سور کا بچہ محبوب... از ابن صفی

ربیع م

محفلین
سوّر کا بچہ محبوب
لڑکا کچھ بیزار بیزار سا نظر آ رہا تھا لیکن لڑکی بے حد رومینٹک ہو رہی تھی اور کیوں نہ ہوتی ، بڑی خوبصورت شام تھی اور سمندر کا کنارا تھا۔
لڑکے پر بیزاری اس لئے مسلط تھی کہ وہ یہاں تفریحاً نہیں آیا تھا ۔ اس کے باپ کی ماہی گیری کی کشتیاں تھیں جن کی دیکھ بھال اُس کی ذمہ داریوں میں شامل تھی ۔ یونیورسٹی میں بی ایس سی کا طالب علم تھا اور لڑکی سے وہیں ملاقات ہوئی تھی… ہم جماعت تھی اس کی ۔
جب لڑکی کو معلوم ہوا کہ وہ بھی ساحل ہی کے قریب والی بستی میں رہتا ہے تو اُسے اُس سے محبت ہو گئی ۔ کیونکہ وہ خود بھی وہیں رہتی تھی اور لڑکے کو اس مشہور کہاوت پر یقین آگیا تھا کہ عورت ایک ایسی بیل ہے جو قریب کے درخت پر چڑھنے کی کوشش کرتی ہے ۔ اس کے باوجود بھی وہ اپنا چھوڑ کر بھاگ تو نہیں سکتا تھا۔ لڑکی کی محبت اُسے بہرحال برداشت کرنی پڑی تھی …! لڑکا ذرا فلسفی قسم کا تھا ! اور لڑکی بے حد رومینٹک … فلموں میں ناکام محبت قسم کی ہیروئنوں کی اداکاری اُسے ہچکیوں سے رونے پر مجبور کر دیتی تھی ! ہر وقت اپنے ذہن پر غم آلود سی اداسی مسلط رکھنے کی کوشش کرتی رہتی تھی ۔
اس وقت وہ اسے بڑے پیار سے دیکھ رہی تھی ۔ اور وہ سوچ رہا تھا کہ یہ کہاں سے نازل ہوگئی ۔ کشتیوں کی واپسی کا حساب کتاب کر کے جانے ہی والا تھا کہ وہ ٹپک پڑی ۔
"ہائے کیسی نرم اور خنک ہوا ہے ! " وہ سسکاری لے کر بولی۔
لڑکے کے نتھنے پھڑکے اور وہ ایک عدد چھینک مار کر بولا " نزلہ پیداکرتی ہے ایسی ہوا۔"
" مجھے تو کچھ نہیں ہوتا ۔"لڑکی اٹھلائی ۔
"لہسن کی چٹنی کھاتی ہوگی ۔"
"چھی … لہسن کی چٹنی …! مجھے تو نفرت ہے لہسن کی بُو سے ۔"
"اوہ … ! وہ ادھر دیکھو اُس چٹان کے اُدھر وہ جو سفید پرندہ بیٹھا ہوا ہے ۔"
"بگلا ہے !"
"کیا محسوس ہورہا ہے …!"
"تمہیں کیا محسوس ہورہا ہے …!"
" مجھے …!" لڑکے نے حیرت سے کہا…"مجھے کیا محسوس ہو گا…!"
"ہائے اُس کے شفاف پروں کی نرمی مجھے اپنے گالوں پر محسوس ہو رہی ہے ۔"
لڑکے نے اسے آنکھ پھاڑ کر دیکھا اور منہ چلا کر رہ گیا۔
"سفید پرندے !"وہ آنکھیں بند کر کے بولی ۔" جب سفید پرندے شام کی دھندلاہٹوں میں پرواز کرتے ہیں تو مجھے ایسے لگتا ہے جیسے کوئی میرے کانوں میں آہستہ آہستہ کہہ رہا ہو ۔ اڑو … تم بھی اڑو … اڑتی رہو۔حتی کہ تھک کر گر پڑو۔"
"کانوں میں کوئی کہتا ہے !" لڑکے نے خوفزدہ لہجے میں پوچھا۔
" ہاں !" وہ نیم وا آنکھوں سے اس کی جانب دیکھ کر مسکرائی۔
"خدا کیلئے چھاپک شاہ کے مزار پر حاضری دو … آسیب جل جائے گا ورنہ ہو سکتا ہے کہ زندگی بھر پریشان رہو۔"
" کیا بک رہے ہو !"
