سٹک اینڈ کیرٹ کی امریکی پالیسی اور ہمارا قومی مفاد

صدر بارک حسین اوبامہ نے دھمکی دی ہے کہ اگر پاکستان نے دہشت گرد گروپوں کے خلاف مئوثر کارروائی نہ کی تو امریکہ افغانستان سے متصل پاکستان کے مغربی اور جنوبی سرحدی علاقوں میں خود کارروائی کریگا۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق سکیورٹی ایڈوائزر جیمز جونزکے ذریعے صدرآصف علی زرداری کو بھیجے گئے خط میں امریکی صدر نے پاکستان کو دہشت گرد گروپوں کے خلاف مئوثر کارروائی کی صورت میں مزید فوجی اور معاشی امداد کی پیشکش کی ہے۔
پاکستان گزشتہ آٹھ سال سے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں مصروف ہے پاکستان نے القاعدہ کے سب سے زیادہ رہنما گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کئے، طالبان اور القاعدہ کے خلاف کارروائی کے ردعمل میں پاکستان کو دہشت گردی اور خودکش حملوں کا سامنا کرنا پڑا ۔امریکہ اور نیٹو کے افغانستان میں جتنے فوجی ہلاک ہوئے ان سے چار گنا زیادہ پاکستانی فوجیوں نے جام شہادت نوش کیا جبکہ اس جنگ کی وجہ سے پاکستان کے قرضوں کا حجم تیس ارب ڈالر سے بڑھ کر پچپن ارب ڈالر ہوگیا ہے۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی ریکارڈ پر ہیں کہ پاکستان نے اس جنگ پر 35 ارب ڈالر خرچ کئے جبکہ عالمی برادری کی طرف سے پاکستان کو کل دس ارب ڈالر ملے، خسارے کے اس سودے کی وجہ سے پاکستان کی سلامتی خطرے میں پڑ چکی ہے پاک فوج مشرقی سرحد سے توجہ ہٹا کر وزیرستان اور دیگر علاقوں میں مصروف ہے اور امریکہ کے دشمن اپنے ہی کلمہ گو مسلمانوں کے خلاف کارروائی پر مجبور ہے جس کا فائدہ اٹھا کر بھارت نہ صرف مشرقی سرحد پر دبائو بڑھا رہا ہے اسکا چیف جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے اور کشمیر میں بھی حق خودارادیت کی جدوجہد کرنے والے عوام کے خلاف بہیمانہ کارروائیوں کا دائرہ وسیع کر چکا ہے۔اس نے امریکہ کو اپنا ہم خیال بنا لیا ہے اوراسرائیل بھی اسکا اتحادی بن چکا ہے۔
پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں شمولیت کے عوض قومی معیشت کی بحالی، مسئلہ کشمیر کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل اور ایٹمی اثاثوں کے تحفظ کی جو امیدیں امریکہ اور عالمی برادری سے وابستہ کی تھیں وہ تو پوری نہیں ہوئیں الٹا معیشت زبوں حالی کا شکار ہوگئی مسئلہ کشمیر پر پاکستان کو اپنے تاریخی اور منصفانہ موقف سے پیچھے ہٹنے پرمجبور کیا گیا پھر بھی مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوا بلکہ من موہن سنگھ اس مسئلہ پر مذاکرات کیلئے بھی آمادہ نہیں اور ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں بھی غیر محفوظ ہونے کا اس قدر پروپیگنڈا کیا گیا ہے کہ اب بھارت بھی اس پروپیگنڈے کو آگے بڑھانے میں مصروف ہے حالانکہ گزشتہ دنوں اس کے اپنے ایٹمی پلانٹ کی لیکیج کی خبریں آئی ہیں اور اس سے بعض اشیاء غائب ہوئی ہیں۔ بھارت دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کو ناکام بنانے کیلئے بلوچستان اور وزیرستان میں مداخلت کر رہا ہے جس کا اعتراف امریکی عہدیدار اور ذرائع ابلاغ بھی کر رہے ہیں لیکن امریکی صدر افغانستان کے بارے میں نئی پالیسی کے حوالے سے وزیراعظم من موہن سنگھ سے فون پر مشو رہ کرتے ہیں جبکہ پاکستان کو اعتماد میں لینے کے بجائے ڈومور کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
