر کے پیچھے تھا اور ٹارچ کی مدد سے میں نے بھورے رنگ کے دو بچھڑے منتخب کیے۔ مالک نے ان کی قیمت 35 روپے لگائی جو برطانوی کرنسی میں 3 پاؤنڈ سے بھی کم بنتی ہے۔ میں نے اسے فوراً ادائیگی کی اور شکریہ بھی ادا کیا۔ تاہم میں نے اسے بتایا کہ یہ بچھڑے ہم صبح کو لے جائیں گے۔ اس نے یہ بات بھی مان لی۔
ہم سٹیشن پر پہنچے تو دیکھا کہ مال گاڑی پہنچ کر ایک جگہ روک دی گئی تھی۔ ٹرین کا اینگلو انڈین ڈرائیور سٹیشن ماسٹر کے دفتر میں اس سے بات کرتے ہوئے کافی بھی پی رہا تھا۔ شاید سٹیشن ماسٹر نے اسے میرے بارے بتایا ہوگا کہ مجھے دیکھتے ہی اس نے اپنا تعارف ولیم راجرز کے نام سے کرایا اور اپنا کافی کا مگ پیش کیا۔ اس نے بتایا کہ چار روز قبل رات کے وقت نندیال کی سمت جانے والی پٹڑی پر اس نے شیر کو چلتے ہوئے دیکھا تھا۔ جب میں نے پوچھا کہ اس نے کی کھال یا رنگت کے بارے کچھ عجیب سا محسوس کیا تو اس نے بتایا کہ انجن کی روشنی میں فاصلے سے ایسی تفصیل دیکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ تاہم شیر کافی بڑا تھا۔ پھر اس نے بتایا کہ اگر میں سانبھر، چیتل یا سور کا شکار کرنا چاہوں تو یہاں کی نسبت دیگوامتہ کے قریب بہت پائے جاتے ہیں۔
میں نے راجرز کا شکریہ ادا کر کے بتایا کہ میں شیر سے چھٹکارا پانے کے بعد ہی اس شکار کا سوچوں گا۔ خیر مصافحہ کر کے وہ انجن کو چل پڑا کہ اسے لائن کلیئر کا سگنل مل گیا تھا۔ منٹ بھر بعد اس کا انجن شور مچاتا مال گاڑی کو لے کر روانہ ہو گیا۔ ایک بار پھر سٹیشن پر خاموشی چھا گئی۔
نندیال سے تار کا جواب آیا کہ میں ٹرالی استعمال کر سکتا ہوں۔
سٹیشن ماسٹر نے انتظار گاہ کھول دی اور میں نے وہاں لٹکتا لیمپ جلایا۔ بالا میری رائفل، بستر، پانی کی بوتلیں اور کھانے کی ٹوکری لے آیا۔
غسل خانے میں پانی نہیں تھا اور سٹیشن ماسٹر سے پوچھنے کا وقت بھی نہ رہا۔ کمرے میں چارپائی یا پلنگ بھی نہیں تھا اور صرف ایک میز اور تین کرسیاں بھی تھیں اور بازو والی واحد کرسی پر بیٹھنے والی جگہ پر بڑا سوراخ تھا۔ شکر ہے کہ کم از کم چھت سلامت تھی۔ میں نے لیمپ بجھایا اور بازوؤں والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ آدھا نیچے اور آدھا اوپر بیٹھ کر میں نے جوتے اتارے اور نیم دراز ہو گیا۔ جب میں نے پیروں کو اٹھا کر اوپر رکھا تو پتہ بھی نہیں چلا کہ کب نیند آ گئی۔
ساڑھے چار بجے ایک اور مال گاڑی گزری مگر ایسا لگا کہ چند منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ بالا نے آ کر مجھے جگا دیا۔ سورج کی روشنی پھیل چکی تھی۔ سٹیشن ماسٹر اس دوران گھر جا کر سو چکا تھا۔ بالا نے میری ہدایات پر تین پتھر جمع کر کے پلیٹ فارم کے ایک کنارے پر چولہا بنایا اور پھر لکڑیاں وغیرہ جمع کر کے آگ جلائی اور میں نے اس پر سفری کیتلی میں چائے بنانا شروع کی۔ پھر میں نے ساتھ ہی مٹی کے تیل والا نکالا اور کچھ بیکن تلے۔ ابھی چائے والا پانی ابلا بھی نہیں تھا کہ بیکن تیار ہو گئے۔ پھر میں نے پانی کی ٹینکی کا رخ کیا جو پلیٹ فارم کے مخالف سمت واقع تھا۔ اس ٹینکی سے انجن میں پانی بھرا جاتا تھا۔ میرے ساتھ تولیہ، ٹوتھ برش، ٹوتھ پیسٹ اور صابن کے علاوہ صاف کپڑے بھی تھے۔ ان سب چیزوں کو قریب رکھ کر میں نے کپڑے اتار کر تولیہ باندھا۔ پھر پائپ کے نیچے کھڑا ہو کر میں والو کھولا تو دس ہزار گیلن پانی کا کچھ حصہ انتہائی زور سے گرا اور میں گرتے گرتے بچا۔
خیر، غسل سے کافی لطف اندوز ہو کر میں نے دانت بھی صاف کیے۔ اگرچہ میں جنگل میں شیو نہیں کرتا، مگر صاف ستھرا رہنا بہتر ہے۔
میرے پاس دوسرا تولیہ نہیں تھا۔ صبح کافی سرد تھی۔ چند ہی منٹ بعد میں نے خشک کپڑے پہنے اور بالا کے پاس پہنچا جو چائے تیار کر چکا تھا۔ چائے، بیکن اور بنگلور سے لائی گئی بقیہ چپاتیوں سے میں نے چھوٹا حاضری یعنی ناشتہ کر لیا۔
جب میں ناشتہ کر کے فارغ ہوا تو دونوں فارسٹ گارڈ بھی آ گئے جو رات گزارنے بستی چلے گئے تھے۔ پھر ہم چاروں افراد روانہ ہو گئے اور بچھڑے لے کر پہلے بتائی گئی جگہوں پر لے گئے۔ جہاں شیر نے فارسٹ گارڈوں کو دھمکایا تھا، وہاں تنگ سی فارسٹ لائن گاؤں سے ایک میل سے بھی کم فاصلے سے گزرتی تھی۔ کرشناپا نے ایک شاخ کو کلہاڑی سے کاٹا اور تین فٹ جتنا لمبا کھونٹا تیار کر لیا۔ پھر ہم نے مچان کے لیے ایک مناسب درخت چنا اور پھر اس سے پندرہ گز دور کھونٹا گاڑ کر ایک بچھڑا باندھ دیا۔ ہم نے بچھڑے کو سوتی رسی سے پچھلی ٹانگ سے باندھا۔ یہ رسی میں ساتھ لایا تھا۔ پھر تین میل دور چل کر ہم بالا کے جھونپڑے کو جا پہنچے۔ وہاں ہم نے ایک اور مناسب درخت کے قریب کنارے کی ڈھلوان پر باندھ دیا۔
دوپہر سے ذرا قبل ہم سٹیشن پر پہنچ گئے۔ وہاں سٹیشن ماسٹر نے اصرار کیا کہ میں دوپہر کا کھانا اس کے ساتھ کھاؤں۔ میں نے نرمی سے منع کر دیا کیونکہ اونچی ذات کے ہندو کے گھر میرا جانا ان کے لیے مسائل پیدا کر رہا تھا۔ اس کی بجائے میں اپنے ساتھیوں سمیت گاؤں کے ‘ہوٹل‘ کی طرف چلا گیا جہاں سے کھانا کھایا۔ یہ ایک کمرے کا اور جستی چادر سے بنی چھت والا جھونپڑا تھا۔ کھانے سے فارغ ہو کر میں نے دونوں چنچوؤں سے کہا کہ وہ دونوں بچھڑوں کو پانی پلانے اور گھاس دینے کا کام کرتے رہیں اور اگر کوئی بچھڑا مارا جائے تو سٹیشن ماسٹر کو اطلاع پہنچا دیں۔ باقی کا کام وہ کر لیتا اور مجھے بروقت اطلاع مل جاتی۔
میں یہاں اس سٹشین ماسٹر کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔
مجھے بخوبی علم ہے کہ اونچی ذات کا ہندو ہونے کی وجہ سے گائے یا بیل یا بچھڑے کی ہلاکت میں شریک ہونا اس کے لیے بہت بڑا پاپ تھا۔ مگر اس نے وسیع تر عوامی مفاد میں ہر طرح سے میری مدد کی خاطر مذہبی اصولوں سے روگردانی کی۔
چھ میل دور اگلے سٹیشن تک مجھے لے جانی والی ٹرین اڑھائی بجے آئی۔ میں نے ڈرائیور سے اس کے ساتھ انجن پر سفر کرنے کی اجازت لے لی۔ میں سفر پر پٹڑی کے دونوں اطراف دیکھنا چاہ رہا تھا۔ علی بیگ انجن کے پیچھے تھرڈ کلاس کے پہلے ڈبے میں بیٹھا اور ہم روانہ ہو گئے۔
چھ میل طے کرنے پر ٹرین کو پچیس منٹ لگے۔ میری امیدیں بہت گر گئیں کہ یہ بہت بڑا اور بہت گھنے جنگلات سے بھرا ہوا علاقہ تھا۔
بسواپرم کا سٹیشن گزلاپلی سے مشابہہ تھا۔ یہاں اتر کر میں نے ڈرائیور کا شکریہ ادا کیا اور سوچنے لگا کہ یہ بہت وسیع علاقہ ہے اور آدم خور بسواپرم میں بھی ہو سکتا ہے یا پھر چیلما میں، جو یہاں سے پانچ میل مزید دور تھا۔
یہاں کا سٹیشن ماسٹر بھی انتہائی عمدہ انسان نکلا۔ وہ تامل نسل سے تعلق رکھتا تھا۔ خوش آمدید کہہ کر اس نے کہا کہ میں انتظار گاہ میں ہی رہائش رکھ لوں اور یہ بھی کہ شیر یہاں ملنے کے زیادہ امکانات ہیں کہ یہ اس پورے علاقے کے وسط میں تھا۔
ایک بار پھر میں نے سٹیشن کے عملے سے روزمرہ والے سوالات کیے اور ایک فارسٹ گارڈ گاؤں سے بھی آیا ہوا تھا۔ یہ بندہ تلیگو تھا اور اس نے سٹیشن ماسٹر کے توسط سے بتایا کہ اس علاقے میں وہ ایک اور فارسٹ گارڈ کے ساتھ کام کرتا ہے جو آج کل ملیریا کا مریض ہونے کی وجہ سے نندیال میں رخصتِ بیماری پر گیا ہوا ہے۔ ان سب نے شیر دیکھے ہوئے تھے اور اس نے دعویٰ کیا کہ وہ آدم خور کو بھی دیکھ چکا ہے۔ تاہم کسی نے آدم خور کے بارے کوئی عجیب بات نہ محسوس کی تھی۔ اس گارڈ کا نام کِتو تھا۔ اس نے بتایا کہ ریلوے کی پٹڑی کے شمال میں ایک میل سے کچھ زیادہ فاصلے پر ایک تالاب تھا اور وہاں دیگر جانوروں کے علاوہ شیروں کے پگ بھی دکھائی دیتے تھے۔
شام کو ہم تالاب پر گئے جہاں نہ صرف شیر کے پرانے پگ دکھائی دیے بلکہ ایک بڑے تیندوے کے تازہ پگ بھی موجود تھے۔ تیندوے کے پگوں سے مجھے بہت غصہ آیا کیونکہ مجھے یقین تھا کہ شیر کے لیے باندھے جانے والے گارے تیندوے کے ہتھے چڑھنے ہیں۔ جہاں بھی شیر کے ساتھ تیندوے موجود ہوں، یہ ہوتا ہے۔
رات میں نے انتظار گاہ میں گزاری اور اگلی صبح گاؤں سے ایک اور بھینس کا بچھڑا خریدا۔ اسے ہم نے تالاب سے نصف میل دور ایک کھلی جگہ باندھ دیا اور کِتو کو کہا کہ وہ اس کی دیکھ بھال کرنے کے لیے کچھ افراد ساتھ لے جایا کرے اور اگر بچھڑا مارا جائے تو سٹیشن ماسٹر کو اطلاع پہنچا دے۔ سٹیشن ماسٹر نے حامی بھر لی تھی کہ وہ فوراً مجھے پیغام بھجوا دے گا۔
ایک بار پھر میں نے دوپہر کی ٹرین پکڑی جو کچھ تاخیر کے ساتھ سوا تین بجے پہنچی اور اس کے انجن پر سوار ہو کر میں چیلما پہنچا۔ انجن ڈرائیور انڈین تھا اور اس نے وہ جگہ دکھائی جہاں ٹرالی والا واقعہ ہوا تھا۔ اس نے بتایا کہ یہ دونوں سٹیشنوں کے لگ بھگ وسط میں ہے۔
چیلما پر اتر کر لگ بھگ وہی کاروائی کی۔
یہاں کے سٹیشن ماسٹر نے آ کر خوش آمدید کہا اور بتایا کہ اسے میری آمد کی اطلاع مل گئی تھی۔ اس لیے اُس نے دو مقامی فارسٹ گارڈ پہلے سے بلوا لیے تھے۔
جب ہم سب نے گفتگو شروع کی تو بتایا گیا کہ بسواپرم سے گزرنے والی مال گاڑی کے گارڈ نے اطلاع دی تھی کہ دیگوامتہ میں ایک عورت ماری گئی ہے۔ یہ مقام مزید سولہ میل آگے جنگل کے مشرقی سرے پر واقع ہے۔ میں اُس وقت سو رہا تھا جب اطلاع پہنچی۔ تاہم بسواپرم پر چونکہ یہ مال گاڑی نہیں رکتی، سو کسی کو اطلاع نہ مل سکی۔
اس نئی اطلاع سے مجھے شدید مایوسی ہوئی۔ نہ صرف آدم خور کی تلاش کا علاقہ بڑھ گیا تھا بلکہ شیر کی گشت کے بارے کیے گئے حساب کتاب کی اہمیت بھی ختم ہو گئی۔ مجھے تو یہ یقین تھا کہ آدم خور گزلاپلی کے آس پاس ہی کہیں ہوگا۔ مگر اس نے دیگوامتہ میں شکار کیا جو بیس میل دور تھا۔ پھر مجھے خیال آیا کہ ستائیس میل کسی شیر کے لیے معمولی فاصلہ ہوتا ہے۔
میں نے سٹیشن ماسٹر سے کہا کہ وہ اگر دیگوامتہ سے تار کے ذریعے اس اطلاع کی تصدیق کر سکے؟ اس نے پندرہ منٹ میں جواب دیا کہ دیگوامتہ کے مقامی سپاہی نے تصدیق کی کہ ایک چنچو خاتون مہوے کے پھول چننے جنگل کے کنارے پر گئی تو واپس نہ لوٹی۔ اس کے گاؤں کے لوگوں کو اس کی پھولوں سے بھری ٹوکری تو مل گئی مگر خاتون کا کوئی سراغ نہ ملا۔
دیگوامتہ کے سٹیشن ماسٹر نے یہ بھی مشورہ دیا کہ اسے اطلاع ملی ہے کہ میں دیگر جگہوں پر چارے باندھ رہا ہوں تو یہاں بھی اور اس کے علاوہ چیلما اور دیگوامتہ کے درمیان ایک اور چھوٹے سٹیشن بگاڈا میں بھی چارہ بندھوا دوں۔
ایسا لگنے لگا کہ اب عجیب آدم خور کے لیے مجھے شاید پوری ریلوے لائن پر ہی چارے بندھوانے پڑیں گے۔
اب اگلے روز میں نے کس طرح بچھڑا خرید کر چیلما بندھوایا، کی تفصیل فضول ہے۔ شاید آپ سوچیں میں اگلی ٹرین سے فوراً دیگوامتہ کیوں نہ چلا گیا۔ یاد رہے کہ عورت کو ہلاک ہوئے دو روز گزر چکے تھے اور شیر لاش کو صاف کر چکا ہوگا۔ اب اگر میں اس کی ہڈیاں تلاش کر بھی لیتا تو آدم خور ہرگز نہ واپس آتا۔ سو میں نے سوچا کہ چیلما سے روانہ ہونے سے قبل چارہ بندھواتا جاؤں۔
اسی دوپہر کو میں نے بگاڈا کے لیے ٹرین پکڑی اور وہاں شام کو ایک اور چارہ باندھا اور صبح کے قریب مال گاڑی پکڑ کر دیگوامتہ پہنچ گیا۔ وہاں میں نے دو مزید چارے باندھے جن میں سے ایک اُس جگہ جہاں خاتون پر حملہ ہوا تھا اور دوسرا جنگل لائن پر جہاں ایک بڑی ندی اور مویشیوں کی پگڈنڈیاں آ کر ملتی تھیں۔
دیگوامتہ میں ایک فارسٹر رہتا تھا جو بہت ذہین اور مددگار تھا۔ یہ بندہ دیسی عیسائی تھا۔ اس بندے نے بتایا کہ جہاں میں نے چارہ بندھوایا ہے، اس درخت پر بنی مچانوں سے گزشتہ برسوں کے دوران بہت شیر شکار کیے گئے ہیں۔
اب مجھے یہاں آئے پانچ روز گزر چکے تھے اور میں نے سات جانور باندھ دیے تھے اور امید سے زیادہ رقم خرچ کر چکا تھا اور اب اس شیر کی داستانیں سن سن کر میرے کان پک گئے تھے جسے ابھی تک دیکھ نہ پایا تھا۔ اس دوران جنگل عجیب طور سے خاموش تھے۔
اس روز شام کو میں نے جنگل میں طویل گشت کی اور متذکرہ بالا جوزف میرے ساتھ تھا۔ میری طرح اسے بھی گوشت خوری کی عادت تھی اور چھڑا ہونے کی وجہ سے اس کے گھر رہائش رکھنے سے اسے کوئی مسئلہ نہ ہوتا۔ اس لیے میں نے کچھ روز اس کے گھر گزارنے اور رات برآمدے میں سونے کا فیصلہ کر لیا۔
سٹیشن ماسٹر نے سٹیشن کا ویٹنگ روم میرے لیے وقف کر دیا تھا مگر رات کو گزرنے والی ٹرینیں جگا دیتی تھیں۔ دوسرا جوزف کا ملازم جو اس کی خدمت میں رہتا تھا، میرے لیے کھانا بنا دیتا تو میرا کافی وقت بچ جاتا۔
دیگوامتہ کو چننے کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ اسی جگہ تین روز قبل شیر نے شکار کیا تھا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے متوفیہ کی باقیات کو تلاش کرنے کی سنجیدگی سے کوشش کیوں نہیں کی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کا کوئی فائدہ نہ ہوتا۔ یہ تو میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ ہلاکت اور اطلاع ملنے کے درمیان اتنا وقت گزر چکا تھا کہ شیر لاش کو مکمل طور پر کھا چکا ہوگا۔ اگر ہم تلاش کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتے تو محض چند ہڈیاں ہی ہاتھ لگتیں۔ دوسرا یہ بھی کہ جنگل بہت خشک تھا اور جب گارے کو باندھتے ہوئے میں نے چکر لگایا تو شیر کے گزرنے کے کوئی نشان نہ دکھائی دیے۔ ہم نے دو سو گز جتنا علاقہ چھانا مگر کوئی نشان نہ ملا اور نہ ہی کپڑوں کی کوئی دھجی دکھائی دی۔ آخر میں یہ بات بھی اہم ہے کہ اگر میں متوفیہ کی باقیات کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا تو شیر خبردار ہو کر فرار ہو جاتا۔
یہ جنگل بہت خوبصورت تھا اور پرندوں اور ہرنوں کے شکاری کے لیے جنت نظیر۔ ہمیں چیتلوں کے بہت سارے غول دکھائی دیے جو جگہ جگہ چر رہے تھے۔ لمبی گھاس بہت خشک تھی اور ان کے تنے بیجوں کی وجہ سے جھکے ہوئے تھے۔ اس لیے ہمیں درختوں کے تنوں کے درمیان دور تک کا منظر بخوبی دکھائی دے رہا تھا۔ ایک جگہ بہت بڑے سینگوں والا سانبھر بھی دکھائی دیا جو ہماری آمد پر بھاگ گیا۔ تاہم اس کی موجودگی سے ہمیں بخوبی علم ہو گیا کہ اس جنگل میں شکاری شاید کبھی نہیں آئے۔ تاہم اتنے زیادہ جنگلی جانوروں کی موجودگی سے اس بات کا امکان کافی کم تھا کہ شیر گارا کرے گا۔ تاہم اتنے جانورں کی موجودگی میں کوئی شیر بھلا آدم خور کیسے بنتا؟ میں نے علی بیگ کی ٹکٹ خرید کر اسے واپس بھیج دیا کہ اب اس کی ضرورت نہیں تھی۔ میں بھی جوزف کے برآمدے میں جلد ہی سو گیا کہ وہاں ٹرینوں کا شور بھی نہیں تھا۔ دس گھنٹے کی نیند کے بعد جب صبح کو بیدار ہوا تو حوصلے بہت بلند تھے۔ اس کے ملازم نے بہت عمدہ کام کیا تھا۔
نہ صرف ڈھیر ساری چائے بلکہ پراٹھے اور چاول بھی تیار تھے۔ یہ پراٹھے چاولوں کے آٹے سے بنے تھے اور چاول بھی خاص قسم کے تھے۔ یہ چیزیں مدراس کی خاص پہچان تھیں، سو جوزف اسی شہر سے ہوگا۔ کھانا بہت لذیذ تھا۔
پھر میں نے صحن میں بنے غسل خانے میں ٹھنڈے پانی سے غسل کیا۔ اس کی تین دیواریں تھیں جو پانچ پانچ فٹ چوڑی اور بانس سے بنی تھیں۔ تاہم اس کی چھت نہیں تھی۔
جوزف بیدار اور میرا منتظر تھا۔ ہم دونوں کل کے باندھے گئے بچھڑوں کو دیکھنے نکلے اور ہمارے ساتھ دونوں فارسٹ گارڈ بھی تھے۔ فارسٹ گارڈ کے ذمے بچھڑوں کی دیکھ بھال تھی۔ دونوں ہی سلامت ملے۔

انتظار کے سوا اور کیا کیا جا سکتا تھا۔
یہ علاقہ بہت وسیع تھا، سو یہاں جنگل گشت کے دوران شیر سے ملاقات کا امکان نہ ہونے کے برابر تھا۔ ویسے بھی شیر دیگوامتہ سے گزلاپلی کے درمیان کہیں بھی ہو سکتا تھا۔ سو اس 27 میل کے علاقے میں گشت ویسے بھی وقت کا ضیاع ہوتا۔ یہاں تک مجھے کوئی شیر نہیں دکھائی دیا تھا اور جتنی کوشش کر چکا تھا، اس کا پھل جلد یا بدیر مل جاتا۔
پھر اچانک واقعات رونما ہونے لگے۔ صبح نو بجے تار آیا کہ بسواپرم کے سٹیشن ماسٹر کے مطابق ایک بچھڑا مارا گیا تھا۔ مجھے زیادہ خوشی نہیں ہوئی کہ اس علاقے میں بڑا تیندوا بھی موجود تھا اور میں نے تالاب کے کنارے سے ہٹوا کر بچھڑا اسی امید پر بندھوایا تھا کہ شاید تیندوا اسے نہ دیکھ سکے۔
میں نے دیگوامتہ کے سٹیشن ماسٹر سے کہا کہ وہ بسواپرم کے سٹیشن ماسٹر سے رابطہ کرے اور کہے کہ وہ کِتو سے پوچھے کہ آیا یہ گارا شیر نے کیا تھا یا تیندوے نے۔ تھوڑی دیر میں جواب ملا کہ کِتو وہیں موجود تھا اور بتا رہا تھا کہ گارا تیندوے نے کیا تھا۔ اس نے مجھے فوراً آکر تیندوے سے جان چھڑانے کی درخواست کی تھی ورنہ سبھی بچھڑوں کا یہی حشر ہوتا۔
اس کی بات تو درست تھی۔ مگر میرے پاس اس علاقے میں شکار کا اجازت نامہ نہیں تھا۔ مجھے مدراس کے محکمہ جنگلات کے ناظم نے واضح طور پر صرف آدم خور کے شکار کا اجازت نامہ دیا تھا۔ تاہم میں نے سوچا کہ میں تیندوے کی ہلاکت کے بعد اسے بتا دوں گا کہ تیندوے کی ہلاکت کیوں ضروری تھی اور ضرورت پڑی تو اس کے شکار کی قیمت بھی بھجوا دوں گا۔ سو میں نے جانے کا فیصلہ کر لیا۔
بسواپرم کو اس روز کوئی مسافر ٹرین نہیں جا رہی تھی مگر خوش قسمتی سے ایک مال گاڑی مل گئی جو گیارہ بجے جا رہی تھی۔
سٹیشن ماسٹر نے میری خاطر ٹرین رکوائی اور گارڈ کے ساتھ میں بسواپرم روانہ ہوا۔ جوزف نے میرے ساتھ چلنے پر اصرار کیا۔