"یقین کرو۔ میرے ایک ماہی گیر کی بیوی کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔ کوئی اس کے کانوں میں کہتا تھا کنوئیں میں کود پڑو… اور وہ ایک دن سچ مچ کود گئی "
"بڑے بھولے ہو تم …! وہ ہنس پڑی ۔ ہنستی رہی اور پھر بولی ۔"اسی لئے تو تم پر اتنا پیار آتا ہے۔"
" میں تمہارے پاپا سے کہوں گا۔"
"کیا کہوگے ؟"
"یہی کہ تمہیں چھاپک شاہ کے مزار پر لے جائیں ۔"
"بیوقوفی کی باتیں مت کرو۔ تم اتنا بھی نہیں سمجھتے ۔"
"کیا نہیں سمجھتا۔!"
"یعنی … کہ تمہیں کبھی فطرت کی سرگوشیاں نہیں سنائی دیتیں ۔"
"ارے وہ پھوہڑ…فطرت…!"
"کیا مطلب؟"
"میری خالہ کی لڑکی ہے … گندی ، بدسلیقہ ، بدزبان ۔"
"یہاں اس کا کیا ذکر…"
"تم فطرت ہی کی بات تو کر رہی تھیں … میں تو کبھی آنکھ اٹھا کر دیکھتا بھی نہیں اس کی طرف۔"
" اف فوہ … ! میں تمہاری خالہ زاد فطرت کی بات نہیں کررہی تھی … نیچر… نیچر کی سرگوشیوں کی بات تھی …"
"ارے لاحول …! "وہ کھسیانی ہنسی ہنس کر رہ گیا۔
وہ بھی برا سا منہ بنا کر دوسری طرف دیکھنے لگی تھی ۔
" اب چلیں ؟" لڑکے نے تھوڑی دیر بعد پوچھا۔
"نہیں ، میں غروب کا منظر دیکھنا چاہتی ہوں ۔"
"پرسوں بھی تو دیکھ چکی ہو۔"
"روز نئی بات ہوتی ہے ، نئے احساسات ہوتے ہیں ۔ کبھی شفق سرخ ہوتی ہے اور کبھی اس میں نیلگوں دھاریاں بھی شامل ہوتی ہیں ۔"
"وہ تو ہوتی ہی ہیں ۔" لڑکے نے مری مری سی آواز میں کہا۔
"تم کیا محسوس کرتے ہو۔"
"بس یہی کہ اب رات ہو جائے گی اور دن بھر کی تھکن سے نجات ملے گی۔"
"ہائے رے سادگی !"
"پھر اور کیا محسوس کرنا چاہئے ؟" وہ بے بسی سے بولا۔
"مجھے تو ایسا لگتا ہے جیسے میرا وجود بھی ان رنگین دھندلکوں میں تحلیل ہو جائے گا ۔"
لڑکے کے ہونٹ آہستہ آہستہ ہلنے لگے ۔ لڑکی نے اسے غور سے دیکھا اور بولی ۔" یہ کیا بدبدا رہے ہو۔"
"آیت الکرسی پڑھ رہا ہوں ۔"
"کیوں …؟"
"آسیب ہی معلوم ہوتا ہے !"
لڑکی زور سے ہنسی تھی اور لڑکا ہونقوں کی طرح اس کی شکل دیکھنے لگا تھا
"تمہاری معصومیت پر کبھی پیار آتا ہے …اور کبھی غصہ !"