پوری دنیا جانتی ہے کہ افغانستان میں امریکی اور نیٹو فورسز کو اب تک کوئی بڑی کامیابی نہیں ملی امریکی سینٹ کمیٹی کی رپورٹ میں یہ انکشاف سامنے آچکا ہے کہ تورا بورا کے غاروں میں امریکی فوج اسامہ بن لادن کے قریب پہنچ چکی تھی مگر بش انتظامیہ نے مزید فوج اور وسائل مہیا کرنے سے انکار کردیا جس کی وجہ سے یہ مشن ناکام رہا۔ صرف اسامہ بن لادن ہی نہیں، ملا عمر اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاری کے حوالے سے امریکی اور نیٹو فوج کی نالائقی اور ناکامی کا اعتراف امریکی اور یورپی ذرائع ابلاغ کر رہے ہیں جبکہ تیس ارب ڈالر سالانہ کی لاگت سے مزید تیس ہزار فوجی افغانستان بھیجنے کی مخالفت بھی اسی بنا پر کی جا رہی ہے کہ یہ ناکام مشن ہے امریکی رکن کانگریس ڈینس کاسٹیج نے کھل کر کہا ہے کہ افغانستان امریکی فوجیوں کا قبرستان بننے والا ہے جبکہ سنیٹر رچرڈ لوگر نے بھی یہ سوال اٹھایا ہے کہ اوبامہ مزید فوج افغانستان کیوں بھیجنا چاہتے ہیں حالانکہ سابقہ کارکردگی بھی کسی سے مخفی نہیں اور امریکہ دلدل میں دھنس چکا ہے۔
ان حالات میں پاکستان سے قبائلی علاقوں میں مزید کارروائی اور لشکر طیبہ، حقانی نیٹ ورک وغیرہ کے خلاف کریک ڈائون کا مطالبہ افغانستان میں کامیابی کے لئے نہیں بلکہ پاکستان کو بھی افغانستان کی طرح بچوں کا کھیل بنانے اور اس کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کرنے کی ایسی سازش ہے جس کا ادراک ہماری سیاسی حکومت اور فوجی قیادت کو کرنا چاہئے یہ قبائلی علاقوں میں امریکی فوج کی براہ راست کارروائی کے لئے راہ ہموار کرنا ہے ڈرون حملوں پر ہماری حکومت کی خاموشی بلکہ تعاون اور امریکہ کے دبائو پر جنوبی وزیرستان میں کارروائی کے بعد امریکی انتظامیہ کے حوصلے بڑھ گئے ہیں اور وہ دو طرفہ دبائو بڑھا کر اپنی فوج کی زمینی کارروائی کی راہ ہموار کر رہی ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کی اندرونی خودمختاری، سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں جس طرح امریکہ نے 1992ء میں عراق کے صدر صدام حسین کو ایسی کارروائیوں پر مجبور کیا جس کی وجہ سے عراق کی قوت مزاحمت ختم ہوئی اور وہ براہ راست امریکی کارروائی کے وقت جوابی کارروائی کے قابل نہ رہا اسی طرح پاکستان کو بھی عراق کے انجام کی طرف دھکیلا جا رہا ہے جو امریکہ، بھارت اور اسرائیل پر مشتمل شیطانی اتحاد ثلاثہ کی گریٹ گیم ہے براہ راست کارروائی کی دھمکی کے بعد امریکی عزائم ڈھکے چھپے نہیں رہے اور یہ پاک فوج کی طرف سے آپریشن راہ نجات پر عدم اعتماد ہے اس لئے حکومت پاکستان کو اب مزید امریکی دبائو برداشت کرنے اور بھارت کیلئے تر نوالہ بننے کے بجائے اپنی آزادی، خودمختاری سلامتی اور اقتدار اعلیٰ کیلئے کوئی جرات مندانہ پالیسی اختیار کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے طویل المیعاد سٹرٹیجک شراکت کی دعوت اور قبائلی علاقوں میں براہ راست کارروائی کی دھمکی کیرٹ اینڈ سٹک کی امریکی پالیسی کا حصہ ہے جس کا مقابلہ دبائو اور لالچ کا شکار ہوئے بغیر قومی عزت و وقار اور ملکی آزادی و سلامتی کو ہر بات پر ترجیح دینے اور عوام کے تعاون سے اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی غیرت مندانہ پالیسی کے ذریعے کیا جا سکتا ہے امریکہ کو اپنی شکست نظر آ رہی ہے وہ اس شکست کو پاکستان کے ذریعے فتح میں بدلنے کا خواہش مند ہے یہ ہمیں سوچنا چاہئے کہ افغانستان برطانیہ اور روس کے بعد امریکہ کا قبرستان بن رہا ہے تو ہم ایک ہاری ہوئی سپر پاور کو اپنا کندھا پیش کرکے اپنی تباہی و بربادی کو دعوت کیوں دیں امریکہ کے بعد ہم کیوں طویل خانہ جنگی کا نشانہ بنیں اور اپنے قومی مفادات کو دائو پر لگا کر افغانوں کی مستقل دشمنی مول لیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اوبامہ کے خط کا جواب قومی امنگوں اور غیرت و حمیت کے تقاضوں کے مطابق دیا جائے کیونکہ یہ وقت کا تقاضا ہے۔
جناب وزیر اعظم، آئین کا پارلیمانی جمہوری تشخص بھی بحال کرائیں!
وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ہم درست سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں اور میری حکومت یا جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں، حکومت میں چلا رہا ہوں، صدر زرداری نہیں، گزشتہ روز جرمنی روانگی کے وقت چکلالہ ائربیس پر اخبارنویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صدر زرداری نے نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کے چیئرمین کے اختیارات انہیں تفویض کر دئیے ہیں جس سے ان کے اور صدر کے مابین تعلقات کی حقیقی صورتحال ظاہر ہوتی ہے۔ ان کے بقول صدر زرداری صدر وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کے درمیان طاقت کے توازن پر یقین رکھتے ہیں اور اسی بنیاد پر وہ 17 آئینی ترمیم اور دفعہ 58/(2)b کی تنسیخ چاہتے ہیں۔
یقیناً وہ ملک میں جمہوریت کی عملداری اور آئین و قانون کی حکمرانی کی مثالی صورتِ حال ہو گی جب صدر آئین کی 17 ویں ترمیم کے تحت حاصل دفعہ 58/(2)b کے اختیارات سے دستبردار ہو جائیں گے اور آئین کے وفاقی پارلیمانی جمہوری ڈھانچے کو بحال کر دیا جائے گا۔ جب ملک میں فی الواقع وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہو تو وزیر اعظم کو یہ باور کرانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ حکومت وہ چلا رہے ہیں کیونکہ پارلیمانی جمہوری نظام میں وزیر اعظم ہی سربراہ حکومت ہوتا ہے اور صدر وزیر اعظم کی ایڈوائس پر اپنے فرائض منصبی ادا کرتے ہیں جن میں صدر کے صوابدیدی اختیارات کا تصور تک نہیں ہوتا۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں جمہوریت کی عملداری کی یہ مثالی صورتحال کبھی نہیں بن پائی اور جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے ماورائے آئین جرنیلی ادوار کے دوران آئین میں ترمیم کر کے سربراہ حکومت کے اختیارات بھی صدر کی ذات میں منتقل کر دئیے گئے اور ان میں صوابدیدی اختیارات کا بھی اضافہ کر دیا گیا جس کے نتیجہ میں آئین کا حلیہ ہی بگڑ گیا اور وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام عملاً فرد واحد کے آمرانہ نظام میں تبدیل ہو گیا۔ اب جرنیلی آمریت کی لائی گئی ترامیم جب تک آئین میں موجود ہیں۔ وزیر اعظم چاہے جتنے مرضی دعوے کرتے رہیں اور پارلیمانی جمہوریت کا چاہے جتنا بھی ورد کیا جاتا رہے، مروجہ آئین کی بنیاد پر صدر ہی طاقت و اختیار کا سرچشمہ رہیں گے اور بحالی جمہوریت کے باوجود فرد واحد کا آمرانہ نظام ہی رائج و غالب رہے گا۔ صدر کی جانب سے چاہے آرڈیننس کے تحت ہی سہی، چیئرمین کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کے اختیارات وزیراعظم کو منتقل کرنا بلاشبہ خوش آئند اقدام ہے تاہم جب تک آئین میں موجود صدر کے صوابدیدی اختیارات ختم نہیں کئے جاتے جو 17 ویں آئینی ترمیم کی واپسی کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ اس وقت تک موجودہ نظام کو وفاقی پارلیمانی نظام کہا جا سکتا ہے نہ وزیر اعظم پورے آئینی اختیارات کے ساتھ حکومت چلانے کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ اگر حکمران پیپلز پارٹی کو فی الواقع جمہوریت اور آئینی جمہوری اداروں کا استحکام مطلوب ہے تو جرنیلی آمریت کی وضع کی گئی تمام آئینی شقوں سے نجات حاصل کر لی جائے جس کے لئے ہاؤس کے اندر حکمران پارٹی کو مسلم لیگ (ن) اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کا بھرپور تعاون حاصل ہو سکتا ہے۔ اس لئے وزیر اعظم اپنے بااختیار ہونے کے محض دعوے نہ کریں، آئین کے وفاقی پارلیمانی جمہوری تشخص کو بحال بھی کرائیں جس کے بعد انہیں اپنی حکمرانی کا احساس دلانے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئے گی۔
پٹرول، بجلی اور چینی بم
لوگ ابھی عید کی خوشیاں منا رہے تھے کہ حکومت کی طرف سے بیک وقت پٹرول‘ بجلی اور چینی کے بم گرا دئیے گئے۔ اوگرا نے پٹرول کی قیمت میں 4 روپے 37 پیسے اور ڈیزل کی قیمت میں 5 روپے 25 پیسے اچانک اضافہ کر دیا۔ یہ اضافہ ان حالات میں کیا گیا کہ گزشتہ سات ہفتے سے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت مسلسل گر رہی ہے اور گزشتہ روز 6 ڈالر فی بیرل کم ہوئی۔ اوگرا ترجمان نے قیمتوں میں اضافے کا پھر ’’لاجواب‘‘ جواز تراشا ہے کہ اضافہ عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے باعث کیا گیا حالانکہ تیل فروخت کرنے والے ادارے میڈیا کو نرخوں میں کمی کے اعداد و شمار فراہم کر رہے ہیں ایک طرف لوگ پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں موجودہ اضافے سے منافع خوروں‘ ٹرانسپورٹروں کو من مانے نرخ اور کرائے مقرر کرنے کا موقع مل جائیگا۔ دوسری طرف نیپرا نے بھی یکم جنوری سے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کر دیا۔ بجلی کی قیمتوں میں ہر دو تین ماہ بعد اعلانیہ اور غیر علانیہ اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ موجودہ اضافہ ڈیڑھ روپے یونٹ تک کیا گیا ہے۔ اُدھر چینی کے سپریم کورٹ کی طرف سے 40 روپے کلو نرخ مقرر ہونے پر ناپید ہو گئی۔ اگر کسی کو ملی تو نہایت قلیل مقدار میں اور وافر ملی‘ تو 100 روپے کلو تک۔ سپریم کورٹ کی ڈیڈ لائن ختم ہوئی ہے تو حکومت کی طرف سے شوگر ملز مالکان کو فری مارکیٹ اکانومی سسٹم کے تحت قیمت مقرر کرنے کا اختیار دیدیاگیا ہے۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ وہ 50 روپے کلو فروخت کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی چینی مارکیٹ میں آنا شروع ہو گئی ہے۔ حکومت خصوصی طور پر جمہوری حکومت کا کام تو عوام کو ریلیف دینا ہونا چاہئے تکلیف دینا نہیں۔ لیکن لوگ جن کی قوت خرید پہلے ہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ تیل اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد رہی سہی کسر بھی پوری ہو جائے گی۔ ان کا حکومت پر اعتماد بُری طرح مجروح ہو رہا ہے۔ حکومت عوام میں اپنی ساکھ بہتر بنانے کے لئے‘ بجلی اور تیل کی قیمتوں میں کیا گیا اضافہ واپس لے اور چینی کی 40 روپے فروخت یقینی بنانے کے لئے اقدام کرے۔

یہ خبر نواے وقت کے پرنٹ پیپر میں شائع کی گئی ہے
 
Top