سورۃ الفلق

جاویداقبال

محفلین
مضبوط پناہ گاہیں، ناقبل تسخیرمدافعت اورشافی علاج:۔ مسنداحمدمیں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ اس سورت کو اس کے بعد کی سورت کو قرآن شریف میں نہیں لکھتے تھے اورفرمایا کرتے تھے کہ میری گواہی ہے کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے مجھے خبر دی کہ جبرئیل علیہ السلام نے آپ سے فرمایاقل اعوذبرب الفلق تومیں بھی یہی کہا پھر کہا قل اعوذ برب الناس تومیں یہی کہا، تو ہم بھی اسی طرح کہتے ہیں جس طرح حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے کہا۔(احمد(125/5)(116/35)صحیح
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ان دونو ں سورتوں کے بار ے میں پوچھا جاتا ہے اور کہا جاتا کہ آپ کے بھائی حضرت ابن مسعود(رضی اللہ عنہ) تو ان دونوں کو قرآن شریف میں سے کاٹ دیا کرتے تھے تو فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا مجھ سے کہا گیا کہو، میں نے کہاپس ہم بھی کہتے ہیں جس طرح حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے کہا(ابوبکرحمیدی) مسند میں بھی یہ روایت الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ مروی ہے۔احمد(129/5)صحیح ایضاً ۔ اوربخاری شریف میں بھی۔(بخاری’’کتاب التفسیر‘‘ سورۃ قل اعوذ برب الناس،ح4977)مسند ابویعلی وغیرہ میںہے کہ ابن مسعود(رضی اللہ عنہ) ان دونوں سورتوں کو قرآن میں نہیں لکھتے تھے اور نہ قرآن میں انہیں شمارکرتے تھے،بلکہ قاریوں اور فقہیوں کے نزدیک مشہور بات یہی ہے کہ حضرت ابن مسعود(رضی اللہ عنہ) ان دونوں سورتوں کو قرآن میں نہیں لکھتے تھے شاید انہوںنے آنحضرت(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) سے نہ سناہو اورتواترکے ساتھ ان تک نہ پہنچا ہو۔
پھریہ اپنے اس قول سے رجوع کرکے جماعت کے قول کی طرف پلٹ آتے ہیں صحابی رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے ان سورتوں کو ائمہ کے قرآن میں داخل کیا جس کے نسخے چوطرف پھیلے واللہ الحمد والمنہ۔ صحیح مسلم شریف میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایا کیا تم نے نہیں دیکھا چند آیتیں مجھ پر اس رات ایسی نازل ہوئی جن جیسی کبھی دیکھی نہیں گئیں، پھرآپ نے ان دونوں سورتوں کی تلاوت فرمائی۔(مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین ، باب فضل قراء ۃ الموذتین،ح814)یہ حدیث مسند احمد میں ترمذی میں اور نسائی میں بھی ہے امام ترمذی (رحمۃ اللہ ) اسے حسن صحیح کہتے ہیں۔ مسند احمد میں ہے حضرت عقبہ فرماتے ہیں میں حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے ساتھ مدینہ کی گلیوں میں آپ کی سواری کی نکیل تھامے چلا جارہاتھا کہ آپ نے مجھ سے فرمایا اب آؤ تم سوارہوجاؤ میں نے اس خیال سے آپ کی بات نہ مانوں گا تو نافرمانی ہوگی، سوار ہونامنظور کرلیا۔ تھوڑی دیر کے بعد میں اتر گیا اورحضور (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) سوار ہوگہے پھر آپ نے فرمایا عقبہ میں تجھے دو بہترین سورتیں کیانہ سکھاؤں؟ میں کہا ہاں یارسول اللہ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ضرور سکھائیے، پس آپ نے مجھے سورہ قل اعوذ برب الفلق اورقل اعوذبرب الناس پڑھائیں ،پھرنماز کھڑی ہوئی آپ نے نماز پڑھائی اور ان دونوں سورتوں کی تلاوت کی پھرمجھ سے فرمای تونے دیکھ لیا، سن جب تو سوئے اور جب کھڑا ہو،انہیں پڑھ لے ترمذی ،ابوداؤد اورنسائی میں یہ حدیث ہے۔(احمد(144/4)،ابوداؤد، کتاب الونر:باب فی المعوذنین،ح 1462،نسائی،کتاب الستعاذۃ:باب ما جاء فی سورنی المعوذتنی،ح5439صحیح۔