کِتو مجھے لے کر جائے وقوعہ پر پہنچا۔ وہاں تیندوے کی سبھی علامات موجود تھیں اور تیندوے کے دانتوں کے نشان بچھڑے کی گردن پر تھے اور اس کا پیٹ اور آنتیں وغیرہ ہڑپ کی جا چکی تھیں۔ تیندوے نے چونکہ کافی پیٹ بھر لیا تھا سو مجھے لگا کہ شاید وہ اس روز نہ آئے۔ کتو نے مجھے اپنی چارپائی پیش کی سو مچان کا کام آسان ہو گیا۔ واپس لوٹنے تک دو گھنٹے لگے اور چار بجے سب تیار تھا۔
چونکہ اس وقت بیٹھنا بیکار ہوتا، سو ہم واپس سٹیشن کو لوٹے جو بمشکل ایک میل دور تھا۔ وہاں بسکٹ، چپاتی، کیلے اور چائے سے پیٹ بھرا۔ جوزف میرے ساتھ بیٹھنا چاہ رہا تھا سو ہم دونوں ساڑھے پانچ بجے مچان پر پہنچ گئے۔
میرا خیال تھا کہ تیندوا دیر سے آئے گا۔ تاہم میں غلط تھا۔ ہمیں بیٹھے ہوئے بمشکل بیس منٹ ہوئے ہوں گے اور میں آرام سے بیٹھا تھا کہ نیچے سے مدھم سی آواز آئی۔ میں نے نیچے دیکھا تو تیندوا بیٹھا بچھڑے کی لاش کو دیکھ رہا تھا۔ بہت خوبصورت جانور تھا۔ میں نے اس کی جان بخشی کے بارے سوچا۔ تاہم اس کی موجودگی سے دیگر بچھڑے بھی مارے جاتے اور آدم خور کا شکار ملتوی ہو جاتا۔
اسے میں نے بائیں کندھے کے پیچھے گولی مار دی۔
ہماری جلد واپسی پر کِتو اور سٹیشن ماسٹر دونوں حیران ہوئے۔ تاہم تیندوے کی ہلاکت کا سن کر سٹیشن ماسٹر نے تیندوے کی کھال مانگ لی۔ چار قلیوں اور پیٹرومیکس کی مدد سے ہم تیندوے کو اٹھانے پہنچے۔ ہماری موجودگی میں تیندوے کی کھال اتاری گئی۔ میں نے اسے بتایا کہ وہ کیسے کاپر سلفیٹ کی مدد سے کھال کو عارضی طور پر محفوظ کر کے بنگلور ماہر کے پاس بھجوا سکتا ہے۔
اگلی صبح ایک اور بچھڑا لا کر میں نے تالاب کے پاس وہیں باندھ دیا جہاں شیر کے پگ دکھائی دیے تھے۔
میرا ارادہ تھا کہ تیندوے کی ہلاکت کے بعد دوپہر کی ٹرین سے میں جوزف کے ساتھ دیگوامتہ چلا جاؤں گا مگر جب ہم بسواپرم کے سٹیشن پر پہنچے تو سٹیشن ماسٹر نے بتایا کہ اسے چیلما سے تار آیا ہے کہ ایک بچھڑے کو شیر لے گیا ہے۔
یہ اطلاع دس بجے سے قبل آ گئی تھی۔ چیلما کے لیے اگلی ٹرین چار گھنٹے بعد آنی تھی۔ سو میں نے پانچ میل کا سفر پیدل طے کرنے کا سوچا اور جوزف بھی تیار ہو گیا۔ ساڑھے گیار کے بعد ہم پہنچ گئے۔
فارسٹ گارڈ اور سٹیشن ماسٹر ہمارے منتظر ملے۔وہ بہت پرجوش ہو رہے تھے اور گارڈ نے بتایا کہ وہ بچھڑے کا معائنہ کرنے اور اسے پانی پلانے گئے تھے کہ انہیں بچھڑے کی ادھ کھائی لاش کے ساتھ زمین ایک بڑے شیر کے پگ بھی دکھائی دیے۔
وہاں وہ لوگ محض اتنی دیر رکے کہ شاخیں کاٹ کر لاش کو ڈھک دیں تاکہ گدھ نہ پا سکیں، پھر یہ لوگ فوراً پیغام پہنچانے سٹیشن پہنچے۔
ساتوں بچھڑے باندھتے ہوئے میں نے خیال رکھا تھا کہ وہ ایسے درخت کے پاس ہوں جہاں مچان باندھنا آسان ہو۔ تیندوے کی ہلاکت اسی وجہ سے آسانی سے ہوئی۔
فارسٹ گارڈ نے چارپائی مہیا کی جبکہ جوزف اور میں سٹیشن ماسٹر کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھانے دیہاتی سرائے میں پہنچے۔ کھانے کے دوران جوزف نے کہا کہ وہ ساتھ بیٹھے گا اور انتہائی مشکل کے ساتھ میں نے اسے منع کیا۔ تیندوے کے شکار میں اس کی موجودگی کا کوئی مسئلہ نہیں تھا مگر جب شیر کا شکار کرنا ہو اور وہ بھی آدم خور شیر کا، تو اس کی موجودگی خطرناک بھی ہو سکتی تھی۔ ہلکی سی آہٹ یا کوئی حرکت بھی شیر کو خبردار کر سکتی تھی۔ پہلے کئی بار میرے ساتھ ایسا ہو چکا تھا کہ رت جگے کے دوران میرے ساتھیوں نے بے اختیار کوئی حرکت کی تھی کہ جس سے شکار خراب ہو گیا تھا۔ جب بھی رات بھر جاگنا ہو تو ساکت ہو کر بیٹھنا اور بھی مشکل امر ہو جاتا ہے۔اتنی محنت کے بعد اب ایسا خطرہ مول لینا فضول کام تھا۔
بچھڑے کی لاش تک کا فاصلہ ایک گھنٹے کا تھا اور شاید تین میل فاصلہ رہا ہو اور وہاں مختصر راستے سے گئے۔
ساڑھے تین سے بھی پہلے چارپائی مچان تیار تھی مگر اس کو چھپانے کے لیے پتے دور سے لانے پڑے تاکہ اس مقام پر کوئی نشان نہ ہو۔ یہ پتے عین اسی قسم کے درخت سے لائے گئے تھے جس پر مچان بنی تھی (مچان املی کے درخت پر تھی)۔ سو اس کام پر ایک اور گھنٹہ صرف ہوا۔
جتنی دیر جوزف کی مدد سے گارڈ مچان تیار کرتے رہے، میں نے لاش کا معائنہ کرنے کے علاوہ شیر کے پگ بھی دیکھے۔ زمین کافی خشک تھی سو اس پر بننے والے پگ واضح نہیں تھے۔ یہ تو واضح تھا کہ یہ بڑے اور نر شیر کے نشان ہیں، مگر ان کا موازنہ بالا کے جھونپڑے کے پاس والے پگوں سے کرنا دشوار تھا کہ وہ نشانات نم ریت پر بنے تھےجس کی وجہ سے ان کا حجم بڑھ گیا تھا۔
ساڑھے چار کے قریب میں مچان پر آرام سے بیٹھ گیا تھا۔
چند منٹ میں میں نے تمام چیزیں ترتیب سے رکھ لیں۔ گاؤں کی سرائے سے میں نے تین بڑی روٹیاں لے کر انہیں کیلے کے پتوں میں لپیٹ کر رکھ لی تھیں تاکہ رات کو کام آئیں۔ پھر اس کے ساتھ میں نے پانی اور چائے کی بوتلیں رکھیں اور پھر فالتو ٹارچ اور کارتوس۔ موسم کافی گرم تھا سو میں نے کمبل یا کوٹ کا تکلف نہیں کیا۔ ایک بڑی ٹوپی پہن لی۔ پھر میں نے ٹارچ کو رائفل پر لگایا اور تیار ہو گیا۔
جوزف اور گارڈز کو میں نے بتایا کہ میں خود واپس آ جاؤں گا۔ وہ لوگ مجھے چھوڑ کر چل دیے۔
تاریکی چھانے والی تھی کہ مجھے اپنے نیچے سے مدھم سے چاپ سنائی دی۔ املی کے پتے چھوٹے اور نرم ہوتے ہیں اور جب خشک ہو کر گرتے ہیں تو قالین سا بن جاتا ہے اور اس پر جب کوئی چلے تو مدھم سی چاپ سنائی دیتی ہے جو سرسراہٹ سے مشابہہ ہوتی ہے۔ ساگوان کے پتے اس لحاظ سے بہترین ہوتے ہیں کہ وہ خوب آواز پیدا کرتے ہیں۔ ان پتوں پر اگر چوہا بھی چلے تو آواز پیدا ہوتی ہے۔ تاہم مجھے علم تھا کہ ابھی سنائی دینے والی مدھم آواز شیر کی آمد کو ظاہر کرتی ہے۔ سو جب جھک کر میں نے نیچے دیکھا تو شیر میرے عین نیچے تھا۔ اس کے وزن سے املی کے پتوں اور گھاس سے سرسراہٹ آئی تھی۔
چند لمحے نظروں سے اوجھل رہ کر پھر شیر نمودار ہوا اور سیدھا گارے کو چل دیا۔
چونکہ شیر کا رخ میری مخالف سمت تھا، سو اس کا سر نہ دکھائی دیا مگر اس کا بائیاں پہلو، پچھلا حصہ اور دم دکھائی دی۔ تاریکی چھا رہی تھی۔ جنگل میں اس وقت رنگ واضح نہیں رہتے اور چیزیں حقیقت سے زیادہ بڑی دکھائی دیتی ہیں۔ جنگل میں رہنے والے افراد یہ بات بخوبی جانتے ہیں۔ میرے سامنے موجود شیر بہت بڑا دکھائی دے رہا تھا مگر اس کی رنگت کے بارے میں کچھ نہ جان سکا۔ دھاریاں بھی واضح نہیں تھیں۔
ٹارچ کے بغیر گولی چلانا ممکن نہیں تھا کیونکہ رائفل کے دیدبان نہیں دکھائی دے رہے تھے۔ سو میں نے بائیں انگوٹھے سے ٹارچ کا بٹن دبایا۔ روشنی سیدھی شیر کے بائیں پہلو سے آگے لاش پر پڑی۔ جلدی سے نشانہ لیتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ شیر کو علم نہیں ہوا کہ روشنی پیچھے سے آ رہی ہے بلکہ وہ ایسے سمجھ رہا تھا جیسے لاش سے روشنی آ رہی ہو۔ اس نے رک کر دیکھنا شروع کر دیا۔
میں نے بائیں کندھے کے پیچھے گولی چلائی۔ شیر وہیں گرا اور گولہ سا بن گیا۔ اب اس کا سفید پیٹ اور سینہ سامنے آئے۔ میں نے دوسری گولی چلائی۔ جتنی دیر شیر کا دم نکلتا، میں نے روشنی مرکوز رکھی۔
میں نے بیس منٹ مزید انتظار کیا اور بار بار روشنی ڈال کر تسلی کرتا رہا کہ یہ وہی آدم خور شیر ہے۔ پھر میں نیچے اتر کر معائنہ کرنے جا پہنچا۔
یہ جوان اور بڑا شیر تھا مگر ویسا نہیں جیسا بالا نے بتایا تھا۔ اس کا رنگ گہرا اور دھاریاں دور دور تھیں۔ کیا میں نے غلط شیر مارا ہے؟ کیا بالا نے عام شیر دیکھا ہو گا؟ یہ سوالات میرے ذہن میں آئے مگر اس کا جواب مزید انسانی ہلاکتوں کی عدم موجودگی سے ملتا۔
ٹارچ کی مدد سے میں نو بجے سے پہلے آسانی سے سٹیشن پہنچ گیا۔ جوزف انتظار گاہ میں سو رہا تھا جبکہ دونوں گارڈ پلیٹ فارم پر چٹائیوں پر سو رہے تھے۔ میں نے انہیں جگا کر خبر سنائی۔ وہ لوگ میری اتنی جلدی واپسی پر حیران اور شیر کی ہلاکت پر بہت خوش ہوئے۔ جوزف نے مجھ سے بہت گرمجوشی سے مصافحہ کر کے مبارکباد دی۔
میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ مجھے یقین نہیں کہ آدم خور ہی ہلاک ہوا ہے۔ اس نے پوچھا تو میں نے وضاحت کر دی۔ تاہم وہ اور گارڈ نے یقین نہ کیا۔
رات کی ٹرینوں کے لیے سٹیشن ماسٹر بھی آیا اور وہ بھی یہ خبر پا کر بہت خوش ہوا۔
دونوں گارڈ گاؤں سے بندے لانے کو چلے گئے اور گھنٹے بھر بعد دو مضبوط بانسوں، رسیوں، دو لالٹین اور دس افراد کو لے کر آ گئے۔
ہم روانہ ہو کر ایک بجے شیر کو لے کر واپس سٹیشن پر پہنچ گئے۔
میں نے پلیٹ فارم کے ایک سرے پر شیر کی لاش رکھ دی جہاں سٹیشن ختم ہوتا تھا۔ دونوں لالٹین اور اپنی اضافی ٹارچ کی روشنی میں میں نے خود ہی کھال اتارنا شروع کی کیونکہ دونوں گارڈ اس کام میں اناڑی تھا۔ ابھی میں نے آدھی کھال اتاری تھی کہ گنتاکل سے آنے والی میل ٹرین آن کر رکی۔
ہر بندہ ٹرین سے اتر کر میرے گرد دائرے کی شکل میں کھڑا ہو گیا۔ ٹرین معمول سے پندرہ منٹ تاخیر سے روانہ ہوئی۔
ہندوستان میں اتنی تاخیر سے کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔
ویسے بھی آدھی رات کو ریلوے پلیٹ فارم ایک بڑے شیر کی کھال اتارنا کوئی عام منظر نہیں تھا۔
کاپر سلفیٹ اور نمک کا محلول کھال کو کچھ روز کے لیے محفوظ رکھتا۔
اگلے روز میں نے آرام کیا اور اس دوران سٹیشن ماسٹر نے چیلما کے دونوں اطراف کے سٹیشنوں کو خبر بھجوا دی اور ہر کوئی خوش ہو گیا۔ میں اتنا خوش نہیں تھا، سو میں نے فیصلہ کیا کہ کچھ دن یہیں رکوں گا۔ بچھڑے بندے ہوئے تھے اور میں ایک ماہ کے لیے تیار ہو کر آیا ہوا تھا۔ سو اگر اب واپس جاتا اور لوٹنا پڑتا تو نئے سرے سے بچھڑے خریدنے اور سب کام کرنے پڑتے۔ کوئی عجیب سی قوت میرے ذہن میں خیال ڈال رہی تھی کہ آدم خور مرا نہیں بلکہ زندہ ہے۔
چار دن گزر گئے۔ پھر گزلاپلی سے اطلاع آئی کہ آدم خور نے بالا کی بیوی کو ہلاک کر دیا ہے۔ میری لاعلمی میں بالا اپنے خاندان کو واپس لے گیا تھا۔
آدم خور متوقع انداز سے گشت پر تھا۔
اس دوران جوزف واپس دیگوامتہ جا چکا تھا۔ میں نے تار بھجوایا کہ بالا کو روک کر رکھا جائے اور پھر چونکہ اگلے چار گھنٹے میں کوئی ٹرین نہیں جانی تھی، سو میں نے ٹرالی عاریتاً حاصل کی اور دو ٹرالی مین سمیت روانہ ہو گیا۔
ڈیڑھ گھنٹے سے کچھ زیادہ وقت میں ہم چیلما پہنچ گئے۔ وہاں بالا، سٹیشن ماسٹر، علی بیگ اور کرشناپا منتظر ملے۔ بالا بیٹھا رو رہا تھا۔
اس نے بتایا کہ جب آدم خور کے مارے جانے کی خبر سنی اور چونکہ باقی سبھی گارے سلامت تھے، اس نے سوچا کہ آدم خور مارا گیا ہے۔ دو روز قبل وہ لوگ واپس گئے تھے۔ اگلی صبح اس کی بیوی نے بچہ اس کے پہلو میں لٹایا اور خود رفع حاجت کے لیے باہر گئی۔ اگلے لمحے اس نے مدھم سی چیخ سنی۔ خطرے کا احساس ہوا تو وہ کلہاڑی لے کر باہر کو جھپٹا مگر کچھ دکھائی نہ دیا۔
چونکہ ابھی روشنی نہیں ہوئی تھی، سو بالا کو کوئی نشان بھی دکھائی نہ دیا۔ بس بیوی غائب ہو گئی تھی۔ اس نے آواز دی مگر جواب نہ ملا۔
تلاش کرتے ہوئے وہ دیوانہ وار جھونپڑی کی دوسری جانب لپکا مگر کچھ بھی دکھائی نہ دیا۔
شبنم کی وجہ سے گھاس جھکی ہوئی تھی اور جب روشنی بڑھی تو اس نے کسی جانور کے گزرنے کے نشان دیکھے۔
اسے خون کا کوئی نشان نہ ملا مگر اسے علم تھا کہ یہ نشان شیر کے تھے جو اس کی بیوی اٹھا کر لے گیا تھا۔
اب بالا نے ایک نڈر مگر احمقانہ حرکت کی۔ اکیلا ہونے کے باوجود اس نے کلہاڑی کے ساتھ شیر کا پیچھا کیا۔
دن کی روشنی تیز ہو رہی تھی اور دو فرلانگ بعد شیر نےا س کی بیوی کو نیچے رکھا۔ یہاں سے خون کے نشانات واضح تھے سو پیچھا کرنا آسان ہو گیا۔ اس نے شیر کو تب دیکھا جب وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر اس کی بیوی کو کھانا شروع کرنے والا تھا۔
آدم خور نے اسے دیکھ لیا اور کان پیچھے کر کے غرانے لگا۔ شاید وہ حملہ بھی کر دیتا۔ مگر اپنی بیوی کی حالت دیکھ کر بالا اپنے حواس کھو بیٹھا۔ جیسے کسی انجانی قوت نے اس پر قبضہ کر لیا ہو، نفرت اور غصے سے اس نے کلہاڑی لہراتے ہوئے شیر پر حملہ کر دیا۔
میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ آدم خوروں میں بزدلی کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے شکار پر اس کی لاعلمی میں حملہ کرتے ہیں اور کبھی سامنے نہیں آتے۔ اس بار بھی یہی ہوا۔ آدم خور جھجھکا اور بالا اس کے سر پر پہنچ گیا۔ اس پر آدم خور مڑ کر بھاگ گیا۔
خوش قسمتی سے بالا نے عقل سے کام لیا اور شیر کا پیچھا نہ کیا۔ ورنہ کچھ دیر بعد شیر لوٹ کر اسے ختم کر دیتا۔ اس نے اپنی بیوی کی لاش اٹھائی اور جھونپڑے کو دوڑ پڑا۔
اس کی سادہ سی کہانی نے مجھے بہت متاثر کیا کہ ہندوستان میں آج بھی ایسے بہادر لوگ موجود ہیں۔
بالا نے رونے دھونے پر وقت نہیں ضائع کیا۔ بیوی کی لاش رکھ کر اس نے اپنی ماں اور بچے کو ساتھ لیا اور سٹیشن کو روانہ ہو گئے۔ ساتھ ہی وہ دروازہ اچھی طرح بند کرنا نہ بھولا۔ جتنی دیر آدم خور کے حواس بحال ہوتے، یہ لوگ کافی فاصلہ طے کر چکے تھے۔
چنچو بیچارہ خاموش سسکیاں لے رہا تھا۔ آنسو اس کے لیے بہتر تھے کہ قدرت اس طرح غم بھلانے میں مدد کرتی ہے۔ میرے الفاظ سے اسے کوئی فائدہ نہ ہوتا۔ اتنی کم عمر میں اسے اتنے بڑے حادثے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
تاہم آنسو زیادہ دیر نہ جاری رہ سکے۔ مقامی لوگ قسمت پر یقین رکھتے ہیں۔ سو دس منٹ بعد وہ تیار ہو گیا۔
میں تیزی سے سوچ رہا تھا اور جلد ہی ایک منصوبہ تیار کر لیا۔ تاہم اس کے لیے بالا سے بہت بڑی قربانی درکار تھی، سو میں جھجھکا۔
شاید ہمارے درمیان ایک ان کہا تعلق تھا، اس کی پیدائش جنگل میں ہوئی اور میں نے خود سے جنگل سے شناسائی اختیار کی۔ اس نے بھیگی پلکوں سے میری جانب دیکھا اور سر ہلا دیا۔ علی بیگ نے مداخلت کی کوشش کی۔
‘وہ میری بیوی تھی دورائی۔ تاہم آپ اس کے جسم کو شیر کے لیے چارہ بنا سکتے ہیں تاکہ اس کا اور میرے باپ کا بدلہ اتر سکے۔ پہلے ہی بہت وقت ضائع ہو چکا ہے۔‘ میں پہلے سے ہی تیار تھا اور اس چھوٹے سے انسان کا مجھ پر بھروسہ بہت زیادہ تھا۔ میں نے بعجلت سٹیشن ماسٹر کے لائے ہوئے کھانے اور چاول سے پیٹ بھرا اور چائے اور پانی سے اپنی بوتلیں بھر لیں اور بالا اور دونوں فارسٹ گارڈ کے ساتھ روانہ ہو گیا۔ ہمارے ساتھ چارپائی بھی تھی۔
بیچاری لڑکی عجیب حالت میں تھی۔ شیر نے اس کے جسم سے سارے کپڑے نوچ لیے تھے۔ تاہم بالا نے اس کے جسم پر ساڑھی ڈال دی تھی۔ اس کے چہرے پر عجیب سا سکون تھا۔ اس کی کمر کے زخموں سے خون بہہ کر کچے فرش میں جذب ہو چکا تھا۔ گلے اور چھاتیوں کے زخم سے بھی خون بہہ بہہ کر خشک ہو چکا تھا۔ ہم چاروں اسے عجیب کیفیت سے دیکھتے رہے۔ چند گھنٹے قبل وہ ایک زندہ اور خوش باش ماں تھی۔ پھر میں بالا کو اشارہ کیا کہ وہ ہمیں جائے وقوعہ پر لے جائے اور دروازہ بند کر دیا۔
سورج کی گرمی سے شبنم خشک ہو چکی تھی اور جھکی ہوئی گھاس اب پھر سیدھی ہو چکی تھی۔ بالا ہمیں سیدھا اس جگہ لے گیا جہاں شیر نے اس کی بیوی کو پہلے نیچے رکھا تھا۔ اس کے آگے خون کے نشانات ہمیں سیدھا ایک خشک درخت تک لے گئے جہاں آدم خور نے لاش کو کھانے کی نیت سے نیچے رکھا تھا اور بالا نے اسے بھگا دیا تھا۔
ہم چاروں پوری طرح محتاط ہو کر چلتے رہے تھے مگر کسی نے ایک لفظ بھی نہ ادا کیا۔ ہماری تعداد کی وجہ سے خطرہ نہیں تھا۔ درخت کے نیچے رک کر ہم نے جائزہ لیا۔ یہاں زمین خشک اور گھاس سے بھری ہوئی تھی۔ پگ نہیں دکھائی دیے اور نہ ہی اس کی کوئی ضرورت تھی۔
مجھے یاد تھا کہ جب حیدر آباد میں نواب نے آدم خور کو زخمی کیا تھا، اس کے بعد وہ شکار پر دوبارہ نہیں لوٹتا تھا۔ کیا وہ اب واپس آئے گا؟ کیا اس پر گھات لگانے کا کوئی فائدہ ہوگا؟ میں یہی سوچتا رہا۔
واحد امید یہ تھی کہ چونکہ شیر نے ابھی ایک لقمہ بھی نہیں کھایا تھا، سو واپس لوٹ سکتا تھا۔ تاہم بالا نے اسے ڈرا دیا تھا۔ خیر، کامیابی کی بہت کم امید تھی۔ مگر کوئی اور حل بھی ممکن نہیں تھا۔
میں نے چارپائی سے مچان بنانے کی نیت سے درختوں کو دیکھا۔
شیر نے اپنا پیٹ بھرنے کے لیے کافی گھنا علاقہ چنا تھا جہاں جھاڑیوں اور بیلوں کی کثرت تھی۔ اس خشک درخت کے علاوہ قریب ترین درخت تیس گز دور تھا۔ جب میں بیٹھ کر شیر کی اونچائی کے برابر بلندی سے دیکھا تو اُس درخت کی محض چوٹی ہی جھاڑیوں سے اوپر تھی۔ ظاہر ہے کہ شیر تاریکی چھانے کے بعد ہی آتا اور ٹارچ کی روشنی جھاڑیوں میں الجھ کر رہ جاتی۔
 

قیصرانی

لائبریرین
میں تیس گز دور اس درخت تک جا پہنچا۔ اس کی اونچی شاخیں دو انگل موٹی تھیں جن پر مچان باندھنا ممکن نہ تھا۔
اگلا مناسب درخت مزید دس گز دور تھا۔ اس پر چڑھا تو شیر والے خشک درخت کا اوپری نصف حصہ ہی دکھائی دیتا تھا۔ جھاڑیوں میں اس کا نچلا حصہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
یہ مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ میں کہاں بیٹھوں؟میں اپنے ساتھیوں کی طرف واپس گیا اور خشک درخت کو دیکھا۔ یہ بہت بڑا درخت تھا اور اس کا تنا بارہ سے پندرہ فٹ کی گولائی میں تھا۔ بظاہر کسی وجہ کے بغیر یہ خشک ہو گیا تھا۔ شاید کسی کیڑے یا بیماری سے خشک ہوا ہو۔ شاید اس کی جڑیں دیمک کھا گئی ہو گی۔
جو بھی وجہ ہو، کئی سال سے یہ خشک تھا اور شاخیں اوپر پھیلی ہوئی تھیں۔
نیچے سے دیمک پہلے ہی لگ چکی تھی اور کچھ عرصے بعد یہ درخت کھوکھلا ہو کر گر جاتا اور کچھ عرصے بعد اس کا کچھ نہ بچتا۔
