سٹار پاور: لامحدود قوت کے حصول کا کامیاب تجربہ

0,,15794729_303,00.jpg

امریکا میں بدھ کے روز کیے گئے ایک تجربے میں زمین پر سورج سے زیادہ قوت کی انرجی پیدا کرنے کا کامیاب تجربہ کیا گیا۔ سائنسدانوں اور محققین کے مطابق یہ کامیابی ایک قدیمی خواب کی تعبیر کے مترادف ہے۔
کئی دہائیوں سے توانائی کے لامحدود حصول کے تجربے پر کام کیا جا رہا تھا۔ بدھ کے روز کیے گئے تجربے کو امریکی سائنسدانوں نے ایک انتہائی بڑی پیش رفت قرار دیا ہے۔ تجربہ امریکی ریاست کیلیفورنیا کے مقام لیورمور میں واقع خصوصی تجربہ گاہ NIF میں کیا گیا۔ اِس تجربے میں شریک سائنسدانوں کی بڑی ٹیم کے سربراہ اومر ہریکین (Omar Hurricane) ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اب تک کی ماورائی لامحدود قوت کے قریب ترین کا یہ تجربہ ہے اور اِس سے قبل ایسی قوت کا حصول ممکن نہیں ہو سکا تھا۔
جنوبی فرانس میں قائم ہونے والا انتہائی طاقتور جوہری ادارہ انٹرنیشنل تھرمو نیوکلیئر ایکسپیریمنٹل ری ایکٹر
0,,4792869_4,00.jpg

اِس تجربے کے لیے ایک ایسا برتن بنایا گیا تھا جو انسانی بال کی موٹائی کا حامل تھا اور اُس میں 192 لیزر بیمز لگائی گئی تھیں۔ ان کے ذریعے چھوڑی گئی انرجی جب آئسوٹوپس سے ٹکرائی تو اُس سے حاصل ہونے والی انرجی کو مزید محدود کر دیا گیا تھا۔ ایک سیکنڈ کے ایک ارب ویں حصے میں نو ہزار سے بارہ ہزار جاؤلز (Joules) کے مساوی توانائی حاصل کی گئی۔ بدھ کے روز کیے گئے تجربے سے حاصل ہونے والی توانائی سابقہ تجربے سے دس گنا زیادہ تھی۔ ایسا ہی ایک تجربہ نومبر سن 2013 میں کیا گیا تھا۔ ایک اور سینئر سائنسدان ڈیبی کیلاہان (Debbie Callahan) کا کہنا ہے کہ ابھی بھی اس تجربے میں مزید پیش رفت کی گنجائش باقی ہے۔
کیلیفورنیا میں کیے گئے تجربے میں ایکس ریز کی بیم کو ایک گولڈ کے سلنڈر میں ڈالا گیا تھا اور اِس سلنڈر میں پہلے سے منجمد آئسوٹوپس ڈیوٹیریم اور ٹریٹیئم کی تہہ جمائی گئی تھی۔ گولڈ سلنڈر کا قطر دو ملی میٹرز کے برابر تھا۔ اس عمل کے دوران ایکس ریز کا استعمال خصوصی سلنڈر کی بیرونی سطح کو توڑنے کے لیے کیا گیا اور پھر نیوکلیائی ادغام کا عمل مکمل ہوا۔ اگر یہی عمل سونے کے ایک باسکٹ بال میں کیا جائے تو وہ جوہری اتصال کے بعد ایک مٹر کے دانے کے برابر رہ سکتا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق اس عمل سے جو قوت پیدا ہوئی، وہ سورج کے مرکزے میں موجود انرجی سے بھی تین گنا زیادہ رہی۔ اس تجربے کے دوران جو پریشر بڑھایا گیا، اُس کا حجم 150 بلین گنا زیادہ طاقتور تھا۔
جوہری اتصال کے لیے خصوصی حفاظتی انتظامات کے علاوہ طاقتور سرنگوں کو تعمیر کیا جاتا ہے
جوہری اتصال کے لیے ہائیڈروجن کے استحکام کے حامل دو آئسوٹوپس ڈیوٹیریم (Deuterium) اور ٹریٹیئم (Tritium) کا ملاپ یا اتحاد کیا جاتا ہے۔ اس عمل کے لیے انتہائی زیادہ درجہٴ حرارت درکار ہوتا ہے۔ ان کے امتزاج سے انتہائی بھاری جوہری پارٹیکلز حاصل کیے جاتے ہیں۔ طبیعیات کے نیوکلیائی اتصال کے حوالے سے سائنسدانوں کا یہ کہنا ہے کہ اِس عمل کے بعد زہریلے فاضل مادے قطعاً نہیں بچتے اور نہ ہی زمین کا ماحول آلودہ ہوتا ہے۔ یہ اتصال ایک مخصوص اور انتہائی محفوظ تجربہ گاہ میں کیا جاتا ہے کیونکہ پیدا ہونے والی انرجی کا دباؤ اور درجہ حرارت اتنا ہی ہوتا ہے جتنا سورج یا اُس کے برابر کے ستاروں پر پایا جاتا ہے۔
0,,5841715_4,00.jpg
دنیا بھر میں فیوژن انرجی کے اس وقت دو ٹریک موجود ہیں۔ ان میں سے ایک این آئی ایف یا National Ignition Facility ہے۔ یہ ادارہ امریکی حکومت کی زیرنگرانی کام کرتا ہے۔ نیوکلیائی اتصال کا یہ امریکی ادارہ ریاست کیلیفورنیا کے مقام لیورمور کی لارنس لیورمور نیشنل لیبارٹری کا حصہ ہے۔ انتہائی طاقتور مقناطیسی قوت کے استعمال کا دوسرا مرکز فرانس کے جنوب میں قائم ہے۔ جنوبی فرانس میں قائم ہونے والا انتہائی طاقتور جوہری ادارہ انٹرنیشنل تھرمو نیوکلیئر ایکسپیریمنٹل ری ایکٹر (International Thermonuclear Experimental Reactor) سن 2019 میں پوری طرح فعال ہو جائے گا۔
تاریخ 13.02.2014
ماخذ
 