مسنداحمد کی اورحدیث میں ہے کہ حضرت عقبہ بن عامر(رضی اللہ عنہ) کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے ہرنماز کے بعد ان سورتوں کی تلاوت کاحکم دیا، یہ حدیث بھی ابوداؤد، ترمذی اورنسائی میں ہے امام ترمذی اسے غریب بتلاتے ہیں۔(احمد(155/4)‘ابوداؤد،کتاب الونر:باب فی الاستغفار،ح1523’ترمذی‘کتاب فضائل القرآن:باب ماجاء فی المعذتین‘ح2903،نسائی ‘کتاب السھو:باب الامربالقراء ۃ المعوذات بعد التسلیم من الصلاۃ، ح 1337صحیح)۔اورروایت میںہے کہ ان جیسی سورتیں تو نے پڑھی ہی نہیں۔(احمد(146/4)(560/28)صحیح)حضرت عقبہ والی حدیث جس میں حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی سواری کے ساتھ آپ کاہونا مذکورہے۔ اس کے بعض طرق میں یہ بھی ہے کہ جب حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے مجھے یہ سورتیں بتلائیں تو مجھے کچھ زیادہ خوش ہوتے نہ دیکھ کر فرمایا کہ شاید تو انہیں چھوٹی سی سورتیں سمجھتاہے سن نماز کے قیام میں ان جیس سورتوںکی قرات اور ہے ہی نہیں۔(احمد(149/4) ‘نسائی‘کتاب الاستعاذہ: باب ماجاء تی سورتین‘ح5435صحیح)۔نسائی شریف کی حدیث میں ہے کہ ان جیسی دو سورتیں کسی پناہ پکڑنے والے کے لئے اور نہیں(نسائی،حوالہ سباق‘ح5433،نحوالمعنی۔صحیح)۔ایک اورروایت میں ہے کہ حضرت عقبہ سے یہ سورتیں حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے پڑھائیں پھر فرمایا نہ تو دعا کی ان جیسی اور سورتیں اور نہ تعویذ کی (نسائی‘کتاب الاسعاذۃ:باب ماجاء فی سورت المعوذتین‘ح5440صحیح)ایک روایت میں ہے صبح کی فرض نماز حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے ان ہی دونوں سورتوں سے پڑھائی۔(نسائی، حوالہ سابق،ح5437صحیح)
اورحدیث میں ہے حضرت عقبہ حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی سواری کے پیچھے جاتے ہیں اور آپ کے قدم پرہاتھ رکھ کر عرض کرتے ہیں حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) مجھے سورہ ہود یا یوسف پڑھائے آپ نے فرمایا خدا کے پاس نفع دینے والی کوئی سورت قل اعوذ برب الفلق سے زیادہ نہیں۔(نسائی‘حوالہ سابق،ح5441صحیح) اورحدیث میں ہے کہ آپ نے اپنے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا میں تمہیں بتاؤں کہ پناہ حاصل کرنے والوں کے لئے ان دونوں سورتوں سے افضل سورت اورکوئی نہیں۔(نسائی،حوالہ سابق5434صحیح)پس بہت سی حدیثیں اپنے تواترکی وجہ سے اکثر علماء کے نزدیک قطعیت کافائدہ دیتی ہیں اور وہ حدیث بھی بیان ہوچکی ہے کہ آپ نے ان دونوں سورتوں اورسورۃ اخلاص کی نسبت فرمایاکہ چاروں کتابوں میں ان جیسی سورتیں نہیں اتریں۔