میں اس کے تنے کے قریب ہوا۔ میرے سر سے ذرا اوپر تین شاخیں نکل رہی تھیں۔ اس کے نیچے دیمک والی مٹی دکھائی دے رہی تھی۔ پنجوں کے بل اونچے ہو کر میں نے دیکھا کہ درخت اندر سے کھوکھلا تھا۔
باہر سے اور بالخصوص جہاں شیر نے لاش رکھی تھی، وہاں سے بالکل اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ درخت کھوکھلا ہوگا۔
میں نے اپنے ساتھیوں کو یہ بات بتائی اور علی بیگ سے کہا کہ وہ بالا سے کہے کہ وہ وہاں اتر کر دیکھے کہ آیا میں اس جگہ چھپ سکتا ہوں۔ تاہم اسے بھیجنےسے قبل ٹارچ کی روشنی ڈال کر میں نے دیکھ لیا کہ وہاں سانپ یا بچھو یا کوئی دیگر ضرر رساں کیڑا نہیں تھا۔
اندر سے درخت کے خالی ہونے کا یقین ہوا تو میں نے بالا کو نیچے اتارا۔ وہ مجھ سے ایک فٹ چھوٹا ہے، سو نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ تاہم اس نے بتایا کہ اسے کوئی مسئلہ نہیں ہوا مگر میرے لیے یہ تنگ پڑے گا۔ اندر سے کچھ وسعت دینا ہوگی۔
میں نے دیکھا کہ مخالف سمت سے دیمک نے کافی لکڑی کھا لی تھی۔ بالا نے اندر سے زور لگایا اور ہم نے باہر سے کھینچا اور کرشناپا کی کلہاڑی سے کچھ ضربیں لگانے سے ہم نے اس درخت کو کچھ کاٹا۔ دیمک سے لکڑی کافی بوسیدہ ہو رہی تھی۔ ہم نے سوراخ اور تنے کو مزید کاٹا۔ ہم نے درخت کی مخالف سمت کو گھٹنے کی اونچائی تک سارا کاٹ دیا۔ جوں جوں لکڑی کٹتی گئی، کام آسان تر ہوتا گیا۔
یہ سارا کام کافی مشکل تھا اور اس پر دو گھنٹے لگے۔ اس کے بعد اتنی جگہ بن گئی کہ میں اندر گھس سکتا اور رائفل کو حرکت دینا بھی مشکل نہ تھا۔
تاہم اس میں کئی مسائل تھے۔ پہلی بات تو یہ تھی کہ لاش دوسری سمت پڑی ہوتی۔ میں اس سمت مڑ نہیں سکتا تھا کہ تنا اس طرف سے بند تھا۔ دوسرا یہ بھی کہ اُس جانب سے ہم تنے کو کھود نہیں سکتے تھے کہ وہاں تنا کافی موٹا تھا۔ اس کو کھودنے پر بہت زیادہ وقت لگتا۔
دوسرا ہم جہاں لاش رکھتے، وہ اصل جگہ سے کچھ ہٹ کر ہوتی۔ ورنہ شیر آ کر یا تو لاش کو ہٹا دیتا یا پھر مجھ سے پانچ گز دور بیٹھ کر پیٹ بھرتا جبکہ میں اسے نہ دیکھ پاتا۔ ظاہر ہے کہ میں سوراخ سے نکل کر گولی تو چلا سکتا تھا مگر یہ بہت خطرناک ہوتا۔
مزید یہ بھی ہے کہ سوراخ سے نکلتے ہوئے آواز پیدا ہوتی اور شیر خبردار ہو کر یا تو بھاگ جاتا یا پھر مجھ پر حملہ کر دیتا۔ یہ سوچ کافی دہشت ناک تھی۔
دوسرا بڑا نقصان یہ تھا کہ مجھے ساری رات سیدھا کھڑا رہنا پڑتا۔ گھٹنوں سے نیچے سوراخ محض اتنا تھا کہ میری ٹانگیں سما جاتیں۔
تیسرا یہ بھی نقصان تھا کہ اگر محتاط شیروں کی مانند یہ بھی آس پاس کا جائزہ لیتا آتا تو مجھے سیدھا دیکھ لیتا۔
ظاہر ہے کہ ہم لوگ اس سوراخ کو پتوں اور بیلوں سے ڈھانپ تو دیتے، مگر کیا شیر کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو پاتے؟ ظاہر ہے کہ صبح اس درخت کا تنا بالکل خشک تھا اور رات کو اچانک اس پر بیل بوٹے نمودار ہو جاتے۔ اس کے علاوہ رات کو سردی سے بچنے کے لیے کوئی سانپ یا بچھو بھی اس سوراخ میں گھس سکتا تھا۔ اتنی مشکلات کا سوچ کر میں نے اس بارے سوچنا ہی چھوڑ دیا۔ اگرچہ میں یہاں چھپ کر شیر کا انتظار کرتا مگر میری کامیابی کا امکان دس میں سے محض ایک تھا۔
میں نے زمین پر اپنا کوٹ بچھایا اور اس پر تنے سے نکلنے والے تمام ریزوں اور ٹکڑوں کو جمع کیا اور پھر اسے کافی دور لے جا کر الٹ دیا۔
پھر ہم جھونپڑے کو لوٹے۔ بالا نے انتہائی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی بیوی کی لاش کو اٹھا لیا۔ آگے پیچھے چلتے ہم واپس پہنچ گئے۔ میں نے اسے اشارہ کیا کہ لاش کو تھوڑا سا بائیں جانب کر کے رکھے تاکہ شیر آتے ہوئے براہ راست سوراخ کو نہ دیکھے۔
چونکہ اس جگہ میرے، رائفل اور ٹارچ کے سوا کوئی جگہ نہیں تھی، سو میں نے وہیں کھڑے کھڑے چپاتیاں کھا کر چائے پی اور علی بیگ کو خالی بوتل دے دی۔
میں سوراخ میں گھسا۔ بالا اور کرشناپا نے میرے سامنے سوراخ پر کچھ لکڑیاں جمائیں اور پھر ان پر پتے اور بیلیں لپیٹنا شروع کر دیں۔
بالا نے اس کام کو کافی سنجیدگی سے لیا اور بار بار مختلف زاویوں سے جا کر دیکھتا کہ کہیں سے نظر تو نہیں آ رہا۔ اس نے میرے سینے کے سامنے ایک موٹی لکڑی تنے میں پھنسا دی تاکہ اس پر رائفل رکھ کر میں گولی چلا سکوں۔ میں نے آزما کر دیکھا کہ نیچے کھڑی رائفل کو میں بغیر کسی آواز کے اٹھا کر اس لکڑی پر رکھ سکتا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے اس لکڑی کے نیچے اور اوپر بھی بیلیں لٹکانا شروع کر دیں۔ پھر انہوں نے اوپر والی تین شاخوں سے بیلیں لٹکا کر اس سوراخ کو مکمل طور پر ڈھانپ دیا۔
رخصت سے قبل بالا نے اپنی بیوی کے ماتھے اور پیروں کو چوما۔ پھر اس نے ساتھ بیٹھ کر ڈنڈوت کی، شاید اپنی خطاؤں کی معافی مانگ رہا ہوگا۔
پھر جب وہ کھڑا ہوا تو اس کی آنکھیں خشک ہو چکی تھیں۔ چہرہ سپاٹ تھا۔ اس نے مجھے دیکھا۔ ایک بار پھر جنگل سے محبت کرنے والوں کی خیال خوانی نے اس کے الفاظ مجھ تک پہنچائے: ‘میں نے ہر ممکن کوشش کی، اپنی پیاری بیوی کی لاش کو بھی قربان کر دیا۔ اب آگے آپ کی ذمہ داری ہے۔‘ میں نے اسی طرح جواب دیا کہ میں اسے شرمندہ نہیں کروں گا۔
اگلے ہی لمحے تینوں افراد جھونپڑے کو چل دیے اور میں اکیلا رہ گیا۔
میں نے گھڑی کو دیکھا تو پونے پانچ بج رہے تھے۔ درختوں کے پتوں سے چھن کر آتی ہوئی روشنی سے متوفیہ کی لال اور کالی ساڑھی پر عجیب نمونے بن رہے تھے۔ اس کے بال زمین پر پھیلے ہوئے تھے اور منہ میری سمت۔ چہرے پر سکون کی علامات تھیں۔ اب اس کی لاش اکڑ چکی تھی اور ایک ہاتھ اس کے سینے پر اور دوسرا پہلو میں رکھا تھا۔ ہلکی ہوا چل رہی تھی جس سے کبھی ساڑھی کا پلو ذرا سا اٹھ جاتا یا بالوں کی لٹ ہلتی۔
ہوا سے ہلنے والے پتوں اور گھاس کے سوا سب کچھ ساکن تھا۔ گھڑی کی مدھم سی ٹک ٹک کے سو ا محض ایک اور آواز آ رہی تھی جو مدھم سی دھپ دھپ سے مشابہہ تھی۔ کافی دیر بعد مجھے احساس ہوا کہ یہ میرے دل کی دھڑکن تھی۔ اس کے علاوہ اور کوئی آواز نہ سنائی دی۔
میں نے آہستگی سے اپنے پیر پھیلائے اور تھوڑا سا پیچھے کو جھکا۔ ساری رات میرے پیروں کو تھکنا تھا، سو میں نے دونوں پر برابر وزن ڈالے رکھا۔
پونے گھنٹے بعد جنگل جیسے بیدار ہو گیا۔ مور اور جنگلی مرغیاں شور مچانے لگیں۔ ایک جنگلی مرغ میرے سامنے چگنے لگا۔ اتنے میں ہوا کے جھونکے سے ساڑھی کا پلو اٹھا تو مرغ اڑ گیا۔
دن کی روشنی تیزی سے کم ہو رہی تھی۔ دن کے پرندے سو چکے تھے اور مدھم ہوتی روشنی کے ساتھ اچانک کوئی شئے آہستگی کے ساتھ مجھ سے ایک گز دور نیچے اتری۔ یہ الو تھا۔ پھر دو چمگادڑیں اڑتے ہوئے پاس سے گزریں جو پتنگوں کو کھانے کے چکر میں تھیں۔
یہ مناظر بہت مرتبہ دیکھ چکا تھا کہ کیسے دن کی سرگرمیاں بتدریج ختم ہوتی ہیں اور رات کے جانور اور پرندے ان کی جگہ لیتے ہیں۔میں نے ہمیشہ ان مناظر کو دلچسپی سے دیکھا ہے۔
پھر تاریکی چھا گئی۔ کچھ ہی دیر بعد ستارے نکلنا شروع ہوئے اور ان کی مدھم روشنی پھیل گئی۔ صبح کی روشنی تک مجھے اسی سے کام چلانا تھا کہ چاند نہیں تھا۔
مجھے تلاش کرنے میں مچھروں کو کچھ وقت لگامگر پھر چند ہی منٹ میں ان کے بادل جمع ہو گئے۔ میں نے ہاتھ جیبوں میں چھپا لیے اور چہرے پر جمع ہونے والے مچھروں کو ہلکی سی پھونک سے اڑاتا رہا۔
آٹھ بج گئے۔ میں نے پیر اٹھا کر انگلیوں کو حرکت دینا جاری رکھا تاکہ خون کی گردش بحال رہے۔ اس شیر کے بارے مشہور تھا کہ وہ کبھی شکار پر واپس نہیں لوٹتا۔ خیر ساری رات اسی طرح گزرنی تھی۔
پھر بالا کی آنسوؤں میں بھیگی شکل اور متوفیہ کی شکل یاد آئی جو میرے سامنے مگر نظروں سے اوجھل تھی اور مجھے یاد آ گیا کہ میں یہاں کیوں ہوں۔
میری سوچیں اسی طرح منتشر تھیں کہ اچانک میں خبردار ہو گیا۔ مجھے نہ تو کچھ دکھائی دیا تھا اور نہ ہی کچھ سنائی دیا۔ مگر مجھے علم ہو گیا کہ آدم خور قریب پہنچ گیا ہے۔ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور کپکپی سی طاری ہو گئی۔ میری چھٹی حس نے خبردار کر دیا تھا۔ میں نے آہٹ سننے کی بھرپور کوشش کی۔ مگر ہر طرف خاموشی چھائی رہی۔ جنگل کے کسی جانور نے بھی مجھے خبردار نہ کیا۔
اتنی خاموشی کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے۔ تاہم شیر محتاط تھا۔ شاید بالا کی وجہ سے شیر اتنا محتاط ہو گیا ہو گا یا پھر اس نے ماحول میں کوئی تبدیلی دیکھی ہوگی۔
کیا شیر نے مجھے دیکھ یا محسوس کر لیا ہے؟یہ بہت اہم سوال تھا۔
بہت طویل محسوس ہونے والے وقفے مدھم سی آواز آئی، جیسے کسی چیز کو گھسیٹا جا رہا ہو۔اس کا ایک ہی مطلب تھا کہ شیر نہ صرف آ گیا ہے بلکہ وہ متوفیہ کی لاش کو گھیسٹ رہا ہے۔ جلد ہی وہ چلا جاتا۔
میں احتیاط کا دامن چھوڑ کر رائفل اٹھا کر گولی چلانے کا سوچنے ہی لگا تھا کہ اچانک آواز تھم گئی۔ کیا شیر لاش سمیت بھاگ گیا؟ پھر شیر کے پیٹ بھرنے کی آوازیں آنے لگیں۔ تاہم یہ آوازیں میرےپیچھے مخالف سمت سے آ رہی تھی۔
نامعلوم وجوہات کی بنا پر آدم خور لاش کو گھسیٹ کر اسی جگہ لے گیا تھا جہاں اس نے صبح لاش رکھی تھی۔ یہ بات واضح تھی کہ شیر کو کوئی شک نہیں ہوا، ورنہ وہ لاش چھوڑ کر بھاگ چکا ہوتا۔ اگر اسے میری موجودگی کا علم ہوتا تو وہ حملہ کر دیتا۔
تاہم شیر کی حرکات سے یہی اندازہ ہوا کہ اسے کسی قسم کا شک نہیں ہوا اور وہ محض لاش عین اسی جگہ رکھنا چاہتا تھا جہاں وہ چھوڑ گیا تھا۔ شاید اس نے سوچا ہو کہ اس کی عدم موجودگی میں گیدڑ یا لگڑبگڑ لاش کو گھسیٹ کر دوسری جگہ رکھ گئے ہوں۔
میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ مگر فوراً ہی یاد آیا کہ مجھے اس محفوظ پناہ گاہ سے نکلنا ہوگا تاکہ گولی چلا سکوں۔ اطمینان غائب ہو گیا۔
آپ کو یاد ہوگا کہ بالا اور کرشناپا نے مجھے خوب اچھی طرح چھپانے کے لیے بہت ساری لکڑیاں لگا دی تھیں۔ اب باہر نکلنے کی خاطر مجھے ان لکڑیوں کو ہٹانا ہوگا۔
تاہم ایسا کرتے ہوئے آواز ضرور پیدا ہوتی۔اگر شیر سن لیتا تو یا تو فرار ہو جاتا یا پھر وہ درخت کے اس جانب آ کر دیکھتا اور میں ابھی اندر ہی پھنسا ہوا ہوتا۔
اس وقت ایک ہی حل تھا کہ شیر پیٹ بھرنا شروع کر دے۔
سو ہر مرتبہ جب شیر کوئی بوٹی نوچتا یا ہڈی چباتا، میں ایک لکڑی یا شاخ ہٹاکر سوراخ کے اندر ڈال دیتا۔ اس طرح شیر کے کھانے کے دوران میں اپنے آپ کو آزاد کرتا رہا۔
جب میں پوری طرح آزاد ہو گیا تو دائیاں پیر اٹھا کر ایک منٹ کو ہلایا جلایا تاکہ دورانِ خون بحال ہو جائے۔ پھر اسے احتیاط سے باہر رکھا۔ شیر ابھی تک پیٹ بھر رہا تھا۔ پھر میں نے یہی کام بائیں پیر کے ساتھ دہرایا اور باہر نکل آیا۔
چند لمحے تو میرا توازن بگڑا رہا۔ اگر شیر اس دوران حملہ کرتا تو میں مارا جاتا۔ تاہم شیر کھانے میں مصروف رہا۔
ایک ایک انچ کر کے میں درخت کی دوسری جانب گیا۔ پھر وہ لمحہ آیا کہ اگر میں مزید چلتا تو شیر مجھے دیکھ لیتا۔ سوچنے کی بات تھی کہ شیر اگر میرے رخ پر ہوتا تو مجھے فوراً دیکھ لیتا۔ تاہم یہ خطرہ تو مول لینا تھا۔سو رائفل اٹھا کر میں نے اس کا کندہ شانے سے لگایا اور دوسرے ہاتھ سے رائفل کو سنبھال کر ٹارچ کا بٹن ٹٹولا۔ پھر میں نے گردن نکال کر درخت کے باہر دیکھا۔
اندھیرے سے میری آنکھیں واقف ہو چکی تھیں، سو مجھے شیر لاش کے بائیں جانب مخالف سمت رخ کیے دکھائی دیا۔ رائفل کے دیدبان اندھیرے میں دیکھنا ممکن نہیں تھے، سو ٹارچ جلانی تھی۔ جونہی میں نے ٹارچ کے بٹن پر انگوٹھا رکھا، عین اسی لمحے شیر کو جیسے کسی خطرے کا احساس ہوا ہو۔ اس نے میری جانب مڑ کر دیکھا اور روشنی سیدھا اس کے جسم اور سر پر پڑی اور اس کی چمکتی ہوئی آنکھیں اور منہ سے خون آلود رال بہتی دکھائی دی۔
پہلی گولی اس کی گردن میں لگی اور شیر اچھل کر گرا۔ اتنی دیر میں میں نے دوسری اور پھر تیسری گولی چلا دی۔ پھر علم نہیں کیا ہوا، شیر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
شیر پہلی گولی لگتے ہی تکلیف اور درد سے دھاڑنے لگا تھا۔ ہر گولی لگتے ہی دھاڑ کی شدت بڑھ جاتی۔ اب بھی وہ جھاڑیوں میں چھپا دھاڑ رہا تھا مگر نظروں سے اوجھل تھا۔
میں درخت میں جا کر پھر چھپ گیا۔ میں نے رائفل میں گولیاں بھرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ونچسٹر میں اگر ادھ خالی میگزین میں گولیاں بھری جائیں تو گولی پھنسنے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس لیے میں نے ایک ہی گولی سے کام لینے کا فیصلہ کر لیا۔ پھنسی ہوئی گولی سے آدم خور کا سامنا کرنا انتہائی مہلک ہوتا۔ درندوں کے شکار پر بیٹھتے ہوئے میں ہمیشہ چار گولیاں بھرتا ہوں، ایک نالی میں اور تین میگزین میں۔ گولی پھنسنے سے بچانے کا یہ بھی ایک طریقہ ہے۔
اب میں یہ سوچنے لگا کہ آیا درخت کے اندر چھپ کر میں نے عقلمندی کی ہے یا بیوقوفی۔ اگر میں باہر ہوتا تو شیر کو حملہ کرتے دیکھ سکتا تھا مگر موجودہ مقام سے شیر تب دکھائی دیتا جب عین سر پر پہنچ جاتا۔
تاہم اب کیا ہو سکتا تھا۔ اپنی جگہ ساکت کھڑا رہا۔ پسینے سے شرابور اور بمشکل رائفل کو ہاتھوں میں سنبھالے ہوئے۔ میرا حال خراب ہو رہا تھا اور سر میں بھی درد شروع ہو گیا۔
شیر ابھی تک دھاڑ رہا تھا اور جھاڑیاں اکھاڑ رہا تھا مگر بتدریج اس کی آواز دور ہوتی ہوئی غائب ہو گئی۔ شیر مرا نہیں تھا، مگر دور چلا گیا۔ میں محفوظ ہو گیا۔
بدقسمتی سے پریشانی میں مجھے اندازہ نہ ہو سکا کہ شیر کس سمت گیا ہے۔ اب ایسی کیفیت میں باہر نکل کر بالا کے جھونپڑے کو جانا خودکشی کے مترادف تھا۔ بے شک ٹارچ کی روشنی میں راستہ دیکھنا ممکن تھا مگر اس طرح آدم خور کو دور سے میری آمد کی اطلاع ہو جاتی۔ سو میں نے رات یہیں گزارنے کا فیصلہ کیا۔ صبح کی روشنی ہوئی تو میں بہت مایوس اور تھکا ہوا تھا۔ پھر خیال آیا کہ میں زندہ تو ہوں۔ اس بات سے میں خوش ہو گیا۔
جونہی روشنی پھیلی، میں درخت سے باہر نکلا۔ اگر تیرہ گھنٹے پیروں پر کھڑے رہنے کی کوشش کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس وقت مجھے کیا محسوس ہوا ہوگا۔
پندرہ منٹ میں نے بیٹھ کر آرام کیا اور اس دوران روشنی تیز ہوتی گئی۔ پھر میں نے اٹھ کر دیکھنا شروع کیا۔ جتنی دیر میں نے درخت سے نکلنے پر لگائی، اس پر بمشکل دس یا پندرہ منٹ گزرے ہوں گے مگر شیر نے نصف سے زیادہ لاش ہڑپ کر لی تھی۔ اس کا سر اور بازو دھڑ سے الگ تھے۔ ایک ٹانگ اور ایک ران بھی الگ پڑی تھی اور پیر کا ایک حصہ بھی۔ باقی ساری لاش کھائی جا چکی تھی۔ دھڑ میں ریڑھ کی ہڈی اور چند پسلیاں باقی تھیں۔
گولی لگنے کے بعد آدم خور نے جس جگہ اپنے غصے کا اظہار کیا، وہاں جیسے کسی نے زمین کھود ڈالی ہو۔ پھر دو گز دور وہ جھاڑیوں میں گھس گیا تھا۔ اس جگہ جھاڑیوں کے تنے کترے پڑے تھے اور پتوں پر خون کے نشانات تھے۔ درخت میں چھپا ہوا جب میں شیر کی دھاڑیں سن رہا تھا تو وہ یہیں تھا۔ اس جگہ سے خون کے نشانات جنگل کو جا رہے تھے۔ چند گز میں نے پیچھا کیا تو پتہ چلا کہ یہ شمال کو جا رہے تھے۔ اب جھونپڑے کو جانا محفوظ تھا۔
میں جھونپڑے کو جا پہنچا۔ بالا اور دونوں گارڈوں نے بھی گولیوں اور شیر کی آوازین سنی تھیں اور جاگ رہے تھے۔ اب روشنی ہوئی تو وہ لوگ جھونپڑے سے ایک فرلانگ کے فاصلے پر مجھے ملے۔ کرشناپا اور بالا تو موقعے پر پہنچ جاتے، مگر علی بیگ نے انہیں روکا کہ شاید زخمی شیر ہوا ہو اور پتہ نہیں کہاں ہو۔
میں نے انہیں رات کی کہانی سنائی۔
6 بج کر 25 منٹ ہوئے تھے۔ شیر پر میں نے ساڑھے آٹھ بجے گولی چلائی تھی، یعنی لگ بھگ دس گھنٹے قبل۔ میرے خیال میں تو شیر اب تک مر چکا ہوگا۔ یا پھر اتنا خون بہہ چکا ہوگا کہ وہ برے حال میں ہوگا۔ سو میں نے پیچھا کرنے کا سوچا۔
علی بیگ خالی ہاتھ تھا، سو میں نے اسے کہا کہ وہ جھونپڑے میں جا کر انتظار کرے۔ تاہم اس نے جواب دیا کہ وہ بہت خوفزدہ ہے، سو ہمارے ساتھ نسبتاً محفوظ رہے گا۔ سو ہم درخت کو لوٹے۔
میں نے بالا کو بتایا کہ درخت سے نکلنے کے لیے مجبوراً مجھے انتظار کرنا پڑا کہ شیر لاش سے پیٹ بھرنا شروع کر دے۔ بالا نے میری وضاحت کو قبول کر لیا۔ مگر جب موقعے پر پہنچے تو لاش کی حالت دیکھ کر بالا کے اوسان خطا ہو گئے۔ اس نے با آوازِ بلند رونا اور بین کرنا شروع کر دیا۔
پھر اس نے کہا کہ جب تک وہ لاش کو جلا نہیں دیتا، یہاں سے نہیں ہلے گا۔
اسے روکنے سے بہت مشکل ہوئی۔ تاہم پھر علی بیگ نے اسے بتایا کہ چونکہ ابھی اس ہلاکت کی اطلاع پولیس کو نہیں ملی، اور جب پولیس کو اطلاع ملے گی تو وہ تفتیش کریں گے۔ اگر لاش کو جلا دیا گیا تو سارے ثبوت مٹ جائیں گے اور پولیس الٹا بالا پر شک کرے گی کہ کہیں اس نے بیوی کو خود ہی تو نہیں مار دیا۔ سو ہم نے درخت سے کچھ شاخیں کاٹیں اور لاش کو ڈھانپ دیا تاکہ گدھوں سے بچی رہے۔
ہمارا خیال تھا کہ تھوڑے ہی فاصلے پر ہی شیر مل جائے گا اور پھر ہم بروقت پولیس کے پاس اطلاع لے کر پہنچ جائیں گے۔
تاہم یہاں ہم غلط نکلے۔
خون کے نشانات جھاڑیوں سے ہو کر گزرے۔ صاف دکھائی دے رہا تھا کہ شیر کو دو جگہ گولیاں لگی ہیں جن میں سے ایک کافی اونچی اور شاید گردن پر لگی ہو۔ دوسری گولی سے کے سوراخ سے ایک جھلی کا ٹکڑا گرا اور خون بھی۔ یہ معدے کے زخم کی علامت تھی۔