"مجھے کچھ پتہ نہیں چلتا … ویسے تمہاری باتیں عجیب ہوتی ہیں ۔"
"کیا تمہیں اچھی نہیں لگتیں ۔"
اچھی تو لگتی ہیں لیکن سمجھ میں نہیں آتیں ۔"
"اس کے باوجود بھی میں یہ چاہتی ہوں کہ تم ہر وقت میری نظروں کے سامنے رہو۔"
"تم سے جدائی کا تصور بھی میرے لئے موت سے کم نہیں ۔"
لڑکا ٹھنڈی سانس لے کر آسمان کی طرف دیکھنے لگا۔
"کیا دیکھ رہے ہو۔"
"آخر بارش کب ہو گی ۔ دن بھر حبس رہتا ہے ۔"
"ہو جائے گی ۔" لڑکی برا سا منہ بنا کر بولی۔
"اس بار جھینگے نہیں مل رہے ۔ پتہ نہیں کیا بات ہے " لڑکے نے کہا۔
"بدبودار باتیں مت کرو۔"
"کیا تمہیں جھینگے پسند نہیں ہیں ۔"
"وہ صرف تلے ہوئے ۔ وہ بھی جو چائینز ریستورانوں میں ملتے ہیں۔"
"جھینگوں کا پلاؤکھایا ہے کبھی ۔"
"نہیں ۔"
"بے حد لذیذ ہوتا ہے ! امی تو شاندار پکاتی ہیں ۔ کہو تو کھلواؤں ۔"
"تمہاری امی بہت سوئیٹ ہیں ۔"
"پاپا کا تجربہ اس سے مختلف ہے ۔کہتے ہیں کہ ان سے زیادہ کڑوی کسیلی عورت ان کی نظروں سے کبھی نہیں گزری۔"
"شوہر بے وقوف ہوتے ہیں ۔ انھیں تو بات کرنے کی بھی تمیز نہیں ہوتی ۔"
"تمہارے ڈیڈی تمہاری ممی کے شوہر ہیں ۔"
"ہوں گے ۔ میں کیا جانوں !"
"تمہارا بھی کوئی ہو گا۔"
"سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ میں تم سے محبت کرتی ہوں ۔ ضروری نہیں کہ شادی بھی کر لوں ۔"
"تو پھر کیا فائدہ ؟" لڑکے نے مایوسی سے کہا۔
" میں عورت ہوں بنئے کی دوکان نہیں کہ تم فائدہ اور نقصان لے بیٹھو"
"اچھا اچھا ٹھیک ہے ۔"
"کیا ٹھیک ہے ۔"
"کرتی رہو… محبت۔"
"مرتے دم تک کروں گی ۔"
"یعنی میں کراچی میں رہوں گا ۔ اور تم لاہور میں بیٹھ کر مجھ سے محبت کرو گی ۔"
"کیوں نہیں "
"اور میں یہاں کیا کروں گا؟"
"جو تمہارا دل چاہے ۔ لیکن میرے علاوہ اور کسی سے محبت کی تو گولی مار دوں گی … ہائے وہ دیکھو … پانی پر وہ رنگین لہرئیے کتنے پیارے لگ رہے ہیں ۔"
"لگ تو رہے ہیں … لیکن … یہ محبت …"
"کیوں کیا ہوا اس محبت کو !"
"میری سمجھ میں نہیں آتی ۔"
"کیوں نہیں آتی ۔ آنی چاہئے ۔ یہ تو روحوں کا رشتہ ہے ۔"
" میری سمجھ میں نہیں آتی یہ بات۔"
"آ جائے گی ۔ جلدی کیا ہے ۔"
" بی ایس سی کر کے تم لاہور چلی جاؤ گی ۔"
" اور تمہیں چاہتی رہوں گی ۔"
" خواہ کچھ ہو … لیکن شادی نہ تم سے کروں گی اور نہ کسی اور سے "
" لیکن میرا کیا ہو گا؟"
"تم بھی یہی کرنا۔"
"لیکن … یعنی کہ نہ تم سے شادی نہ کسی اور سے …"
"اگر تم ایسا کر سکو تو فخر سے میرا سر ہمیشہ اونچا رہے گا ۔"
" لیکن ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ تم مجھ سے برگشتہ ہو کر کسی اور کو چاہنے لگو ۔"