نسائی وغیرہ میں ہے کہ حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے ساتھ ایک سفرمیں تھے سواریاں کم تھیں باری باری سوار ہوتے تھے،حضرت نے ایک شخص کے مونڈھوں کے پر ہاتھ رکھ کر یہ دونوں سورتیں پڑھائیں اور فرمایا جب نماز پڑھ تو انہیں پڑھا کر۔(احمد(24/5)(406/33)صحیح)ظاہر یہ معلوم ہوتاکہ یہ شخص حضرت عقبہ بن عامر(رضی اللہ عنہ) ہوں کے ،واللہ اعلم۔حضرت عبداللہ بن سلام کے سینے پر ہاتھ رکھ کر آپ نے فرمایا کہ وہ نہ سمجھے کہ کیاکہیں،پھر فرمایا کہ تو انہوںنے سورہ قل ھواللہ احد پڑھی آپ نے فرمایااسی طرح پناہ مانگا کر اس جیسی پناہ مانگنے کی اورسورت نہیں(نسائی) نسائی کی اور حدیث میں ہے کہ حضرت جابر(رضی اللہ عنہ) سے یہ دونوں سورتیں آپ نے پڑھوائیں پھر فرمایا انہیں پڑھتا رہ ان جیسی سورتیں تو اور پڑھے گا۔(نسائی ،حوالہ سابق،ح5443صحیح)۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا والی وہ حدیث پہلے گذر چکی ہے کہ حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) انہیں پڑھ کر اپنے دونوں ہاتھوں پر پھونک کر اپنے چہرے اورسامنے کے جسم پر پھیر لیتے تھے۔ موطا مالک میں ہے کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) بیمار پڑتے تو ان دونوں سورتوں کو پڑھ کر اپنے اوپر پھونک لیا کرتے تھے، جب آپ کی بیماری سخت ہوئی تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہامعوذات پڑھ کر خود آپ کے ہاتھوں کو آپ کے جسم مبارک پر پھیر تی تھیں اوراس سے قصد آپ کا آپ کے ہاتھوں کی برکت کا ہونا تھا۔(موطا امام مالک(943-942/2) کتاب العین،باب التعوذوالرفیۃ فی المرض ح1بخاری،کتاب،فضائل قرآن باب فضل المعوذات،ح5016,مسلم ،کتاب السلام باب رفیۃ المرایض بالمعوذات والنفث‘ح2192)سورہ ن کی تفسیر کے آخر میں یہ حدیث گذر چکی ہے کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) جنات کی اور انسانوں کی آنکھوں سے پناہ مانگاکرتے تھے، جب یہ دونوں سورتیں اتریں توآپ نے انہیں لے لیا اور باقی سب چھوڑ دیں۔ امام ترمذی(رحمۃ اللہ ) اسے حسن صحیح فرماتے ہیں۔(ترمذی۔کتاب الطب، باب ماجاء فی الرفیۃ بالمعوذتین،ح2058،علامہ البانی نے اسے صحیح کہاہے(المشکاۃ للالبانی)نسائی،کتاب الاستعاذۃ، باب الاستعاذۃ من عین الحان،ح5496،ابن ماجہ کتاب الطب ،باب من استرفی من العین،ح3511)
اللہ تعالی مہربانی اور رحم کرنے والے نام سے شروع کرتاہوں۔
توکہہ میں صبح کے رب کی پناہ میں آتا ہوں.1.ہراس چیز کی برائی سے جسے اس نے پیدا کیاہے.2.اوراندھیری رات کی برائی سے جب اس کااندھیرا پھیل جائے.3.اورگرہ لگاکران میں پھونکنے والیوں کی برائی سے.4.اورحسد کرنے والے کی برائی سے جب وہ حسد کرے.5.
بیماری ،وبا، جادواور ان دیکھی بلاؤں سے بچاؤ کی دعا:۔(آیت 1تا5)حضرت جابر(رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں فلق کہتے ہیں صبح کو(تفسیرطبری(700/24)خود قرآن میں اورجگہ ہے فالق الاصباح(سورۃ الانعام:96)۔ابن عباس(رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے فلق سے مراد مخلوق ہے۔حضرت کعب احبار(رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں خلق جنہم میں ایک جگہ ہے جب اس کا دروازہ کھلتاہے تو اس کی آگ گرمی اور سختی کی وجہ سے تمام جہنمی چیخنے لگتے ہیں۔ایک مرفوع حدیث میں بھی اسی کے قریب قریب مروی ہے لیکن وہ حدیث منکرہے یہ بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ جہنم کانام ہے۔
امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ سب سے زیادہ ٹھیک قول پہلا ہی ہے یعنی مراد اس سے صبح ہے۔(بخاری،کتاب التفسیر،سورہ قل اعوذ برب الفلق فی ترجمہ الباب ۔امام بخاری(رحمۃ اللہ ) بھی یہی فرماتے ہیں اوریہی صحیح ہے۔ تمام مخلوق کی برائی سے جس میں جہنم بھی داخل ہے اورابلیس اور اوراولاد ابلیس بھی۔غاسق سے مرادرات ہے۔ اذاوقب سے مراد سورج کاغروب ہوجانا۔(بخاری ،حوالہ سباق۔)یعنی رات جب اندھیرا لئے ہوئے آجائے۔ابن زید(رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ عرب ثریا ستارے کے غروب ہونے کو غاسق کہتے ہیں،بیماریاں اور وبائیں اس کے واقع ہونے کے وقت بڑھ جاتی تھیںاور اس کے طلوع ہونے کے وقت اٹھ جاتی تھیں۔ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ستارہ غاسق ہے لیکن اس کامرفوع حدیث میں ہے کہ ستارہ غاسق ہے لیکن اس کامرفوع ہوناصحیح نہیں ۔بعض مفسرین کہتے ہیں مراد اس سے چاندہے۔
ان کی دلیل مسند احمد کے یہ حدیث ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے حضرت عائشہ(رضی اللہ عنہا) کاہاتھ تھامے ہوئے چاند کی طرف اشارہ کرکے فرمایا اللہ تعالی سے غاسق کی برائی سے پناہ مانگ۔(احمد(61/6)ترمذی، کتاب تفسیر القرآن،باب ومن سورۃ المعوذتین، ح 3366۔صحیح) اور روایت میں ہے غاسق اذا وقب سے یہی مرادہے(ترمذی،حوالہ سابق صحیح)دونوں قولوں میں باآسانی یہ تطبیق ہوسکتی ہے کہ چاند کاچڑھنا اورستاروں کاظاہر ہوناوغیرہ یہ سب رات ہی کے وقت ہوتاہے جب رات آجائے واللہ اعلم۔گرہ لگاکرپھونکنے والیوں سے مراد جادوگرعورتیں ہیں۔(تفسیرطبری(701-700/24)حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں شرک کے بالکل قریب وہ منتر ہیں جنہیں پڑھ کر سانپ کے کاٹے پردم کیاجاتاہے اورآسیب زدہ پر۔دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کیاآپ بیمار ہیں؟آپ نے فرمایا ہاں تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے یہ دعا پڑھی۔بسم اللہ ارفیک من کل دآء یوذیک ومن شر کل حاسد و غبن اللہ یشفیک۔یعنی اللہ تعالی کے نام سے میں دم کرتاہوں ہر اس بیمار ی سے جو تجھے دکھ پہنچائے اور ہر حاسد کی برائی سے اوربدی سے اللہ تجھے شفا دے۔(مسلم ،کتاب السلام،باب الطب والمرض و الرفی،ح2186)اس بیماری سے مراد شاید وہ بیماری ہے جبکہ آپ پر جادو کیاگیا تھا پھر اللہ تعالی نے آپ کو عافیت اور شفا بخشی اور حاسد یہودیوں کے جادوگر کے مکر کو رد کر دیا اور ان کی تدبیروں بے اثر کردیں اورانہیں رسوا اور فضیحت کیا باوجود اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے کبھی بھی اپنے اوپر جادو کرنے والے کو ڈانٹا ڈپٹا نہیں،خدائے تعالی نے آپ کی کفایت کی اور آپ کو عافیت اور شفا عطاء فرمائی۔مسنداحمد میں ہے نبی (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پر ایک یہودی نے جادوکیا، جس نے کئی دن تک آپ بیمار رہے ،پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آکر بتایا کہ فلاں یہودی نے آپ پر جادو کیاہے اور فلاں فلاں کنویں میں گرہیں لگا کر رکھا ہے،آپ کسی کو بھیج کر اسے نکلوا لیجئے،آنحضرت(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے آدمی بھیجا اور اس کنوین سے وہ جادو نکلو ا کر گرہیں کھول دیں سار ااثرجاتارہا، پھر نہ تو آپ نے اس یہودی سے کبھی اس کا ذکر کیا اور نہ کبھی اس کے سامنے منہ میلا کیا۔(احمد(367/4)نسائی،کتاب تحریم الدم:باب سحرۃ العل الکتاب،ح4085صحیح)صحیح بخاری شریف کتاب الطب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)پر جادو کیا گیا، آپ سمجھتے تھے کہ آپ ازواج مطہرات کے پاس آئے حالانکہ نہ آئے تھے۔