دو فرلانگ کے بعد شیر پہلی مرتبہ آرام کرنے ایک خشک درخت کے نیچے رکا۔ یہاں خون آلود گوشت کے لوتھڑے پڑے تھے جو معدے میں لگنے والی گولی کے سبب شیر نے قے کر کے نکالے ہوں گے۔
یہاں سے وہ مزید نصف میل آگے جا کر پھر ایک جگہ رکا۔ یہاں بھی خون کے دو بڑے دھبے ظاہر کر رہے تھے کہ دو جگہ گولیاں لگی ہیں۔ معدے والا زخم زیادہ گہرا لگ رہا تھا کہ اس سے زیادہ خون بہا۔
پھر بھی شیر نے پیش قدمی جاری رکھی۔ شروع میں خون کی مقدار بہت زیادہ تھی مگر بتدریج کم ہوتی گئی۔ شاید کھال نے باہر سے اور چربی نے اندر سے زخم کو ڈھکنا شروع کر دیا ہوگا۔ اب محض گردن والے زخم سے ہی خون بہہ رہا تھا۔
ہم دو پہاڑیوں کے درمیان ندی پر پہنچے جہاں شیر پانی میں لیٹا رہا تھا اور ابھی تک اس کا رنگ ہلکا گلابی تھا۔ دوسرے کنارے زمین پر خون کی ایک پتلی سی دھار دکھائی دی۔ سارے راستے میں یہاں پہلی بار شیر کے پگ واضح دکھائی دیے جو بہت بڑے نر شیر کے تھے۔
تاہم شیر نہیں رکا اور خون کم ہوتا گیا۔ جلد ہی ایسا مرحلہ آ گیا کہ خون کے دھبے اکا دکا دکھائی دیتے تھے۔
میری پہلی گولی شیر کی گردن میں لگی اور شیر نے قلابازی کھائی تھی۔ پھر میں نے دو گولیاں مزید چلائی تھیں جن میں سے ایک شیر کے معدے سے گزری۔ شیر نے قے کر کے انسانی گوشت نکالا تھا جو اس بات کا ثبوت تھا۔ شروع میں بہت زیادہ خون تھا جو بتدریج کم ہوتا گیا۔ راستے میں دو تین مرتبہ وہ آرام کرنے کو رکا بھی۔ ان تمام عوامل اور میرے سابقہ تجربے کی روشنی میں واضح تھا کہ شیر زیادہ دور نہ جا پاتا اور جلد ہی زندہ یا مردہ دکھائی دے جاتا۔
ہم تو اس تعاقب کو مختصر اور آسان سمجھے ہوئے تھے۔ تاہم آدم خور تو بڑھتا ہی جا رہا تھا۔
خون کے دھبے اور نشان اب کم سے کم تر ہوتے جا رہے تھے اور تعاقب مشکل سے مشکل تر۔ ہم جنگل میں بہت میل آگے نکل آئے جہاں جنگلی جانوروں کی گزرگاہیں بھی کبھی کبھی دکھائی دیتی تھیں۔ علاقہ پہاڑی ہو گیا تھا اور جگہ جگہ آڑے ترچھے نالے بنے ہوئے تھے جن میں کہیں کہیں پانی بھی بہہ رہا تھا۔ جنگل کے بڑے درختوں کی جگہ جھاڑ جھنکار اگا ہوا تھا اور سبھی خاردار اقسام تھیں۔
ایک بجے سے ذرا قبل خون یکسر ختم ہو گیا اور ہم سب نے دائرے کی شکل میں پھیل کر مزید نشانات تلاش کرنے شروع کیے۔ بدقسمتی سے سراغ ختم ہو گئے تھے اور سورج آگ برسا رہا تھا۔
ہم سبھی واپس گزلاپلی لوٹے اور میں بہت تھکا ہوا تھا۔ سٹیشن کے برآمدے میں کرسی پر نیم دراز ہو کر جوتے اتارے بغیر ہی سو گیا۔
سٹیشن ماسٹر نے اس رات پولیس کو رپورٹ بھیجی اور اگلے روز پولیس سہ پہر کی ٹرین سے نندیال سے آئی۔ ہم سب جائے وقوعہ کو روانہ ہوئے۔
متوفیہ کی لاش اب بری طرح تعفن دے رہی تھی۔ لگ بھگ ایک فرلانگ قبل ہمیں بو آ گئی۔ مردار خور مکھیوں کے غول اس پر جمع تھے۔ خیر لاش گِدھوں سے بچی ہوئی تھی۔ میں نے سب انسپکٹر کو درخت میں اپنی کمین گاہ دکھائی اور رات کی کہانی بتائی۔
پولیس کی رپورٹ تیرہ صفحات کی بنی جن میں چھ میرے بیان سے متعلق تھے۔
بالا نے باقیات کو جلانے کی اجازت مانگی۔ پولیس والے کا خیال تھا کہ لاش کو نندیال ڈاکٹری معائنے کو لے جانا چاہیے۔ میرے بولنے کا کوئی فائدہ نہ تھا کہ پولیس انسپکٹر میرے خلاف ہو چکا تھا کیونکہ اس کے خیال میں لاش کو آدم خور کے لیے چارہ بنانا غلط کام تھا۔ اس لیے میں جو کچھ کہتا، انسپکٹر نے اس کے عین مخالف کرنا تھا۔ اس لیے میں بالکل چپ رہا۔ تاہم دونوں فارسٹ گارڈ کی گواہی کام آئی اور لاش جلانے کی اجازت مل گئی۔ دونوں گارڈ نے لکڑیاں جمع کر کے باقیات ان پر رکھیں اور پھر مزید لکڑیاں رکھ کر اسے آگ لگا دی۔ ہم اس اداس واقعے کے گواہ تھے۔ میں بالا کی دل شکنی کا سوچ کر رک گیا۔ متعفن باقیات کے جلنے سے ناقابلِ بیان بدبو آ رہی تھی۔ پولیس انسپکٹر تو دور جا کر ایک درخت کے سہارے کھڑا ہو گیا۔
اگلے روز بالا سے نظریں ملانا میرے لیے ممکن نہ تھا۔ میں نے اسے مایوس کیا تھا۔ تاہم اس نے اندازہ لگا لیا۔
انتظار گاہ میں بالا میرے پاس آیا اور سٹیشن ماسٹر سے بولا کہ وہ اس کی ترجمانی کرے۔ اس نے کہا: ‘دورائی کو بتائیں کہ شیر کو مارنے میں ناکامی پر افسوس نہ کریں۔ مجھے علم ہے کہ انہوں نے اپنی سی پوری کوشش کی ہے۔ کوئی بھی انسان، بشمول میرے، اس سے بہتر کوشش نہ کر سکتا‘۔ اس کی باتوں سے میرا بوجھ کچھ ہلکا ہوا۔ پھر میں نے سٹیشن ماسٹر کے انتہائی تعاون پر اس کا شکریہ ادا کیا۔
میں نے گزلاپلی میں ایک اور ہفتہ گزارا مگر آدم خور کی کوئی اطلاع نہ آئی۔ ایک تیندوے نے میرے ایک بچھڑے کو ہلاک کیا تھا۔ میں نے خود جا کر تسلی کی کہ یہ تیندوے کا کام ہے۔ میں نے اس تیندوے کو کچھ نقصان نہ پہنچایا، جس پر جوزف کو بہت افسوس ہوا۔
ہفتہ گزرنے کے بعد میں نے ان لوگوں کو خدا حافظ کہا کہ انہوں نے میری بے انتہا مدد کی تھی۔ میں نے کچھ بچھڑے مختلف فارسٹ گارڈوں کو دے دیے اور بالا کو سب سے زیادہ دیا۔
بنگلور واپسی کے بعد تین ماہ گزر گئے۔ حیدر آباد ریاست میں دریائے کرشنا کے قریب شیر نے ایک آدمی کو ہلاک کیا۔
مزید تین ماہ بعد بوگارہ سٹیشن کے شمال میں کئی میل دور ایک چنچو مارا گیا۔ انسانی ہلاکتوں کی اطلاعات کہیں کہیں سے کبھی کبھار سنائی دے جاتی۔
کیا زخمی شیر دوبارہ صحت یاب ہو گیا ہوگا؟ کیا اُن علاقوں میں دو مختلف آدم خور سرگرم تھے؟ میری واپسی کے بعد ہونے والی وارداتوں کے ذمہ دار دو الگ الگ آدم خور تھے یا ایک ہی تھا؟ کیا بعد والی وارداتوں کا ذمہ دار کوئی نیا آدم خور تھا؟ میرے پاس جواب نہیں تھا، مگر جواب پانے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
7۔ گڈیسل کا بڑا بھینسا
یہ کہانی کسی عام شکار کی نہیں اور نہ ہی کسی بھینسے کو زخمی کرنے کے بارے ہے۔ اگر آپ نے ایسا سوچا بھی ہو تو مایوسی ہوگی۔ میں نے اس جانور پر نہ تو کبھی گولی چلائی اور نہ ہی کبھی چلانے کا ارادہ ہے۔ میں اسے بہت پسند کرتا ہوں۔
یہ بھینسا بہت بہادر اور بوڑھا جانور تھا اور شاید اب بھی زندہ ہو اور اپنے غول کی سربراہی کر رہا ہو۔
گڈیسال ایک چھوٹا سا شلوگا دیہات ہے جو ‘بائزن رینج‘ کے سرے پر اور شمالی کومبتور ضلع کے جنگلات میں واقع ہے۔ اسی نام کا ایک فارسٹ بنگلا کولیگال سے ڈیم بیم کو جانے والی سڑک کی چڑھائی کے بعد اس کے کنارے بنایا گیا ہے۔ یہ سڑک پانچ میل تک اس پہاڑ سے گزرتی ہے جو گڈیسل کو ڈیم بیم سے جدا کرتا ہے۔ ڈیم بیم اسی چڑھائی کے ایک کنارے پر ہے۔
یہ سڑک ڈھلوان سے نیچے اترتی ہے اور چوڑے موڑوں سے ہوتی ہوئی ڈیم بیم سے نیچے میدانوں کو جنوب کی طرف جاتی ہے اور آگے چل کر یہ ستیامنگلم کو جاتی ہے۔
گڈیسل کے مغرب میں بیلیگیریرنگن پہاڑی سلسلہ ہے اور اس کی ڈھلوانوں پر انتہائی خوبصورت مناظر سے بھرپور ہے۔ پہاڑیوں پر خوبصورت نالے بہتے ہیں اور جگہ جگہ درختوں کے جھنڈ اور جھاڑیاں اگی ہوئی ہیں۔ انہیں عرفِ عام میں ‘شولا‘ کہتے ہیں جو الگ تھلگ جنگلی قطعے ہوتے ہیں اور ان کے اردگرد کھلے گھاس کے میدان یا پہاڑی چٹانیں ہوتی ہیں۔
مشرق کی جانب ایک اور پہاڑی سلسلہ ہے جو نسبتاً چھوٹا ہے۔ اس سلسلے پر جنگلات بھرے ہوئے ہیں اور زیادہ تر ٹائیگر گراس ہے جو دس فٹ تک اونچی ہوتی ہے اور ہزاروں کی تعداد میں کھجور کے چھوٹے درخت بھی پائے جاتے ہیں جن کا پھل زرد رنگ کا اور بے ذائقہ ہوتا ہے مگر جنگلی پرندے اور جانور اسے بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ جغرافیہ، نباتات اور کھجوروں کی وجہ سے یہ علاقہ جنگلی بھینسوں، سانبھر اور ریچھوں کا مسکن ہے۔
ان دونوں پہاڑی سلسلوں کے درمیان شمالاً جنوباً ایک لمبی وادی گزرتی ہے اور اس کی ایک جانب کولیگل سے ڈیم بیم کی سڑک بل کھاتی ہوئی جنوب کو جاتی ہے۔ راستے میں گڈیسل کی وادی اور فارسٹ بنگلے سے گزرتی ہے۔
یہ فارسٹ بنگلا بہت بڑا ہے اور اس کے پیچھے چھوٹے ملازمین کے لیے بھی کوارٹر بنے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک بڑا صحن بھی ہے جہاں جنگلی گلابوں کی اچھی اقسام اگی ہوئی ہیں۔
بنگلے کے جنوب میں نشیبی زمین ہے۔ یہاں ایک چھوٹا تالاب اور کچھ دلدلی زمین ہے۔ یہاں اگنے والی گھاس بہت نرم اور جانوروں کی پسندیدہ ہے اور چیتل کا چھوٹا جھنڈ ہمیشہ یہاں ملتا ہے۔ پچھلی مرتبہ یہاں جھنڈ کا سربراہ ایک بڑے سینگوں والا خوبصورت نر تھا جس کی چمکدار سیاہ کھال پر بنی سفید چتیاں بہت خوبصورت دکھائی دے رہی تھیں۔
میری خواہش ہے کہ کسی شکاری نے اسے شکار نہ کیا ہو اور وہ ابھی بھی جنگل میں پھرتا ہو۔
سڑک کے شمالی جانب والا پہاڑی سلسلہ اور گہری وادی جو مغربی سلسلے کے دامن میں واقع ہے، میں بھینسوں کی بہت ساری چراگاہیں موجود ہیں۔ اس وادی سے ایک مناسب قسم کی مستقل ندی بھی گزرتی ہے اور اس میں شامل ہونے والے کئی چھوٹے نالے سڑک سے گزرتے ہیں۔ یوں گرم ترین موسم میں بھی پانی کی مسلسل فراہمی جاری رہتی ہے۔ اس وجہ سے یہاں جانور مستقل پائے جاتے ہیں۔
یہاں پائے جانے والے بھینسوں کے ریوڑ کی تعداد بیس سے چالیس یا اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے مگر ان کی اکثریت مختلف عمروں کے بچھڑے اور ماداؤں کی ہوتی ہے اور پانچ یا چھ بڑے نر بھی۔ عمر اور جسامت میں سب سے بڑا نر سربراہ ہوتا ہے اور جب تک دوسرا نر اس کو ہرا نہ دے، وہ سربراہ رہتا ہے۔ کبھی کبھار بڑا نر غول کو چھوڑ کر الگ رہنا شروع کر دیتا ہے۔
بھینسے مختلف بیماریوں بالخصوص رنڈرپسٹ سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں جو انہیں پالتو مویشیوں سے لگتی ہے۔
پالتو مویشی جنگل میں چرنے کو بھیجے جاتے ہیں جہاں ان کی بیماری جنگلی بھینسوں کو لگ جاتی ہے۔ جہاں منہ کھر کی بیماری پھیلے، وہاں جنگل میں جنگلی بھینسوں کی لاشیں عام دکھائی دیتی ہیں۔
میرے کہانی سے متعلق بھینسے کے ریوڑ میں 30 جانور تھے۔ بہت مرتبہ میں نے انہیں صبح سویرے شبنم سے چمکتی گھاس پر تو کبھی شام کو ساڑھے پانچ بجے سڑک پر 39ویں اور 41ویں سنگِ میل کے درمیان گھاس کے میدانوں میں چرتے دیکھا ہے۔ اس نر کا بائیاں سینگ اندر کی طرف مڑ کر آگے کو بڑھ گیا تھا جس کی وجہ سے اسے دور سے پہچانا جا سکتا تھا۔
شاید اس کے سینگ کی خراب شکل کی وجہ سے اس کی عمر اتنی طویل ہوئی۔ اس کا دائیاں سینگ بہت خوبصورت تھا۔ شاید انوکھے سر جمع کرنے کے شوقین ہی اس کے شکار پر نکلتے مگر ایسا کوئی شکاری یہاں نہ آیا۔ کسی بھی لڑائی میں ایسا سینگ بہت فائدہ مند ثابت ہوتا تھا جس کی تفصیل میں بتاتا ہوں۔ وہ اپنے مخالف کو سینگ چبھو بھی سکتا تھا اور چاہتا تو سر گھما کر زخمی بھی کر سکتا تھا۔
رات کی تاریکی میں میں نے بہت مرتبہ کار میں جنگل کی سیر کے دوران سیلڈ بیم والی سپاٹ لائٹ کی مدد سے مختلف جانور دیکھے ہیں اور دو تین مرتبہ بھینسے کی نیلی آنکھیں دکھائی دی تھیں۔ نزدیک جا کر دیکھا تو پتہ چلا کہ یہ وہی بڑا نر تھا۔
پہلی بار میں نے اسے تب توجہ سے دیکھا تھا جب میں شام کو بلیگیریرنگن پہاڑوں کے دامن میں سیر پر نکلا ہوا تھا۔ یہ چھوٹی سی سڑک اصل سڑک کے مغرب میں جنگل سے گزرتی ہے۔ یہ سڑک گڈیسل سے ہوتی ہوئی ندی عبور کر کے پہاڑ پر چڑھنا شروع ہوتی ہے اور آخرکار پہاڑ پر چڑھ کر دوسری جانب اتر جاتی ہے۔ پھر یہ سڑک ایک فارسٹ لاج کو جاتی ہے جو مسٹر رڈولف موریس کی ملکیت ہے۔ یہ بندہ جنوبی انڈیا میں کافی کے سب سے بڑے اور بااثر کاشتکاروں میں سے ایک ہے۔ یہ ماہر شکاری ہے اور ہر قسم کے بڑے شکار پر پوری معلومات رکھتا ہے۔ اسے علاقے کا اعزازی گیم وارڈن بھی بنایا گیا ہے۔ اس کی کافی اسٹیٹ جنوبی انڈیا میں بہترین اور اچھی منصوبہ بندی سے بنائی گئی ہے۔
تاہم اس سے بہت پہلے یہ سڑک ایک چھوٹے جھونپڑے سے ہو کر گزرتی ہے۔ یہ جھونپڑا محکمہ جنگلات نے شکاریوں اور اپنے افسران کے لیے بنایا ہے۔
یہاں کسی عقلمند انسان نے بیلوں سے بنی ہوئی سیڑھی رکھ دی ہے جو ہر ایسے شکاری کو درخت پر چڑھنے میں مدد دیتی ہے جو درخت پر چڑھنے کے فن سے ناواقف ہیں۔
خیر، متذکرہ بالا روز میں صبح کے وقت ایک چٹانی چھجے سے گزر رہا تھا جہاں سے پوری وادی صاف دکھائی دیتی ہے کہ مجھے عجیب سا شور اور پھنکاریں سنائی دیں۔ شور سے اندازہ ہوا کہ بھینسوں کی لڑائی ہو رہی ہے۔ ہر ممکن آڑ لیتے ہوئے میں اس جانب چل پڑا۔
جلد ہی وادی میں نیچے تین سو گز کے فاصلے پر دو بڑے بھینسے لڑتے ہوئے دکھائی دیے۔ ان کے سینگ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے اور دونوں ایک دوسرے پر زور لگا رہے تھے۔ پھیلی ہوئی ٹانگیں بتا رہی تھیں کہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف کتنا زور لگا رہے ہوں گے۔ وقتاً فوقتاً ایک بھینسا سینگ چھڑا کر دوسرے کو ٹکر مارتا اور پھر مخالف کے سنبھلنے سے قبل ان کے سینگ الجھ جاتے۔
پھر اچانک مجھے احساس ہوا کہ اس کا بگڑی شکل والا سینگ اسے کافی فائدہ دے رہا ہے اور اس کے مخالف کی گردن، شانے اور پہلو سے خون بہہ رہا تھا۔
لڑائی بیس منٹ تک زور و شور سے جاری رہی۔ اس دوران ان کے پھنکارنے کی آواز ہانپنے میں بدل گئی اور ان کے جسموں پر بہنے والا پسینہ خون کے ساتھ مل گیا۔ لڑائی کی شدت اور جارحانہ پن اب کم ہو رہا تھا۔ دونوں کے منہ اور ناک سے جھاگ بہہ رہی تھی۔
میں نے کبھی بھینسوں کی لڑائی نہیں دیکھی تھی سو اس کا انجام جاننے کا منتظر تھا۔ خوش قسمتی سے میں اکیلا تھا۔ ہوا بھی میری سمت چل رہی تھی۔ اس لیے دونوں بھینسے میری موجودگی سے بے خبر فطری انداز میں لڑ رہے تھے۔
بگڑے سینگ والے بھینسے کو فائدہ ہو رہا تھا اور اس کا مخالف پیچھے ہٹتا جا رہا تھا اور کئی بار گرا بھی۔ اس کے جسم کے بہنے والا خون اسے کمزور کر رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ دوسرے بھینسے کو بھی زخم لگے تھے مگر وہ زیادہ گہرے نہیں تھے۔ مزید دس منٹ بعد لڑائی کا فیصلہ ہو گیا۔ دوسرا بھینسا بھاگ کھڑا ہوا اور فاتح نے اسے کچھ دور تک کھدیڑا۔ دونوں بھینسے میری نظروں سے دور جنگل میں غائب ہو گئے۔
تجسس کی وجہ سے میں جائے واردات کے معائنے کو نکل کھڑا ہوا۔ بیس گز کے دائرے میں ان کے کھروں سے زمین ایسے اکھڑی ہوئی تھی جیسے کسی نے ہل چلایا ہو۔ جگہ جگہ خون اور جھاگ پڑی دکھائی دی۔
پھر یہ بھینسا مجھے بہت عرصے بعد دکھائی دیا۔ میں اُس بار شام کی سیر پر نکلا ہوا تھا۔ میں اس وقت ایک تالاب کے مشرقی سرے پر 41ویں سنگِ میل پر تھا۔ یہاں شیر نے گڈیسل کے شلوگا لوگوں کے دو مویشی مارے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں شام کے وقت انہوں نے اس شیر کو کئی بار فائر لائن عبور کرتے دیکھا تھا۔
میں اس تالاب کو شام ساڑھے چار بجے گیا تھا تاکہ اس کے کنارے چلتے ہوئے وہاں آنے والے جانوروں کو دیکھ سکوں۔ کنارے پر ہاتھی، بھینسوں، سانبھر، چیتل اور چند جنگلی سوروں کے پیروں کے نشان دکھائی دیے۔ تین مختلف جگہوں پر شیر کے پگ بھی دکھائی دیے۔ تازہ ترین بھی کم از کم تین دن پرانے تھے۔
بھینسے کے پگ بھی ظاہر کر رہے تھے کہ بہت بڑا جانور ہوگا۔ اس کا وزن اتنا تھا کہ اس کے پیر کیچڑ میں ایک ایک فٹ دھنس گئے تھے۔ آس پاس بھی اس کے پگ بہت جگہوں پر دکھائی دیے جس سے واضح ہوا کہ یہ بھینسا یہاں بکثرت آتا ہے۔ میرا خیال تھا کہ وہ نہر سے پانی پیتا ہوگا۔
میں نے اپنے ساتھ آئے ہوئے شلوگا سے اس بھینسے کے بارے پوچھا۔ اس نے بتایا کہ اس نے بھی اور دیگر دیہاتیوں نے بھی اسے بہت مرتبہ دیکھا ہے کہ اس کا ایک سینگ مڑ کر آگے کو نکلا ہوا ہے۔ اس سے فوراً مجھے وہ لڑائی کا منظر یاد آ گیا جس میں اسی بھینسے نے دوسرے کو ہرایا تھا۔
شلوگا نے بتایا کہ یہ بیل اکثر یہاں آتا ہے اور غول کا سربراہ ہے کہ اس جگہ بہت عمدہ چراگاہیں موجود ہیں۔ پھر اس نے بتایا کہ اگر میں اس کے ساتھ چہل قدمی پر نکلوں تو عین ممکن ہے کہ یہ بھینسا دکھائی دے جائے اور شیر کے بھی امکانات ہیں۔
اُس وقت مجھے شیر سے زیادہ دلچسپی تھی، سو میں نے حامی بھر لی۔ ویسے بھی دن کے وقت بھینسوں کی طرف چھپ چھپا کر جانا بہت مشکل تھا کہ ہوا کا رخ، مناسب آڑوں کی دستیابی اور زمین کا جغرافیہ بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
سو ہم چل پڑے اور مویشیوں اور جنگلی جانوروں کے راستوں سے ہوتے ہوئے ہم نے کئی بار فائر لائن عبور کی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک تنگ راستے پر چلتے ہوئے ہمارے سامنے جب گھاس چھدری ہوئی تو تیس گز دور ہمیں ایک بہت بڑے بھینسے کا سر اور شانے دکھائی دیے جس نے ہمیں بے فکری سے دیکھا۔ یہ وہی ترچھے سینگ والا بھینسا تھا۔ کسی قسم کے خوف کے بغیر وہ کھڑا ہمیں دیکھتا رہا۔
ہم مزید دس گز آگے بڑھے اور بھینسا مڑ کر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
اس کے بعد بھی میں نے اس بھینسے کو کئی اور جگہوں پر دیکھا اور ہمارا تعلق مضبوط ہوتا گیا۔
ایک بار ایک شکاری جنگلی بھینس کو مارنے کے لیے رات کے وقت سڑک سے گزر رہا تھا کہ ایک نر نے ٹکر مار کر اس کی جیپ کو کھڈ میں پھینک دیا اور بھاگ گیا۔ خوش قسمتی سے کھڈ زیادہ گہرا نہیں تھا اور شکاری کی ایک ٹانگ زخمی ہوئی اور رائفل ٹوٹ گئی۔ اس کے ساتھ اگلی نشست پر بیٹھے شلوگا نے بتایا کہ یہ وہی ترچھے سینگ والا نر تھا۔
