سچی کہانیاں

sachi-kahanian-2-300x336.jpg

بدلہ
ہندوستان میں شیرشاہ نام کا ایک ایسا بادشاہ گزرا ہے جس کے احسانوں کو ہندوستان کے لوگ رہتی دنیا تک نہ بھولیں گے۔ وہ بڑا بہادر، نہایت سمجھدار، انصاف پسند اور منتظم بادشاہ ہوا ہے۔ اُس نے رعایا کی بھلائی کے لیے بڑے بڑے کام کیے اور ایسے قوانین بنا گیا کہ آج تک یہاں کی حکومت اُن سے فائدہ اُٹھا رہی ہے۔ انصاف کرنے میں تو اس کا یہ حال تھا کہ اُس کے بیٹے بھی اُس سے کانپا کرتے تھے۔​
ایک بار اُس کا بیٹا عاقل خاں ہاتھی پر سوار جارہا تھا۔ راستے میں ایک بنیے کا گھر پڑتا تھا۔ بنیے کے گھر کی دیواریں نیچی تھیں۔ بنیے کی بیوی اُس وقت نہا رہی تھی۔ شہزادے نے اُسے دیکھا تو شرارت سوجھی۔ اُس نے پان کی گلوری عورت پر پھینکی اور ہنستا ہوا چلا گیا۔ گلوری عورت پر گری تو اُس نے اوپر دیکھا۔ ہاتھی پر شہزادے کو دیکھ کر شرم سے پانی پانی ہوگئی۔ شرم کے مارے اُس نے چاہا کہ چھُری سے اپنا خاتمہ کرلے۔ بنیے نے روکا اور کہا گھبرانے کی بات نہیں میں بادشاہ کے پاس جاتا ہوں بادشاہ بڑا خداترس اور رعایاپرور ہے۔ انصاف کے معاملے میں وہ کسی کی رعایت نہیں کرتا۔ میں بھی اپنی بے عزتی کا بدلہ شہزادے سے لیتا ہوں۔​
بیوی کو سمجھا بجھا کر بنیے نے بادشاہ سے فریاد کی۔ شہزادے پر مقدمہ ہوگیا۔ عدالت کے سامنے بنیے نے ساری کہانی سُنائی۔ شیرشاہ نے شہزادے کی طرف دیکھا اور ڈانٹ کر کہا کمبخت تو خدا کے غضب سے نہیں ڈرتا۔ اس کے بعد حکم دیا کہ بنیا ہاتھی پر سوار ہو اور شہزادے کے محل کی طرف گزرے۔ شہزادے کی بیوی کو اس کے سامنے کیا جائے اور بنیا اُس پر پان کا بیڑا پھینکے۔​
اب دربار میں ہل چل مچ گئی۔ بادشاہ کے امیروں، وزیروں نے بادشاہ کو بہت سمجھایا کہ یہ سزا مناسب نہیں۔ اگر شہزادے کو سزا دینی ہی ہے تو دوسری سزا دی جائے۔ لیکن شیرشاہ اپنے فیصلے پر اڑ گیا۔ اُس نے کسی کی ایک نہ سنی۔ جواب دیا کہ میری نظر میں راجا اور پرجا سب برابر ہیں۔ فیصلہ اب بدلا نہیں جاسکتا۔ بادشاہ کا یہ فیصلہ سُن کر بنیے کا یہ حال ہوا کہ وہ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا۔ ’’مائی باپ! بس میرا انصاف ہوگیا۔ میں اپنے دعوے سے ہاتھ اُٹھاتا ہوں۔‘‘​
بنیے کی بات سُن کر بادشاہ کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا۔ حکم دیا کہ اُسے خوش کردو۔ پھر اشرفیوں کی تھیلیاں اُسے دیں۔ امیروں، وزیروں نے بھی اپنے پاس سے انعام دیا۔ شہزادے نے معافی کا حال سُنا تو اُس نے بنیے کے پاس زیورات کی کشتی بھیجی۔​
شکار کرنے چلے تھے
