ظريف صاحب كو كسي سوچ ميں ڈوبا ہوا ديكھا تو علامہ صاحب نے پوچھا :
"خلاف معمول آپ كس سوچ ميں ڈوبے ہوئے ہيں؟"
"علامہ صاحب، ايك نوجوان امريكا گيا اور اس نے ايك سفرنامہ لكھا۔ و ہ بتاتا ہے كہ آپ كسي بھي امريكي كو روك كر بات كريں تو وہ ہميشہ مسكرا كر جواب ديتا ہے ۔ باتيں كرتے ہوئے امريكي جان بوجھ كركوئي نہ كوئي ايسي بات ضرور كرتا ہے جس پر وہ اور دوسرا شخص قہقہہ لگا سكے۔ اگر چلتے چلتے دو اجنبيوں كا سامنا ہو تو دونوں ايك دوسرے كو ديكھ كر مسكراتے ہيں۔ علامہ صاحب اس نوجوان نے بڑے دكھ كے ساتھ كہا كہ ہمارے ملك ميں لوگ مسكرا كر بات كيوں نہيں كرتے، مسكرانے كے ليے تو ترقي يافتہ ہونے كي ضرورت نہيں، اس كے ليے تو پيسوں كي ضرورت نہيں۔ علامہ صاحب ہم ہر وقت بے زار اور اكتائے ہوئے كيوں رہتے ہيں، جس كا منہ ديكھو، بارہ بجے ہوئے ہيں جس كو ملو، غصے ميں جس كو ديكھو، سٹريل۔"
علامہ صاحب كے دوست پروفيسر انور كمال بولے: "آپ كي بات صحيح ہے! اصل ميں ہمارے ہاں لوگ سمجھتے ہيں كہ چہرے پر سنجيدگي طاري كرنے سے ان كے وقار ميں اضافہ ہوتا ہے وہ بارعب لگتے ہيں۔"
اتنے ميں گھر كي بيل بجي۔ باہر گاما دودھ والا آيا۔ علامہ صاحب كا بيٹا برتن لے كر دودھ لينے باہر گيا۔ دودھ دينے كے ليے گامے نے اپني سائيكل ديوار كے سہارے پر كھڑي كي، برتن ميں دودھ ڈالنے كے بعد اپنے سر پر لپٹا ہوا كپڑا اتارا، اپنا منہ صاف كيا ، كپڑے كو كندھے پر ڈالا اور علامہ صاحب سے كچھ فيض حاصل كرنے كے ليے بيٹھك ميں آ كر بيٹھ گيا ۔ اس وقت ظريف صاحب بول رہے تھے :
"علامہ صاحب ميرا تو جي چاہتا ہے كہ ميں امريكا چلا جائوں لگتا ہے وہ لوگ ميرے مزاج كے ہيں ان سڑيل پاكستانيوں كے ساتھ ميں نہيں رہ سكتا۔"اس پرپروفيسر صاحب بولے:
"آج كل وہاں جو حالات ہيں، پھر بھي وہاں جانا چاہتے ہيں؟"
"ميں كون سا كل ہي جا رہا ہوں ويسے بھي وہاں كے حالات جلد ہي نارمل ہو جائيں گے وہ لوگ زيادہ عرصے تك پريشان نہيں رہا كرتے۔"
گاما بولا:
"ظريف صاحب، كيسي باتيں كر رہے ہيں آپ اپنا ملك جيسا بھي ہو، اپنا ہي ہوتا ہے ہاں وہاں كا رونق ميلہ ديكھنے ضرور جائيں پر ميلہ ديكھ كر آجائيں ميلے ميں رہا نہيں جاتا رہا اپنے ہي گھر ميں جاتا ہے۔"
"واہ واہ كيا بات ہے! غلام اللہ صاحب نے تو بڑي گہري بات كر دي ظريف صاحب ، مسكراتے ہوئے چہرے تو اصل ميں ہم لوگوں كے ہونے چاہييں ہمارے نبي كا چہرہ بھي مسكراتا ہوا ہوتا تھا۔ ايك صحابي بتاتے ہيں كہ انھوں نے آپ سے زيادہ تبسم كرنے والا كوئي نہيں ديكھا۔ آپ نے مسكراہٹ كي ترغيب ديتے ہوئے يہ بھي فرمايا ہے كہ مسكراہٹ صدقہ ہے ۔ پھر آپ اپني بيويوں سے اور احباب سے بڑا پاكيزہ ہنسي مذاق بھي كيا كرتے تھے۔"
"اچھا جي واقعي!" گامے نے علامہ صاحب كي بات سن كر خوش گوار حيرت سے پوچھا۔
"ہاں ہاں ايك دفعہ آپ صلي اللہ عليہ وسلم اور حضرت علي ايك جگہ بيٹھے كھجوريں كھا رہے تھے، آپ نے مزاحا كھجوريں كھا كر گٹھلياں حضرت علي كے سامنے ركھني شروع كر ديں۔ تھوڑي دير كے بعد حضرت علي كے سامنے گٹھليوں كا ڈھير بن گيا۔ آپ نے فرمايا : آپ نے بڑي كھجوريں كھائي ہيں۔" اس پر پروفيسرصاحب، ظريف صاحب اور گاما نم ناك آنكھوں سے مسكرانے لگے ۔
"اور معلوم ہے اس پر حضرت علي نے كيا كہا۔ انھوں نے كہا : ميں تو گٹھلياں چھوڑ رہا تھا، آپ گٹھليوں سميت كھاتے رہے ہيں۔"
"واہ واہ يعني صحابہ حضور سے ہنسي مذاق بھي كر ليا كرتے تھے؟" ظريف صاحب نے پوچھا۔