شمشاد

لائبریرین
زبردست تخلیقی کام ہے۔
اب اس مثبت کام لیں تو انسانیت کی خدمت ہو سکتی ہے۔ دوسری صورت میں تو تباہی ہی ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
یہاں اس تجربے کے بارے میں کچھ معلومات موجود ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس تجربے کی تیاری میں کئی ہفتے لگے جبکہ تجربہ صرف ایک پیکو سیکنڈ جاری رہا، یعنی ایک سیکنڈ کا بھی ایک اربواں حصہ۔
ایک اور نام جس کا اس مضمون میں ذکر ہے وہ ہے پروفیسرذوالفقار نجم الدین۔ ان کے بارے میں زیادہ معلوم نہیں ہو سکا۔ البتہ یہاں ان کے بارے میں کچھ معلومات موجود ہیں۔
 

محمد سعد

محفلین
عمومی اخبارات کے رپورٹروں سے مجھے یہ شکایت اکثر رہتی ہے کہ وہ سائنسی معاملات کی خبروں کو غیر معمولی حد تک ڈرامائی بنا کر پیش کرتے ہیں جس سے بات کچھ کی کچھ بن جاتی ہے۔ سائنس دانوں کی ترجیح ہوتی ہے کہ درستگی متاثر نہ ہو، جبکہ اخباری رپورٹر کی ترجیح غالباً اس کے یکسر معکوس ہوتی ہے۔ o_O
ان رپورٹروں کو شاید یہ نہیں معلوم ہوتا کہ یہ خبر اپنی اصل "بورنگ" شکل میں بھی دیکھنے والی آنکھوں کے لیے انتہائی دلچسپ اور شاندار ہوتی ہے۔
 

دوست

محفلین
انگریزی سائٹس اس کو کنٹرولڈ فیوژن کی جانب ایک اور قدم قرار دیتی ہیں۔ ترجمہ کرنے والے سنسنی پلے سے ڈال دیتے ہیں۔
 
Top