نواب حافظ رحمت خاں ہندوستان کے اُن نیک اور نامور حکمرانوں میں سے تھے جو اپنی بہادری اور انصاف پروری میں اپنی مثال آپ تھے۔ نواب صاحب کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ اُن کی حکومت میں سارے کام خداترسی کے ساتھ شریعت کے مطابق ہوں۔ جن لوگوں نے نواب صاحب کی تاریخ لکھی ہے وہ سب گواہ ہیں کہ حافظ صاحب کے عہدِحکومت میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے۔​
ایک روز حافظ صاحب کے صاحبزادے حافظ محمدیارخان پبلی بصیت کے جنگل میں شکار کو گئے۔ جنگل کے قریب پہنچے تو اپنے ساتھیوں اور ہاتھی گھوڑوں کو تو گائوں میں چھوڑا۔ صرف محمدخاںخلجی کو ساتھ لیا۔ یہ سردار شکار میں بڑا ماہر تھا۔ ابھی جنگل میں داخل نہیں ہوئے تھے کہ کچھ ہرن دکھائی دیے۔ ان کا پیچھا کیا۔ قریب پہنچے تو حافظ محمدیارخاں ایک جگہ گھات میں بیٹھے اور محمدخاںخلجی کو حکم دیا کہ ہرنوں کو گھیر کر سامنے لائو۔​
محمدخاں خلجی چلا تو اُس وقت گائوں کا ایک شخص اُس طرف آنکلا۔ محمدخاں نے اُسے ہرنوں کی طرف جانے سے منع کیا لیکن وہ نہ مانا۔ آگے بڑھتا چلا گیا۔ اُس کے پائوں کی آہٹ پا کر ہرن بھاگ گئے اور آن کی آن میں نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ محمدخاں کو بڑا غصہ آیا۔ اس نے گنوار کو گالی دی اور کہا ’’تجھ کو کیا ہوگیا تھا کہ تو نے میری بات نہیں سنی اور میرا شکار نکال دیا۔‘‘​
گالی کے جواب میں گنوار نے بھی گالی دی اور بولا ’’میں تیرے واسطے اپنا راستہ کیوں چھوڑ دیتا؟‘‘ اس جواب پر محمدخاں نے اُس کے منہ پر طمانچہ مارا۔ وہ طمانچہ کھا کر بھاگا اور اپنے سات آدمیوں کو بلالایا اور ان کی کمک پا کر محمدخاں کے سر پر لاٹھی دے ماری۔ محمدخاں فوجی سردار اور بڑا قوی آدمی تھا۔ زخم کھا کر اس سے لپٹ گیا اور دے پٹکا۔ اُسی وقت حافظ محمدیار خاں بھی آگئے۔ لڑائی کا یہ رنگ دیکھا تو چھری محمدخاں کے ہاتھ میں تھما دی۔ محمدخاں کے ہاتھ میں چھری دیکھ کر دوسرے دیہاتی لاٹھیاں لے کر پل پڑے اور لڑنے لگے۔​
یہ دونوں بہترین سپاہی تھے۔ سات آٹھ آدمیوں کو خاطر میں کیا لاتے۔ لیکن لاٹھیوں کی چوٹوں سے نہ بچ سکے۔ لڑ ہی رہے تھے کہ حافظ محمدخاں کے سوار اور پیادے اُن کو ڈھونڈتے ہوئے آگئے۔ گائوں والوں نے لشکری آدمیوں کو دیکھا تو سمجھے کہ یہ دونوں یا تو شہزادے ہیں یا بڑے آفیسر۔ اب وہ سر پر پائوں رکھ کر بھاگے۔ جنگل میں گھس کر اِدھر اُدھر چھپ گئے۔ حافظ محمدیارخاں نے اپنے آدمیوں کی مدد سے ان کو تلاش کرایا مگر ایک بھی ہاتھ نہ لگا۔ مجبور ہو کر ساتوں دیہاتیوں کی بیل گاڑیاں جو قریب ہی تھیں اور ایندھن سے لدھی تھیں۔​

