سوشل میڈیائی مزاح

رانا

محفلین
نیچے جو تحریر لکھی ہے یہ تمام کی تمام واٹس ایپ اور فیس بک پر نظر آنے والے تصویری لطائف پر مشتمل ہے جو آپ کی نظر سے بھی گزرے ہوں گے۔ ہم نے صرف انہیں ایک ترتیب میں پرو دیا ہے۔ بیٹھے بٹھائے خیال آیا کہ اگر انہیں ایک تحریر کی شکل ٹانکا جائے تو یہ بھی ایک اچھوتا تجربہ ہوگا۔ تو چلیں پھر یہ تجربہ انجوائے کریں۔ دوسرے بھی یہ تجربہ کرکے یہاں شئیر کرسکتے ہیں۔ ویسے اس پر نظر ثانی کرکے ہمیں ڈاکٹر یونس بٹ کی یاد آگئی حالانکہ ان کی تحریریں ہمیں بالکل بھی پسند نہیں۔ بہرحال واٹس ایپ اور فیس بکی لطائف کے خمیر سے اٹھنے والی تحریر کچھ زیادہ اچھی ہوبھی نہیں سکتی تھی۔ خیال رہے کہ یہ صرف ایک تفریحی تجربہ ہی ہے اسے کوئی سیریس لے کر مقصدی مزاح پر لیکچر نہ دینا شروع کردے۔:)

پورا رمضان ہم اس فکر میں رہے کہ کہیں چوری کے وائی فائی سے روزہ تو نہیں ٹوٹ جاتا۔ کسی مفتی سے پوچھتے ہوئے بھی ڈر لگتا تھا کہ کہیں خلاف فتویٰ دے دیا تو رمضان کیسے گزرے گا۔ ابھی کل ہی کی بات ہے ہم ایک کونے میں سب کی نظر بچا کر پانی پی رہے تھے کہ اچانک خیال آیا رمضان تو گزرچکا ہے۔ بس پھر کیا تھا دھڑلے سے ڈنکے کی چوٹ پر دو گلاس چڑھائے اور آستین سے منہ پونچھتے ہوئے پوشیدہ گوشے سے باہر نکل آئے۔ اس سے یہ مطلب بالکل نہ لیا جائے کہ ہم روزہ نہیں رکھتے بس کبھی کبھی رشتہ داروں کی موجودگی میں روزہ نبھانا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہ رشتہ دار بھی عجیب لوگ ہوتے ہیں۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ جو رشتہ دار آپ کی بلاوجہ تعریفیں کرتے رہتے ہیں وہ آپ کے مستقبل کے سسرالی ہوتے ہیں۔ ورنہ بندہ پوچھے کہ ہم جیسے گریس مارکس لے کر پاس ہونے والے میں انہیں کیا قابلیت نظر آتی ہے۔ ہم نے اس بار رزلٹ آنے کے بعد ابا جان کو بڑی متانت سے یاد دلایا کہ آپ نے وعدہ کیا تھا کہ اگر ہم پاس ہوگئے تو آپ ہمیں پانچ ہزار روپے دیں گے۔ اباجان نے کہا ہاں کیا تو تھا۔ ہم نے کہا کہ پھر مبارک ہو۔ اباجان خوشی سے بولے تو کیا پاس ہوگئے۔ ہم نے کہا نہیں آپ کے پانچ ہزار بچ گئے۔ اب یہ مت پوچھیں کہ آگے کیا ہوا۔ کہنے لگے تم نکمے ہی رہنا ساری عمر۔ سامنے والوں کی ببلی کو دیکھو فرسٹ آئی ہے۔ ہم نے کہا اور کتنا دیکھیں اسی کو دیکھ دیکھ کر تو فیل ہوئے ہیں۔ ویسے جب ہم بچپن میں اسکول میں پڑھتے تھے تو اسکول میں کلاس ٹیچر تو ہمیں امتحان کی تیاری کرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑتے تھے۔ ایک بار ریاضی پڑھاتے ہوئے مثال دینے لگے کہ اگر تمہارے دوست کو 200 روپے کی ضرورت ہو اور تم اس کو 500 روپے دے دو تو وہ تمہیں کتنے واپس کرے گا۔ ہم نے جواب دیا کچھ بھی نہیں۔ غصے سے کہنے لگے تم حساب نہیں جانتے۔ ہم نے کہا سر آپ ان بے غیرتوں کو نہیں جانتے۔ بس اس کے بعد ایک ہفتے تک ہم بستر پر پڑے رہے۔ ارے نہیں بھئی آپ غلط سمجھے۔ استاد کی مار کی وجہ سے نہیں بلکہ ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔ ایک خاتون نے ہم پر گاڑی چڑھا دی تھی۔ ڈاکٹر نے مرہم پٹی کرتے ہوئے بڑی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا جب ایک عورت گاڑی چلارہی تھی تو تمہیں سڑک سے دور رہنا چاہئے تھا۔ ہم نے کراہتے ہوئے کہا کون سی سڑک۔ ہم تو پارک میں لیٹے ہوئے تھے۔ بہرحال پھر ایک ہفتے تک چائے اور ڈبل روٹی ہی کھاسکے تھے۔ چائے سے یاد آیا کہ چائے لپٹن ہو یا ٹپال ہمارا بسکٹ تو دونوں میں ہی گرجاتا ہے۔ ہاں تو بات ہورہی تھی اباجان کی۔ اباجان بھی بے چارے مسکین بلی کی طرح گھر میں رہتے ہیں۔ ایک بار امی جان نے بڑی خوشی سے انہیں بتایا کہ آپ کی سالگرہ کے لئے میں نے نیا سوٹ خریدا ہے۔ اباجان نے خوشی سے پوچھا۔ اچھا دکھاؤ تو ذرا کیسا ہے۔ امی کہنے لگیں ایک منٹ ٹھہریں ابھی پہن کر آتی ہوں۔ لیکن اسکا یہ مطلب نہیں اباجان کے رشتہ دار بھی ایسے ہی سیدھے سادھے ہیں۔ ایک بار ان کا نکھٹو بھتیجا گھر آیا۔ امی نے کہا کہ لسی تم پیتے نہیں چائے ختم ہوچکی ہے۔ بوتل کا یہ موسم نہیں۔ اب بتاؤ تمہاری کیا خدمت کریں۔ وہ معصومیت سے کہنے لگا کہ چلیں اپنے وائی فائی کا پاسورڈ ہی بتادیں۔ بتانا پڑا امی کو پھر۔ بعد میں سوچتی رہیں کہ چائے ہی پلادینی بہتر تھی۔ ویسے اس سے ہماری بڑی گہری دوستی ہے۔ جب بھی وہ ناراض ہوتا ہے ہم بڑی منتوں ترلوں سے اسے منانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ کمبخت ہمارے سب راز جانتا ہے نہ منائیں تو اگلنے میں دیر نہیں کرتا۔لیکن کبھی کبھی اسے بھی چُونا لگ جاتا ہے۔ ایک دن اسے ایک دوست کی طرف سے دعوت ملی کہ اسکی شادی ہے اور شادی میں صرف لال ٹائی پہن کر آنی ہے۔ یہ صاحب چلے گئے۔ بعد میں روتے رہے کہ ان کے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے دوسرے تو پینٹ شرٹ بھی پہن کر آئے ہوئےتھے۔ ایک بار ہم بھی شادی کی ایک تقریب سے واپس آرہے تھے کہ سگنل پر ایک بھکارن نے پیسے مانگ لئے۔ ہم نے اسے غور سے دیکھا کہ صورت کچھ جانی پہچانی لگ رہی ہے۔ اتنے میں وہ بھکارن ہی چہک کر بولی۔ پہچان لیا بابو جی آپ اور میں فیس بک پر فرینڈز ہیں۔ ہم نے گھر پہنچتے ہیں پہلی فرصت میں اسے ڈیلیٹ کیا۔ اپنے جس کزن کا ہم نے ذکر کیا وہ بھی فیس بک پر ہماری فرینڈ لسٹ میں ہے لیکن اس نے لڑکی کی آئی ڈی بنائی ہوئی ہے۔ اور اب تو ایسا پکا ہوگیا ہے کہ کبھی ہم دوسرے کمرے سے بھی آواز دیں تو جواب آتا ہے ’’بس ابھی آئی‘‘۔ اس کے ابا ہمارے ابا کی نسبت بڑے چالاک ہیں اور اماں اسکی بنتی تو ڈیڑھ ہوشیارہیں لیکن پھر بھی دو قدم پیچھے ہی رہتی ہیں۔ ایک بار وہ میکے گئیں تو شوہر کو فون کرکے پوچھا کہاں ہو۔ شوہر کہنے لگا گھر میں ہوں میں نے کونسا دوسری کے پاس جانا ہے۔ فون پر ہی کہنے لگی کہ اچھا جُوسر چلا کر دکھائیں۔ انہوں نے جُوسر چلا کر دکھا دیا اور وہ جُوسر کی گھررر گھررر والی آواز سے مطمئن ہوگئیں۔ اب یہ روز کا معمول ہوگیا وہ جُوسر کی آواز کا مطالبہ کرتیں اور یہ جُوسر چلا کر دکھا دیتے۔ ایک دن وہ بغیر بتائے اچانک واپس آگئیں تو دروازے پر تالا دیکھ کر پریشان ہوئیں۔ پڑوسن سے پوچھا کہ کچھ پتہ ہے کب آتے ہیں۔ پڑوسن کہنے لگی پتہ نہیں بہن صبح جُوسر بغل میں دبا کر نکلتے ہیں واپس پتا نہیں کب آتے ہیں۔ بہرحال پھر ان کے ساتھ جو ہوئی وہ سمجھ جائیں۔ ایسے ہی ایک دن ان کے گھر آنٹی کے زور زور سے چِلانے کی آوازیں آنے لگیں۔ ہم نے صورت حال معلوم کی تو پتہ لگا کہ میاں جی نے ان کی فوٹو فیس بک پر اپلوڈ کرنی تھی غلطی سے OLX پر ہوگئی۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ان کے گھر ہمارے بچپن سے ہی ہنگامے ہوتے آئے ہیں۔ بچپن میں ہمارے کزن نے اپنی ماما کے ساتھ گرلز ہاسٹل کے سامنے سے گزرتے ہوئے ضد شروع کردی کہ ہمیں اس دکان سے پٹاخے لینے ہیں۔ اسکی ماما نے سمجھایا کہ بیٹا یہ پٹاخوں کی دکان نہیں گرلز ہاسٹل ہے۔ لیکن ماما کل پاپا تو اپنے دوست سے کہہ رہے تھے کہ شہر میں سب سے زبردست پٹاخے یہاں ہی ہوتے ہیں۔ اب یہ امر تحقیق طلب ہے کہ گھر میں آئے روز کے ہنگاموں میں ہمارے کزن کی حماقتوں کا دخل زیادہ تھا یا میاں بیوی زیادہ قصور وار تھے۔ ایک دن اس کی امی ہماری امی کے پاس بیٹھی یہی دکھڑا رورہی تھیں کہ ہم نے بھی اپنا فلسفہ جھاڑ دیا کہ شادی کرنٹ کے تار جیسی ہوتی ہے صحیح جُڑ جائے تو زندگی روشن ورنہ ساری زندگی جھٹکے۔ لیکن کسی کو یہ فلسفہ پسند نہ آیا اور ہماری بجلی کی تار سے ہی پھر خاطر مدارت کی گئی۔ ویسے ہمارا کزن بچپن میں اتنا کیوٹ تھا کہ ہر کوئی کہتا تھا کہ مجھ پر گیا ہے مجھ پر گیا ہے۔ لیکن جب سے بڑا ہوا تو سب یہی کہتے ہیں خبیث پتہ نہیں کس پر چلا گیا ہے۔
 
آخری تدوین:
Top