"قیامت تک ممکن نہ ہو گا۔"
"اب تو میں بھی کچھ کچھ محسوس کر رہاہوں ۔"
"کیا محسوس کررہے رہو۔"
"جیسے ہم دونوں محض روحیں ہوں ۔ صدیوں سے بھٹکتی ہوئی روحیں ۔"
"ہائے تم بھی ایسی باتیں کر سکتے ہو۔"
"اور تم ایک ایسی مدھر تان ہو جو میری رگوں میں لہو بن کر تیرتی رہتی ہے ۔"
" ہائے … سوئیٹ … سوئیٹ… سوئیٹ ۔"
"لیکن تم نے یہ کہہ کر مجھے اداس کر دیا ہے کہ مجھ سے شادی نہیں کرو گی ۔"
"ہم زندگی بھر شادی کے بغیر بھی ساتھ رہ سکتے ہیں ۔"
"وہ کس طرح ۔"
"دونوں کسی بزنس میں پارٹنر شپ کر لیں گے ۔"
"انوکھا خیال ہے ۔"
" چھوڑو یہ باتیں … اس وقت تو سمندر کی سیر کو دل چاہ رہا ہے "۔
"آہا تو چلو۔ ہماری ایک موٹر بوٹ ساحل ہی پر موجود ہے ۔"
"تم چلاؤ گے ۔"
"ایکسپرٹ ہوں … بارہ سال کی عمر سے تنہا سمندر میں گھستا رہا ہوں ۔"
"تو پھر چلو ۔ ہم ان لمحات کو امر بنا لیں ۔"
وہ اس جگہ پہنچے تھے جہاں موٹر بوٹ لنگر انداز تھی ۔ لڑکے نے لنگر اٹھا کر انجن سٹارٹ کیا اور موٹر بوٹ جھاگ اڑاتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔
"ہم دونوں … ہم دونوں … اس لا محدود بیکراں سمندر میں … ہم دونوں … صرف ہم دونوں … لڑکی گنگناتی رہی ۔
" مجھ سے زیادہ کسی کو نہیں چاہتیں ۔ " لڑکے نے سوال کیا ۔
" ہرگز نہیں ۔ کسی کو بھی نہیں ۔ تم میری زندگی پر محیط ہو کر رہ گئے ہو ۔"
"اور مجھے ہمیشہ چاہتی رہو گی ۔ خواہ کچھ ہو ۔"
"خواہ کچھ بھی ہو میرے محبوب ۔"
"یہ تو دادا جان کا نام تھا۔"
" اوہ …ربش … محبوب یعنی جس سے محبت کی جائے … ویسے تمہارے دادا جان کیا کرتے تھے ۔"
"فوجی تھے ۔ لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے ۔"
"تمہارے باپ فوج میں کیوں نہ گئے ۔"
"سنا ہے کہ انھیں بھی کسی سے محبت ہو گئی تھی اور وہ شاعری کرنے لگے تھے "
"آہا تو تمہاری ممی …"
"نہیں جس سے محبت کی تھی اس سے شادی نہیں ہو سکی تھی …"
"چارمنگ ! "وہ ٹھنڈی سانس لے کر بولی ۔
"مجھے تو کبھی کبھی اس پر افسوس ہوتا ہے … وہ آج بھی اپنی محبوبہ کو یاد کرکے رو دیتے ہیں ۔"
"ہائے … کاش تم بھی یہی کرو۔"
"مگر ہم تو پارٹنر شپ میں بزنس …"
" ہاں … خیر! " وہ بے دلی سے بولی ۔ "سوچیں گے اس پر بھی ۔"
"مڈل ایسٹ میں اچار اور چٹنی کی بڑی کھپت ہے "۔
" اب بس بھی کرو۔ اس وقت اچار اور چٹنی بھی لے بیٹھے ۔ وہ دیکھو جہاں پانی شفق کی عنابی دھاریوں کو چھو رہا ہے ۔"
"لاکھ برس بھی نہیں چھو سکتا… زمین گول ہے ۔"
"ایسا محسوس ہوتا ہے ۔"
"لیکن ہم جاہل تو نہیں ہیں ۔اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ فریب نظر ہے ۔