کھینچ کر پبلی بصیت لے گئے۔ تیسرے چوتھے دن دیہاتی ملک سیرخاں گورنر پبلی بصیت کے پاس پہنچے اور درخواست دی کہ کوئی شخص ہماری گاڑیاں جنگل سے ہانک کر پبلی بصیت لے آیا ہے۔ گورنر نے پوچھا تم پہچانتے ہو؟ بولے ’’جی ہاں۔ مگر ہم ملزموں کے بارے میں نواب صاحب کے سامنے کچھ عرض کریں گے۔‘‘ ملک صاحب نے مقدمہ درج کرکے نواب صاحب کی خدمت میں بھیج دیا۔ وہاں سے ان سب کی طلبی ہوئی تو فریاد کی کہ حضور کے صاحبزادوں میں سے کوئی ہماری گاڑیاں اور بیل جنگل سے لے آیا ہے۔​
نواب صاحب نے وجہ پوچھی تو دیہاتی گھبرائے اور سوچا کہ قصور تو اپنا ہے وہ کچھ کہہ نہ سکے۔ نواب صاحب نے اطمینان دلایا کہ پورا پورا انصاف کیا جائے گا۔ گھبرائو نہیں۔ مگر دیہاتی انصاف کا نام سُن کر بوکھلا گئے تو جان بخشی کی درخواست کے بعد پورا حال سچ سچ کہہ دیا۔ نواب صاحب نے حکم دیا کہ بیل گاڑیاں معہ سامان اور ملزم حاضر کیا جائے۔ اس حکم کے بموجب حافظ محمدیار خاں عدالت میں حاضر ہوئے تو نواب صاحب نے بیٹے کو ڈانٹا اور کہا ’’تم ان بے گناہوں کا مال کیوں چھین لائے؟‘‘
بیٹے نے عرض کیا ’’حضور! اس کا سبب ان سب سے پوچھ لیا جائے ۔‘‘ اور پھر اپنے زخم دکھائے۔ محمدخاں خلجی نے بھی اپنا سر اور کندھا کھول کر دکھایا۔​
دیہاتیوں کی زیادتی ثابت ہوگئی لیکن نواب صاحب نے فیصلہ سنایا: ’’ان بے چارے بے خبر لوگوں کا کوئی قصور نہیں۔ تم خود اس کے ذمہ دار ہو۔ خبردار پھر کبھی ایسی جرأت نہ کرنا۔ چونکہ یہ دیہاتی بے خبر تھے اس لیے ان سے کوئی مواخذہ نہیں ہوسکتا۔ جائو ان کی بیل گاڑیاں اور سامان واپس کردو اور انہیں راضی کرکے خوش کرو۔‘‘ حافظ محمدیارخاں اور محمد خاں خلجی نے یہ فیصلہ غنیمت سمجھا اور بہت کچھ دے دلا کر راضی نامہ داخل کردیا۔ دیہاتی خوشی خوشی لوٹ گئے۔​
عارضی رہائش گاہ
امیرالمومنین مہدی نے ایک نیا محل تعمیر کروایا۔ خلیفہ نے فرمایا ’’کسی شخص کو اس محل کے نظارے سے منع نہ کیا جائے۔ناظرین یا تو دوست ہوں گے یا دشمن۔ اگر دوست ہوں گے تو محل دیکھ کر خوش و خرم ہوں گے اور ہمیں دوستوں کی خوش دلی مطلوب ہے اور اگر دشمن ہیں تو رنج اُٹھائیں گے اور دل کوفتہ ہوں گے اور ہر شخص کی یہی مُراد ہوتی ہے کہ دشمن کو رنج پہنچائے۔ نیز شاید وہ کوئی عیب ڈھونڈیں اور کوئی خلل کی بات بتائیں اور اس سے کوئی نتیجہ اخذ کرکے اُس نقص کو دور کیا جائے۔ ایک فقیر نے کہا کہ اس محل میں دو نقص ہیں۔​
’’ایک یہ کہ آپ اس میں ہمیشہ نہ رہیں گے۔ دوسرا یہ محل ہمیشہ نہ رہے گا۔‘‘ خلیفہ اس کلام سے اس قدر متاثر ہوا کہ وہ محل غربا اور فقرا کے لیے وقف کردیا۔ بیوہ کا جھونپڑا
خلیفہ الحکم بن خلیفہ عبدالرحمن ثالث کو اپنا محل بنوانا تھا۔ اتفاق سے جو زمین پسند کی گئی اُس میں ایک غریب بیوہ کا جھونپڑا آتا تھا۔ اس بیوہ کو کہا گیا کہ یہ زمین قیمتاً دے دے۔ مگر اُس نے انکار کیا۔ خلیفہ نے زبردستی اُس زمین پر قبضہ کرکے محل بنوا لیا۔ اس بیوہ نے قاضی کی خدمت میں حاضر ہو کر اُس کی شکایت کی۔ قاضی نے اُسے تسلی دے کر کہا کہ تم اس وقت جائو میں کسی مناسب موقع پر تیرا انصاف کرنے کی کوشش کروں گا۔​
خلیفہ الحکم جب پہلے پہل محل اور باغ ملاحظہ کرنے گیا تو اُسی وقت قاضی بھی وہاں خود ایک گدھا اور ایک خالی بوری لے کر گیا اور خلیفہ سے وہاں سے مٹی لینے کی اجازت چاہی۔ اجازت دے دی گئی۔ قاضی نے اُس بورے میں مٹی بھر کر عرض کی کہ مہربانی فرما کر اس بورے کے اُٹھانے میں اس کی مدد کی جائے۔ خلیفہ نے اسے ایک مذاق سمجھا اور بورے میں ہاتھ لگا کر اُٹھانے کی کوشش کی۔ چونکہ وزن زیادہ تھا خلیفہ سے ذرا بھی نہ اُٹھا۔ اُس وقت قاضی نے کہا ’’اے خلیفہ! جب تو اتنا سا بوجھ اُٹھانے کے قابل نہیں تو قیامت کے دن جب ہم سب کا مالک انصاف کرنے کے لیے عرش پر جلوہ افراز ہوگا اور جس وقت وہ غریب بیوہ جس کی زمین تو نے بزور لے لی ہے اپنے پروردگار سے انصاف کی خواہاں ہوگی تو اس تمام زمین کے بوجھ کو کس طرح اُٹھا سکے گا؟‘‘ خلیفہ اس تقریر سے بہت متاثر ہوا اورفوراً اس محل کو معہ تمام چیزوں کے اس بیوہ کو عطا کردیا۔​
بشکریہ اردوڈائجسٹ
 

نایاب

لائبریرین
رہے نام سدا اللہ کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ان انسانوں کا
جو عمل کر فنا کی جانب چل نکلے ۔ اور ان کے " اچھے برے " ہر دو اعمال ان کے ناموں کو دوام بخش گئے ۔۔۔۔۔
 
Top