حضرت سفیان فرماتے ہیں یہی سب سے بڑاجادو کااثر ہے جب یہ حالت آپ کی ہوگی ، ایک دن آپ فرمانے لگے عائشہ(رضی اللہ عنہا) نے اپنے رب سے پوچھا اورمیرے پروردگار نے بتلادیا، دوشخص آئے ایک میرے سرہانے ایک میرے پاؤں کی طرف،سرہانے والے نے اس دوسر ے سے پوچھا ان کاکیاحال ہے؟ دوسرے نے کہا ان پر جادو کیاگیاہے،پوچھا کس نے کیا ہے ؟ کہا عبید بن اعصم نے جو بنو زریق کے قبیلے کا ہے۔ جو یہودی کا حلیف اور منافق شخص ہے ،کہا کس چیز میں؟ کہا تر کھجور کے درخت کی چھا ل میں پتھر کی چٹان تلے دوران کے کنویں میں پھر حضورعلیہ السلام اس کنویں کے پاس آئے اور اس میں دو نکلوایا، اس کا پانی ایسا تھا گویا مہندی کا گدلاپانی، اس کے پاس کے کھجوروں کے درخت شیطانوں کے سر جیسے تھے، میں نے کہا بھی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ان سے بدلہ لینا چاہیے۔ آپ نے فرمایا الحمد اللہ اللہ تعالی نے مجھے تو شفادے دی اور میں لوگوں میںبرائی پھیلانا پسند نہیں کرتا۔(بخاری، کتاب الطب، باب ھل بستخرج السحر،ح5765‘مسلم‘کتاب السلام :باب السحر،ح2189)
دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ ایک کام کرتے نہ تھے اور اس کے اثر سے یہ معلوم ہوتا کہ گویا میں کر چکا ہوں اور یہ بھی کہ اس کنویں کو آپ کے حکم سے بند کر دیاگیا۔(بخاری،کاب بدء الخلق، باب صفہ ابلیس و جنودہ،ح3268)یہ بھی مروی ہے کہ چھ مہینے تک آپ کی یہی حالت رہی۔ (احمد (63/6) (405/40) صحیح) تفسیر ثعلبی میں حضرت ابن عباس(رضی اللہ عنہ) اورحضرت مائی عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ یہود کا ایک بچہ نبی(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی خدمت کیا کرتا تھا،اسے یہودیوں نے بہکا سکھا کر آپ کے چند بال اور آپ کی کنگھی کے چند دندانے منگوا لئے اور ان میں جادو کیا،اس کام میں زیادہ تر کوشش کرنے والا لبید بن اعصم تھا،پھر دوران نامی کنویں میں جو بنو زریق کاتھا اسے ڈال دیا ،پس حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) بیمار ہوگئے سر کے بال جھڑنے لگے خیال آتا تھا کہ میں عورتوں کے پاس ہو آیا حالانکہ آتے نہ تھے، گو آپ اسے دور کرنے کی کوشش میں تھے لیکن وجہ معلوم نہ ہوتی تھی، چھ ماہ تک یہی حال رہا، پھر وہ واقعہ ہو ا جو اوپر بیان کیا کہ فرشتوں کے ذریعے آپ کو اس تمام حال کا علم ہوگیا اور آپ نے حضرت علی(رضی اللہ عنہ) کو حضرت زبیر کور اورحضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم کوبھیج کر کنویں میںسے وہ سب چیزیں نکلوائیں،ان میں ای تانت تھی جس میں بارہ گرہیں لگی ہوئی تھیں اور ہرگرہ پر ایک سوئی چبھی ہوئی تھی،پھرا للہ تعالی نے یہ دونوں سورتیں اتاریں۔حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ایک آیت ان کی پڑھتے جاتے تھے اور ایک ایک گرہ اس کی خود بخود کھلی جاتی تھی ،جب یہ دونوں سورتیں پوری ہوئیں وہ سب گرہیں کھل گئیں اورآپ بالکل شفایاب ہوگئے۔
ادھر جبرئیل علیہ السلام نے وہ دعا پڑھی جو اوپر گذر چکی ہے۔ لوگوں نے کہا حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ہمیں اجاز ت دیں ہم اس خبیث کو پکڑ کر قتل کردیں آپ نے فرمایا نہیں خدا نے مجھے تو تندرستی دے دی اور میں لوگوں میں شروفساد پھیلانا نہیں چاہتا۔یہ روایت تفسیر ثعلبی میں بلاسند مروی ہے،اس میں غرابت بھی ہے اور کے بعضے حصے میں سخت نکارت ہے اوربعض کے شواہد بھی ہیں جو پہلے بیان ہوچکے واللہ اعلم۔
 
Top