"خلاف معمول آپ كس سوچ ميں ڈوبے ہوئے ہيں؟"
"علامہ صاحب، ايك نوجوان امريكا گيا اور اس نے ايك سفرنامہ لكھا۔ و ہ بتاتا ہے كہ آپ كسي بھي امريكي كو روك كر بات كريں تو وہ ہميشہ مسكرا كر جواب ديتا ہے ۔ باتيں كرتے ہوئے امريكي جان بوجھ كركوئي نہ كوئي ايسي بات ضرور كرتا ہے جس پر وہ اور دوسرا شخص قہقہہ لگا سكے۔ اگر چلتے چلتے دو اجنبيوں كا سامنا ہو تو دونوں ايك دوسرے كو ديكھ كر مسكراتے ہيں۔ علامہ صاحب اس نوجوان نے بڑے دكھ كے ساتھ كہا كہ ہمارے ملك ميں لوگ مسكرا كر بات كيوں نہيں كرتے، مسكرانے كے ليے تو ترقي يافتہ ہونے كي ضرورت نہيں، اس كے ليے تو پيسوں كي ضرورت نہيں۔ علامہ صاحب ہم ہر وقت بے زار اور اكتائے ہوئے كيوں رہتے ہيں، جس كا منہ ديكھو، بارہ بجے ہوئے ہيں جس كو ملو، غصے ميں جس كو ديكھو، سٹريل۔"
علامہ صاحب كے دوست پروفيسر انور كمال بولے: "آپ كي بات صحيح ہے! اصل ميں ہمارے ہاں لوگ سمجھتے ہيں كہ چہرے پر سنجيدگي طاري كرنے سے ان كے وقار ميں اضافہ ہوتا ہے وہ بارعب لگتے ہيں۔"
اتنے ميں گھر كي بيل بجي۔ باہر گاما دودھ والا آيا۔ علامہ صاحب كا بيٹا برتن لے كر دودھ لينے باہر گيا۔ دودھ دينے كے ليے گامے نے اپني سائيكل ديوار كے سہارے پر كھڑي كي، برتن ميں دودھ ڈالنے كے بعد اپنے سر پر لپٹا ہوا كپڑا اتارا، اپنا منہ صاف كيا ، كپڑے كو كندھے پر ڈالا اور علامہ صاحب سے كچھ فيض حاصل كرنے كے ليے بيٹھك ميں آ كر بيٹھ گيا ۔ اس وقت ظريف صاحب بول رہے تھے :
"علامہ صاحب ميرا تو جي چاہتا ہے كہ ميں امريكا چلا جائوں لگتا ہے وہ لوگ ميرے مزاج كے ہيں ان سڑيل پاكستانيوں كے ساتھ ميں نہيں رہ سكتا۔"اس پرپروفيسر صاحب بولے:
"آج كل وہاں جو حالات ہيں، پھر بھي وہاں جانا چاہتے ہيں؟"
"ميں كون سا كل ہي جا رہا ہوں ويسے بھي وہاں كے حالات جلد ہي نارمل ہو جائيں گے وہ لوگ زيادہ عرصے تك پريشان نہيں رہا كرتے۔"
گاما بولا:
"ظريف صاحب، كيسي باتيں كر رہے ہيں آپ اپنا ملك جيسا بھي ہو، اپنا ہي ہوتا ہے ہاں وہاں كا رونق ميلہ ديكھنے ضرور جائيں پر ميلہ ديكھ كر آجائيں ميلے ميں رہا نہيں جاتا رہا اپنے ہي گھر ميں جاتا ہے۔"
"واہ واہ كيا بات ہے! غلام اللہ صاحب نے تو بڑي گہري بات كر دي ظريف صاحب ، مسكراتے ہوئے چہرے تو اصل ميں ہم لوگوں كے ہونے چاہييں ہمارے نبي كا چہرہ بھي مسكراتا ہوا ہوتا تھا۔ ايك صحابي بتاتے ہيں كہ انھوں نے آپ سے زيادہ تبسم كرنے والا كوئي نہيں ديكھا۔ آپ نے مسكراہٹ كي ترغيب ديتے ہوئے يہ بھي فرمايا ہے كہ مسكراہٹ صدقہ ہے ۔ پھر آپ اپني بيويوں سے اور احباب سے بڑا پاكيزہ ہنسي مذاق بھي كيا كرتے تھے۔"
"اچھا جي واقعي!" گامے نے علامہ صاحب كي بات سن كر خوش گوار حيرت سے پوچھا۔
"ہاں ہاں ايك دفعہ آپ صلي اللہ عليہ وسلم اور حضرت علي ايك جگہ بيٹھے كھجوريں كھا رہے تھے، آپ نے مزاحا كھجوريں كھا كر گٹھلياں حضرت علي كے سامنے ركھني شروع كر ديں۔ تھوڑي دير كے بعد حضرت علي كے سامنے گٹھليوں كا ڈھير بن گيا۔ آپ نے فرمايا : آپ نے بڑي كھجوريں كھائي ہيں۔" اس پر پروفيسرصاحب، ظريف صاحب اور گاما نم ناك آنكھوں سے مسكرانے لگے ۔
"اور معلوم ہے اس پر حضرت علي نے كيا كہا۔ انھوں نے كہا : ميں تو گٹھلياں چھوڑ رہا تھا، آپ گٹھليوں سميت كھاتے رہے ہيں۔"
"واہ واہ يعني صحابہ حضور سے ہنسي مذاق بھي كر ليا كرتے تھے؟" ظريف صاحب نے پوچھا۔