سچ ! محبت مجھے آپ جوانوں سے ہے !!

باذوق

محفلین
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
ہاں ! محبت مجھے آپ جوانوں سے ہے !!

نہیں ! میں یہ نہیں کہہ رہا کہ میں کسی تبلیغ کے ارادے سے آپ کے درمیان چلا آیا ہوں۔ میں آپ کو بور کرنے نہیں آیا دوستو ! میں آپ کی خوشیوں میں بھنگ ڈالنا نہیں چاہتا۔ میں وہ نہیں ہوں جو آپ سمجھ رہے ہیں ۔۔۔۔
آج کے دن ، چاہے وہ جو کچھ بھی ہو ۔۔۔ آپ یہ جو خوشیاں منا رہے ہیں ۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ میں بھی اپنے دلی جذبات کا اظہار آپ کے سامنے کروں ۔۔۔۔ ایک بار پھر دہرا دوں کہ کوئی خشک تبلیغی لکچر یا کوئی تنبیہ یا ایسا کرو ویسا نہ کرو جیسی باتیں میرا مقصد نہیں ۔۔۔۔۔

یقین کیجیے کہ مجھے آپ سے محبت ہے !!!
میں مایوسی میں نہیں "امید" میں یقین رکھتا ہوں ۔۔۔۔ مجھے لگتا ہے کہ شاید اگلے سال یا شاید اس سے اگلے سال اسی دن کا سورج کچھ یوں طلوع ہو کہ ۔۔۔
  • آپ نوجوانوں کے ہاتھوں میں یہ جو سرخ گلاب نظر آتے ہیں ، کل یہی ہاتھ قلم اور کتاب تھام لیں
  • کیا پتا کہ ۔۔۔۔۔ آج کی-بورڈ پر آپ کی انگلیاں صنف مخالف کو مخاطب کرتی ہیں ، کل یہی انگلیاں علم و تحقیق کے سمندروں کو کھنگالیں
  • کیا پتا کہ ۔۔۔۔۔ آج جن کے ہاتھوں میں زبردستی کے کلاشنکوف تھمائے گئے ہیں ، کل مسیحا بن کے زخمیوں اور بیماروں کی نبض ٹٹولیں
  • کیا پتا کہ ۔۔۔۔۔ آج جنہیں فرقہ ، مسلک ، جماعت ، گروہ کے ٹکڑوں میں بانٹا گیا ہے ، کل وحدتِ امت کا نشان بن کے جگمگائیں
  • کیا پتا کہ ۔۔۔۔۔ آج جو سوالی بن کے در بہ در بھٹک رہے ، کل اپنے در سے سوغات لٹائیں ۔۔۔

ہر سال ایک یہ دن آتا ہے۔ سب کے نزدیک ایک نیا جذبہ ، نئی امید ایک نئی صبح روشن ہوتی ہے۔
لامحالہ سی اک سوچ ذہن میں در آتی ہے کہ۔۔۔ ایسی کیا کمی پیدا ہو گئی کہ خوشیوں کی ، امنگوں کی اور فلاحِ انسانیت کی جو صبح طلوع کرنے اور کرانے کی ذمہ داری ہم جیسی امت وسط پر لاگو ہوتی ہو وہ غیروں نے اپنے مخصوص طریقے ، لاپرواہ مزاج اور اپنے بےلگام جذبات کے تحت شروع کر دی ہے؟!
ہاں شاید ! جب ہم اخلاق و کردار کے کسی اعلیٰ معیار پر پہنچ جائیں تو ان شاءاللہ ہم کسی کی نقالی نہیں بلکہ دوسرے ہمارے کردار اور ہماری خوشیوں کی تقلید کرنے پر مجبور ہوں گے ۔۔۔۔
مگر کیا یہ اتنی ہی آسان بات ہے؟
نہیں دوستو !!
اگر یہ اتنی ہی آسان بات ہوتی تو مفکر اسلام کی روح یوں تڑپ نہ اٹھتی کہ وہ بول اٹھے تھے ۔۔۔۔

یارب دِل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے، جو روح کو تڑپا دے

پھر وادئ فاراں کے ہر ذرّے کو چمکا دے
پھر شوقِ تماشا دے، پھر ذوقِ تقاضا دے

اس دور کی ظلمت میں ہر قلبِ پریشاں کو
وہ داغ محبت دے، جو چاند کو شرما دے

بے لوث محبت ہو، بیباک صداقت ہو
سینوں میں اجالا کر، دل صورتِ مینا دے


اے میرے عزیز نوجوان !
کہ تری شان کے بارے میں علامہ نے تو فرمایا تھا :
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان

قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان

یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے ، حقیقت میں ہے قرآن!


اک روشن صبح کی امید میں دعا کی تھی علامہ مرحوم نے ۔۔۔۔۔
آج پھر وہی دعا دہرانے کو جی چاہتا ہے :
اپنے پروانوں کو پھر ذوقِ خود افروزی دے
برقِ دیرینہ کو فرمانِ جگر سوزی دے

آنکھ کو بيدار کر دے وعدۂ ديدار سے
زندہ کر دے دل کو سوز جوہر گفتار سے

عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے
نگاہ مسلماں کو تلوار کر دے

دلوں کو مرکز مہر و وفا کر
حریم کبریا سے آشنا کر
جسے نان جویں بخشی ہے تو نے
اسے بازوئے حیدر بھی عطا کر

ضمیر لالہ میں روشن چراغ آرزو کر دے
چمن کے ذرے ذرے کو شہید جستجو کر دے!!


بس دوستو !
مجھے تو کچھ اتنا ہی کہنا تھا کہ ۔۔۔

"غیروں" سے بہتر ہے "مسلمان" بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ !!​
 
Top