سیلاب کی صورت حال پر ایک نظم- آصف شفیع

آصف شفیع

محفلین
آؤ توبہ کریں
لمحہءفکر ہے یہ مرے دوستو!
کتنی مشکل گھڑی آ پڑی قوم پر
کیسی آفت ہے یہ، کیا مصیبت ہے یہ
ہر طرف اک بلاخیز سیلاب ہے جو کہ رکتا نہیں
ایک بپھرا ہوا بحرِ پر زور ہے
کوئی گھر، کوئی دیوار یا کوئی بند
اس کے آگے کسی پل ٹھہرتا نہیں
اور کناروں کے جس کے کوئی حد نہیں
سمت کی جس کا کوئی تعین نہیں۔
خواب سے کتنے چہرے مرے دیس کے
سیلِ بے رحم کے بےکراں پانیوں کی بلا خیز موجوں کا لقمہ بنے،
ڈوب کر مر گئے
ہنستی بستی ہوئی کتنی آبادیاں زیرِ آب آ گئیں،
کتنے گھر گر گئے
شہر کے شہر سیلاب میں بہہ گئے
لوگ مجبور و بے بس پڑے ہیں کھلے آسماں کے تلے
سر پہ سایا نہیں،
پیٹ بھرنے کو روٹی کا لقمہ تلک بھی میسر نہیں
دوستو!مل کے سوچیں ذرا بیٹھ کر
کون سی ہم سے ایسی خطائیں ہوئیں
کون سے ہم سے ایسے گنہ ہو گئے
جس کے باعث وہ رب رحیم و کریم
ہم سے ناراض ہے اور ہے نالاں بہت
اس لیے اے مرے ہم وطن دوستو!
آؤ توبہ کریں، آؤ توبہ کریں
اپنے رب کے حضور ایک سجدہ کریں
اور گناہوں کا اپنے ازالہ کریں
سب کے سب مل کر اس سے دعا یہ کریں
اے خدا! تو ہمارے گنہ بخش دے
اب ہمارے سروں سے مصیبت کو ٹال
اپنی رحمت کے سب ہم پہ در کھول دے
تیری رحمت ہی کے ہم طلبگار ہیں
( آصف شفیع)
 
Top