کئی ماہ بعد میرے اگلے چکر پر اس واقعے کی اطلاع ملی جس سے مجھے بہت خوشی ہوئی کہ یہ بھینسا ابھی بوڑھا نہیں ہوا۔ شاید اس نے جیب کو کھڈ میں پھینک کر یہی سوچا ہوگا کہ اس کا دشمن اب ختم ہو گیا ہے۔ ورنہ اگر وہ پیچھے جاتا تو دونوں شکاری مارے جاتے۔
کچھ عرصے بعد نومبر 1953 میں میں ڈیم بیم گیا ہوا تھا اور میرا ارادہ گڈیسل رکنے کا نہیں تھا۔ مجھے راستے میں ایک لمبا ہیولہ سا سڑک کے کنارے چلتا دکھائی دیا۔ قریب ہوا تو دیکھا کہ وہ راچن نامی شلوگا ہے جو گڈیسل میں میرے قیام کے دوران ہمیشہ میرے ساتھ ہوتا ہے۔ کار روک کر میں نے اس سے سلام دعا کی اور پوچھا کہ کیا خبر ہے۔ اس نے جواب دیا کہ دو رات قبل گاؤں والوں کو جنگل میں شیر کے ساتھ کسی جانور کی لڑائی کی بہت خوفناک آوازیں سنائی دی تھیں۔ آوازوں کی شدت اور دورانیے سے ان لوگوں نے اندازہ لگایا کہ شیر کی لڑائی جنگلی سور سے نہیں ہو سکتی، ہاتھی ہی ہوگا کہ لڑائی چار گھنٹے سے زیادہ جاری رہی تھی۔ تاہم ہاتھی سے لڑائی ہوتی تو ہاتھی کی چنگھاڑیں آسانی سے پہچانی جا سکتی تھیں۔
رات گئے آوازیں ختم ہو گئیں مگر شیر کی دھاڑوں سے لگ رہا تھا کہ وہ بہت زخمی ہوا ہوگا۔
اگلے روز صبح سویرے شلوگا لوگ تجسس کے مارے دیکھنے گئے۔ ایک طرف شیر کی لاش پڑی تھی جس میں بھینسے نے کئی بار سینگ گھونپا تھا اور کچلا بھی تھا۔
شلوگا لوگوں نے فوراً شیر کی کھال اتاری اور لے کر گاؤں چلے گئے۔
دوپہر کے وقت مجھے یہ کہانی پتہ چلی اور مجھے تجسس ہوا کہ میں خود جائے وقوعہ کا معائنہ کروں۔ سو راچن کو ساتھ بٹھا کر میں گڈیسل کو چل پڑا جہاں شیر کی کھال سوکھنے کے لیے ٹانگ دی گئی تھی۔ بالوں والا حصہ نیچے تھا اور کھال پر خشک راکھ ملی ہوئی تھی جو اس علاقے میں عام استعمال ہوتی ہے۔ یہاں نمک نہیں ملتا۔
شیر کافی بڑا جانور تھا مگر اس کی کھال میں جگہ جگہ سوراخ تھے اور بھینسے نے اسے کافی کچلا بھی تھا۔ میں نے پانچ سوراخ گنے جن میں سے ایک بائیں پہلو میں تھا اور اسی سے سینگ دل تک پہنچ گیا ہوگا۔
اب مجھے جائے وقوعہ کو دیکھنے کا شوق اور بھی بڑھ گیا۔ کار چھوڑ کر میں شلوگا لوگوں کے ساتھ چل پڑا۔
نصف میل بعد ہم اس جگہ پہنچ گئے جہاں یہ لڑائی ہوئی تھی۔ جگہ جگہ خون کے نشانات تھے اور زمین اور جھاڑیوں پر پھیلے ہوئے تھے۔ شلوگا لوگوں نے وہ جگہ دکھائی جہاں شیر کی لاش پڑی تھی۔
خون کی مقدار سے واضح تھا کہ بھینسا بھی خاصا زخمی ہوا ہوگا۔ سو میں نے نشانات کا پیچھا کرنے کا سوچا کہ شاید وہ مر چکا ہو یا مرنے والا ہو۔ میرا خیال تھا کہ بھینسا زیادہ دور نہ جا پایا ہوگا۔
خون کے نشانات اتنے بکثرت تھے کہ اناڑی بھی آسانی سے پیچھا کر سکتا تھا۔ بھینسا سیدھا پہاڑی سے نیچے اترا تھا اور ندی کی طرف گیا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ ندی کے پاس ہی مردہ بھینسا دکھائی دے جائے گا۔
ہم آگے بڑھتے گئے۔ ڈیڑھ گھنٹے کے تیز پیش قدمی کے بعد خون کے نشانات ندی کو جا پہنچے جہاں بھینسا اتھلے پانی میں ایک درخت کے سہارے کھڑا تھا۔ پانی کے شور کی وجہ سے اسے ہماری آواز نہ آئی تھی۔ جب ہم اس کے سامنے پہنچ گئے تو اس نے ہمیں دیکھ لیا۔
یہ گڈیسل کا وہی بڑا اور ترچھے سینگ والا بھینسا تھا۔
جہاں ہم کھڑے تھے، اس جگہ ہمارے اور بھینسے کے درمیان محض ندی ہی تھی اور اس کے جسم پر لگے خطرناک زخم صاف دکھائی دے رہے تھے۔ اس کے چہرے، گردن، پہلو اور کولہوں پر کافی گہرے زخم تھے۔ پیٹ کے زخم سے لال رنگ کی کوئی چیز نیچے پانی میں لٹکی ہوئی تھی۔ شاید اس کی آنت ہو۔ جہاں وہ کھڑا تھا، وہاں سائے کچھ ایسے تھے کہ صاف دکھائی نہیں دیا۔
تاہم اس کی آنکھیں نڈر اور بے خوف مگر تکلیف سے پھیلی ہوئی تھیں۔ پھر وہ مڑا اور لڑکھڑاتا ہوا جنگل کو چل دیا۔
میں نے اسے تکلیف سے نجات دلانے کے لیے گولی مارنے کا سوچا مگر اتنے بہادر جانور کو اتنی خوفناک لڑائی جیتنے پر گولی مارنا بہادری کا فعل نہ ہوتا۔ ویسے بھی مجھے توقع نہیں تھی کہ یہ بھینسا پھر کبھی دکھائی دے گا۔
تاہم کچھ عرصہ قبل میں گڈیسل گیا تو اسے دیکھ کر مجھے حیرت اور خوشی بھی ہوئی جو اپنے ریوڑ کے ساتھ اطمینان سے چر رہا تھا۔ ان کی یہ چراگاہ تالاب کے کنارے سڑک کی مشرقی سمت اور 41ویں سنگِ میل کے پاس ہے۔
میری خواہش ہے کہ اس کی عمر دراز ہو۔
 

قیصرانی

لائبریرین
8۔ چوردی کا ایال دار شیر
یہ کہانی ایک بہت بڑے شیر کے بارے ہے جس نے اپنے علاقے کے لوگوں میں بہت دہشت پھیلائے رکھی تھی اور بہت مشکل سے شکار ہوا۔
شکار کی داستان سنانے کا مقصد سامعین کو مشغول رکھنا ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کے بارے بتاتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ بہت ساری ناکامیاں و نامرادیاں بھی چھپا دیتا ہے ورنہ اس کے سامعین اکتا جائیں گے۔ مگر صرف کامیابی کے بارے بات کرنا اس بات کے مترادف ہے کہ شکار انتہائی آسان اور ہمیشہ کامیاب رہتا ہے، چاہے وہ شیر ہو یا تیندوا اور اس پر چند روز سے زیادہ وقت نہیں لگتا۔
تاہم یہ سب باتیں حقیقت سے بہت دور ہوتی ہیں۔ ناکامی کا کہیں زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے اور جسمانی، ذہنی اور اعصابی تناؤ بہت ہوتا ہے اور اکثر جانور کو مارنے کے لیے مہینوں یا سال بھی لگ سکتے ہیں۔ بسا اوقات جانور شکار ہی نہیں ہو پاتا۔
یہ کہانی بھی ایک ایسے یہ شکار سے متعلق ہے جو پانچ سال کے دوران مختلف اوقات میں کی گئی کوششوں سے ہے۔ میرے علاوہ بنگلور اور بمبئی سے دیگر شکاری بھی اس پر اپنی قسمت اور ہنر آزماتے رہے تھے مگر ہم سب ناکام رہے اور پانچ سال بیت گئے۔
اسے ایال دار اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کی گردن کے گرد کافی زیادہ بال تھے جو گلے اور کانوں کے درمیان پھیلے ہوئے تھے۔ قدرتی بات ہے کہ اس طرح اس کا سر معمول سے کہیں بڑا دکھائی دیتا تھا۔ سو لوگ جب اسے دیکھتے تو ہاتھ پھیلا کر بتاتے کہ اتنا بڑا شیر تھا۔ تاہم ایسے لوگ کم ہی تھے۔
اس کا اصل مقام چوردی تھا۔ اس دیہات میں اس نے پہلا انسانی شکار کیا تھا۔
چوردی سڑک کے کنارے آباد ایک چھوٹا سا دیہات ہے جو ہر طرف سے جنگل سے گھرا ہوا ہے اور نزدیکی قصبہ چار میل دور کوہیسی ہے جو میسور کی ریاست میں شموگا ضلع سے سولہ میل دور ہے۔شموگا اور بنگلور کا فاصلہ 172 میل ہے۔ بنگلور سے پہلے 70 میل کے قریب کا حصہ بہترین پختہ سڑک ہے اور اس کے بعد پکی سڑک تو ہے مگر بہت زیادہ ہموار نہیں۔ چند ایک گندے موڑوں کو چھوڑ کر باقی ساری سڑک شموگا تک بہت مناسب وقت میں پہنچا دیتی ہے۔
اس کے بعد یہ سڑک کوہیسی اور چوردی تک جاتی ہے اور پھر انندپُرم مزید نو میل آگے ہے۔ اس سے گیارہ میل آگے ساگر ہے اور پھر سولہ میل بعد تلاگُپا نامی گاؤں۔ اس سے آگے جوگ آبشار آتی ہے جو شیراوتی دریا 950 فٹ سے گر کر بناتا ہے۔ یہ جگہ خودغرض لوگوں کے دل میں بھی عجیب کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔ آبشار کے بالائی کنارے پر دو مسافر بنگلے بھی ہیں۔
دریا شیراوتی کے جنوبی کنارے پر زیادہ جدید عمارت ہے اور ریاست میسور میں شمار ہوتی ہے اور اسے میسور بنگلا کہتے ہیں۔
اس کے مخالف سمت دوسرا بنگلا دریا کے شمالی کنارے پر ریاست بمبئی کی حد میں ہے۔ یہ پرانی عمارت ہے اور شاذ ہی کوئی رکتا ہے اور میں اسی وجہ سے اس کو پسند کرتا ہوں۔ اسے بمبئی بنگلا کہتے ہیں۔
دونوں مسافر بنگلوں میں مسافروں کی آراء والی کتب کو دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ لوگ کیسے ان میں شاعری لکھ جاتے ہیں۔ بے شک ان کی نظروں کے سامنے آنے والے معجز نما منظر شاید انہیں مسحور کر دیتا ہوگا۔ ان میں سے بعض کلام تو واقعی قابلِ قدر اور نمایاں ہوتے ہیں جبکہ باقی ایسے فضول ہوتے ہیں کہ ان کو پڑھنا بھی دوبھر ہو جاتا ہے۔
آدم خور کی حرکات کا تسلسل انتہائی حد تک دیگر آدم خوروں سے مشابہہ تھا۔
جنگلی جانوروں کا شکار کرنے والا شیر بتدریج مویشی خور یعنی لاگو بنا کہ اس علاقے میں ہزاروں کی تعداد میں فربہ مویشی ضلع شموگا میں جگہ جگہ عام تھے۔
مویشیوں کی دستیابی اور ان کے شکار کی آسانی کا مقابلہ جنگلی جانوروں کے شکار سے کیا جائے تو فرق صاف ظاہر ہے۔ اسی وجہ سے چرواہوں پر یہ عذاب کی شکل میں آن گرا۔ کچھ عرصہ برداشت کرنے کے بعد مقامی لوگوں نے کچھ کرنے کا سوچا۔ مویشیوں کے ایک نسبتاً نڈر مالک اپنے مویشیوں کے ساتھ اپنی بھری ہوئی بندوق ساتھ لے گیا۔ محفوظ جنگل میں اجازت نامے کے بغیر اسلحہ لے جانا منع ہے۔
خیر، اس نے یہ حرکت کی اور قسمت کا تماشہ دیکھیے کہ عین اسی دن اس کے ریوڑ پر شیر نے حملہ کیا۔ ایک درخت کے پیچھے کھڑے ہو کر اس نے بندوق چلا دی۔ ایل جی کے چھروں سے شیر کا دائیاں پہلو زخمی ہوا۔ کچھ عرصے کے لیے یہ شیر چوردی کے علاقے سے غائب ہو گیا اور سبھی مالکان نے اس بندے کا ڈھیروں شکریہ ادا کیا کہ اس طرح شیر سے جان چھوٹ گئی تھی۔
پھر یہ شیر چند میل دور ایک اور جھاڑیوں والے جنگل میں ظاہر ہوا جو انندپورم کی حد میں تھا۔ تاہم وہ اب بھی محفوظ جنگل میں مویشیوں کا شکار کرتا تھا۔ ابھی تک یہ آدم خور نہ بنا تھا اور نہ ہی بندوق والے زخم سے اسے کوئی معذوری ہوئی تھی۔
ایک بار پھر اس کی موجودگی سے تنگ آ کر لوگوں نے اس سے نجات پانے کا سوچا اور شیر ایک بار پھر زخمی ہوا۔
اس بار ایک روز پہلے شکار کی گئی گائے کی لاش پر آتے ہوئے مچان سے چلائی جانے والی گولی سے اس کی اگلی دائیں ٹانگ زخمی ہوئی۔ وہ پھر غائب ہو گیا۔ پھر لوگوں نے امید باندھ لی کہ شیر سے مکمل نجات مل گئی ہوگی۔ مگر شیر ایک بار پھر نمودار ہوا۔
تاہم اس بار ایک بات نئی ہوئی۔ اس بار شیر نے مویشیوں کو چھوڑ کر ان کے رکھوالوں پر ہاتھ صاف کرنا شروع کر دیا۔ اس طرح جنگل کا سب سے بڑا عفریت پیدا ہوا جسے ہم ‘آدم خور‘ کے نام سے جانتے ہیں۔
گولی سے اس کی اگلی دائیں ٹانگ کی ایک ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ قدرتی طور پر ہڈی جُڑ تو گئی مگر ٹانگ چھوٹی اور مڑی ہوئی رہ گئی۔ اب وہ چھپ کر جانوروں پر مہلک وار کرنے کے قابل نہ رہا تھا۔ اب اس کی آمد کا شور ہوتا تھا اور اکثر جانور اس کے پنجوں سے بچ کر نکل جاتے۔ سادہ ترین جانور بھی اس کی آمد کو بھانپ کر فرار ہو جاتے۔
اس معذوری کی وجہ سے وہ کمزور اور دبلا ہو گیا اور فاقوں سے مرنے لگا۔ یہ شیر بانس کے درختوں تلے دوڑتے چوہے بھی نہ پکڑ سکتا تھا۔
واحد جانور جو اس کے سامنے نہ بھاگ سکتے تھے وہ جنگل کے تالابوں کے مینڈک اور کیکڑوں کے علاوہ انسان تھے۔ اس طرح فاقوں سے مجبور ہو کر اس نے آدم خوری شروع کی۔
مندرجہ بالا حقائق میں نے مختلف اوقات میں جمع کیے۔ اس کی معذوری کا علم مجھے کئی سال بعد تب جا کر ہوا جب میں نے اسے شکار کیا۔
ایک بار ایک بندہ انندپورم کے بس سٹیشن پر اترا اور جنگل سے ہوتا ہوا تین میل دور گاؤں کو روانہ ہوا۔ یہ بندہ ایک روز قبل شموگا گیا تھا اور اپنی بیوی کو کہہ کر گیا تھا کہ وہ اگلے روز دوپہر کا کھانا تیار رکھے کہ وہ آ جائے گا۔ کھانا تو تیار ہوا مگر یہ بندہ واپس نہ لوٹا۔ خیر کسی نے اس پر زیادہ توجہ نہ دی کہ انڈیا میں عموماً چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں میں ایسی تاخیر پر کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔
مشرق میں وقت کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔
مگر شام آ گئی اور بندہ نہ لوٹا اور نہ ہی اگلے روز۔ تیسرے روز اس کا سب سے بڑا بیٹا شموگا روانہ ہوا تاکہ باپ کی تاخیر کی وجہ جان سکے۔ وہاں اسے بتایا گیا کہ تین روز قبل وہ اپنا کام پورا کر کے واپس جا چکا ہے۔
ابھی بھی کسی کو پریشانی نہ ہوئی اور سوچا گیا کہ وہ شاید اسی کام کے سلسلے میں مزید آگے ساگر گیا ہو جو انندپورم سے بھی آگے ہے۔
پانچ روز بیت گئے اور اس کے گھر والے پریشان ہو گئے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ بدمعاشوں یا ڈاکوؤں نے اسے لوٹ کر شاید مار ڈالا ہو۔ پولیس کو اطلاع دی گئی اور تلاش کا کام شروع ہوا۔ اس کے جوتے گاؤں کے راستے کے پاس سے مل گئے۔
یہ پرانے جوتے اس کے گھر والے فوراً پہچان گئے اور ڈاکوؤں والی بات کو مزید شہہ ملی۔ کئی مشہور بدمعاش تھانے لا کر ان کی چھترول کی گئی۔ تاہم ہر بندے نے لاعلمی ظاہر کی۔
پھر مزید تفصیلی تلاش شروع ہوئی۔ خون کے نشانات اور کپڑوں کی دھجیاں کانٹوں اور جھاڑیوں پر دکھائی دیں اور خشک نالے کی تہہ میں شیر کے پگ دکھائی دیے۔
اس کے بعد نشانات مدھم ہو کر غائب ہو گئے تھے۔
اُس علاقے میں شیر عام تھے اور کسی نے اس پر توجہ نہ دی، مگر کسی نے شبہ ظاہر کیا کہ آیا شیر نے اس بندے کو مارا ہو۔ پگ اتفاقیہ بھی ہو سکتے تھے۔
اس بندے کی گمشدگی کا معمہ حل نہ ہو سکا۔
دو ہفتے بعد کوہیسی سے چوردی کو ایک بندہ سائیکل پر روانہ ہوا۔ یہ چار میل کا سفر ہے۔ منزل سے نصف میل قبل سڑک پر دریا کا ایک پُل آیا۔ اس کے کنارے چونے سے بنے تھے۔ اس نے نیچے جھک کر دیکھا تو پتہ چلا کہ ایک شیر عین نیچے پانی پی رہا ہے۔ چونکہ وہ محفوظ جگہ تھا، سو اس نے بریکیں لگائیں اور بیٹھے بیٹھے شیر کو دیکھنے لگا۔
پانی پینے کے بعد شیر کنارے پر چڑھا۔ دو سیکنڈ بعد وہ جھاڑیوں میں غائب ہونے لگا۔ سائیکل والے بندے نے مزاح میں ‘شو شو‘ کی آواز لگائی۔
شیر فوراً رک کر پلٹا اور سائیکل والے بندے کو دیکھ کر غرانے اور دھاڑنے لگا۔ اس بندے نے بعجلت سائیکل دوڑایا اور چوردی پہنچ کر سب کو خبر دی کہ ‘ایک بہت بڑا اور بدمعاش شیر‘ اس پر حملہ آور ہوا۔ خدا نے اسے بچا لیا۔
پھر ایک مہینے کے لیے خاموشی رہی اور پھر پہلی انسانی ہلاکت ہوئی۔ یہ واقعہ ٹپور نامی جگہ پر پیش آیا جو چوردی اور انندپورم کے درمیان واقع ہے۔ یہ سڑک کے کنارے ایک چھوٹا سا دیہات ہے اور یہاں ایک عورت ندی پر اپنی بھینس کو نہلانے لے گئی تھی۔ بھینس پانی میں لیٹی تھی اور عورت ساتھ کنارے پر بیٹھی تھی کہ اس پر شیر نے حملہ کیا۔ عین اسی وقت ایک اور عورت پانی بھر کر اور اس عورت سے سلام دعا کر کے جا رہی تھی۔ وہ بمشکل سو گز گئی ہوگی کہ اس نے چیخ سنی اور مڑ کر دیکھا تو شیر اس عورت کو اٹھائے جا رہا تھا۔
جب عورت اور شیر جنگل میں غائب ہوگئے تو اس نے اپنا گھڑا پھینکا اور گاؤں کو بھاگی۔
بعد کے واقعات کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں۔
عورت کی تلاش کے لیے لوگوں کو جمع کرنے پر کافی وقت لگ گیا۔ آخرکار یہ لوگ جمع ہو کر گئے اور متوفیہ کی باقیات تلاش کر لیں۔
یہ محض ابتدا تھی اور اس کے بعد انسانی ہلاکتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جو یہاں سے لے کر بمبئی بنگلے تک پھیلے ہوئے تھے۔
سرکار نے حسبِ معمول سستی سے کام لیا اور آخرکار محفوظ جنگل کو آدم خور کے شکار کے لیے کھول دیا گیا۔
ملک بھر سے بہت سارے شکاری اور خصوصاً بمبئی پریزیڈنسی سے بھی آئے۔ انہوں نے بہت محنت اور جانفشانی سے کوشش کی مگر ناکام رہے۔ یہ شیر بندھے ہوئے گارے میں بالکل دلچسپی نہ لیتا تھا۔ اس دوران انسانی ہلاکتیں جاری رہیں۔
میرا ایک دوست جیک ہفٹن تھا جسے ہم دیو کہتے تھے کہ وہ چھ فٹ چار انچ اور اسی تناسب سے چوڑا بھی تھا۔ اس نے اس شیر کو مارنے کا فیصلہ کیا اور مجھے ساتھ چلنے کو کہا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، یہ آدم خور کے ظہور کے ایک سال بعد کا واقعہ ہے۔
اتفاق کی بات دیکھیے کہ میں اپنی سالانہ چھٹیاں پوری کر چکا تھا اور محض ایک ہفتہ بچا تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ ہفتے بعد میں واپس آ جاؤں گا۔ ہم لوگ اس کی 1931 کی فورڈ اے ماڈل کار میں روانہ ہوئے اور ارادہ تھا کہ ہفتے بعد میں بنگلور بذریعہ ٹرین واپس آ جاؤں گا۔ جیک نے وہاں ایک ماہ رکنا تھا۔
ہم لوگ بنگلور سے شموگا پہلے اور وہاں چند گھنٹے رک کر مقامی ضلعی افسرِ جنگلات سے ملاقات کی جو ساگر فارسٹ رینج پر متعین تھا۔ اس سے ہم نے پوچھا کہ کہاں کہاں ہلاکتیں ہوئیں اور اس سے متعلق تواریخ بھی تاکہ حملوں کا تسلسل جان سکیں۔
یہ بات میں پہلے کئی مرتبہ بتا چکا ہوں کہ آدم خور شیر ایک دائرے کی شکل میں مخصوص وقفے سے مخصوص جگہوں پر شکار کرتا ہے۔
نقشے پر وارداتوں کے مقام اور تاریخوں سے ایک اندازہ ہو جاتا ہے کہ اب شیر کب اور کہاں اگلی واردات کر سکتا ہے۔ اس طرح اس کی ہلاکت نسبتاً آسان ہو جاتی ہے۔
جب ہم نے ان وارداتوں کا مطالعہ کیا تو پتہ چلا کہ شیر سڑک سے چند میل کے فاصلے پر کوہیسی سے شیراوتی تک وارداتیں کر رہا ہے۔
یہ بہت گھنا جنگلوں سے بھرا علاقہ تھا جس میں جگہ جگہ چھوٹے دیہات بکھرے ہوئے تھے اور وہاں ہر گاؤں ریوڑ میں مویشیوں کے بڑے تھے۔ ہر ماہ ان مویشیوں کی خاصی تعداد شیروں اور تیندوؤں کی خوراک بنتی ہے۔ اسی وجہ سے یہ کہنا دشوار تھا کہ آیا آدم خور مویشیوں پر بھی ہاتھ صاف کرتا ہے یا نہیں۔ ہمیں یقین تھا کہ شیر مویشی بھی مارتا ہوگا کیونکہ انسانی ہلاکتیں اتنی کم ہو رہی تھیں کہ شیر محض انسانی گوشت پر زندہ نہ رہ سکتا تھا۔ تاہم مقامی لوگ اس خیال سے متفق نہ تھے۔
جیک نے ٹپور سے نصف میل دور ایک چھوٹے فارسٹ بنگلے کو مرکز بنایا۔ یہ خوبصورت بنگلا سڑک سے دو سو گز دور ہے۔ اس کے آس پاس شکار بہت زیادہ ملتا ہے اور چیتل بکثرت ہیں۔ اُس سال ہم نے بہت بڑے سینگوں والے چیتل بھی دیکھے تھے۔
