سیری نالا بان سے لیا گیا اقتباس ( سٹاپ کلنگ)

گلزیب انجم

محفلین
سٹاپ کلنگ
تحریر :- گل زیب انجم
_____سٹاپ کلنگ یہ وہ الفاظ ہیں جو آجکل ہر فیس بک یوزر نے ڈی پی کے طور پر لگائے ہوئے ہیں ۔ سوچیے تو ! اگر یہی کچھ کہہ لینے سے قتل و غارت رک جاتی تو کیا ضروت تھی کسی بھی ملک کو آرمی بنانے کی یا اسلحہ ڈپو بنانے کی۔ قتل بند کرو بس کسی بھاری بھر آواز والے سے اتنا ہی کہلوا دیا جانا بدرجہا بہتر ہوتا لاکھوں کے حساب کی آرامی بنانے سے۔
عزیز ساتھیوں جس طرح جنت تلواروں کے سائے تلے ہے بالکل اسی طرح آزادی کی پہلی شرط قربانی ہے اور اسی قربانی کو عسکری زبان میں جہاد کہا جاتا ہے۔ بہت سے ایسے اصحاب کرم رضوان اللہ علیھم اجمعین تھے جن کی آواز بادلوں سی گونج اور بجلی جیسی کھڑک رکھتی تھی لیکن سٹاپ کلنگ کے انہوں نے کاشن دینے کے بجائے صرف آپشن دیے اور پھر آپشن کو عملی جامہ دیتے ہوئے پاوں رکابوں میں اور تیر کمانوں میں رکھ لیے ۔ اگر بھاشن ہی کارآمد ہوتے تو جلیل القدر اصحاب کرم رضوان اللہ علیھم اجمعین سے بڑھ کر کوئی بھی صلح جو نہیں گزرا ۔ اس لیے جہاں تلوار کام کرتی ہے وہاں پترکاری کچھ معانی نہیں رکھتی ۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج سارے کام دکھلاوے کے ہو کر رہ گئے ہیں ہماری وہ ہمدردیاں جو امت مسلمہ کے لیے ہونی چاہیے تھی وہ کسی سرد خانے میں پڑ چکی ہیں ۔ہمیں اب ہر کام میں صرف ناموری سے غرض ہے چاہے وہ چوڑیاں پہن کر ملے یا کنگن پہن لینے سے۔ کتنے مسلم ممالک ہیں کیوں آج تک کوئی چھوٹے سے برما کو راہ راست پر نہیں لا سکا ۔ جہاں تین دن میں اتنے سارے لوگوں کو قتل کر دیا گیا جتنا کہ پورے مسلم ممالک میں قربانی کے جانور بھی ذبح نہیں کیے گے۔ جہاد کے نام پر کام کرنے والی جماعتیں کتنی ہیں لیکن کسی جماعت نے آج تک ادھر کا رخ نہیں کیا ۔ کیونکہ ہم میں طارق بن زیاد سلطان صلاح الدین ایوبی اور محمد بن قاسم جیسے نڈر لوگوں کا پیدا ہونا ناپید ہو گیا ہے ۔ اب بس ہمارا جذبہ ایمانی چھوٹے موٹے جلوس کی شکل میں ابھرتا ہے جو تین چار ٹی وی کیمرہ مینوں کے شاٹس تک رہتا ہے اور پھر فیس بک کی ڈی پی ؛ ایک دو ٹویٹ یا پھر کسی بیڈ روم کی سیاست کی نذر ہو جاتا ہے ۔ آج ان مسلمانوں کی اشد ضرورت ہے جن کے متعلق کسی شاعر نے کہا تھا ۔
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن۔
 

فاخر رضا

محفلین
جب ہم کہتے ہیں اسٹاپ کلنگ تو ہمارے دماغ میں اسکی ایک تصویر بنتی ہے اس میں ایک شخص کو قتل کیا جارہا ہوتا ہے. ہمارا دماغ خدا نے اسی طرح بنایا ہے کہ وہ الفاظ میں نہیں تصویروں میں سوچتا اور دیکھتا ہے. کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ اگر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو برائے مہربانی انسان کی انفرادی اور اجتماعی نفسیات مد نظر رکھیں. آپ اپنی ڈی پی وغیرہ مثبت رکھیں، ایسی جس سے ذہن میں خون خرابے کی بجائے امن و آشتی کی تصویر ابھرے. تلوار، جنگ، قتل، مصیبت اور اسی طرح کے الفاظ انسان کے لاشعور میں کس طرح مثبت تصویر بنا سکتے ہیں.
جو ظلم سے مرا وہ مظلوم ہے اس ظلم کی مذمت کریں، مظلوم کو ہیرو مت بنائیں. وہ بیچارہ مرنے کی نیت سے گھر سے نہیں نکلا تھا. مرنے اور مارنے کو اس سہل نہ بنا دیں
یہ جواب خالص سائنسی تحقیق کی روشنی میں دیا گیا ہے اس میں جذبات شامل نہیں ہیں
 
Top