"ہائے تمہارا بھولا پن۔ اتنے پیارے لگتے ہو بیوقوفی کی باتیں کرتے وقت کہ کیا بتاؤں ۔"
"کیا تم نے پہلی بار محبت کی ہے ۔"
"بالکل پہلی بار …اس سے پہلے کبھی کسی نے اتنا متاثر نہیں کیا کہ اس سے محبت کرنے لگتی ۔ لیکن مجھ سے بہتوں نے محبت کی ہے ۔"
"مجھے بتاؤ ۔ ایک ایک کا سر توڑ دوں گا۔"
"پتا نہیں اب وہ کہاں ہوں گے ۔ جب میں میٹرک میں تھی ۔ لاہور کی بات ہے ۔پڑوس کے ایک صاحب کریلے سے چڑتے تھے ۔ میں انھیں اپنی کھڑکی سے کریلا دکھایا کرتی تھی ۔ پہلے تو پتھر لے کر دوڑتے تھے ، پھر محبت کرنے لگے تھے ۔"
"پھر تم نے کیا کیا؟"
" کچھ بھی نہیں ۔ جب وہ محبت کرنے لگے تو میں نے کریلا دکھانا چھوڑ دیا … سارا چارم ختم ہو گیا تھا۔"
"تمہیں ان کی محبت کا علم کیسے ہوا تھا۔"
"خط لکھا تھا میرے نام…"
"کیا لکھا تھا۔"
"یہی کہ اگر تم نے محبت کا جواب محبت سے دیا تو میں باقاعدہ طور پر کریلے کھانے لگوں گا۔"
"پھر کیا ہوا تھا۔"
"میں نے لکھ دیا تھا کہ آپ کریلے کھائیں یا نہ کھائیں میں آپ سے محبت نہیں کر سکتی ۔ کیونکہ آپ کا قد بہت چھوٹا ہے … دور سے بچے لگتے ہیں … اور خدا کی قسم میں نے بھی بچہ ہی سمجھ کر آپ کو کریلا دکھایا تھا ۔ میرا قصور معاف کیجئے اور بدستور کریلے سے چڑتے رہئے ۔"
"کوئی اور بھی تھا؟"
"ہاں ۔ ایک مصور تھا جس نے دور سے میری تصویر بنائی تھی ۔ جو بالکل میری دادی جان سے مشابہ تھی ۔"
"اس نے بھی خط لکھا تھا۔"
"نہیں زبانی باتیں کی تھیں ۔"
" کیا کہا تھا ۔"
"یہی کہ تم میرے فن کی زندگی ہو ۔ بکری کی تصویر بھی بنانے کی کوشش کرتا ہوں تو تمہاری بن جاتی ہے ۔ میں کیا کروں ۔"
" پھر تم نے کیا کہا تھا۔"
"میں کیا کہتی ۔ سب کچھ چپ چاپ سنتی رہتی تھی ۔"
"وہ غلط فہمی میں مبتلا ہو گیا ہو گا۔"
"نہیں محلے والوں نے اسے مارپیٹ کر محلے سے نکال دیا تھا ۔ دراصل وہ ایسی ہی باتیں کئی لڑکیوں سے کر چکا تھا۔"
"تم اس سے بالکل متاثر نہیں ہوئی تھیں ۔"
"شاید ہو جاتی اگر وہ محلے سے نکال نہ دیا جاتا۔"
"کیا خاص بات تھی اس میں ۔"
"قہقہہ لگاتا تو ایسا معلوم ہوتا جیسے دھاڑیں مار کر رو رہاہو۔"
"کیا بات ہوئی ۔"
"روتے ہوئے مرد اچھے لگتے ہیں ۔ تمہاری رونی صورت ہی نے تو مجھے اتنا متاثر کیا ہے ۔"
"ہاں شاید ایسا ہی ہے ۔ " لڑکے نے ٹھنڈی سانس لی۔
"تمہاری یہ مغموم آنکھیں مجھے بڑی پیاری لگتی ہیں ۔"
"میرے علاوہ اور کوئی ایسانہیں ملا۔"
"نہیں ،اتنی مکمل غم کی تصویر میں نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔"
"سارا قصور دھوتر مچھلی کا ہے ۔"
"کیا مطلب؟"
"بچپن ہی سے عادت رہی ہے کہ تنہائی میں دھوتر مچھلی کا سا منہ بنانے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔"