جیک نے عام طریقے پر عمل کرتے ہوئے تین بھینسے گارے کی نیت سے خریدے۔ دو بچھڑے اور ایک بہت بوڑھا اور ناکارہ بیل تھا۔ پہلا بھینسا اُس جگہ باندھا گیا جہاں سائیکل والے بندے نے شیر دیکھا تھا۔ بوڑھا بھینسا تپور والی عورت کی موت والے مقام پر باندھا گیا۔ تیسرا بھینسا اُس راستے پر باندھا گیا جہاں وہ بندہ جو گھر واپس لوٹ رہا تھا، مارا گیا تھا۔
فارغ ہو کر ہم لوگ کار پر جوگ کو گئے اور وہاں بھی دو مزید بھینسے خرید کر ایک بمبئی بنگلے سے نصف میل کے فاصلے پر اور دوسرا اُس جگہ جہاں دریائے شیراوتی کو عبور کرنے کے لیے کشتی چلتی ہے، باندھ دیے۔ یہ جگہ میسور والے کنارے اور بمبئی بنگلے کے درمیان واقع ہے۔ یہ کشتی آبشار سے ایک میل اوپر سے دریا کو عبور کرتی ہے۔
جیک نے اب کل پانچ جانور بندھوا دیے تھے اور اچھا خاصا خرچہ ہو گیا تھا۔ منصوبہ یہ تھا کہ ہم باری باری ایک رات تپور اور ایک رات بمبئی بنگلے میں گزارتے رہیں گے اور ان مقامات کے قریب والے بچھڑوں کو بھی دیکھتے رہیں گے اور کار پر بیٹھ کر سورج ڈوبنے سے قبل دوسری قیام گاہ پہنچ جایا کریں گے۔
آدم خور کی وارداتوں کی تواریخ سے میں نے اندازہ لگایا تھا کہ وہ اب ساگر اور انندپرم کے درمیان کہیں ہوگا۔ شیر اب تک 9 افراد ہلاک کر چکا تھا۔
تیسرے روز میں نے اپنے لیے ایک بچھڑا خریدا اور اسے ساگر اور انندپورم کے درمیان سڑک سے ایک فرلانگ سے بھی کم فاصلے پر باندھ دیا۔ ہم نے اسے دن کو دو بجے اُس وقت باندھا جب ہم جوگ سے تپور والے بنگلے کو آ رہے تھے۔
اگلی صبح ہم آبشار کے پاس والے دو بھینسوں کو دیکھنے گئے۔ دونوں سلامت تھے۔ سو ہم تپور کو روانہ ہوئے اور راستے میں رک کر میرے بھینسے کو دیکھنے گئے۔ اسے شیر نے مار ڈالا تھا۔
جیک اچھا شکاری تھا، سو چونکہ بھینسے کو میں نے خریدا تھا، اس نے اصرار کیا کہ میں شیر کے لیے بیٹھوں۔
مجھے علم تھا کہ اسے کتنا شوق ہے، سو جلد ہی بحث شروع ہو گئی۔
آخرکار ہم نے ٹاس کیا اور جیک جیت گیا۔
اسے درخت پر ایک دو شاخے پر بٹھا کر میں تپور لاج کو گیا تاکہ اس کی مچان لا سکوں جو ہم بنگلے میں ہی بھول آئے تھے۔ اس کی مچان چار بانسوں سے بنا ایک چوکھٹا تھا جس میں پٹیاں لگی ہوئی تھیں۔ چاروں کونوں پر رسیاں باندھنے کی جگہ تھی۔ میں تپور کے دیہات سے تین بندے ساتھ لایا تاکہ مچان باندھ سکیں۔
ہم نے سڑک کے کنارے ٹھنڈا کھانا کھایا اور اتنی دیر میں ان بندوں نے مچان باندھ کر اسے چھپا دیا۔ پھر جیک چار بجے تک کے لیے کار کی پچھلی نشست پر سو گیا۔ میں تینوں دیہاتیوں کے ساتھ گپ شپ کرتا رہا۔ سڑک سے قریب ہونے کی وجہ سے شیر کبھی بھی غروبِ آفتاب سے پہلے نہ آتا۔ چار بجے میں نے جیک کو جگایا اور اسے مچان پر بٹھا کر سارا ساز و سامان تھما دیا۔ اس کے پاس 8 ملی میٹر کی بہت عمدہ ماوزر رائفل تھی ۔ نیک تمناؤں کا اظہار کر کے ہم تیندوں واپس روانہ ہوئے اور میں نے رات انندپورم کے بنگلے میں گزاری۔
اگلی صبح پو پھٹتے ہی میں سڑک پر اُس جگہ پہنچ گیا جہاں سے مچان قریب تھی۔ پھر میں نے کار کا ہارن بجایا اور جیک نے جواب میں نعرہ لگایا۔ یہ ہمارا مطلوبہ اشارہ تھا کہ سب ٹھیک ہے۔
میں درخت کو روانہ ہوا تو آدھے راستے پر ہی جیک مل گیا۔ اس نے خوشخبری سنائی کہ شیر اندھیرا چھاتے ہی آ گیا تھا اور آسانی سے مارا گیا۔
میں اس کی کامیابی پر بہت خوش ہوا اور جیک بھی خوشی سے پھولا نہ سما رہا تھا۔ میں اس کے ساتھ شیر کو دیکھنے گیا۔ خوبصورت اور جواب شیر تھا جس کی کھال پر دھاریاں اچھی شوخ تھیں۔
مگر میں نے دیکھا کہ یہ شیر ایک عام شیر تھا، یعنی سرکاری اعلان کے برعکس اس کی ‘ایال‘ نہیں تھی۔ مجھے حیرت ہوئی کہ خوشی کے مارے جیک نے اس بات پر توجہ ہی نہیں دی تھی۔ مجھے بتانے کی ہمت نہ ہوئی۔
میں نے اسے تہہ دل سے مبارکباد دی اور اپنے خلوص کا اظہار کیا۔ پھر اسے لاش کی نگرانی پر چھوڑ کر میں تپور روانہ ہوا جہاں سے چار بندے اور بانس وغیرہ لے کر واپس لوٹا۔
ان آدمیوں سمیت واپس لوٹا اور ہم نے شیر کو اٹھا کر کار تک پہنچایا۔ چونکہ کار میں کیریئر کی جگہ خالی تھی تو ہم نے شیر کو بونٹ پر چِت لٹا دیا۔ بونٹ نہ صرف کچھ پچک گیا بلکہ جیک کو اونچے قد کے باوجود گاڑی چلانے میں بہت مشکل ہوئی کہ سڑک کا کچھ حصہ نظروں سے اوجھل تھا۔
انندپورم سے آتے ہوئے جیک نے شیر کی نمائش کے لیے رکنے کا سوچا اور وہاں پھر اس پر تلخ حقیقت آشکار ہوئی۔ جونہی اس نے شیر کو سامنے رکھا، لوگوں نے چلا کر کہا: ‘صاحب، یہ آدم خور تو نہیں‘۔ اس نے حیرت سے استفسار کیا تو لوگوں نے جواب دیا: ‘ایال کہاں ہے؟‘ جیک نے حیرت سے کہا: ‘ایال؟‘ جوں ہی اس نے بات کو سمجھا، اس کے چہرے پر لکھی مایوسی واضح دکھائی دینے لگی۔ پھر اس نے اعتراف کیا: ‘مجھے ایال یاد ہی نہیں رہی تھی۔ میں نے غلط شیر مارا ہے‘۔
‘تمہیں شروع سے ہی علم ہو گیا تھا نا؟‘ جیک نے مجھ سے پوچھا۔ میں نے جواب دیا: ‘ہاں، مگر جتنی خوشی سے تم نے آدم خور کی ہلاکت کی بات بتائی تھی، اس سے میری ہمت نہیں ہوئی۔ بتا بھی دیتا تو تم نے کہاں ماننا تھا۔ دوسرا تمہیں اندھیرے میں ٹارچ سے ایال دکھائی کیسے دیتی؟ خیر یہ بہت بڑا شیر ہے اور تمہیں اس پر خوش ہونا چاہیے۔‘ تاہم اسے کوئی فرق نہ پڑا۔ خیر ہم تپور پہنچے تو اس نے مایوسی کی وجہ سے کھال تک اتارنے کی زحمت نہ گوارا کی اور یہ کام مجھ پر چھوڑ کر چلا گیا۔ میں برآمدے میں بیٹھ کر مزدوروں کو کھال اتارتے دیکھتا رہا۔ کئی بار میں نے اسے شیر کے دانت، پنجوں اور کھال کے بارے بتانے کی کوشش کی مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ ہر بار یہی کہتا کہ اگر مجھے علم ہوتا کہ یہ آدم خور نہیں ہے تو میں اسے ہرگز نہ مارتا۔ جتنا اس کی دل جوئی کرتا، اتنا ہی وہ اداس ہوتا جاتا۔ پھر اس نے بتایا کہ اگر صبح تک کوئی جانور نہ مارا گیا تو وہ بنگلور واپس لوٹ جائے گا۔
اگلی صبح ہم جلدی اٹھے اور تینوں بھینسوں کو دیکھنے گئے جو سبھی بخیریت تھے۔ انہیں ہم نے حسبِ وعدہ ان کے پرانے مالکوں کو واپس بیچ دیا جو اصل قیمت کا چوتھائی تھی۔ پھر ہم جوگ کی طرف گئے اور وہ دونوں بھینسے بھی سلامت تھے۔
یہاں بھی ہم نے بھینسوں کو اسی طرح واپس بیچا اور سہ پہر کو ہم واپس بنگلور روانہ ہو گئے۔
پھر کچھ عرصہ شیر کی کوئی خبر نہ سنائی دی۔ سال بھر بعد اخبار میں پڑھا کہ آدم خور نے کوئلہ بنانے والے ایک مزدور کو ہلاک کر کے کھایا تھا۔ یہ واردات کوہیسی قصبے میں سڑک کے بالکل قریب ہوئی تھی۔
میں نے شموگا کے ضلعی فارسٹ آفیسر کو خط لکھا کہ وہ مجھے اس شیر کے بارے اطلاعات بھیجتا رہے۔
شموگا کے ضلعے میں جنگلات میسور، مدراس اور چتور کے جنگلات کے برعکس بہت زیادہ آباد ہیں اور جگہ جگہ بستیاں اور دیہات دکھائی دیتے ہیں اور مزروعہ زمینیں بھی بکثرت ہیں۔ اس کی سڑکیں بھی پیدل اور ٹریفک کے لیے زیادہ استعمال ہوتی ہیں اور اسی وجہ سے نہ صرف شیر کی تلاش مشکل تر ہو جاتی ہے بلکہ تلاش کا کام بھی عموماً شکاری کو خود کرنا پڑتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان جنگلات میں مقامی قبائل نہیں رہتے۔ جنگل میں کام کرنے کے لیے قلی ہیں جو ملیالی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور انہیں مغربی گھاٹ سے ٹھیکہ دے کر بلایا جاتا ہے۔ دوسرے نمبر پر لمبانی ہوتے ہیں۔
لمبانی خانہ بدوش ہیں اور مغربی دنیا میں رہنے والے جپسیوں سے حیران کن حد تک مماثل ہیں۔ تاہم ان کی عورتیں عام لوگوں سے ہلکی رنگت کی مالک ہیں اور ان کے لباس بہت خوبصورت۔ وہ بہت سے زیورات وغیرہ پہنتی ہیں۔ ہاتھوں اور پیروں کی انگلیوں میں انگوٹھیاں بھی ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ دیگر مقامی عورتوں کی طرح ساڑھی نہیں پہنتیں بلکہ اپنے منفرد لباس زیبِ تن کرتی ہیں۔
لمبانی مردوں کا رنگ نسبتاً گہرا ہوتا ہے اور عام لباس پہنتے ہیں۔ ان میں اور دیگر مقامی کنارسی افراد میں فرق کرنا ممکن نہیں۔ ان کے گھٹنے اور پنڈلیاں عموماً ننگی رہتی ہیں اور پیروں میں سادہ سے سینڈل ہوتے ہیں۔
عجیب بات دیکھیے کہ یہ لوگ جنوبی انڈیا کے جپسیوں سے بہت فرق ہیں۔ عورتیں بہت دلفریب اور مرد عام سے ہوتے ہیں۔
یہ لوگ صدیوں سے اپنی الگ شناخت کو محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ مرد انتہائی کاہل ہیں اور شناخت کو محفوظ رکھنے کا سارا کام ان کی خواتین کر رہی ہیں۔
لمبانی لوگ خانہ بدوش ہیں اور کہیں زیادہ دیر نہیں رکتے۔ عام دیہاتوں میں رہنے کی بجائے یہ جنگل میں گھاس سے اپنی جھگیاں بنا کر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ لوگ نہ ہی کھوجی ہیں اور نہ ہی کوئی اور کام اچھا کرتے ہیں۔ تاہم یہ لوگ مقامی کنارسی لوگوں سے کہیں زیادہ معاون ہیں۔
یہ لوگ بہت زیادہ شراب پیتے ہیں اور خود ہی ببول کی چھال، کیلے، جامن اور گنے سے بہت طاقتور شراب بناتے ہیں۔
اگر انہیں رقم کی بجائے کھانے پینے کی چیزیں دی جائیں تو زیادہ شوق سے کام کرتے ہیں۔ اگر پیسے دیے جائیں تو وہ دیہاتی شراب پر خرچ ہو جاتے ہیں۔ تاہم یہ انڈیا کے خوبصورت ترین قبائل میں سے ایک ہیں۔
کافی پلانٹیشن اور اورنج سٹیٹس مغربی میسور میں انہی لمبانیوں بالخصوص خواتین کی وجہ سے کامیاب ہیں۔ دیگر کارندوں میں ملیالم اور موپلہ قبائل سے لوگ آتے ہیں جو مغربی گھاٹ کے باسی ہیں۔ ان لوگوں میں ایک مشترکہ خاصیت ہے۔ یہ لوگ اپنے وطن سے، وہاں کے ناریل کے درختوں، جزیروں، دریاؤں اور دیگر چیزوں سے کبھی جدا نہیں ہو پاتے۔ میں مانتا ہوں کہ ان کا وطن بہت خوبصورت ہے۔ صنعت کی نایابی اور روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ اندرون ملک جاتے ہیں۔ جونہی کچھ پیسے جمع ہوئے، یہ لوگ اپنے وطن واپس لوٹ کر چند ماہ سکون سے گزارتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ قابلِ بھروسہ کارندے نہیں ہوتے اور ان کی تنخواہ کا کچھ نہ کچھ حصہ عموماً دبا لیا جاتا ہے تاکہ یہ بھاگ نہ سکیں۔ قانونی طور پر ایسا کرنا جرم ہے۔ اس کے علاوہ قلیوں کو کچھ پیشگی معاوضہ دیا جاتا ہے تاکہ وہ غلہ، کمبل اور دیگر ضروریات کی چیزیں خرید سکیں۔ ملیالی قلی تنخواہ اور یہ پیشگی پکڑتے ہی اپنے وطن کو غائب ہو جاتے تھے۔
اس لیے زمین مالکان لمبانیوں کو ہمیشہ ترجیح دیتے آئے ہیں اور ایک طرح سے لمبانی ان کی مجبوری بن کر رہ گئے ہیں۔
ان تمام باتوں میں میری دلچسپی محض اتنی ہے کہ اگر میں شیر کے پیچھے جاتا تو مجھے ایک طرح سے اپنے آپ پر ہی گزارا کرنا ہوتا۔ لمبانی جتنے اچھے زرعی کارندے ہوتے ہیں، اتنا ہی جنگل کے بارے ان کی معلومات کم ہوتی ہیں۔ میری حسرت تھی کہ شیر ایسے علاقے میں ہوتا جہاں مقامی قبائل ہوتے ہیں۔
شموگا کے افسر کو لکھے گئے خط کے ایک ماہ بعد اس نے شکریے کا خط بھیجا اور لکھا کہ کوہیسی اور چوردی کے درمیان سڑک کے پاس ساگوان کے پتے چننے والی ایک عورت ماری گئی ہے۔
جو لوگ ساگوان کے درخت یا اس کے پتوں سے واقف نہیں، ان کے فائدے کے لیے بتاتا چلوں کہ یہ پتے بڑے حجم کے اور مضبوط ہوتے ہیں۔ یہ آسانی سے نہیں پھٹتے۔ اس لیے پتوں سے تھالیاں بنانے والے انہیں ترجیح دیتے ہیں۔ یہ تھالیاں کھانوں بالخصوص چاولوں کے لیے انڈین ہوٹلوں میں استعمال ہوتی ہیں۔ چار یا پانچ پتوں سے ایک تھالی بنتی ہے جو مغربی اعتبار سے کافی بڑی ہوتی ہے۔ ان کے کناروں کو باہم سیا جاتا ہے اور اس کام کے لیے کبھی کانٹے تو کبھی سوئی دھاگہ استعمال ہوتا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں ایسی تھالیاں میسور کی ریاست میں بکتی ہیں۔ اس لیے جہاں ساگوان اگتے ہیں، وہاں یہ بڑا کاروبار ہے۔
محکمہ جنگلات ان پتوں کے لیے ٹھیکے دیتا ہے۔ ٹھیکدار آگے اس کام کے لیے عورتوں کو بھرتی کرتے ہیں اور فی ہزار پتہ انہیں معاوضہ دیتے ہیں۔
عورتوں کو بھرتی کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ مردوں سے نصف معاوضہ لیتی ہیں۔
انہی میں سے ایک بدقسمت عورت شیر کا شکار بنی۔ ڈی ایف او نے بتایا کہ جائے واردات پر کئی اور عورتیں بھی پاس ہی کام کر رہی تھیں۔
انہوں نے دیکھا کہ شیر نے جھاڑیوں سے جست لگائی اور عورت کو اٹھا کر واپس جھاڑیوں میں گم ہو گیا۔ اس کی ساتھی عورتیں بھاگ کر کوہیسی پہنچیں اور تلاش کے لیے لوگ جمع ہو گئے۔ وہ لوگ جائے وقوعہ پر پہنچے اور آخرکار اس کی ادھ کھائی لاش اسی روز دوپہر کو تلاش کر لی۔
ڈی ایف او نے یہ بھی توقع ظاہر کی کہ میں اس آدم خور کو مارنے کے لیے کوہیسی آ جاؤں گا۔
آدم خور کی سرگرمیوں کا علاقہ اور دیگر باتیں ایسی تھیں کہ مجھے کامیابی کی کوئی خاص توقع نہ تھی۔ پھر چھٹی کا مسئلہ بھی تھا۔ ان حالات میں عین ممکن تھا کہ شیر کی تلاش میں کئی ہفتے یا کئی ماہ لگ جاتے۔
سو میں نے گول مول سے الفاظ میں انکار کرنے کا سوچا۔
میں نے اس افسر کا ڈھیر سارا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اس وقت آدم خور بہت بڑے علاقے میں سرگرم ہے۔ اس لیے میرے پاس اتنے طویل عرصے کے لیے آنا ممکن نہیں ہوگا۔ میں نے اسے یہ بھی تجویز دی کہ وہ مقامی پولیس چوکیوں اور جنگلاتی دفاتر کو آدم خور کے بارے مطلع کر دے اور یہ بھی کہ لوگ دن کی روشنی میں اور جماعت کی شکل میں باہر نکلیں اور بڑی سڑکوں سے دور نہ جائیں اور اس علاقے میں ٹھیکدار، قلی اور چرواہے بھی باہر کام کرنا چھوڑ دیں۔ اب اگر انسانی ہلاکت ہو تو پولیس کو چاہیے کہ لاش کو جائے وقوعہ پر ہی رہنے دیں اور مجھے تار سے مطلع کریں۔ میں نے یہ بھی تجویز دی کہ محکمہ جنگلات میری مدد کی نیت سے چھ بچھڑے خرید کر مناسب مقامات پر بندھوا دے اور جونہی کوئی انسان یا بچھڑا ہلاک ہو، فوراً مجھے مطلع کرے اور لاش کو وہیں رہنے دے۔
تیسرے روز جوابی خط آیا۔ افسر میرے نہ آ سکنے پر افسوس کر رہا تھا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ اتنے بڑے علاقے پر اور اتنی وسیع تعداد میں لوگ میری ہدایات پر عمل پیرا نہیں ہو سکتے۔ اس نے مزید یہ بھی لکھا کہ ہلاک شدگان کے وارث فوراً لاش کو آخری رسومات کے لیے جاتے اور کبھی بھی لاش کو چارے کے طور پر استعمال نہ کرنے دیتے۔ آخر میں یہ بھی درج تھا کہ محکمہ جنگلات کے قوانین کی رو سے وہ میرے لیے بھینسے خریدنے سے معذور تھا۔
ظاہر ہے کہ مجھے یہ سب باتیں پہلے سے معلوم تھیں۔ میرا مقصد اتنا تھا کہ محکمہ جنگلات کےا فسران کو بھی علم ہو کہ یہ کام کتنا مشکل تھا۔ ورنہ پہلے خط میں مجھے ایک طرح سے فوری طلب کیا گیا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ انہیں میری صورتحال کا بھی علم ہو۔
اگلے چند ہفتے خاموشی رہی اور پھر ایک واردات ہوئی۔ اس بار چوری اور تپور کے درمیان دوہری ہلاکتیں ہوئیں۔ اس کی اطلاع مجھے ضلعی افسر جنگلات نے تار کے ذریعے بھجوائیں۔ اس نے لکھا کہ کرادی بٹہ کے ٹائیگر ریزرو کے پاس آدم خور نے ایک لکڑہارے اور اس کے بیٹے کو ہلاک کیا ہے۔ اس نے باپ کو ہلاک کیا اور بیٹے کو لے کر چلتا بنا۔ اس نے مجھے فوراً آنے کی درخواست کی تھی۔
کرادی بٹہ کا ریزرو سڑک کے شمالی جانب واقع ہے۔ یہاں ساگوان اور دیگر درختوں کا جنگل ہے اور اسے میسور کے مہاراجہ اور محکمہ جنگلات نے ہر قسم کے شکار سے بچا کر رکھا ہے۔ دور اندیش مہاراجہ نے جنگلات کے افسران کے ساتھ مشاورت کر کے کئی اضلاع میں اس طرح کے محفوظ علاقے بنا دیے ہیں۔ اس طرح قابلِ شکار جانوروں کی بقا کا کام شروع ہو گیا ہے۔ ایسے ریزرو پورے برِصغیر میں ہونے چاہیں تاکہ تیزی سے ناپید ہوتی جنگلی حیات کو تحفظ مل سکے۔
تاہم اس معاملے میں ریزرو جنگل کے شیر نے ان اصولوں کو توڑا تھا کہ اس نے عام شیروں کی پناہ گاہ میں رہائش رکھ لی تھی۔ میں نے سوچا کہ میں خود جا کر دیکھتا ہوں کیونکہ کوہیسی اور انندپورم کے درمیان کافی انسانی ہلاکتیں ہو چکی تھیں۔
کرادی بٹہ اس پورے علاقے کا مرکز ہے۔
اگلی صبح میں بنگلور سے بہت جلدی نکلا اور میں نے دس روز قیام کی نیت سے سامان بھی ساتھ لے لیا تھا۔ اس سے زیادہ چھٹی ممکن نہ تھی۔ چونکہ بہت جگہوں پر سڑک کی مرمت کا کام چل رہا تھا، سو دو بجے میں شموگا میں ضلعی افسر جنگلات کے پاس پہنچا اور اس کی بھیجی ہوئی اطلاعات پر اس کا شکریہ ادا کیا۔
اس نے مجھے مزید دو خط بھی دیے جو اس کے ماتحت کوہیسی اور چوردی کے ضلعی رینج افسران کے نام تھے۔ ایک میں اس نے ان افسران کو حکم دیا تھا کہ وہ مجھے چارے کے لیے جانورں کی خریداری میں ہر ممکن مدد کریں کہ اُس علاقے میں چارے کے جانور خریدنا کافی مشکل ہو جاتا ہے۔ دوسرے خط میں اس نے آدم خور کے شکار کے لیے مجھے کرادی بٹہ کے محفوظ جنگل میں ہتھیار لے جانے کی اجازت درج کر دی تھی۔
ایک بار پھر شکریہ ادا کرتے ہوئے میں کوہیسی کے سولہ میل کے سفر پر نکل کھڑا ہوا۔ وہاں کے رینج افسر نے اپنے افسر کا خط پڑھا تو اپنی ہرممکن مدد کا یقین دلایا اور کہا کہ وہ میرے ساتھ کار پر چوردی چلتا ہے اور وہاں کے افسر کو بھی تعاون کی ہدایت کرتا ہے۔
