ایاز صدیقی سیلابِ ماہ و سال کی کوشش فضول ہے

مہ جبین

محفلین
سیلابِ ماہ و سال کی کوشش فضول ہے
رخسارِ کائنات پہ صدیوں کی دھول ہے
دامن جو کھینچتا ہے دمِ رخصتِ چمن
گُل چیں ! مِری نظر میں وہ کانٹا بھی پھول ہے
ہر چیز کی حدود مقرر ہیں دہر میں
اک دشتِ آرزو ہے کہ بے عرض و طول ہے
اے پیکرِ جمال مِرے دل سے بھی گزر
کہتے ہیں کہکشاں ترے قدموں کی دھول ہے
تجھ سے نہ اٹھ سکے گا تمنا کا بارِ غم
یہ بار میں اٹھاؤں گا تو کیوں ملول ہے
ترکِ تعلقات ، بحالِ تعلقات
وہ ہے ترا اصول ، یہ میرا اصول ہے
دل کو ذرا سنبھال کے رکھو میاں ایاز
تنخواہِ زندگی کا یہ قبض الوصول ہے
ایاز صدیقی
 

سید زبیر

محفلین
تجھ سے نہ اٹھ سکے گا تمنا کا بارِ غم
یہ بار میں اٹھاؤں گا تو کیوں ملول ہے
کیا بات ہے ۔ ۔ زبردست بہت اعلیٰ انتخاب سبحان اللہ
 
Top