"کتنا رومینٹک پہلو ہے تمہاری زندگی کا ۔"
"اچھا!" لڑکے کے لہجے میں حیرت تھی ۔
"ساری دنیا میں منفرد ہو ۔"
"میں نہیں سمجھا۔"
"نہ محمد علی کی نہ وحید مراد ۔ دھوتر مچھلی کی نقل اتارتے تھے ۔"
"اب کیا کرتا اپنی افتاد طبع کو۔"
"اسی لئے تم پر میری جان جاتی ہے ۔ ہفت اقلیم کی سلطنت کے بدلے میں بھی تمہیں نہ دوں ۔"
"اور ہر حال میں مجھ سے محبت کرتی رہو گی ۔"
"ہر حال میں … بڑے سے بڑا طوفان بھی میری محبت کا رخ نہیں موڑ سکے گا تم دیکھ لینا۔"
"خواہ میری وجہ سے تمہاری زندگی ہی کیوں خطرے میں نہ پڑ جائے ۔"
"تمہارے ہاتھوں مرجانا بھی مجھے گوارا ہوگا۔"
"لیکن شادی نہیں کروگی ۔"
"اب سوچ رہی ہوں کہ کر ہی لوں ۔"
"واہ اتنی جلدی خیال بدل دیا۔"
"محض دھوتر مچھلی کی وجہ سے ۔"
"میں نہیں سمجھا۔"
"تنہائی میں تمہیں دھوتر مچھلی کا سا منہ بناتے ہوئے دیکھنے کی خواہش بڑی شدید ہو گئی ہے ۔"
"واقعی بہت عجیب ہو۔"
"جب چھینک آنے سے پہلے منہ بناتے ہو اور چھینک کے بعد ناک سڑکتے ہو تو میرا دل چاہتا ہے کہ تمہیں گود میں اٹھا کر بھاگ جاؤں ۔"
لڑکے نے کنکھیوں سے اس کی طرف دیکھا تھا اور وہ کہتی رہی تھی ۔"ایک بار ایک ایسا آدمی بھی پسند آیا تھا جو آستین سے ناک صاف کیا کرتا تھا لیکن اس نے میری طرف توجہ نہیں دی تھی ۔ اس لئے اس سے محبت نہ ہو سکی ۔ اچھا بتاؤ تمہیں میری کون سی باتیں پسند ہیں ۔"
"تم مجھے پوری کی پوری پسند ہو۔"
"میری کوئی حرکت جو بہت اچھی لگتی ہو۔"
"میں نے اس پر ابھی تک غور ہی نہیں کیا۔"
"کب کرو گے ۔"
"شادی کے بعد۔"
"اور اگر میں نے شادی نہ کی تو۔"
"تو پارٹنر شپ کے بعد غور کروں گا۔"
"سوال یہ ہے کہ تم مجھ سے ایسی باتیں کیوں نہیں کرتے جیسی میں کرتی ہوں ۔"
"باتوں سے کیا فائدہ ؟"
"پھر وہی فائدہ …فائدہ … بنئے پن سے مجھے سخت نفرت ہے ۔"
"اچھا اچھا۔ اب احتیاط برتوں گا ۔"
"ہائے تمہارا یہی انداز تو مارڈالتا ہے ۔ فورا میری بات مان لیتے ہو…
کتنے سوئیٹ ہو یہ بس میں ہی جانتی ہوں ۔ تمہاری امی بھی تمہیں اس حد تک نہ جانتی ہوں گی جتنا میں جان گئی ہوں ۔"
"پتہ نہیں ۔"
"بس تمہاری لاعلمی ہی تھوڑا سابور کرتی ہے ۔ ارے … اوہ … اب اندھیرا پھیلنے لگا ہے ۔ چلو واپس چلیں ۔"
"وہ دیکھو شفق کا رنگ کتنا گہرا ہو گیا ہے ۔" لڑکے نے کہا
"ہاں ہے تو۔"
"اوپر سے بتدریج گہرے ہوتے ہوتے پانی کے قریب سیاہی مائل ہو گیا ہے ۔"
" میں نے واپس چلنے کو کہا تھا۔"
"اور وہ اس چٹان پر بحری عقاب اس طرح پر تول رہا ہے … جیسے رات آغاز زمستاں کے پرندے کی طرح اپنے پر تولتی ہے ۔ چیختی ہے …"
"یہیں سے کشتی موڑ لو…!"