بقیہ سفر ہم نے تیزی سے طے کیا۔ چوردی کا افسر منگلور کا عیسائی تھا یعنی مغربی ساحل کے شہر منگلور سے اس کا تعلق تھا۔ انڈیا میں عیسائیت سب سے پہلے ان علاقوں سے شروع ہوئی تھی۔یہ بندہ بھی بہت کارآمد اور معاون نکلا اور اس نے فوراً اپنے ماتحوں کو حکم دیا کہ وہ مطلوبہ لکڑہاروں کو لائیں تاکہ میں سوال جواب کر سکوں۔
چند منٹ میں ہی مطلوبہ بندے آ گئے اور انہوں نے کچھ ایسے کہانی بیان کی۔
شموگا کے ایک ٹھیکیدار نے تپور سے ایک میل دور جنگل کا ایک حصہ ٹھیکے پر لیا تاکہ درخت کاٹ کر کوئلہ بنا سکے۔ اس نے ان دونوں کے علاوہ متوفی باپ بیٹے کو بھی بھرتی کیا۔ ان سب کے گھر شموگا میں تھے اور عارضی طور پر چوردی میں رہ رہے تھے تاکہ کام کر سکیں۔
دو روز قبل یہ لوگ صبح سویرے اٹھے اور کام پر روانہ ہوئے جو تین میل دور جگہ پر تھا۔ راستے میں یہ کرادی بٹہ کے جنگل سے گزرے جو راستے کے دائیں جانب تھا۔ یہاں پہنچ کر بیٹے نے پان مانگا۔
یہاں میں پان کے بارے چند لفظ کہوں گا تاکہ جو نہیں جانتے، وہ بھی جان لیں۔
یہ پان کی بیل کا بڑا اور دل کی شکل کا پتہ ہوتا ہے اور جنوبی انڈیا کے لوگوں بالخصوص مزدوروں کا پسندیدہ ہے۔ اس سے بیڑہ بنتا ہے۔ پتے پر چونے کی ڈنڈی پھیر کر تین چار چھالیہ یا سپاری کے ٹکڑے، کچھ کھوپرا اور شکر بھی رکھتے ہیں۔ پھر اسے تہہ کر کے منہ میں رکھ کر چبایا جاتا ہے۔ چونے اور سپاری سے بہت تھوک پیدا ہوتی ہے اور پان کا رنگ لال ہوتا ہے۔ پان کھاتے ہوئے بندہ ہر جگہ تھوکتا پھرتا ہے۔ یورپی لوگ جب یہاں نئے نئے آتے ہیں تو وہ ان نشانات کو دیکھ کر دہل جاتے ہیں کہ یہاں کتنے لوگ ٹی بی کی وجہ سے قریب المرگ ہیں اور خون تھوکتے پھرتے ہیں۔
خیر، کہانی کو واپس لوٹتے ہیں۔ باپ پان دینے کو رکا۔ پان اس کی دھوتی کی گانٹھ میں بندھے تھے اور باقی دو افراد آگے نکل گئے۔ اچانک انہیں دھاڑ سنائی دی تو انہوں نے مڑ کر دیکھا کہ شیر نے بیٹے کو گرایا ہوا ہے اور باپ بیٹے کو پان دینے کے انداز میں کھڑا ہے۔
پھر انہوں نے دیکھا کہ باپ نے کس طرح بہادری سے اپنی جان دی۔ باپ سیدھا بیٹے کی سمت ہاتھ ہلاتا اور چلاتا ہوا بھاگا۔
شیر لڑکے کو چھوڑ کر باپ کر چھپٹا اور اس بندے کے سینے اور گلے کو چبا ڈالا۔ باپ کے زخموں سے خون فوارے کی نکلنے لگا۔ باپ کو وہیں چھوڑ کر شیر نے بیٹے کو اٹھایا اور جنگل میں غائب ہو گیا۔
پھر ان دونوں کو ہوش آیا اور سرپٹ تپور کو بھاگے۔
تپور ایک چھوٹی سی بستی ہے۔ کسی کے پاس آتشیں اسلحہ نہیں۔ سو دس بارہ بندے جمع ہو کر انندپورم پولیس کو اطلاع دینے روانہ ہوئے۔
اتفاق سے اسی وقت چوردی کی سمت ایک لاری ریت ڈھونے کے لیے آ رہی تھی۔
ان لوگوں نے لاری کو روکا اور ڈرائیو سے کہا کہ وہ انہیں فوراً انندپورم پہنچائے تاکہ وہ پولیس کو اطلاع دے سکیں۔ تاہم ڈرائیور نے ان کی بات پر یقین نہ کیا اور انہیں کہا کہ لاری پر بیٹھیں، وہ خود جا کر جائے وقوعہ کو دیکھتا ہے۔
ایک بندے نے اعتراض کیا کہ ٹرک کھلا ہے، اگر شیر نے جست لگا کر ان پر حملہ کر دیا تو کیا ہوگا؟ ڈرائیور نے تسلی دی کہ وہ فوراً شیر پر ٹرک چڑھا دے گا۔ اس طرح ان لوگوں کو ہمت ہوئی اور یہ سب روانہ ہو گئے۔ جب ڈرائیور نے خون میں نہائے باپ کی لاش دیکھی تو بہت حیران ہوا۔ وہ سمجھا تھا کہ ساری کہانی ہی جھوٹی ہوگی۔
بیٹے کا کوئی نشان نہ دکھائی دیا۔
اب ڈرائیور کی ہمت جواب دے گئی۔ خیر ان لوگوں نے باپ کی لاش کو لاری میں ڈالا اور سیدھے چوردی روانہ ہو گئے۔ وہاں سے رینج افسر کو لے کر کوہیسی پہنچے جہاں کچھ رکنے کے بعد کوہیسی کے رینج افسر اور پولیس کے سب انسپکٹر کو بھی ساتھ لیا۔ پھر یہ سب لوگ اسی لاری پر شموگا پہنچے اور وہاں پولیس اور محکمہ جنگلات کو تفصیلات دی گئیں۔ سرسری ڈاکٹری ملاحظے سے تصدیق ہو گئی کہ یہ بندہ شیر کے ہاتھوں ہلاک ہوا ہے اور اسی رات لاش رشتہ داروں کے حوالے کر دی گئی۔
اگلے روز پولیس کی مسلح جماعت اسی ٹرک پر جائے واردات کو پہنچی تاکہ بیٹے کی لاش تلاش کر سکیں۔ گیم سنکچوری تک تو خون کے نشانات صاف تھے مگر پھر کسی کی مہارت اتنی نہ تھی کہ پیچھا جاری رکھا جا سکے۔ سو یہ سب شموگا پہنچے اور اطلاع دی کہ لڑکے کی لاش نہیں مل سکی۔
یہ شیر کی تازہ ترین واردات تھی۔
چوردی کے رینج افسر نے ہمیں کافی پلائی اور پھر کوہیسی کے افسر کے علاوہ لکڑہارے اور میں اس جگہ کے معائنے کو چل پڑے۔
میں اس راستے سے بہت مرتبہ گزر چکا تھا اور دوسری مرتبہ ایسا ہو رہا تھا کہ شیر گیم سنکچوری کو گیا تھا۔ پہلی بار گوجا میں میری گولی سے زخمی ہونے والا شیر سنکچوری کو گیا تھا کہ میں نے راستے میں اسے شکار کر لیا تھا۔ میں اُس کا تذکرہ اپنی کسی کتاب میں کر چکا ہوں۔ رینج افسر اس جگہ کا پہلے ہی معائنہ کر چکے تھے جہاں شیر نے باپ بیٹے پر حملہ کیا تھا۔ ٹریفک کی آمد و رفت کی وجہ سے خون کے نشانات ختم ہو چکے تھے۔
یہ سنکچوری سڑک سے چند گز کے فاصلے پر ساگوان کے درختوں سے شروع ہوتی ہے۔ اُس وقت یہ سبھی درخت یکساں عمر کے اور بیس فٹ اونچے تھے۔ انہیں میسور کے محکمہ جنگلات نے دس پندرہ برس قبل سیدھی قطاروں لگایا تھا۔ دو فرلانگ تک ساگوان کے درختوں کے بعد قدرتی جنگل شروع ہو جاتا ہے۔
ساگوان کے درخت تلے محض زخمی جانور کے خون کے نشانات کا پیچھا کرنا ممکن ہوتا ہے۔ زمین پر خشک پتے اتنے ہوتے ہیں کہ کسی قسم کا دوسرا نشان نہیں ملتا۔ لڑکے کی لاش سے کچھ خون بہا تھا اور پھر تھم گیا۔ لکڑہاروں نے ہمیں عین وہ جگہ دکھائی جہاں شیر لڑکے کو اٹھا کر غائب ہوا تھا مگر ہمیں کوئی نشان نہ مل سکا۔ دو تین جگہوں پر خون کے دھبے پڑے تھے اور بس۔ سو ہم نے تلاش ختم کر دی۔
مجھے معلوم تھا کہ سنکچوری آگے شمال کی جانب ندی اور بیل گاڑی کے راستے تک جاتی ہے جو مغرب میں گوجا اور مشرق میں املی گولا کو جاتا ہے۔ یہ ندی اور راستہ سنکچوری کا شمالی کنارہ ہے جبکہ جنگل کئی میل مزید آگے تک جاتا ہے۔ میرا ارادہ تھا کہ سنکچوری کے چاروں سروں پر چار بھینسے باندھ دیتا اور ایک اس کے عین وسط میں کیونکہ مجھے سنکچوری میں بھی شیر کو مارنے کی خصوصی اجازت تھی۔
میں نے ان افسران سے کہا کہ مجھے پانچ بھینسے خریدنے ہیں جس کے لیے ان کی مدد چاہیے۔ ماضی میں مجھے اس کام کے لیے بہت مشکل ہوتی تھی کہ لوگ تعاون نہیں کرتے۔ افسران نے بتایا کہ اگلی صبح نو بجے تک بھینسے آ جائیں گے۔
میں نے کوہیسی کے فارسٹ لاج میں رکنے کا فیصلہ کیا۔ اسی لاج میں جب شیر نے ریویرنڈ یروس کا بازو زخمی کیا تھا تو اسے یہیں کاٹا گیا۔ میں نے افسر سے کہا کہ جب وہ اور اس کا ساتھی بھینسے لے کر آئیں تو پہلے مجھے دکھا دیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قریب المرگ بھینسے عموماً شکاریوں کو بیچے جاتے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ شیر انہیں نہیں مارتا۔
اگرچہ شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے اور میرے ساتھی بھی پریشان تھے مگر مجھے علم تھا کہ جب تک ہم پانچوں ایک ساتھ رہے، شیر کے حملے کا کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ سو اسی طرح قریب قریب رہتے ہوئے ہم کار تک پہنچے اور پھر جلد ہی میں نے ان لوگوں کو مطلوبہ جگہوں پر اتار دیا۔
رات بہت سکون سے گزری اور اگلی صبح میں افسر کے پاس گیا۔ بدقسمتی سے اسے ابھی تک ناکامی ہی ہوئی تھی۔
 

قیصرانی

لائبریرین
خیر، دس بجے تک اس نے تین جانور خرید لیے۔ ایک بچھڑا تھا اور باقی دو بوڑھے بھینسے۔ بھینسے مجھے پسند نہ تھے مگر چونکہ وہ کافی پیسے خرچ کر کے خریدے جا چکے تھے، سو کیا کرتا۔
ہم نے تین آدمیوں کو ہدایات دیں کہ وہ چوردی کو جانے والی چار میل سڑک پر بھینسے لے جائیں جبکہ ہم کار پر گیارہ بجے روانہ ہوئے اور بھینسوں سے قبل پہنچ گئے۔
چوردی کے افسر نے ایک نوعمر بھینسا خریدا ہوا تھا جو بھورے رنگ کا تھا اور بتایا کہ دوسرا بھینسا پہنچنے ہی والا ہوگا۔ ایک گھنٹے بعد وہ پہنچ گیا۔ ساڑھے بارہ بجے پانچوں جانور جمع ہو گئے۔ آدھا دن گزر گیا تھا۔
نتیجہ یہ نکلا ہم نے محض تین بھینسے ہی باندھے۔ سب سے اچھا جو نوعمر بھینسا تھا، کو میں نے سنکچوری کے عین وسط میں باندھا۔ بچھڑا جنوب والی سڑک سے چند گز اندر باندھا گیا اور تیسرا بوڑھا سفید بھینسا مشرقی سرے پر جو چوردی سے پانچ میل دور تھا۔
دن ڈوبنے تک ہمارا کام پورا ہو گیا تھا۔ باقی دو بھینسے چوردی میں چھوڑ دیے گئے جو میں اگلی صبح وصول کر لیتا۔
صبح سورج نکلنے سے قبل ہی میں کوہیسی والے افسر کے ساتھ کار پر چوردی پہنچ گیا۔ نصف راستے پر ایک نر سانبھر نے سڑک عبور کی تو افسر نے اسے اچھا شگون قرار دیا۔
چوردی میں افسر نے بتایا کہ وہ میرے ساتھ بھینسے باندھنے جائے گا اور اس نے اپنے نائب کو حکم دیا کہ دو فارسٹ گارڈ کے ساتھ جا کر بھینسوں کو دیکھے۔ ہم نے جا کر تیسرے گارے کو دیکھنے کا سوچا جو سنکچوری کے وسط میں بندھا تھا۔ ہم نے اس کی سمت جانے کا مختصر راستہ چنا۔ ہم سب اکٹھے نکلے اور ڈیڑھ گھنٹے بعد ہم وہاں پہنچ گئے۔ بھینسا زندہ سلامت تھا۔
یاد رہے کہ ہر گارے کو باندھنے کے بعد روزانہ اس کے چارے اور پانی کا بھی خیال رکھنا شکاری کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ گھاس تو خیر بکثرت مل جاتی ہے مگر پانی کا انتظام کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لیے گھڑا یا تیل کا کنستر ہر روز بھر کر لایا جا سکتا ہے۔ تاہم گھڑا اکثر ٹوٹ جاتا ہے اور تیل کا کنستر شیر کو مشکوک بنا دیتا ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ ہر روز بھینسے کو کھول کر کسی ندی یا تالاب سے پانی پلا کر واپس باندھ دیا جائے۔ کبھی کبھار پانی کی جگہ نزدیک ہوتی ہے مگر اکثر میل یا ڈیڑھ میل کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ دیہاتی لوگ بہت سادہ اور احمق ہوتے ہیں اور اتنی محنت کو بے کار سمجھتے ہیں۔ ان کی سوچ ہے کہ اس جانور کو مرنے کو باندھا گیا ہے تو مرنا تو اس نے ہے ہی۔ پھر اس کو پانی پلانے کے لیے اتنی محنت کیوں کی جائے؟ تمام شکاریوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے اور ہر بار اگر وہ خود جانور کے پاس نہ جا سکیں تو کسی قابلِ اعتبار ملازم کو یہ کام دیں۔ اگر شیر یا تیندوے نے جانور کو ہلاک نہ بھی کیا ہو تو بھی وہ پیاس سے بہت برے حال میں ہوگا۔ اس لیے اس کے پانی کا انتظام لازم کرنا چاہیے۔
موجودہ صورت میں وہاں سے نصف میل دور ایک ندی تھی۔ ہم بھینسے کو کھول کر وہاں لے گئے اور پانی پلا کر واپس لا کر باندھ دیا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس مشقت سے بچنے کے لیے بھینسے کو کسی ندی کے کنارے ہی کیوں نہ باندھ دیا جائے؟ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ شیر بھی پانی پینے آتے ہیں۔ تاہم دیگر عوامل کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے کہ نالے، راستے، فائر لائن اور مخصوص پگڈنڈیاں بھی اہم جگہیں ہوتی ہیں اور خصوصاً ایسے راستے جس پر دو مختلف سمتوں سے جانور گزرتے ہوں۔
شیر ہمیشہ ندیوں کے کنارے نہیں چلتے، بالخصوص جہاں ندیاں زیادہ ہوں۔ ہم نے اس بھینسے کو اس جگہ باندھا تھا جہاں سے شیر بکثرت گزرتے تھے۔ اس بات کا ہمیں چوردی کے افسر نے بتایا تھا۔
ہم نے دونوں جانوروں کے پیر سے مناسب جگہوں پر درختوں سے باندھ دیا جو شمالی اور مغربی کناروں پر تھیں۔ دوپہر کو کام تمام ہوا۔
ظاہر ہے کہ ہم نے اس طرح شیر کو گھیر تو نہیں لیا تھا۔ سنکچوری کئی میل لمبی اور کئی میل چوڑی تھی اور شیر کبھی بھی اس طرح گھیرا نہیں جا سکتا۔ تاہم ہماری امید تھی کہ شاید شیر کی قسمت اسے یہاں لے آئے۔ اُس روز قسمت نے عجیب کھیل کھیلا۔
تین بج رہے تھے اور ہم چوردی پہنچنے والے تھے کہ ایک جماعت ہمیں باہر کھیتوں میں منتظر ملی کہ وہ بھینسا مارا گیا ہے جو باپ بیٹھے کی ہلاکت کے مقام پر باندھا گیا تھا۔ گارڈوں کو ہمارے محلِ وقوع کا علم نہیں تھا، سو وہ گزرنے والے ہر بندے کو بتاتے رہے تاکہ آخرکار ہمیں اطلاع مل جائے۔
ان کی بات سن کر ہم چوردی کو روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچ کر دونوں افسران نے اپنے نائبین کو خوب گالیاں دیں کہ وہ خود یہ خبر لے کر ہمارے پاس کیوں نہ آئے۔ ان بیچاروں کا قصور بھی نہیں تھا کہ ہم سارا دن گشت پر رہے تھے اور اگر وہ آتے بھی تو انہیں ناکامی ہوتی۔ موجودہ حالات میں ان کا فیصلہ کہ چوردی میں رہ کر ہر آنے جانے والے کو اطلاع دی جاتی رہے، بہترین تھا۔ ویسے بھی اگر ہم دیر نہ کرتے تو مچان باندھنے کا پورا وقت تھا۔ گدھوں سے بچانے کے لیے انہوں نے لاش پر شاخیں ڈال دی تھیں۔ سو میں نے ان کی حمایت کرنے کا سوچا۔
ساڑھے تین بجے میری کار سڑک پر جنوب کی سمت کھڑی تھی اور ہم نیچے اتر کر جائے وقوعہ پر پہنچے۔ کار سے چارپائی مچان اتارنے میں محض تین منٹ لگے۔
میں نے یہ چارپائی مچان اپنے سابقہ تجربے کی روشنی میں بنائی ہے اور پچھلی مچان سے چوڑائی میں نصف ہے۔ اس طرح اسے کار پر رکھنا آسان ہو گیا ہے۔ اس کے ڈھانچے میں چار بانس ہیں اور خاکی رنگ کی چوڑی نواڑ کی پٹیوں سے بنی ہوئی ہے۔ چاروں پائے محض ایک فٹ لمبے ہیں اور ڈھانچے سے چھ انچ نیچے اور چھ انچ اوپر نکلے ہوئے ہیں۔ اس طرح اسے درخت سے باندھنا آسان تھا۔
یہ مچان انتہائی سادہ، ہلکی، آرام دہ اور آسانی سے منتقل ہونے کے قابل ہے اور اس پر بیٹھ کر حرکت کرنے سے کوئی آواز نہیں آتی۔
یہاں ساگوان کے درختوں کی اوسط اونچائی بیس فٹ تھی مگر بعض پرانے درخت بھی موجود تھے جو کہیں زیادہ اونچے تھے۔ میں نے بھینسے کو جان بوجھ ایسے ہی ایک بڑے درخت کے نیچے باندھا تھا۔ یہاں محض ساگوان کے درخت اگے تھے اور ساگوان کی شاخیں کافی اوپر سے شروع ہوتی ہیں۔ سو مجھے معمول سے زیادہ اونچا بیٹھنا تھا۔
اس کم بخت درخت نے چڑھنے میں بہت مشکل پیدا کی کہ پہلی شاخ بارہ فٹ کی بلندی پر تھی اور مجھے درخت پر چڑھنے کی عادت نہیں۔ ایک فارسٹ گارڈ نے مجھے اپنے کندھوں پر اٹھایا اور اس کی مدد سے میں بمشکل پہلی شاخ تک پہنچا تو آگے کام آسان تھا۔ یہاں کوئی اور درخت نہیں تھا، سو ساگوان کے چوڑے پتے بہ آسانی مچان کو چھپا گئے۔ مچان زمین سے بیس فٹ کی بلندی پر تھی۔
بچھڑے کی گردن ٹوٹی ہوئی تھی اور ادھ کھائی لاش صاف دکھائی دے رہی تھی۔ اتنا گوشت باقی تھا کہ شیر لوٹتا۔
چونکہ افسران یا گارڈ میں سے کوئی بھی گاڑی نہ چلا سکتا تھا، سو میں نے انہیں ہدایت کی کہ وہ لکڑہاروں سمیت میری کار کو دھکا لگا کر کم از کم نصف میل دور پہنچا دیں تاکہ اگر شیر اس جانب سے گزرے تو اسے شک نہ ہو۔ مجھے یہ خیال دیر سے آیا تھا اور چونکہ سڑک سیدھی تھی، سو انہیں زیادہ مشکل نہ ہوتی۔
پانچ بجے میرے ساتھی چلے گئے۔ میرا خیال تھا کہ بیس منٹ میں کار مطلوبہ جگہ پہنچ گئی ہوگی۔
خیر، شیر آیا اور ابھی پونے آٹھ ہی بجے تھے کہ تاریکی چھا چکی تھی۔ شیر کی آمد کی اطلاع مجھے چیتل کے جھنڈ اور پھر کاکڑ کی آواز سےمل گئی تھی۔ کم از کم ایک میل تک ان جانوروں نے شور کیے رکھا۔
خیر، شیر آرام سے بچھڑے کی لاش پر پہنچا مگر اس کے قدموں کی بھاری چاپ پہلے سے سنائی دے گئی تھی۔
میں نے ٹارچ جلائی جو سیدھی اس کے منہ پر پڑی۔
تین سیکنڈ میں ہی معلوم ہو گیا کہ شیر کی ایال نہیں۔ مگر میں خطرہ کیسے مول لیتا۔ سو دل پر گولی کھا کر شیر وہیں گرا۔
میں نے پندرہ منٹ اور انتظار کیا مگر شیر مر چکا تھا۔ میں درخت سے بمشکل اترا۔ پھر میں احتیاط سے شیر کی لاش پر پہنچا۔
میں بڑبڑانے لگا کہ گولی چلانے سے قبل بھی مجھے بخوبی علم ہو گیا تھا کہ شیر کی ایال نہیں۔ ایک بار پھر غلط شیر مارا گیا اور مجرم بچ نکلا۔ اب مجھے شموگا کے ضلعی افسر جنگلات کو بھی وضاحت دینی ہوگی کہ اس نے آدم خور مارنے کی اجازت دی تھی۔
بہت برا ہوا۔
میں دوبارہ چوردی والی سڑک پر چڑھا اور امید تھی کہ کار سامنے ہی ہوگی۔ مگر کار دکھائی نہ دی۔ میں نے سوچا کہ شاید یہ بیچارے سارا راستہ چوردی تک دھکا لگا کر گئے ہوں گے۔
میں چوردی میں افسر کے گھر تک پہنچ گیا۔ دونوں افسر وہیں تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ شیر مارا گیا ہے مگر مجھے یقین ہے کہ وہ غلط شیر ہے۔
انہوں نے کہا کیا پتہ آدم خور ہی ہو۔ شاید دو سال میں ایال جھڑ گئی ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ لوگوں نے غلط دیکھا ہو اور آدم خور کی ایال ہو ہی نہ۔ مجھے تسلی نہ ہوئی۔
پھر میں نے کار کا پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ کار سڑک کے مخالف سمت کھڑی تھی تو انہیں کار موڑنا نہیں آتا تھا۔ سو وہ لوگ دھکا لگا کر اسے مزید ایک میل آگے چھوڑ آئے تھے۔
میری کیفیات آپ بخوبی سمجھ رہے ہوں گے۔
کافی پی کر ہم لوگ نکلے اور ہمارے ساتھ لوگ، بانس، رسیاں اور لالٹین بھی تھے۔
جتنی دیر یہ لوگ سڑک سے اتر کر شیر کو باندھ کر لاتے، میں مزید آگے جا کر اپنی کار لے آیا۔
کوہیسی تک پہنچنے میں گھنٹہ لگا۔
اگلی صبح میں شیر کی کھال اتاری اور اس دوران دونوں افسروں نے شموگا کے ضلعی افسر کو سرکاری خط لکھے۔
انہوں نے لکھا کہ میں نے غلط شیر مارا ہے جو آدم خور نہیں۔ میرے پاس جو خصوصی اجازت نامہ تھا، وہ سنکچوری کے اندر محض آدم خور کے لیے تھا اور کسی بھی چیز کے لیے نہیں۔ پھر انہوں نے افسرِ بالا سے کہا کہ وہ خود مناسب کاروائی کرے۔
