سیلاب نے جو پہلے کنارا مٹا دیا - اعجاز عبید

جیلانی

محفلین
[FONT=&quot]کلام اعجاز عبید ﴿الف عین﴾
[/FONT]
[FONT=&quot]سیلاب نے جو پہلے کنارا مٹا دیا[/FONT][FONT=&quot]
ساحل کی گرتی ریت نے دریا مٹا دیا
ان رخ گُلوں کا ذکر ہی کیا ، وہ ہوا چلی
آندھی نے برگِ نقشِ کفِ پا مٹا دیا
میں نے تو کچھ کہا بھی نہ تھا ، ہاں بس ایک بار
کاغذ پر اس کا نام لکھا تھا، مٹا دیا
بکھرے ہیں چاروں سمت ہی پتّے ورق ورق
طفلِ خزاں نے کیا لکھا ، کیا کیا مٹا دیا
یاد آتی تھی وہ شکل بس اک پل کہ وقت نے
مدّت پہ دل میں نقش بنا تھا، مٹا دیا
میں تھا بس ایک قطرۂ شبنم پہ نوکِ خار
جس کو کہ تیز دھوپ نے پیاسا مٹا دیا

[/FONT]
 
Top