"عقاب اڑ گیا … کتنا خوبصورت چکر کاٹا ہے چٹان کے گرد … شاید کہیں اور بسیرا لے گا۔"
"میں کہہ رہی ہوں … واپس چلو۔"
"یہاں سے ابد تک ہم دونوں … صرف ہم دونوں …"
"واپس چلو …!" وہ زور سے چیخی ۔
"اوہ اچھا…!" لڑکا چونک کر بولا تھا اور موٹر بوٹ موڑ دی تھی ۔ لیکن وہ ساحل کی طرف جانے کی بجائے پچاس گز کے دائرے میں چکر کاٹنے لگی ۔
"یہ کیا کررہے ۔" لڑکی نے جھلا کر پوچھا۔
"مم … میں …کک … کچھ نہیں ۔" لڑکا ہکلا کر رہ گیا۔
"پھر ساحل کی طرف کیوں نہیں چلتے ۔"
"کک … کچھ گڑبڑ ہو گئی ہے …"
"تو ٹھیک کرو۔"
"کک … کر تو …رہا ہوں …" لڑکے کی آواز سے مایوسی اور گھبراہٹ ظاہر ہورہی تھی ۔"
"تم تو کہہ رہے تھے کہ ایکسپرٹ ہو۔"
"وہ توہوں … لیکن … مشینری کے بارے میں کچھ نہیں جانتا … اب کیا ہو گا۔"
"اب کیا ہو گا کے بچے … کچھ کرو۔"
"ارے … تم کیسی باتیں کررہی ہو … ابھی تو کہہ رہی تھیں کہ تمہارے ساتھ مر جانا بھی گوارا کر لوں گی ۔"
"بکواس مت کرو۔" وہ حلق پھاڑ کر چیخی ۔" اسے ٹھیک کرو۔"
"کیسے کروں …میں تو …!"
موٹر بوٹ اسی طرح چکر کاٹے جارہی تھی ۔ اور وہ بوکھلا بوکھلا کو اسٹیئرنگ گھمانے کی کوشش کرتا جا رہا تھا ۔ لیکن اسٹیئرنگ جام ہو کر رہ گیا تھا…" اے خدا ہم سچے محبت کرنے والے ہیں ؛ " وہ دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر بولا۔
"اسے ٹھیک کرو ۔" لڑکی پاگلوں کی طرح چیخی ۔
"میری سمجھ میں نہیں آٹا ۔ لیکن تم اس طرح کیوں پیش آرہی ہو۔ اگر ہم غرق بھی ہوگئے تو ہماری روحیں ابدتک ساتھ رہیں گی ۔ کچھ دیر پہلے ہم ایسی ہی تو باتیں کررہے تھے ۔"
"چپ رہو خبیث ۔ اسے ٹھیک کرو۔"
"تمہارا لہجہ صدمہ پہنچا رہا ہے مجھے ۔"
"تم جہنم میں جاؤ… اسے ٹھیک کرو۔"
"دیکھو اس وقت میری شکل بالکل دھوتر مچھلی کی سی نکل آئی ہے ۔"
"چپ رہو … سور کے بچے … اسے ٹھیک کرو۔"
"تم مجھے گالیاں دے رہی ہو … جبکہ …جبکہ …"
"ارے خبیث تجھے ہوا کیا ہے ۔ اسے ٹھیک کر۔"
"مجھ سے تو ٹھیک نہیں ہو گی ۔ میں کچھ نہیں جانتا انجن کے بارے میں ۔"
"کتے کے پلے تجھے خدا غارت کرے اب ہم غرق ہو جائیں گے ۔"
"ہاں یہ تو ہے ۔" لڑکے نے بڑے رساں سے کہا۔" ٹھیک آٹھ بجے ٹائیڈ آتی ہے ۔ میں تو مطمئن ہوں کہ دنیا میں تمہاری جدائی سے بچ گیا۔ دونوں کی روحیں ساتھ رہیں گی ۔"
"کمینے …کتے …ذلیل …سور کے بچے ۔ اسے ٹھیک کر ۔"
اور پھر اس پر "اسے ٹھیک کر " کا دورہ پڑ گیا تھا ۔چیختے چیختے بے ہوش ہو کر ایک طرف لڑھک گئی۔
تب اس لڑکے کے ہونٹوں پر ایک شریر سی مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی اور جھک کر اس نے لوہے کا وہ ٹکڑا نکال لیا تھا جو اسٹیئرنگ کی گراری میں پھنسا ہوا تھا…
اور اب موٹر بوٹ ساحل کی طرف چلی جارہی تھی ۔ اس نے بیہوش لڑکی کو کنکھیوں سے دیکھتے ہوئے آہستہ سے کہا۔"سور کابچہ محبوب " اور پھر زور سے ہنس پڑا۔

از

قابل اعتراض تصویر
 
Top