لکھنے کے بعد انہوں نے مجھ سے معذرت کی کہ یہ لکھنا سرکاری فرض تھا۔
میں نے چھٹی ختم ہونے کا انتظار کیا مگر اس دوران کوئی اور بھینسا نہ مارا گیا۔ شموگا کے ڈی ایف او نے مجھے سرکاری طور پر خط لکھ کر وضاحت مانگی کہ میں نے غلط شیر کیوں مارا جبکہ مجھے صرف آدم خور مارنے کی اجازت تھی۔ مجھے اس کی وضاحت کرنی ہوگی۔
انڈیا میں ہر سرکاری کام میں ایسے سرخ فیتے جگہ جگہ ملتے ہیں۔ سو جب یہ خط ملا تو مجھے پریشانی نہ ہوئی۔ میں نے جواب دیا کہ اسے غلط اطلاع ملی ہے اور میں نے اصلی آدم خور ہی مارا تھا اور اس کی اجازت مجھے اس نے خود دی تھی۔
کیا فرق پڑتا ہے، سرکاری فائلوں کا پیٹ بھر گیا اور ہم سب مطمئن تھے۔ ہر بندے نے اپنا کام پوری ایمانداری سے سر انجام دیا تھا۔
پھر بنگلور واپسی کا وقت آ گیا۔ میں نے دونوں افسران کا ان کی مدد پر ڈھیر سارا شکریہ ادا کیا۔ چاروں بھینسوں کو چوتھائی سے بھی کم قیمت پر بیچ دیا اور گھر کے سفر پر روانہ ہوا۔ راستے میں میں نے شموگا کے ضلعی افسر جنگلات کا شکریہ ادا کیا۔ اس نے بتایا کہ میں نے اس کے سرکاری خط کا مناسب جواب دیا ہے، اس طرح کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوگی۔
ایک سال گزر گیا۔ مزید انسانی ہلاکتوں کی کوئی اطلاع نہ آئی۔ ہر بندہ یہی سمجھا کہ آدم خور ہی میرے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ میرا بھی یہی خیال تھا مگر ایک روز یہ غلط فہمی دور ہو گئی۔
شیر نے ساگر کے قصبے کے باہر ایک انسان ہلاک کیا۔ دو ہفتے بعد اس نے ایک اور انسانی شکار کیا۔ پھر اگلے ایک ماہ کے دوران ایک مرد اور ایک عورت اس کا شکار بنے۔ اگست کے شروع میں ایک لمبانی لڑکا دن دیہاڑے مارا گیا۔ وہ کوہیسی کے پاس ہی مویشی چرا رہا تھا۔
آدم خور ایک بار پھر لوٹ آیا تھا اور پوری سرگرمی سے انسانی ہلاکتوں میں مصروف تھا۔ اگر یہ دوسرا آدم خور تھا تو بھی بہت تیز جا رہا تھا۔
میں نے بہانہ کر کے ایک ہفتے کی چھٹی لی اور سیدھا کوہیسی جا پہنچا۔ شموگا کا ضلعی افسر بدل چکا تھا اور نیا افسر میرا جاننے والا نہ تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کوہیسی اور چوردی میں کیا وہی پرانے افسران ہیں تو اس کا جواب اثبات میں تھا۔
چوردی اور کوہیسی پہنچ کر ہم لوگ پرانے دوستوں کی مانند ملے۔ دونوں کا یہی خیال تھا کہ میں نے پچھلے چکر پر اصلی آدم خور مارا تھا اور یہ کوئی دوسرا جانور ہوگا۔ ان کے پاس دلیل یہ تھی کہ دو ماہ قبل تک کسی انسانی جان کی ہلاکت کی خبر نہ آئی تھی۔ اگر یہ وہی آدم خور ہوتا تو لگ بھگ دس ماہ کیوں چپ بیٹھتا۔ آدم خور اب عادت کو ترک تو نہیں کر سکتا۔
ان کی دلیل وزنی تھی، سو میں نے مان لی۔
پھر ہم آگے کا لائحہ عمل تیار کرنے کو بیٹھ گئے۔ شیر نے ساگر، انندپورم، تگراٹھی، گوجا اور کوہیسی میں وارداتیں کی تھیں۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں ایال والا شیر وارداتیں کرتا رہا تھا۔ اگر یہ وہی شیر نہ بھی ہوتا تو بھی عین انہی علاقوں میں سرگرم تھا جہاں ایال دار شیر تھا۔ اب میں گارہ کہاں باندھوں؟ کہاں سے شروع کروں؟ یہ فیصلہ کرنا دشوار ہو رہا تھا۔
اگلے دن یہ فیصلہ خودبخود ہو گیا۔ شیر نے املی گولا سے ایک چرواہے کو اٹھا لیا۔ یہ جگہ سنکچوری کا شمال مشرقی کنارہ تھا۔ فارسٹ گارڈ نے اس کی اطلاع چوردی کے افسر کو دی جو فوراً کوہیسی بتانے پہنچ گیا۔
تین بجے وہ پہنچا۔
املی گولا جانے کے لیے ہمیں ایک اور راستہ پکڑنا پڑا جو بہت مشکل تھا۔ املی گولا میں ایک چھوٹا سا خوبصورت فارسٹ بنگلا ہے جس کے ایک سرے پر ندی بہتی ہے۔ یہ ندی دو میل بعد ایک تالاب میں گرتی ہے۔ چرواہا اسی تالاب کے کنارے مویشی چرا رہا تھا۔ صبح نو بجے کے قریب شیر ندی سے ہو کر لڑکے پر حملہ آور ہوا۔ اس نے مویشیوں کو آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔
لڑکے کو ہلاک کر کے شیر اسے اٹھا کر ندی سے ہوتا ہوا جنگل میں غائب ہو گیا۔
مجھے چرواہے کی سمت جانے والے پگ دکھائے گئے اور واپسی کے بھی۔ تاہم خون کے کوئی نشان نہ ملے۔ البتہ لڑکے کے پیر گھسٹتے جا رہے تھے جن کے نشانات موجود تھے۔
یہ سب دیکھتے ہوئے شام ہو گئی اور ہم متوفی کی لاش تلاش نہ کر سکے۔ افسوس کہ ہمیں خبر بہت دیر سے ملی۔
ہم نے ہر ممکن عجلت سے پہنچنے کی کوشش کی مگر راستہ بہت خراب تھا۔ اگر ہمیں شام کو باقیات مل جاتیں تو میں بہ آسانی ان پر بیٹھ کر شیر کا انتظار کر لیتا۔
افسران اس لاج کے ایک کمرے میں سوئے۔ میں دوسرے میں سویا۔ دونوں گارڈ باورچی خانے سے منسلک گودام میں سو گئے جو بنگلے کے ہٹ کر الگ عمارت تھی۔ سارے دروازے مقفل رکھے گئے۔
نصف شب کے بعد شیر نے بولنا شروع کر دیا۔ ہم سے لگ بھگ ایک میل دور ہوگا۔ اس کی آوازیں افسروں نے بھی سنیں۔ انہوں نے درمیانی دروازہ کھٹکھٹا کر مجھے شیر کے بارے بتایا۔ میں نے دروازہ کھول کر انہیں اندر بلایا اور کہا کہ میں بھی یہی سن رہا تھا۔
پھر میں نے بیرونی دروازہ کھولا جو برآمدے میں کھلتا تھا۔ جنگل میں چاندنی پھیلی ہوئی تھی۔ استوائی جنگلات میں اتنے خوبصورت مناظر دیکھنے کو عام ملتے ہیں۔ میں ابھی محویت سے یہ منظر دیکھ ہی رہا تھا کہ شیر کافی نزدیک سے بولا۔ اب مجھے سمجھ آ گئی کہ شیر بنگلے کے پیچھے والی ندی کے کنارے پر چل رہا ہے اور دس منٹ میں یہاں پہنچ جائے گا۔ مگر کیا یہ آدم خور ہی تھا؟ میں نے موقع سےفائدہ اٹھانے کا سوچا۔
ٹارچ کو رائفل پر جمانے کے لیے دو منٹ تھے۔ پھر میں غسل خانے کے دروازے سے باہر کو لپکا اور ندی کی سمت بڑھا۔
پانی کی سطح چاندنی میں چمک رہی تھی۔ یہ ندی کرادی بٹہ کا شمالی کنارہ بناتی ہے۔ مخالف سمت پر سنکچوری ہےاور یہ بنگلا اس کی حد سے ملا ہوا تھا۔
شیر پھر بولا۔ اس بار وہ شاید چوتھائی میل دور ہوگا۔
اہم سوال یہ تھا کہ شیر کس کنارے پر ہے؟ اگر وہ مخالف سمت ہوتا تو مجھے ندی میں اترنا پڑتا۔ اگر وہ میری سمت ہے تو ندی میں گھسنے کی وجہ سے وہ مجھ سے اوپر ہوگا اور مجھے نہ صرف دیکھ لیتا بلکہ حملہ بھی کر سکتا تھا۔
پھر ایک فرلانگ سے آواز آئی۔ اب وقت نہیں تھا۔ میں نے کچھ کرنے کا فیصلہ کیا۔
میں اس دوران مسلسل کمین گاہ تلاش کر رہا تھا۔ میرے کنارے سے دو فٹ کے فاصلے پر سرخ رنگ کی گھاس اگی ہوئی تھی۔ سو میں نے خاموشی سے پانی میں اتر کر دو فٹ عبور کیے اور گھاس میں چوکڑی مار کر بیٹھ گیا۔ دو یا تین منٹ خاموشی سے گزر گئے۔ دونوں کناروں پر گہرا سایہ تھا۔
پھر شیر میرے عین سامنے سے اسی کنارے سے بولا جہاں سے میں آیا تھا۔ وہ گزر رہا تھا۔
میں نے پانچ تک گنا تاکہ وہ میرے عین سامنے نہ ہو۔ پھر میں نے ٹارچ جلائی۔ پندرہ گز دور شیر تھا۔
شیر وہیں رک کر میری جانب مڑا۔ اس کا دائیں پہلو میرے سامنے تھا سو میں نے کندھے کے پیچھے گولی اتار دی۔ شیر ہوا میں اچھل کر الٹا گرا۔ میں نے دو مزید گولیاں چلائیں۔
پھر شیر کو میری جگہ کا علم ہوگیا اور وہ لڑکھڑاتا ہوا سیدھا میری جانب لپکا۔ پانچ گز کے فاصلے پر میری چوتھی گولی نے اس کی کھوپڑی ریزہ ریزہ کر دی۔
بعد میں معائنہ کیا تو پتہ چلا کہ اس کی ایال واقعی تھی۔
جنگل کے اسرار جاننا بہت دشوار ہے، کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس شیر کی ایال کیوں تھی؟
 

قیصرانی

لائبریرین
9۔ پیگی پالیم کا آدم خور
یہ کہانی کسی آدم خور کی ہلاکت سے متعلق نہیں بلکہ یہ شیر ابھی بھی زندہ ہے۔ سرکاری طور پر اس نے کل چودہ افراد ہلاک کیے تھے جبکہ غیرسرکاری طور پر سینتیس افراد بشمول خواتین اور بچے بھی اس کا لقمہ بنے۔ سرکاری طور پر محض وہ افراد شمار ہوتے ہیں جو آدم خور نے ہلاک کر کے کھائے ہوں۔ جبکہ غیر سرکاری میں وہ افراد بھی آتے ہیں جو شیر کے ہاتھوں زخمی ہوئے اور بعد میں مر گئے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ میرے خیال میں میرا سامنا اس شیر سے پہلے بھی ہو چکا ہے۔ اس بار یہ شیر ڈیم بیم میں رہنے لگا تھا جو شمالی کومبتور کا علاقہ ہے اور یہاں سے گھاٹ والی سڑک گزرتی ہے جو ستیامنگلم اور ڈیم بیم کو ملاتی ہے۔
خاردار جنگل والے پہاڑ کے دامن سے نزدیک ترین گاؤں راج نگر کہلاتا ہے اور جب سے اس نے چرواہوں کو ستانا شروع کیا، اس کا نام راج نگر کا شیر پڑ گیا تھا۔ اس شیر کے حملے کے انداز کی وجہ سے اسے مزید شہرت ملی۔ جب یہ چرواہے پر حملہ کر کے پنجے مارتا تو مویشیوں میں بھگدڑ مچ جاتی اور وہ اپنی مرضی کے جانور کو اٹھا کر بھاگ جاتا۔ اُس وقت تک کسی انسان کا گوشت نہیں کھایا گیا تھا۔
ایک یا دو بندے گم ہو گئے تھے سو یہ فرض کر لیا گیا کہ شیر انہیں کھا گیا ہوگا۔ تاہم اس بارے کوئی ثبوت نہ مل سکا۔ بس اتنا معلوم تھا کہ وہ ہمیشہ اپنے شکار کو پنجے مارتا مگر کاٹتا نہیں تھا۔
اس طرح لوگوں نے فرض کر لیا کہ کسی وجہ سے اس شیر کا منہ زخمی ہے اور وہ کاٹ نہیں سکتا۔ مگر دوسری جانب وہ مویشیوں سے پیٹ بھر کر کھاتا تھا۔ تاہم یہ شیر عام شیروں سے بہت مختلف تھا اور کسی کے پاس شیر کی اس عادت کا جواب نہ تھا۔
اب میں بتاتا ہوں کہ اس شیر کے پیچھے میں کیسے گیا اور کیسے ناکامی مقدر بنی۔
یہ شیر بہت عجیب جانور تھا۔ جب میں پہلے مقابلے کے بعد بنگلور لوٹا تو میرا خیال تھا کہ جلد یا بدیر اس سے دوسری مرتبہ سامنا ہوگا۔ میری خواہش تھی کہ اس بار مجھے کامیابی ہو۔
چند دوستوں اور خیر خواہوں نے تب سے مسلسل مجھ سے استفسار کیے رکھا کہ میں دوبارہ کب اس شیر کے پیچھے جاؤں گا۔ ایک پرانا دوست جو کیرنی نے مجھے کیلیفورنیا میں لاس اینجلس سے تار بھیجا کہ میں اس شیر کے بارے اسے تازہ ترین واقعات سے آگاہ کروں۔
میں ان کی تسلی کے لیے کچھ نہ کہہ سکا کہ شیر نے میری واپسی پر اس عادت کو ترک کر دیا۔ ہمارا خیال تھا کہ شاید اب شیر سدھر گیا ہو۔ عین ممکن ہے کہ وہ کسی دوسرے جنگل جا کر مر گیا ہو۔ وقت گزرتا گیا اور لوگوں نے جنگل مویشی چرانا شروع کر دیے۔
نو ماہ بعد پھر ایک شام سورج راج نگر سے پچاس میل دور بلیگیریرنگن پہاڑوں کے پیچھے چھپنے لگا۔ سائے طویل تر ہو گئے۔ پیگی پلیم نامی ایک چھوٹی سی بستی تھی جو اس سلسلے کے مشرقی جانب واقع تھی۔ یہ بستی ڈیم بیم جانے والی سڑک سے دو میل دور تھی۔ اب مویشیوں کی واپسی کا وقت ہو چلا تھا۔ مویشی بستی سے چند فرلانگ دور تھے اور ان کے پیچھے چرواہا اور ایک لڑکا آ رہے تھے۔
یہاں جگہ جگہ گھنے جنگلات والی کھائیاں راستے میں آتی تھیں۔ برسات میں یہاں سے پانی بہت تیزی سے مشرق کی سمت بہتا تھا۔ تاہم متذکرہ بالا واقعے کے وقت یہ بالکل خشک تھیں۔ بلبل اور دیگر پرندے آرام سے چہچہا رہے تھے۔
مویشی ایک ایسی ہی کھائی سے گزرے اور چرواہا وسط میں تھا جبکہ لڑکا ابھی کنارے پر ہی۔ اس کے راستے میں بانسوں کا ایک جھنڈ اور کچھ گھاس تھی اور مویشی اس سے کترا کر گزرے تھے اور ان کے سموں سے اڑنے والی دھول ابھی تک بیٹھی نہیں تھی۔
لڑکا اپنی سوچوں میں گم چل رہا تھا۔
اچانک چرواہے کو عجیب سی آواز آئی اور پھر جیسے کسی کا دم گھٹ رہا ہو۔ اس نے مڑ کر دیکھا۔
تاہم اسے کچھ بھی دکھائی نہ دیا۔ راستہ سیدھا بانس کے جھنڈ تک صاف تھا۔ چرواہا پھر چل پڑا۔ اس نے فرض کر لیا کہ لڑکا آ رہا ہوگا۔
پھر مویشی اور چرواہا پیگی پلیم پہنچے۔ چرواہے نے پھر مڑ کر دیکھا مگر لڑکا دکھائی نہ دیا۔ اس نے لڑکے کو آواز دی: ‘وینکٹ، وینکٹ‘۔ مگر اسے کوئی جواب نہ ملا۔
چرواہا کچھ رکا اور پھر پکارا مگر جواب نہ ملا۔ اس دوران مویشی گاؤں پہنچنا شروع ہو گئے تھے اور وہ انہیں چھوڑ نہیں سکتا تھا۔ تب اسے احساس ہوا کہ لڑکا گم ہو گیا ہے۔
تاہم کسی نے توجہ نہ دی کہ لڑکے کے غائب ہونے کی بے شمار وجوہات ہو سکتی تھیں۔ گھنٹہ بھر گزر گیا اور لڑکا نہ پہنچا۔ پھر چرواہے کو یاد آیا کہ جب راستہ بانس کے جھنڈ سے کترا کر گزرتا ہے تو اس کے بعد سے اسے لڑکا دکھائی نہیں دیا۔ اسے پھر وہ آوازیں بھی یاد آئیں۔ اب اسے احساس ہوا کہ لڑکے کو کچھ ہو گیا ہوگا۔ شاید سانپ نے ڈس لیا ہو۔
آدم خور شیر یا تیندوے کے بارے اس نے نہ سوچا کہ اس علاقے میں ایسی چیز کبھی سنی بھی نہیں گئی تھی۔
سو اس نے فوراً اس جھنڈ کا رخ کیا۔ راستے پر چلتے ہوئے جھنڈ کے پیچھے اس نے مویشیوں کے پگوں پر اپنے پیر اور پھر شیر کے پگ واضح دیکھے اور وہاں کچھ جدوجہد کی علامات اور پھر گھسیٹنے کے نشان تھے۔
اس طرح پیگی پلیم کے آدم خور کا ظہور ہوا۔
وقت گزرتا گیا اور انسانی ہلاکتیں مختلف جگہوں سے پتہ چلتی رہیں کہ کبھی جنوب مغرب میں تلوادی اور تلائی ملائی جو تیس میل دور ہیں تو مشرق میں پُناچی ملائی اور علم آباد میں دریائے کاویری کے کنارے سے جو کہ چالیس میل دور تھا اور ایک ہلاکت شمال میں کولیگل کے بڑے شہر سے چھ میل دور ہوئی۔ یہ آخری واردات تھی جو ایک کھیت میں دن دیہاڑے ساڑھے دس بجے ہوئی اور پندرہ سالہ لڑکا مارا گیا۔
آدم خور کی ایک واردات کے بارے اہم اطلاع ملی جو پہلی واردات سے تین میل کےفاصلے پر ہوئی تھی۔ تین آدمی جنگل میں جانے والے بیل گاڑیوں کے ایک راستے پر جا رہے تھے۔ یہ راستہ جنگل سے کٹے بانس لانے کے لیے استعمال ہوتا رہا تھا۔ آدم خور کے ظہور کے بعد سے کٹائی کا کام یکسر رک گیا تھا۔ جنگل میں لوگ دن کے وقت اور جماعت کی شکل میں جاتے تھے۔ ان لوگوں کو اشد مجبوری تھی اور دن کے دو بج رہے تھے۔ انہوں نے پیگی پلیم میں دوپہر کا کھانا کھایا اور منزل پر پہنچنے والے تھے۔ توقع تھی کہ ساڑھے تین بجے تک واپس آ جائیں گے۔
اچانک آگے والے بندے کے سامنے ایک شیر نمودار ہوا۔ دہشت کے مارے سبھی رک گئے۔ پھر شیر نے آگے والے بندے پر حملہ کیا اور پچھلی ٹانگوں پر کھڑے ہو کر اس نے اس بندے کے منہ پر پنجے مارے۔ اس کے ساتھیوں نے فوراً نزدیکی درخت پر چڑھ کر پناہ لی جو قریب ہی تھا۔ اس دوران تیسرے بندے نے کمال حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شیر کے سر پر چاقو سے حملہ کیا۔ یہ چاقو سبھی شلوگا کے پاس ہوتا ہے جو راستہ بنانے اور لکڑی کاٹنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ وار شیر کے سر کے ایک جانب لگا اور اچٹ گیا۔ شیر نے درد سے دھاڑ ماری اور بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جھاڑیوں میں گھس کر غائب ہو گیا۔
باقی دو افراد اس دوران درخت کی سب سے اونچی شاخ پر چڑھ گئے تھے اور دہشت سے نیچے دیکھ رہے تھے۔ مضروب کے چہرے اور سینے سے خون کے فوارے بہہ رہے تھے۔ بیچارہ زمین پر حواس باختہ بیٹھا ہوا تھا۔ درخت والے بندوں نے اسے کہا کہ بھائی، درخت پر چڑھ جاؤ، ورنہ آدم خور لوٹ آئے گا۔ اس بندے نے کھڑے ہو کر اپنی پگڑی اتاری اور خون صاف کیا۔ اس دوران دیگر دو افراد نے پھر کہا کہ درخت پر چڑھ جائے۔ یہ بندہ درخت کی طرف گیا۔ مگر اس کے دن گنے جا چکے تھے اور آدم خور اپنی بزدلی پر قابو پا کر پھر حملہ آور ہوا اور اس کی گدی پر پنجہ مار کر اس کی گردن توڑ دی۔ جونہی بندہ زمین پر گرا، شیر اسے اٹھا کر لے گیا۔
اس واردات کے بعد میں کولیگل اور پیگی پلیم پہنچا اور ان دونوں سے بات کی۔ دونوں کے بیانات ایک جیسے تھے۔ دونوں نے یہ بات بتائی کہ شیر نے دانتوں کی بجائے پنجوں سے حملہ کیا تھا۔
میری یاداشت تازہ ہو گئی۔ کیا یہ وہی شیر ہے جو راج نگر میں بھی تھا؟ ان دونوں بندوں کی بات سے تو یہی لگتا تھا۔
میں نے اس بارے پیگی پلیم کے علاوہ دیگر نزدیکی بستیوں میں بھی مزید تحقیق کی۔ اس کے علاوہ میں نے کولیگل میں محکمہ جنگلات سے بھی رابطہ کیا۔ کئی مرتبہ انسانی لاشوں کو ادھ کھائی حالت میں لائی گئیں۔ ان سب میں زخم پنجوں سے لگے تھے، دانتوں سے نہیں۔
پیگی پلیم میں پہلا چکر محض ایک ہفتے کا تھا۔ تاہم شیر نے میرے باندھے ہوئے بھینسوں کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ اس دوران مزید کوئی اطلاع بھی نہیں ملی۔ چھٹی ختم ہو گئی تو مجھے کام پر واپس بنگلور لوٹنا پڑا۔
اس کے بعد آدم خور نے دن دیہاڑے ایک کھیت میں پندرہ سالہ لڑکے کو ہلاک کیا۔ یہ جگہ کولیگل سے چھ میل دور تھی۔ اس بار میرا بیٹا ڈونلڈ اس کے پیچھے جا رہا ہے۔ شاید اس کی قسمت یاوری کرے۔
ہم دونوں یہ جاننے کو بے تاب ہیں کہ آیا یہ وہی آدم خور ہے جس سے میرا پہلے بھی سامنا ہو چکا ہے۔ مگر اس کی تصدیق کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ اگر وہ شیر کو مار لیتا تو شاید مزید معلومات مل سکتی تھیں۔
اس بارے میں سوچ رہا ہوں اور یہ صفحات اور تحریر میری نظروں سے اوجھل ہو رہی ہے۔ میں چشمِ تصور سے جنگل کیمپ میں الاؤ بھڑکتا دیکھ رہا ہوں۔ اس سے نکلتی چنگاریاں اور دھواں واضح ہیں۔
رات کو مطلع صاف ہے اور ستارے دکھائی دے رہے ہیں۔ الاؤ کی روشنی میں سائے بن رہے ہیں۔ پندرہ گز سے آگے گھور اندھیرا تھا اور ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ میرے پائپ سے دھواں نکل رہا ہے۔ الاؤ کی حدت محسوس ہو رہی ہے۔
میرے اردِ گرد خاموشی چھائی ہوئی ہے اور محض آگ میں لکڑی چٹخنے اور شعلوں کی آواز سنائی دیتی ہے۔
پھر مجھے آواز سنائی دی۔ پہاڑیوں پر کافی دور سے آواز، جو بتدریج قریب ہو رہی ہے۔ یہ شیر کی دھاڑ ہے۔ میں یہ آواز بہت بار سن چکا ہوں اور مجھ اس سے زیادہ خوش کُن کوئی اور آواز نہیں لگتی۔ تصور میں مجھے یہ آواز اسی پیگی پلیم کے آدم خور کی لگتی ہے۔
 
Top